کتب مینار: (قسط ۴۳) محامد المسیح (مصنفہ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب رضی اللہ عنہ)
حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب رضی اللہ عنہ کوقبولیت احمدیت کے بعد حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے پاکیزہ ملفوظات اور جماعت احمدیہ کی ابتدائی تاریخ کے ماخذوں کو محفوظ کرنے کی ایک خاص سعادت نصیب ہوئی، آپؓ کواپنی ان کوششوں میں ایک غیر معمولی مدد اپنے اخبار ’’الحکم ‘‘ اور اپنے مطبع ’’انوار احمدیہ قادیان ‘‘سے ملتی رہی۔
حضرت شیخ یعقوب علی صاحبؓ کی یہ زیر نظر کتاب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مدح و ثنا میں لکھی گئی بعض صحابہ کرامؓ کی نظموں کا مجموعہ ہے جو پہلی دفعہ ۲۸؍جنوری ۱۹۰۵ء کو مطبع انوار احمدیہ قادیان سے ۴۰۰کی تعداد میں شائع ہوئی تھی اور اس کی قیمت علاوہ محصول ڈاک کے ۳ آنے مقرر ہوئی تھی۔
’’محامد المسیح ‘‘کے عنوان سے مرتب ہونے والی اس کتاب کے سر ورق کی پیشانی کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے معروف الہام ’’یحمدک اللّٰہ من عرشہ‘‘(اے مسیح موعود، خدا تعالیٰ تیری حمد عرش سے کرتا ہے)سے سجایاگیا ہے۔
مؤلف کتاب حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب اس کتاب کے عرض حال میں سبب تالیف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ’’ فطرتی طور پر انسان نظم سے ایک دلچسپی اور مذاق رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کلام کی برجستگی اور شستگی ہمیشہ مقبول عام رہی ہے۔مسلمانوں خصوصاً عربوں کو اس فن کے ساتھ خاص مذاق تھا … قرآن کریم کی ترتیب آیات اور طرز بیان ہر چند نظم نہیں۔ لیکن فصاحت و بلاغت کے اعلی اور لا نظیر مقام پر واقع ہونے کے ساتھ ہی الفاظ اور آیات میں کچھ ایسا تناسب اور قافیہ کی بندش میں کچھ ایسی موزونیت واقع ہوئی ہے کہ پڑھنے اور سننے والا … پورا لطف اٹھا سکتا ہے۔اس کی وجہ وہی احسن ترتیب ہے جو فطرت چاہتی ہے۔
اس ایک فطرتی راز کے پیش کر دینے کے بعد مجھے ضرورت نہیں کہ فلسفہ نظم پر بحث کروں۔ حضرت حجة الاسلام امام ہمام علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی فطرت کے اس راز کو بخوبی سمجھ کر اپنی تصانیف میں نظم سے کام لیا ہے جو یکجائی طور پر درثمین کے نام سے چھپ چکا ہے۔
صادق اور مخلص احباب نے وقتا ًفوقتاً اعلیٰ حضرت حجۃ اللہ کی تعریف میں چند نظمیں لکھی تھیں جن کو میں نے الحکم میں طبع کر دیا تھا۔مگر اب اس خیال سے کہ ان کی یکجائی حالت قوم کے دل میں اعلیٰ حضرت کے ساتھ ازدیاد محبت و اخلاص کا موجب ہوگی۔ میں نے پسند کیا کہ اردو نظمیں (جس قدر مجھے مل سکیں) جمع کر کے چھاپ دوں۔چنانچہ میں نے اس رسالہ کو جمع کر کے محامد المسیح کے نام سے شائع کر دیا ہے۔
پھر کسی وقت جب یہ دوبارہ چھپے گا تو جو نظمیں اس سے باہر رہ گئی ہوں گی اس میں بڑھا دوں گا اور فارسی عربی کو یکجا جمع کر دوں گا۔انشاءاللہ العزیز ‘‘
پچاس صفحات پر مشتمل اس کتاب میں درج ذیل معزز اصحاب کا منظوم کلام موجود ہے: حضرت میر حامد شاہ صاحب سیالکوٹیؓ۔ حضرت حافظ مختار احمد صاحبؓ۔ حضرت سید مہدی حسین صاحبؓ (جن کا تخلص موج تھااور بعد ازاں ایران میں مبلغ بنے)۔ حضرت ابویوسف مولوی مبارک علی سیالکوٹیؓ۔ حضرت منشی محمد نواب خانصاحب ثاقب مالیر کوٹلوی
اس قیمتی کتاب میں موجود منظوم کلام سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے انفاخ قدسیہ کا بھی پتا چلتا ہے کہ آپؓ پر ایمان لانےوالے صرف آپ کے عشق میں ہی فنانہیں تھے، بلکہ یہ نگینے لوگ آپؑ کے دعاوی، آپؑ کی صداقت کے دلائل اور آپؑ کے حق میں ظاہر ہونے والے متفرق زمینی وآسمانی نشانوں سے بھی مکمل آگاہ تھے اور دوسروں تک اس زندگی بخش روشنی پھیلانے کے لیے ایک خاص جوش رکھتے تھے۔
کتاب کے صفحہ ۱تا ۲۱ پر حضرت سید حامدشاہ صاحب سیالکوٹی کی مختلف نظمیں درج ہیں، جن کے عنوان حسب ذیل ہیں:مسیح الزمان سلمہ الرحمان(صفحہ ۱) ھدیہ حامد (صفحہ ۲) ضرورت مسیح موعود و ثبوت مسیح موعود (صفحہ ۵) مسیح موعود (صفحہ ۸)امام الزمان کے ہمنشین (صفحہ ۱۳)قصیدہ بدیعہ کہ افصاح از معانی قصیدہ حضرت مسیح الزمان میکند مولفہ اخی مکرم میر حامد مے باشد کہ یکے از شاگردان باخلاص حضرت مرشدِ ما مےباشد، بعنوان : کیا؟ (صفحہ ۱۴) صدائے عاجزانہ (صفحہ ۱۶)اس کے بعد صفحہ ۱۷ سے ۲۱ تک ’’جواب خط منظوم بہ تائید پیغام بیعت‘‘ کے عنوان سے حضرت حامد شاہ صاحبؓ کی علامہ شیخ محمد اقبال سے وہ منظوم خط و کتابت ہے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کے متعلق ان دونوں کے مابین ہوئی۔
کتاب کے صفحہ ۲۱ پر حضرت حافظ مختار احمد صاحب کی نظم ’’ہدیہ مختار‘‘ ہے، اس کے بعد صفحہ ۲۷ پر’’ مخمس‘‘ کے عنوان کے تحت معاصر تاریخی واقعات کو منظوم کیا ہے۔
کتاب میں آگے چل کر صفحہ۳۱ پر حضرت سید مہدی حسین صاحب کا کلام شروع ہوتا ہے جو صفحہ ۳۹ تک چلتا ہے جس میں ادب کی متفرق اصناف کو استعمال کرکے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے اپنی محبت کا اظہار کیا گیا ہے۔
صفحہ ۳۹ سے ۴۴ پر مولوی ابو یوسف مبارک علی صاحب کا کلام ہے۔
جبکہ کتاب کے آخری صفحات حضرت نواب محمد خانصاحب ثاقب آف مالیر کوٹلہ کا کلام ہے۔
ذیل میں بطور نمونہ چند اشعار درج کیے جاتے ہیں:
ڈنکا بجا جہاں میں مسیحا کے نام کا
خادم ہے دینِ پاک رسولِ انام کا
بٹتا ہے قادیاں میں زر و مال احمدی
لنگر لگا ہوا ہے وہاں فیض عام کا
نور محمدیؐ سے چمکتا ہے وہ مکان
کچھ رنگ ہی جدا ہے وہاں صبح و شام کا
(صفحہ ۱)
نہیں تم مانتے جس کو تمہیں منوائے گا آخر
خدا اپنے خلیفہ کی مدد فرمائے گا آخر
نہیں ضائع کرے گا وقت اس موعود کا آخر
وہ تائیدِ مسیحا میں نشاں دکھائے گا آخر
(صفحہ ۴)
مبارک ہیں جنہوں نے قادیاں میں گھر بنایا ہے
جوارِ مہدی مسعود میں ڈیرہ لگایا ہے
خدا کے فضل سے کیسے بنے بخت رسا اُن کے
کہ مقبول الٰہی نے جنہیں خود واں بسایا ہے
(صفحہ ۱۳)
وہ ظل محمدؐ ہو احمد کا مظہر
کہ جس طرح آئینہ میں عکس صورت
غلام احمد عیسیٰ نیک محضر
غلامی احمد کی ہے جن کوع زت
جھلک نور احمد کی آئی ہے ان میں
وہ کرتے ہیں اسلام کی دل سے خدمت
وہ مہدی ہیں جھگڑے مٹانے کو آئے
بتانے کو آئے لڑائی کی حرمت
(صفحہ ۴۸)