دعا بڑی دولت ہے
کلام امام الزمان کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:
قدراور جبر پر بڑی بڑی بحثیں ہوئی ہیں۔ مگر تعجب کی بات ہے کہ لوگ اس پر کیوں بحث کرتے ہیں۔ میرا مذہب یہ ہے کہ قرون ثلاثہ کے بعد ہی اس قسم کی بحثوں کی بنیاد پڑی ہے ورنہ انسانیت یہ چاہتی تھی کہ ان پر توجہ نہ کی جاوے جب روحانیت کم ہو گئی تو اس قسم کی بحثوں کا بھی آغاز ہو گیا۔
جس شخص کا یہ ایمان نہ ہو کہ اِنَّمَاۤ اَمۡرُہٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَیۡئًا اَنۡ یَّقُوۡلَ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ (یٰس:83)۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس نے خدا تعالیٰ کو نہیں پہچانا اور ایسا ہی اس شخص نے بھی شناخت نہیں کیا جو اس کو علیم بذات الصدور اور حی و قیوم کہ دوسروں کی حیات و قیام اسی سے ہے اور وہ مدبّر بالارادہ ہے مدبّر بالطبع نہیں مانتا جو فلاسفروں کا عقیدہ ہے۔ غرض ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں۔ یہ بات قریب بہ کفر ہو جاتی ہے اگر یہ تسلیم کریں کہ کوئی حرکت یا سکون یا ظلمت یا نور بدوں خدا کے ارادے کے ہو جاتا ہے اس پر ثبوت اوّل قانون قدرت ہے۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے دو آنکھیں دو کان ایک ناک دیئے ہیں۔ اتنے ہی اعضاء لے کر بچّہ پیدا ہوتا ہے۔ پھر اسی طرح عمر ہے اور بہت سے امور ہیں جو ایک دائرہ کے اندر محدود ہیں۔ بعض کے اَولاد نہیں ہوتی۔ بعض کے لڑکے یا لڑکیاں ہی ہوتی ہیں۔ غرض یہ تمام امور خدا تعالیٰ کے قدیر ہونے کو ثابت کرتے ہیں۔
پس ہمارا مذہب یہ ہے کہ خدا کی الوہیت اور ربوبیت ذرہ ذرہ پر محیط ہے اگرچہ احادیث میں آیا ہے کہ بدی شیطان یا نفس کی طرف سے ہوتی ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ وہ بدی جس کو بدی سمجھا جاوے مگر بعض بدیاں ایسی ہیں کہ اُن کے اسرار اور حکم اور مفہوم سے ہم آگاہ نہیں ہیں جیسے مثلاً آدم کا دانہ کھانا۔ غرض ہزارہا اسرار ہیں جو مستحدثات کا رنگ دکھانے کے لیے کر رکھے ہیں قرآن شریف میں ہے مَا کَانَ لِنَفْسٍ اَنْ تَمُوْتَ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰہِ (آل عمران:146)۔ تموت میں روحانی اور جسمانی دونوں باتیں رکھی ہوئی ہیں۔ ایسے ہی ہدایت اور ضلالت خدا کے ہاتھ میں ہے۔ اس پر اعتراض یہ ہوتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کا سلسلہ لغو ہو جاتا ہے۔ ہم اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ کوئی ایسی فہرست پیش کرو جس میں لکھا ہو کہ فلاں شقی ہے۔
انبیاء علیہم السلام جب دعوت کرتے تواس کے ساتھ کوئی نہ کوئی اثر مترتب ہوتا ہے۔ اور ایسا ہی دعا کے ساتھ بھی۔ اللہ تعالیٰ قضا و قدر کو بدل دیتا ہے اور قبل از وقت اس تبدیلی کی اطلاع بھی دے دیتا ہے۔ اس وقت ہی دیکھو کہ جو رجوع لوگوں کا اس سلسلہ کی طرف اب ہے براہین احمدیہ کے زمانہ میں کب تھا اس وقت کوئی جانتا بھی نہ تھا۔
میں نے خود عیسائیوں کی کتابیں پڑھی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ ایک طرفۃ العین کے لیے بھی عیسائی مذہب کی سچائی کا خیال میرے دل میں نہیں گزرا ۔وہ قرآن شریف کی اس تعلیم پر کہ خدا کے ہاتھ میں ضلالت اور ہدایت ہے اعتراض کرتے ہیں۔ لیکن اپنی کتابوں کو نہیں پڑھتے جن میں لکھا ہے کہ شریر جہنم کے لیے بنائے گئے ہیں۔ یا مثلاً یہ لکھا ہے کہ فرعون کا دل سخت ہونے دیا۔ اگر لفظوں پر ہی اعتراض کرنا ہو تو عیسائی ہمیں بتائیں اس کا کیا جواب دیتے ہیں؟
بد دیانت آدمی سے تو مَرے ہوئے کُتّے سے بھی زیادہ بد بُو آتی ہے۔ ہم دعوے سے کہتے ہیں کہ ان پادریوں کا اسلام پر ایسا اعتراض نہیں ہے ۔جو توریت اور انجیل کے ورق ورق پر صاف صاف نہ آتا ہو ایسا ہی رگوید اور فارسیوں اور سناتنیوں کی کتابوں سے پایا جاتا ہے۔
قرآن شریف نے ان امور کو جن سے احمق معترضوں نے جبر کی تعلیم نکالی ہے محض اس عظیم الشان اصول کو قائم کرنے کے لیے بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے اور ہر ایک امر کا مبدء اور مرجع وہی ہے ۔وہی علّت العلل اور مسبّب الاسباب ہے۔ یہ غرض ہے جو اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں بعض درمیانی وسائط اٹھا کر اپنے علّت العلل ہونے کا ذکر فرمایا ہے ورنہ قرآن شریف کو پڑھو اس میں بڑی صراحت کے ساتھ اُن اسباب کو بھی بیان فرمایا جس کی وجہ سے انسان مکلّف ہو سکتا ہے۔
علاوہ بریں قرآن شریف جس حال میں اعمال بد کی سزا ٹھہراتا ہے اور حدود قائم کرتا ہے۔ اگر قضا و قدر میں کوئی تبدیلی ہونے والی نہ تھی اور انسان مجبور مطلق تھا تو ان حدود وشرائع کی ضرورت ہی کیا تھی۔
پس یاد رکھنا چاہیے کہ قرآن شریف دہریوں کی طرح تمام امور کو اسباب طبیعہ تک محدود رکھنا نہیں چاہتا بلکہ خالص توحید پر پہنچانا چاہتا ہے اصل بات یہ ہے کہ لوگوں نے دعا کی حقیقت کو نہیں سمجھا اور نہ قضا وقدر کے تعلقات کو جو دعا کے ساتھ ہیںتدبر کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ جو لوگ دعا سے کام لیتے ہیں اللہ تعالیٰ اُن کے لیے راہ کھول دیتا ہے۔ وہ دعا کو رد نہیں کرتا۔ ایک طرف دعا ہے۔ دوسری طرف قضا و قدر۔ خدا نے ہر ایک کے لیے اپنے رنگ میں اوقات مقرر کر دیئے ہیں۔ اور ربوبیت کے حصّہ کو عبودیت میں دیا گیا ہے اور فرمایا ہے ادعونی استجب لکم۔(المومن :61) مجھے پکارو میں جواب دوں گا۔ میں اس لیے ہی کہا کرتا ہوں کہ ناطق خدا مسلمانوں کا ہے لیکن جس خدا نے کوئی ذرّہ پیدا نہیں کیا یا جو خود یہودیوں سے طمانچے کھا کر مر گیا وہ کیا جواب دے گا۔ ؎
تو کار زمیں را نکو ساختی
کہ با آسماں نیز پرداختی
جبر اور قدر کے مسئلہ کو اپنی خیالی اور فرضی منطق کے معیار پر کَسنا دانشمندی نہیں ہے۔ اس سِرّ کے اندر داخل ہونے کی کوشش کرنا بیہودہ ہے۔ الوہیت اور ربوبیت کا کچھ تو ادب بھی چاہیئے۔ اور یہ راہ تو ادب کے خلاف ہے کہ الوہیت کے اسرار کو سمجھنے کی کوشش کی جاوے۔ الطریقۃ کلھا ادب۔
(ملفوظات جلد 3صفحہ 227-223۔ایڈیشن 1984ء)
٭…٭…٭
جزاکم اللہ تعالیٰ احسن الجزاء۔ اللہ تعالیٰ کے مامورین خدا تعالیٰ کے بلائے سے بولتے اور اُسی کے ارادہ اور منشاءسے کلام کرتے ہیں ۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کوئی بھی تحریر کا ارشاد توجہ اور غور سے پڑھا جائے تو اُس کی روحانی تاثیرات انسان اپنے قلب و زہن میں محسوس کرتا ہے ۔ اللہ کرے کہ ہم سب کلام الامام کو غور اور توجہ سے پڑھنے اور اُسے سمجھ کر اُس پر عمل پیرا ہونے والے بن جائیں تاکہ آپ کی آمد کا مقصد پورا ہمارا ذریعہ بھی پورا ہو۔ آمین