حضرت یوسفؑ کا قصہ
گڑیا: آج ہماری تاریخ کی استانی جی نے ہمیں بتایا کہ پرانے زمانہ میں اگر بچے گم ہوجاتے تھے تو بہت مشکل سے ملتے تھے۔ اور یہ بھی بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے ایک نبی بھی اپنے والدین سے بچھڑ گئے تھے۔
محمود: کیا واقعی دادی جان !؟
دادی جان: جی بالکل وہ بچپن میں اپنے والدین سے جدا ہوگئے تھے اور کئی سالوں بعد واپس ملے تھے۔ قرآن کریم کی ایک سورت بھی ان کے نام پر ہے۔
محمود: کون تھے وہ؟ ہمیں پوری کہانی سنائیں ناں!
گڑیا: یہ کہانی ہے حضرت یعقوبؑ اور ان کے بیٹے حضرت یوسفؑ کی۔
دادی جان: حضرت یوسفؑ جب چھوٹے بچے تھے تو انہوں نے خواب میں دیکھا کہ گیارہ ستارے اور چاند آپؑ کو سجدہ کررہے ہیں۔ انہوں نے یہ خواب اپنے والد سے بیان کی۔حضرت یعقوبؑ کو اللہ تعالیٰ نے اس خواب کی تعبیر سمجھا دی اور انہوں نے حضرت یوسفؑ کو تاکید کی کہ یہ خواب وہ اپنے سوتیلے بھائیوں سے ہرگز نہ بیان کریں ورنہ وہ آپ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے۔ ان کے دس سوتیلے بھائیوں کو لگتا تھا کہ حضرت یعقوبؑ حضرت یوسفؑ اور ان کے بھائی بِنیامین کو زیادہ پیار کرتے ہیں۔ اس لیے حسد کی وجہ سے انہوں نے آپس میں ایک خطرناک منصوبہ بنایا ۔
احمد: اوہ! انہوں نے کیا کیا پھر؟
دادی جان: انہوں نے پکنک کا پروگرام بنایا۔ حضرت یعقوبؑ نے پہلے اجازت نہ دی پھر ان کے اصرار پر جانے دیا۔انہوں نے حضرت یوسفؑ کو ایک کنویں میں پھینک دیا اور روتے ہوئے واپس آ کر جھوٹ بولا کہ ہم بھاگ دوڑ رہے تھے اور سامان کے پاس یوسف کو بٹھایا تھا کہ ایک بھیڑیا آیا اور اسے کھا گیا۔ ثبوت کے طور پر حضرت یوسفؑ کے کُرتے پر کسی جانور کا خون لگا کر دکھایاتاکہ انہیں یقین آجائے۔
محمود: پھر کیا ہوا؟ کیا سچ مچ بھیڑیا کھا گیا تھا؟
دادی جان: نہیں بیٹا یہ تو ان کی چال تھی جس کی حضرت یعقوبؑ کو سمجھ تو آگئی تھی کہ یہ جھوٹ بول رہے ہیں مگر انہوں نے بیٹوں کے جھوٹ پرصبر کیا کیونکہ انہیں اللہ پر یقین تھا کہ وہ حضرت یوسفؑ کی حفاظت فرمائے گا۔پھر یوں ہوا کہ جس کنویں میں انہوں نے حضرت یوسفؑ کو پھینکاتھا اس کے پاس سے ایک قافلہ گزرا ۔انہوں نے پانی نکالنے کے لیے کنویں میں ڈول ڈالا۔تو کیا دیکھتے ہیں کہ کنویں میں ایک انتہائی خوبصورت لڑکا بیٹھاہے۔حضرت یوسفؑ کے سوتیلے بھائی چھپ کر یہ سب دیکھ رہے تھے۔ جب قافلہ والوں نے انہیں نکال لیا تو پھر وہ ان کے پاس آئے اور کہا کہ یہ ہمارا غلام ہے جسےہم نے سزا دی تھی۔ پھر انہوں نے قافلے والوں سے معمولی سی رقم لے کر حضرت یوسفؑ کو انہیں بیچ دیا۔یہ قافلہ مصر کے لوگوں کا تھا۔ مصر میں جس شخص نے قافلہ والوں سے حضرت یوسفؑ کوخریدا وہ بے اولاد تھا۔ وہ آپؑ کو اپنے گھر میں لے گیا جہاں آپؑ ان کے گھر کا ایک فرد بن کر رہنے لگے۔ جیسا آپ کومیں نے پہلے بتایا تھا کہ انبیاء پر بھی ابتلا آتے ہیں۔ اسی طرح حضرت یوسفؑ کا ایک ابتلا جیل میں قید کیا جانا بھی تھا جہاں آپ کو چند سال گزارنے پڑے۔
احمد: دادی جان پھر وہ قید سے باہر کیسے آئے؟
دادی جان: آپؑ کو اللہ تعالیٰ نے تعبیر الرؤیا یعنی خوابوں کی تعبیر سکھائی تھی۔بادشاہ نے اپنی خواب کی تعبیر بتانے کے لیے آپؑ کو بلایا۔ آپ کی تعبیر کے مطابق قحط آنے والا تھا۔ بادشاہ نے خوش ہوکر آپ کو تمام خزانوں کا نگران افسر مقرر کردیا۔
دادی جان ٹھہر کر بولیں: اب یہ ہوا کہ قحط کے دور میں آپؑ کے سوتیلے بھائی آپ سے مدد مانگنے آئے۔اب انہوں نے تو حضرت یوسفؑ کو نہیں پہچانا مگر حضرت یوسفؑ انہیں دیکھتے ہی پہچان گئے اور ان کو کہا کہ تمہارا ایک اور بھائی بِنیامین ہے اسے بھی ساتھ لاؤ تو غلہ زیادہ ملے گا۔ اگلی بار وہ زیادہ کے لالچ میں بنیامین کو لے آئے حالانکہ حضرت یعقوبؑ انہیں منع کرتے رہے۔ بنیامین کے تول میں وزن کرنے والا برتن غلطی سے رہ گیا۔ تلاشی کے دوران وہ بنیامین کے سامان سے نکل آیاتو ان کے بھائیوں نے کہا کہ اس کا بھائی بھی چورتھا۔ حضرت یوسفؑ اس وقت صبر کرتے ہوئے خاموش رہے۔ سزا کے طور پر بنیامین کو وہیں روک لیا گیا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تدبیرتھی۔ حضرت یعقوبؑ کو انہوں نے واپس آ کر سارا ماجرا بتایا تو وہ بنیامین کے ساتھ ساتھ حضرت یوسفؑ کو بھی یاد کرنے لگے۔ اور انہیں واپس بھجوایا کہ جاؤ یوسف اور بنیامین کو ڈھونڈ کر لاؤ۔ پھر انہوں نے کچھ جرمانہ ادا کر کے بنیامین کی سزا معاف کروانا چاہی۔ تب حضرت یوسفؑ نے انہیں یاد دلایا کہ یہ تمہاری زیادتی ہے جیسی تم نے یوسف کے ساتھ بھی کی تھی۔ اب حضرت یوسفؑ کا نام اوروہ واقعہ مصر میں کسی کو معلوم نہ تھا۔ اس لیے وہ پہچان گئے کہ وہی یوسفؑ ہیں۔ ان سب نے ان سے معافی مانگی۔ تو آپؑ نے اپنا ایک کرتا دیا اور کہا کہ اپنے ہمراہ سارے خاندان کو لے کر آئیں۔ جب وہ مصر سے روانہ ہوئے تو حضرت یعقوبؑ کہنے لگے کہ مجھے یوسف کی خوشبو آرہی ہے۔تو لوگوں نے کہا کہ وہ ہمیشہ یوسفؑ کی باتیں ہی کرتے رہتے ہیں۔ پھر جب حضرت یوسفؑ کے بھائیوں نے اپنے والد کو حضرت یوسف ؑ کا کرتا لاکر دیا تو ان کو چین آیا۔ سب نے اپنے والد سے کہا کہ یقیناً! ہماری غلطی تھی آپ ہمارے لیے خدا سے معافی طلب کریں۔
گڑیا: وہ اپنے والد کو مل کر بہت خوش ہوئے ہوں گے۔
دادی جان: جی! جب یہ لوگ حضرت یوسفؑ کےپاس پہنچے تو آپؑ نے شہر سے باہر جا کر ان کا استقبال کیا اور اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا۔وہ سب خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے سجدے میں چلے گئے۔ یہ تھی اس خواب کی تعبیر جو آپؑ نے بچپن میں دیکھی تھی۔
دادی جان: ارے محمود میاں تو سو بھی گئے اور آپ دونوں بھی سو جائیں بہت رات ہوگئی ہے۔ محمود جو تقریباً نیند میں تھاجلدی سے بولا نہیں تو میں تو جاگ رہا ہوں۔ اس کی بات سن کر سب ہنس پڑے۔
(درثمین احمد۔ جرمنی)