رسو ل اللہﷺ کی ہجرت، جنگوں اور فتح کی قرآنی پیشگوئیاں (قسط دوم۔ آخری)
مکی زندگی کی یہ پیشگوئیاں خدا کی ہستی اور اسلام کی سچائی کی دلیل ہیں
سورۃ النحل کی آیات نمبر ۴۶ تا ۴۸ ہیں: اَفَاَمِنَ الَّذِیۡنَ مَکَرُوا السَّیِّاٰتِ اَنۡ یَّخۡسِفَ اللّٰہُ بِہِمُ الۡاَرۡضَ اَوۡ یَاۡتِیَہُمُ الۡعَذَابُ مِنۡ حَیۡثُ لَا یَشۡعُرُوۡنَ اَوۡ یَاۡخُذَہُمۡ فِیۡ تَقَلُّبِہِمۡ فَمَا ہُمۡ بِمُعۡجِزِیۡنَ۔( کیا وہ لوگ جنہوں نے بُری تدبیریں کیں امن میں ہیں کہ اللہ انہیں زمین میں دھنسا دے یا ان کے پاس عذاب وہاں سے آجائے جہاں سے وہ گمان تک نہ کرتے ہوں۔ یا انہیں ان کے چلنے پھرنے کی حالت میں آ پکڑے۔ پس وہ اللہ کو اس کے مقاصد میں عاجز کرنے والے نہیں۔ یا انہیں تدریجاً گھٹانے کے ذریعہ پکڑلے)اس میں کئی پیشگوئیاں ہیں۔خسوف کے معنی زمین میں دھنسا دینے یا زمین میں غائب کر دینے کے ہوتے ہیں اور مراد یہ ہے کہ کفار مکہ گمنام ہو جائیں گے اور جیتے جی دفن ہو جائیں گے۔جیسے آج صنادید عرب کے ناموں اور کاموں کو کوئی نہیں جانتا مگر صحابہؓ کی نسلوں کو لوگ عزت سے یاد کرتے ہیں۔ (تفسیر کبیر جلد ۴صفحہ۱۷۴)آیت ۴۷میں عذاب کے لیے تقلب کا لفظ استعمال کیاہے تقلب کے ایک معنی سفر کے بھی ہوتے ہیں مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو سفروں کے دوران عذاب میں مبتلا کرے گا چنانچہ بدر کا معرکہ بھی ایک تجارتی قافلہ کی حفاظت کے گرد گھومتاہے۔
آیت نمبر ۴۸میں تخوف کے ایک معنی خوف کے ہیں جس میں مشرکین ہمیشہ مبتلا رہتے تھے اور وہ نہایت اعصاب شکن تھا۔ رسول اللہﷺ نے بھی فرمایا نصرت بالرعبکہ رعب سے میری مدد کی گئی ہے۔
سورۃ العادیات کی آیت نمبر ۲تا ۵ہیں: وَالۡعٰدِیٰتِ ضَبۡحًا۔ فَالۡمُوۡرِیٰتِ قَدۡحًا۔ فَالۡمُغِیۡرٰتِ صُبۡحًا ۔فَاَثَرۡنَ بِہٖ نَقۡعًا(سینے سے آواز نکالتے ہوئے تیز رفتار گھوڑوں کی قسم۔پھر چنگاریاں اڑاتے ہوئے شعلے اگلنے والوں کی۔پھر ان کی جو صبح دم چھاپہ مارتے ہیں پھر وہ اس حملے کے ساتھ غبار اڑاتے ہیں ) یہ مکی سورت ہے اور اس میں اسلامی غزوات کی خبر ہے اوران حملوں کی پیشگوئی ہے۔جو مسلمانوں نے کفار پر کرنے تھےابن عباس کا بھی یہی خیال ہے اس طرح کئی پیشگوئیاں ہیں ۔جوش سے دوڑنے والے گھوڑوں سے صحابہ کی طرف اشارہ ہے فرمایا کہ مکہ کے یہ اونٹ سوار ایک دن گھڑ سوار بننے والے ہیں آغاز میں یعنی بدر میں گھوڑے کم تھے بعد میں بڑھتے چلے گئے۔
۲۔ فَالْمُغِيرَاتِ صُبْحًا صحابہؓ کے اخلاق کی طرف اشارہ ہے کہ یہ رات کو حملہ نہیں کریں گے رات کو آگ جلائیں گے کھانا پکائیں گے اور صبح کا انتظار کریں گے۔
۳۔شب خون نہیں ماریں گے۔سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ رات کو انتظار کرتے تھے اور اگر اذان کی آواز آتی تھی تو حملہ نہیں کرتے تھے۔
(صحیح البخاری کتاب الجہاد باب دعا٫ النبی الی الاسلام حدیث نمبر ۲۹۴۳)۴۔ صحابہ کی شجاعت اور گھڑ سواری کی مہارت کی پیشگوئی ہے۔
۵۔وہ تھوڑی دیر میں ہی دشمن کی صفوں کو الٹ دیتے ہیں چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی قلعہ بند جنگوں کے سوا ایک بھی جنگ ایسی نہیں جو چند گھنٹوں میں ختم نہ ہو گئی ہو جب کہ اس زمانہ میں جنگیں کئی کئی دن چلتی تھیں۔ (تفسیر کبیر جلد۹صفحہ ۴۷۴تا ۴۸۹)
سورۃ العادیات کی آیت نمبر۱۰ ہے :أَفَلَا يَعْلَمُ إِذَا بُعْثِرَ مَا فِي الْقُبُورِ۔( پس کیا وہ نہیں جانتا کہ جب وہ نکالا جائے گا جو قبروں میں ہے اور وہ حاصل کیا جائے گا جو سینوں میں ہے) ما فی القبور سے مراد اہل مکہ ہیں یہ وہ قوم ہے جن میں زندگی کے کوئی آثار نہیں عمل کا کوئی جوش نہیں مگر ایک زمانہ ایسا آنے والا ہے کہ ہم اس میں حرکت پیدا کر دیں گے۔ وَحُصِّلَ مَا فِي الصُّدُورِ اور وہ مسلمانوں کو کچلنے کے لیے حملے شروع کر دیں گے بدر، احد، احزاب وغیرہ کئی جنگوں میں انہوں نے ۳۰۰میل مکہ سے باہر جا کر حملہ کیا حالانکہ ان کی تاریخ میں ایسے کسی حملہ کی مثال نہیں ملتی۔ (تفسیر کبیر جلد۹صفحہ ۵۰۱،۵۰۰)
سورۃ الانفال کی آیات نمبر ۶۵-۶۷ ہیں: یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ حَرِّضِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ عَلَی الۡقِتَالِ ؕ اِنۡ یَّکُنۡ مِّنۡکُمۡ عِشۡرُوۡنَ صٰبِرُوۡنَ یَغۡلِبُوۡا مِائَتَیۡنِ ۚ وَاِنۡ یَّکُنۡ مِّنۡکُمۡ مِّائَۃٌ یَّغۡلِبُوۡۤا اَلۡفًا مِّنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِاَنَّہُمۡ قَوۡمٌ لَّا یَفۡقَہُوۡنَ۔ اَلۡـٰٔنَ خَفَّفَ اللّٰہُ عَنۡکُمۡ وَعَلِمَ اَنَّ فِیۡکُمۡ ضَعۡفًا ؕ فَاِنۡ یَّکُنۡ مِّنۡکُمۡ مِّائَۃٌ صَابِرَۃٌ یَّغۡلِبُوۡا مِائَتَیۡنِ ۚ وَاِنۡ یَّکُنۡ مِّنۡکُمۡ اَلۡفٌ یَّغۡلِبُوۡۤا اَلۡفَیۡنِ بِاِذۡنِ اللّٰہِ ؕ وَاللّٰہُ مَعَ الصّٰبِرِیۡنَ۔( اے نبی! مومنوں کو قتال کی ترغیب دے۔ اگر تم میں سے بیس صبر کرنے والے ہوں تو وہ دو سو پر غالب آ جائیں گے۔ اور اگر تم میں سے ایک سو (صبر کرنے والے) ہوں تو وہ کفر کرنے والوں کے ایک ہزار پر غالب آ جائیں گے کیونکہ وہ ایسے لوگ ہیں جو کچھ سمجھتے نہیں۔سرِدست اللہ نے تم سے بوجھ ہلکا کر دیا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ تم میں ابھی کمزوری ہے۔ پس اگر تم میں سے ایک سو صبر کرنے والے ہوں تو وہ دو سو پر غالب آجائیں گے اور اگر تم میں سے ایک ہزار (صبر کرنے والے) ہوں تو وہ اللہ کے حکم سے دو ہزار پر غالب آجائیں گے اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں:اس میں رسول اللہﷺ کو حکم فرمایا گیا ہے کہ مومنوں کو قتال کی تحریض کریں۔ اگرچہ وہ تھوڑے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ وہ اپنے سے دس گنا زیادہ تعداد پر غالب آسکتے ہیں۔ لیکن یہ مراد نہیں کہ ہر اکیلا شخص اپنے سے دس گنا زیادہ لوگوں پر غلبہ پالے گا۔ ایک معیّن تعداد بیان فرمائی گئی ہے کہ اگر سو ہوں تو ہزار پر غلبہ پالیں گے جو عین ممکن ہے۔
آیت نمبر ۶۷ میں یہ ذکر ہے کہ سردست تمہاری کمزوری کی حالت ہے۔ نہ پوری خوراک میسّر ہے نہ ہتھیار میسّر ہیں۔ اس لیے تم اگر سو ہو تو دو سو پر غلبہ پاؤگے۔ لیکن جب تمہارا رعب قائم ہوجائے گا تو آنے والی نسلوں میں ہزار، دس ہزار پر بھی غالب آسکے گا۔آنے والی نسلوں کے لیے جو بڑی فتح کی پیشگوئی فرمائی گئی ہے اس کی بنیاد ابتداءً مومنین نے ہی ڈالی تھی۔(ترجمہ قرآن )
سورۃ العلق کی آیت نمبر ۱۷،۱۶ہے: كَلَّا لَئِنْ لَمْ يَنْتَهِ لَنَسْفَعًا بِالنَّاصِيَةِ۔ نَاصِيَةٍ كَاذِبَةٍ خَاطِئَةٍ۔(خبردار اگر وہ باز نہ آیا تو ہم اسے یقیناً پیشانی کے بالوں سے پکڑ کر کھینچیں گے جھوٹی خطا کار پیشانی کے بالوں سے )کہ دشمن خدا کے سامنے جھکنے والی پیشانیوں کو مکہ میں گھسیٹتے پھر رہے ہیں مگر ہم بھی ایک دن ان کی جھوٹی اور خطاکار پیشانیوں کو گھسیٹیں گے۔ چنانچہ بدر کی فتح کے بعد مقتول سرداران قریش کو سر کے بالوں سے گھسیٹ کر گڑھے میں ڈالا گیا۔(صحیح بخاری غزوہ بدر )سورت علق کی آیت نمبر ۱۹ ہے :سَنَدْعُ الزَّبَانِيَةَ۔(ہم بھی اپنی پولیس کو بلائیں گے )یہاں زبانیہ سے مراد وہ صحابہ ہیں جنہوں نے کفار کو ان کے بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا۔ (تفسیر کبیر جلد۹صفحہ۲۸۶۔۲۸۹)
سورۃ الانفال کی آیت نمبر ۳۴ ہے: وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُمۡ وَاَنۡتَ فِیۡہِمۡ(اور اللہ ایسا نہیں کہ انہیں عذاب دے جب کہ تُو ان میں موجود ہو) اس میں یہ پیشگوئی ہے کہ جب تک رسول اللہﷺ مکہ میں موجود رہیں گے اہل مکہ پر عذاب نہیں آئے گا۔(انفال :۳۴)چنانچہ ہجرت کے بعد ان پر عذابوں کا سلسلہ شروع ہوا۔
سورۃ القصص کی آیت ۸۶ ہے :اِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَادُّكَ إِلَى مَعَادٍ (یقیناً وہ جس نے تجھ پر قرآن کو فرض کیا ہے تجھے ضرور ایک واپس آنے کی جگہ کی طرف واپس لے آئے گا۔) اس میں ۵ پیشگوئیاں ہیں:
۱۔ایک آپؐ مکہ سے ہجرت کر جائیں گے ۲۔وہاں سے واپس مکہ آئیں گے ۳۔ آپ کے جانے کے بعد لڑائیاں ہوں گی اور لشکر حملہ آور ہوتے رہیں گے۔ ۴۔ رسول کریمؐ خود ان کے پاس اتریں گے۵۔ مکہ فتح ہو گا اور اللہ کا وعدہ کامل طور پر پورا ہوگا۔
سورۃ الروم کی پیشگوئی
ایک پیشگوئی سورۃ الروم میں ہے اس میں براہ راست بدر کا ذکر تو نہیں مگر مسلمانوں کو پہنچنے والی ایک خوشی کا ذکر ہے جو بدر کے ایام میں مسلمانوں کو ملی اور اس خوشی کودوسری پیشگوئی کا نشان ٹھہرایا گیا ہے اس لیے اس کا ذکر بھی کیا جاتا ہے۔
سورۃ الروم کی آیات نمبر۳تا ۶ہیں:غُلِبَتِ الرُّوۡمُ۔ فِیۡۤ اَدۡنَی الۡاَرۡضِ وَہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ غَلَبِہِمۡ سَیَغۡلِبُوۡنَ۔ فِیۡ بِضۡعِ سِنِیۡنَ ۬ؕ لِلّٰہِ الۡاَمۡرُ مِنۡ قَبۡلُ وَمِنۡۢ بَعۡدُ ؕ وَیَوۡمَئِذٍ یَّفۡرَحُ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ۔ بِنَصۡرِ اللّٰہِ ؕ یَنۡصُرُ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَہُوَ الۡعَزِیۡزُ الرَّحِیۡمُ(اہل روم مغلوب کیے گئے۔قریب کی زمین میں۔ اور وہ اپنے مغلوب ہونے کے بعد پھر ضرور غالب آجائیں گے۔ تین سے نو سال کے عرصہ تک۔ حکم اللہ ہی کا چلتاہے، پہلے بھی اور بعد میں بھی۔ اور اس دن مومن بھی اپنی فتوحات سےبہت خوش ہوں گے۔ جواللہ کی نصرت سے ہوں گی۔ وہ نصرت کرتا ہے جس کی چاہتا ہے اور وہ کامل غلبہ والا اوربار بار رحم کرنے والا ہے۔)
سورت روم نبوت کے پانچویں سال میں نازل ہوئی جس میں رومی سلطنت کے غلبے کی بابت پیشگوئی کی گئی تھی۔(دلائل النبوۃ للبیہقی جلد ۷ صفحہ ۱۴۳، باب ذکر السور التی نزلت بمکۃ…، دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱۹۸۸ء۔وسیرت النبیؐ از علامہ شبلی نعمانی جلد۲حصہ سوم صفحہ ۳۱۵،ادارہ اسلامیات ستمبر۲۰۰۲ء)جب یہ آیت نازل ہوئی تو مکّہ کے مشرکین پسند کرتے تھے کہ اہلِ فارس اہلِ روم پر غالب آجائیں کیونکہ یہ اور وہ بت پرست تھے۔فارس کے لوگ، ایرانی لوگ بت پرست تھے، آتش پرست تھے اور مکّے کے لوگ بھی بت پرست تھے۔ وہ پسند کرتے تھے کہ فارس کے لوگ غالب آجائیں اورمسلمان پسند کرتے تھے کہ اہلِ روم اہلِ فارس پر غالب آجائیں اس لیے کہ وہ اہلِ کتاب تھے۔
انہوں نے اس کا ذکر حضرت ابوبکرؓسے کیا اور حضرت ابوبکرؓنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپؐ نے فرمایا وہ رومی ضرور غالب آ جائیں گے۔ حضرت ابوبکرؓ نے اس کا ذکر مشرکین سے کیا تو انہوں نے کہا کہ ہمارے درمیان اور اپنے درمیان ایک مدت مقرر کر لو یعنی شرط رکھ لو۔ اگر ہم غالب آ گئے تو ہمارے لیے یہ اور یہ ہو گا اور اگر تم غالب آگئے تو تمہارے لیے یہ اور یہ ہو گا تو انہوں نے پانچ سال کی مدت رکھی۔ ایک روایت کے مطابق چھ سال کی مدت رکھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پتا لگا تو آپؐ نے فرمایا کہ وہاں بِضْع کا لفظ ہے اور بِضْع تو نو برس یا سات برس پر اطلاق پاتا ہے۔ پس مدت کو بڑھا دو۔
یہ پیشگوئی غیر معمولی حالات میں پوری ہوئی اور جس دن بدر کی فتح ہوئی ہے اسی دن رومیوں کی فتح کی بھی خوشخبری ملی۔(تحفۃ الاحوذی شرح سنن الترمذی جلد ۲ صفحہ۲۱۶۹، مکتبہ بیت الافکار الدولیہ۔سنن الترمذی ابواب تفسیر القرآن باب ومن سورت الروم حدیث ۳۱۹۴)اس کا صحیح لطف اٹھانے کے لیے اس کا پس منظر جاننا ضروری ہے۔
عرب کے دونوں اطراف میں روم اور فارس کی حکومتیں قائم تھیں۔ اس وقت ایران کا تاجدار خسرو اور روم کا فرمانروا ہرقل تھا۔ ان دونوں سلطنتوں میں ایک مدت سے معرکہ آرائیوں کا سلسلہ قائم تھا۔ بعثت نبویؐ کے پانچویں سال ۶۱۴ء میں ان دونوں ہمسایہ سلطنتوں میں ایک خونریز جنگ شروع ہو گئی۔ رومی حضرت عیسیٰؑ کے پیرو اور اہلِ کتاب تھے اور ایرانیوں کے عقائد مشرکین مکہ کے عقائد کے ساتھ مطابقت رکھتے تھے۔ اس لیے لازمی طور پر مسلمانوں کو رومی عیسائیوں کے ساتھ اور مشرکین مکہ کو ایرانیوں کے ساتھ ہمدردی تھی۔ اس لیے مسلمانوں اور کفار قریش دونوں کو جنگ کے نتیجہ کا شدت کے ساتھ انتظار تھا۔ ان دونوں سلطنتوں کےحدوددریائے دجلہ اور فرات کے کناروں پر آ کر ملتے تھے۔ رومی سلطنت مشرق میں ایشیائے کوچک حدود عراق، شام، فلسطین اور مصر میں پھیلی ہوئی تھی۔ ایرانیوں نے دوطرفہ حملہ کیا۔ ایک طرف تو وہ دجلہ اور فرات کے کنارے سے شام کی طرف بڑھے اور دوسری طرف ایشیائے کوچک کی جانب آذربائیجان سے آرمینیا ہو کر موجودہ اناطولیہ میں داخل ہو گئے اور دونوں طرف سے رومیوں کو پیچھے ہٹاتے ہٹاتے سمندر میں ان کو دھکیل دیا۔ شام کی سمت میں انہوں نے یکے بعد دیگرے اس ارضِ مقدس کا ایک ایک شہر رومیوں سے چھین لیا۔ ۶۱۴ء میں فلسطین اور اس کا مقدس شہر یروشلم ایرانیوں کے زیر سایہ آ گیا۔کنیسوں کو مسمار کر دیا گیا۔ مذہبی شعائر کی توہین کی گئی۔ شہنشاہِ ایران کے قصرِ اقامت کی تیس ہزار مقتول سروں سے آرائش کی گئی۔ ایرانی فتوحات کا سیلاب اس سے آگے بڑھ کر ۶۱۶ء میں پوری وادیٔ نیل یعنی مملکتِ مصر پر محیط ہو گیا اور آخر اسکندریہ کے ساحل پر جا کر تھما اور دوسری طرف تمام ایشیائے کوچک کو زیروزبر کرتا ہوا باسفورس کے ساحل پر جا کر رکااور قسطنطنیہ کی دیواروں سے جا ٹکرایا۔ شہنشاہِ روم کے دارالسلطنت کے سامنے ایران کے فاتح لشکر نے جا کر اپنے خیمے کھڑے کر دیے اور اب رومیوں کے بجائے عراق و شام اور فلسطین و مصر و ایشیائے کوچک کے وسیع علاقوں میں ایرانی حکومت قائم ہو گئی۔ ہر جگہ آتش کدے تعمیر ہوئے اور مسیح کی بجائے آگ اور سورج کی جبری پرستش کو رواج دیا گیا۔ رومی سلطنت کی اس تباہی کو دیکھ کر رومی شہنشاہ کی وسیع مملکت میں بغاوتیں کھڑی ہو گئیں۔ افریقہ میں بھی شورش ہوئی۔ خود قسطنطنیہ کے قریب یورپ میں مختلف قومیں قتل و غارت گری میں مصروف ہو گئیں۔ غرض اس وقت سلطنت روما کے پرزے اڑ گئے تھے۔
جنگ کا نتیجہ جب ایسا خلافِ امید ظاہر ہوا تو مسلمانوں کو یقیناً رنج اور کفار کو مسرت حاصل ہوئی اور انہوں نے مسلمانوں کو طعنہ دیا کہ جس طرح ہمارے بھائی غالب ہوئے ہیں اسی طرح اگر تم ہم سے لڑتے تو ہم بھی غالب ہوتے۔ اس وقت رومیوں کی افسوسناک حالت تھی۔ وہ اپنے مشرقی مقبوضات کا ایک ایک چپہ کھو چکے تھے۔ خزانہ خالی تھا، فوج منتشر تھی، ملک میں بغاوتیں پیدا تھیں۔ شہنشاہِ روم ہرقل ہمہ تن عیاش، بے پروا، سست اور مبتلائے اوہام تھا۔ ایرانیوں کا فاتح سپہ سالار قسطنطنیہ کے دروازے پر پہنچ کر رومیوں کے سامنے حسبِ ذیل شرائط پیش کرتا ہے کہ رومی جزیہ ادا کریں، ایک ہزار ٹالنٹ سونا، ایک ہزار ٹالنٹ چاندی، (ٹالنٹ قدیم یونانی پیمانہ ہے جو آجکل کے تقریباً تیئس کلو گرام وزن کے برابر ہے) ایک ہزار ریشم کے تھان، ایک ہزار گھوڑے اور ایک ہزار کنواری لڑکیاں ایرانیوں کے حوالے کریں۔
رومیوں کی کمزوری کی یہ حالت تھی کہ انہوں نے ان شرمناک شرائط کو قبول کر لیا۔ اس پر بھی جب رومی قاصد شہنشاہِ ایران کے دربار میں مصالحت کا پیغام لے کر گیا تو مغرور خسرو نے جو جواب دیا وہ یہ تھا: ٹھیک ہے تم نے قبول کر لیا لیکن مجھ کو یہ چیزیں مطلوب نہیں، بلکہ خود ہرقل زنجیروں میں بندھا ہوا میرے تخت کے نیچے چاہیے۔ اس وقت تک صلح نہیں کروں گا جب تک شہنشاہِ روم اپنے مصلوب خدا کو چھوڑ کر سورج دیوتا کے آگے سر نہ جھکائے گا۔ عیسائیت سے توبہ نہیں کرے گا۔
تب معرکۂ جنگ سے بہت دُور ایک خشک اور بنجر زمین کی سنسان پہاڑی سے ایک نبی نمودار ہوا اور واقعاتِ عالم کے بالکل خلاف یہ پیشگوئی فرمائی کہ رومی جلد ہی غالب آ جائیں گے۔
یہ پیشگوئی اس قدر مستبعداور ناقابلِ یقین تھی کہ کفار نے اس کے صحیح ہونے کی صورت میں کئی اونٹوں کے ہارنے کی مسلمانوں سے شرط لگائی۔ اب مسلمانوں اور کافروں کو بڑی شدت سے انتظار تھا۔ چند سال بعد دنیا نے خلافِ امید پلٹا کھایا۔ تاریخِ زوالِ روم کا مشہور مصنف اور مؤرخ ایڈورڈ گبن(Gibbon) ہرقل کے احوال بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ’’شہنشاہ جو اپنی ابتدائی اور آخری زندگی میں مستی، عیاشی اور اوہام کا غلام اور رعایا کے مصائب کا نامرد تماشائی تھا۔ جس طرح صبح و شام کا کہر آفتاب نصف النہار کی روشنی سے پھٹ جاتا ہے دفعةً ۶۲۱ء میں محلوں کا آرکاڈیوس (Arcadius)، میدانِ جنگ کا سیزر (Caesar) بن گیا۔ اور روم وہرقل کی عزت چھ مہمات کے ذریعہ نہایت شاندار طریقے سے بچا لی گئی۔‘‘
انہوں نے آرکاڈیوس کی جو مثال دی ہے یہ رومی سلطنت کا ایک بادشاہ تھا جس کا زمانہ ۴۰۸قبل مسیح اور ۳۷۸قبل مسیح تک ہے۔ بڑا مضبوط تھا۔ اسی طرح سیزر بھی ایک پرانا فوجی جرنیل تھا۔جس وقت ہرقل اپنی بقیہ فوج لے کر قسطنطنیہ سے چلا لوگوں کو معلوم ہوتا تھا کہ عظیم روما کے آخری لشکر کا منظر دنیا کے سامنے ہے لیکن عرب کے نبیٔ اُمی کی پیشگوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی اور عین اس وقت جب مسلمانوں نے بدر کے میدان میں قریش کو شکست دی رومیوں نے ایرانیوں پر غلبہ حاصل کیا۔ مشرقی مقبوضات کا ایک ایک شہر واپس لے لیا اور ایرانیوں کو باسفورس اور نیل کے کناروں سے ہٹا کر پھر دجلہ و فرات کے ساحلوں کی طرف دھکیل دیا۔
اس عظیم الشان پیشگوئی کی صداقت کے اثر نے دنیا کو محو حیرت کر دیا۔ قریش کے بہت سے لوگ اس صداقت کو دیکھ کر مسلمان ہو گئے اور جو غیر ہیں وہ اس پیشگوئی کے قائل ہو رہے ہیں۔ اس حیرت ناک پیشگوئی کی سچائی سے متحیر ہو کر واقعہ کے ساڑھے بارہ سو برس کے بعد ایڈورڈ گبن کہتا ہے کہ ’’محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )مشرق کی دو عظیم الشان سلطنتوں کے ڈانڈے پر بیٹھ کر ان دونوں کی ایک دوسرے کو تباہ کر دینے والی روز افزوں کوششوں کی ترقی کو دلی مسرت کے ساتھ بغور مطالعہ کر رہا تھا اور عین اس وقت جبکہ ایرانیوں کو پیہم کامیابیاں حاصل ہو رہی تھیں اس نے اس پیشگوئی کی جرأت کی کہ چند سال میں فتح و ظفر رومی عَلم پر سایہ فگن ہو گئی۔ جس وقت یہ پیشگوئی کی گئی تھی کوئی پیشگوئی اس سے زیادہ دُور از قیاس نہیں ہو سکتی تھی۔ یہ یقین ہی کوئی نہیں کر سکتا تھا کیونکہ ہرقل کی بارہ سال کی حکومت نے اس بات کا اعلان کر دیا تھا کہ رومی شہنشاہی کا شیرازہ جلد بکھر جائے گا۔‘‘
پیشگوئی کا زمانہ پانچ بعثت اور اس کے پورے ہونے کا زمانہ چودہ بعثت یا ایک ہجری ہے۔ بعض لوگوں نے اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا زمانہ صلح حدیبیہ کا سال یعنی چھ ہجری بیان کیا ہے۔ یہ صحیح نہیں ہے۔ شاید لوگوں کو اس سے دھوکا ہوا ہے کہ صحیح بخاری وغیرہ میں ہے کہ قاصدِ نبوی جب اسلام کا دعوت نامہ لے کر قیصر کے پاس گیا تو اس وقت وہ قیصر فتح کا شکریہ ادا کرنے کے لیے شام آیا ہوا تھا اور معلوم ہےکہ قاصد صلح حدیبیہ کے زمانےمیں روانہ ہوئے تھے اس لیے لوگوں نے یہ سمجھا کہ حصولِ فتح کی بھی یہی تاریخ ہے مگر یہ مغالطہ ہے اور بالکل ظاہر ہے کہ فتح کی تاریخ نہیں بلکہ فتح کے جشن کی تاریخ ہے۔
اس وقت وہ جشن منانے کے لیے آیا ہوا تھا۔ بہرحال تاریخ کی مطابقت سے یہ بات ثابت ہے کہ ۶۰۹ء میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی۔ ۶۱۰ء سے روم اور فارس کی چھیڑچھاڑ شروع ہوئی۔ ۶۱۳ء میں اعلان جنگ ہوا۔ ۶۱۴ء سے رومیوں کی شکست کا آغاز ہوا۔ ۶۱۶ء میں رومی شکست تکمیل کو پہنچ گئی۔ ۶۲۲ء سے پھر رومیوں نے حملہ شروع کیا۔ ۶۲۳ء سے ان کی کامیابی کا آغاز ہوا اور ۶۲۵ء میں ان کی فتح تکمیل کو پہنچ گئی۔ اس ترتیب سے دیکھیں تو ظاہر ہوگا کہ اس پیشگوئی کی خوبی یہ ہے کہ اگر آغازِ شکست سے آغازِ فتح تک جوڑیں تو بھی نو برس ہوتے ہیں اور اگر انجام شکست سے آغاز فتح تک جوڑیں تو بھی وہی نو برس ہوں گے۔اس فتح کی تکمیل کے بعد ہرقل پھر وہی سست اور عیاش قیصر بن گیا جو پہلے تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ دستِ قدرت نے صرف اس پیشگوئی کے پورا کرنے کے لیے چند سال کے واسطے اس کے دل و دماغ کو بیدار کیا اور دست و بازو کو ہوشیار کر دیا۔ پیشگوئی کی تکمیل کے بعد پھر پہلے کی طرح تعیش اور کاہلی نے اس کو عیش و غفلت کے بستر پر سلا دیا۔(سیرت النبیﷺ از علامہ شبلی نعمانی جلد۲حصہ سوم صفحہ ۳۱۳تا ۳۱۶،ادارہ اسلامیات ستمبر۲۰۰۲ء)(انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا جلد۲صفحہ۳۴۱)(انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا جلد۴صفحہ۹۳۸)
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ’’قرآن شریف بہت سی پیشگوئیوں سے بھرا پڑا ہے جیساکہ روم اور ایران کی سلطنت کی نسبت ایک زبردست پیشگوئی قرآن شریف میں موجود ہے۔اور یہ اس وقت کی پیشگوئی ہے جبکہ مجوسی سلطنت نے ایک لڑائی میں رومی سلطنت پر فتح پائی تھی اور کچھ زمین ان کے ملک کی اپنے قبضہ میں کر لی تھی تب مشرکینِ مکہ نے فارسیوں کی فتح اپنے لیے ایک نیک فال سمجھی تھی اور اس سے یہ سمجھا تھا کہ چونکہ فارسی سلطنت مخلوق پرستی میں ہمارے شریک ہے ایسا ہی ہم بھی اس نبی کا استیصال کریں گے جس کی شریعت اہلِ کتاب سے مشابہت رکھتی ہے۔ تب خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں یہ پیشگوئی نازل فرمائی کہ آخرکار رومی سلطنت کی فتح ہوگی اور چونکہ روم کی فتح کی نسبت یہ پیشگوئی ہے اس لئے اس سورت کا نام سورة الرو م رکھا گیا ہے اورچونکہ عرب کے مشرکوں نے مجوسیوں کی سلطنت کی فتح کو اپنی فتح کے لئے ایک نشان سمجھ لیا تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے اس پیشگوئی میں یہ بھی فرما دیا کہ جس روز پھر روم کی فتح ہوگی اس روز مسلمان بھی مشرکوں پر فتحیاب ہوں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ظہور میں آیا۔(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ۳۲۰)پھر فرمایا: ’’اب غور کرکے دیکھو کہ کیسی حیرت انگیز اور جلیل القدر پیشگوئی ہے۔ایسے وقت میں یہ پیشگوئی کی گئی جب مسلمانوں کی کمزوراور ضعیف حالت خود خطرہ میں تھی۔ نہ کوئی سامان تھا نہ طاقت تھی۔ ایسی حالت میں مخالف کہتے تھے کہ یہ گروہ بہت جلد نیست و نابود ہو جائے گا۔ مدت کی قید بھی اس میں لگا دی اور پھر يَوْمَئِذٍ يَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ کہہ کر دوہری پیشگوئی بنادی یعنی جس روز رومی فارسیوں پر غالب آئیں گے اسی دن مسلمان بھی بامراد ہو کر خوش ہوں گے۔ چنانچہ جس طرح پر یہ پیشگوئی کی تھی اسی طرح بدر کے روز یہ پوری ہوگئی۔ ادھر رومی غالب آئے اور ادھر مسلمانوں کو فتح ہوئی۔ (ملفوظات جلد۲صفحہ ۳۸۷، ایڈیشن ۲۰۲۲ء)(مزید تفصیل۔الفضل انٹر نیشنل ۱۳؍اکتوبر ۲۰۲۳ء میں ملاحظہ فرمائیں۔)
اس آیت کی دو قرا٫تیں آتی ہیں، ایک تو اس طرح کہ غُلِبَتِ الرُّومُ فِی أَدْنَى الأَرْضِ وَ هُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَیَغْلِبُونَ۔ جس کے معنے یہ ہیں کہ رومی حجاز کے قریب کے علاقہ میں کسریٰ سے مار کھا گئے ہیں لیکن مار کھانے کے بعد وہ عنقریب پھر طاقت پکڑ جائیں گے اور کسریٰ کو شکست دے دیں گے چنانچہ یہ پیشگوئی پوری ہو گئی اور پہلے تو رومیوں نے شکست کھائی مگر پھر رومیوں نے ایرانیوں کو شکست دی اور یہ خبر بدر کی فتح کے موقعہ پر مسلمانوں کو پہنچی۔ اور اس طرح یہ الفاظ پورے ہوئے کہ یومئذ یفرح المومنون بنصر اللہ کہ اس دن مسلمان اللہ تعالیٰ کی مدد کی وجہ سے خوش ہو رہے ہوں گے۔ دوسری قرأت اس آیت کی یہ ہے کہ غُلِبَتِ الرُّومُ فِی أَدْنَى الأَرْضِ وَ هُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَیَغْلِبُونَ۔ یعنی رومی ایرانیوں کے ہاتھ سے قریب کے علاقہ میں شکست کھا گئے ہیں، لیکن اس شکست کے بعد وہ ایک دفعہ پھر فتح پاجائیں گے اور اس فتح پانے کے بعد دوبارہ ایک اور قوم کے ہاتھوں سے زبردست شکست کھائیں گے۔ یعنی مسلمانوں کے ہاتھ سے۔ جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ہوا۔ پانچویں دفعہ یہ پیشگوئی سلطان محمد فاتح کے وقت میں پوری ہوئی۔ یعنی پہلے تو جب تک مسلمان خشکی کی طرف سے حملہ کرتے رہے۔ قسطنطنیہ کا بادشاہ غالب آتا رہا۔ لیکن جب سلطان محمد فاتح بیڑہ لیکر قسطنطنیہ پر حملہ آور ہوا تو اس وقت خداتعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح دے دی اور وہ قسطنطنیہ میں داخل ہوئے اور قریباً ایک ہزار سال سے اس پر قابض ہیں۔ (تفسیرصغیر)
اس پیشگوئی کا ایک اور پہلو بھی ہے۔صلاح الدین ایوبی کے زمانہ میں جب رومی یا صلیبی بیت المقدس پر قابض تھے تو ایک مفسر قرآن ابو الحکم ابن برجان نے انہی آیات سے استنباط کرتے ہوئے پیشگوئی کی کہ ۵۸۳ھ میں مسلمان دوبارہ بیت المقدس پر قبضہ کر لیں گے چنانچہ ان کی وفات کے ۵۰ سال بعد یہ پیشگوئی اسی طرح پوری ہو گئی۔ (ینابیع المودہ جلد۳ صفحہ ۶۴۔سلیمان بن ابراھیم متوفیٰ ۱۲۹۴ ھ)
ایک جامع نظر
رسول اللہﷺ کی ہجرت جنگوں اور فتوحات کے متعلق قرآنی پیشگوئیاں اکٹھی کر دی گئی ہیں۔ کئی پیشگوئیاں مختلف پہلوؤں سے بیان ہوئی ہیں اور کئی رنگوں میں دہرائی گئی ہیں یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان کے پورا ہونے کے مضمون کو بھی اکٹھا درج کر دیا جائے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جب نزولِ قرآن کا آغاز ہوا تو آپ کو خیال بھی نہیں تھا کہ اس پیغام کی مخالفت ہو گی چنانچہ حضرت خدیجہؓ جب آپ کو حضرت ورقہ بن نوفل کے پاس لے کر گئیں اور انہوں نے آپ کو بتایا کہ آپ کی قوم آپ کی دشمن ہو جائے گی اور آپ کو وطن سے نکال دے گی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پر سخت حیرت ہوئی کیونکہ اس پیغام میں کوئی ایسی بات نہیں تھی جو نفرت پیدا کرنے کا موجب بنے۔(صحیح بخاری کتاب بد٫ الوحی باب کیف کان بد٫ الوحی حدیث نمبر ۳)
دعویٰ کے تیسرے سال باقاعدہ مخالفت کا آغاز ہوا جو بڑھتی چلی گئی اور سرزمین مکہ کو رسول اکرمؐ اور آپؐ کے صحابہ کے لیے جہنم زار بنا دیا گیا گویا سب مسلمانوں کی جان مال عزت حلال ہو گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے معزز اور صاحب اثر و رسوخ ساتھیوں کو بھی سخت اذیتیں دی گئیں یہاں تک کہ مسلمانوں کو مکہ چھوڑ کر پہلے حبشہ کی طرف ہجرت کرنی پڑی اور پھر مدینہ جا کر امن وسکون نصیب ہوا ایک ریاست قائم ہوئی اور قرآنی پیشگوئیاں پوری ہوئیں
ہجرت مدینہ کے بعد کفار نے اسلامی ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھائے تو اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جوابا ًتلوار اٹھانے کی اجازت دی۔ ابتدا میں کفار اور مشرکین تعداد، دولت،اسلحہ اور جنگی سواریوں میں زیادہ تھے اس لیے وہ مدینہ اور گردونواح پر حملے کرتے تھے اور مسلمانوں کو کسی قدر نقصان بھی پہنچاتے تھے مگر آہستہ آہستہ مسلسل ناکامیوں سے کمزور ہوتے گئے۔
اس سلسلہ میں رسول اکرمؐ نے متعدد سفر اختیار فرمائے اور بعض دفعہ صحابہؓ کے دستے بھجوائے ان سب غزوات و سرایا کی تعداد مئورخین کے بقول ۸۵تک ہے۔ اس عرصہ میں مسلمانوں کو بھی بہت قربانیاں دینی پڑیں مگر خدا نے وعدوں کے مطابق ان کی نصرت فرمائی ان کی تعداد بھی بڑھائی ان کو اسلحہ بھی دیا اور گھوڑے اور اونٹ بھی دیے اور فتح یاب کیا۔ قرآن میں جنگ بدر، احد،احزاب اور حنین کے ساتھ کئی غزوات اور سرایا کا ذکر موجود ہے۔ہجرت کے چھٹے سال حدیبیہ کا سفر ہوا جس کے بعد خیبر فتح ہوا اور بالآخر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کوہجرت کے ۸ سال بعد فاتحانہ شان کے ساتھ مکہ میں داخل ہونے کی توفیق عطا کی اور عظیم پیشگوئیاں پوری ہوئیں۔
یہود اور بنی اسرائیل کے متعلق پیشگوئیاں
یہ تو وہ پیشگوئیاں تھیں جو مکی زندگی میں کی گئیں۔ مدینہ پہنچ کر رسول اللہﷺ کو یہود سے واسطہ پڑا۔ان کے ساتھ صلح کے معاہدے بھی ہوئے مگر انہوں نے کسی کا پاس نہ کیا اور ہمیشہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی اللہ تعالیٰ نے رسول کریمﷺ کو ان کے بد انجام سے مطلع کیا اور آپؐ کی زندگی میں ہی ان کو نامراد کر دیا۔
سورۃ البقرہ کی آیت ۸۵ اور ۸۶ میں مدینہ کے بارعب بنی اسرائیل اور یہود کو خطاب ہے۔اَفَتُؤۡمِنُوۡنَ بِبَعۡضِ الۡکِتٰبِ وَتَکۡفُرُوۡنَ بِبَعۡضٍ ۚ فَمَا جَزَآءُ مَنۡ یَّفۡعَلُ ذٰلِکَ مِنۡکُمۡ اِلَّا خِزۡیٌ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ وَیَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ یُرَدُّوۡنَ اِلٰۤی اَشَدِّ الۡعَذَابِ ؕ وَمَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعۡمَلُوۡنَ (کیا تم کتاب کے بعض حصوں پر ایمان لاتے ہو اور بعض کا انکار کرتے ہو۔ پس تم میں سے جو ایسا کرے اس کی جزا دنیا کی زندگی میں سخت ذلت کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے۔ اور قیامت کے دن وہ سخت تر عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے۔ اور اللہ اس سے غافل نہیں جو تم کرتے ہو۔)
یہ لوگ مدینہ کے نواح میں خیبر اور فدک کے مالک تھے۔ ان کی گستاخیوں اور وعدہ خلافیوں کی بنا پر اللہ تعالیٰ یہ پیشگوئی کرتا ہے کہ تم دنیا میں بھی ذلیل و خوار ہو گے اور آخرت میں بھی سزا پاؤ گے۔ چنانچہ بالآخر یہود کے یہ تینوں قبیلے بنونضیر، بنو قینقاع، اور بنو قریظہ مدینہ سے جلا وطن ہوئے۔ خیبر کو اپنا مرکز بنایا اور بالآخر وہاں بھی مفتوح اور پھر جلا وطن ہوگئے۔ (حقائق الفرقان جلد۱صفحہ ۱۸۶)
سورۃ البقرہ کی آیات۹۵، ۹۶ ہیں (یہود مدینہ کو متعدد بار قرآن کریم میں مباہلہ کا چیلنج دیا گیا اور یہ بھی بتایا گیا کہ وہ کبھی اس کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔ فَتَمَنَّوُا الۡمَوۡتَ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ وَلَنۡ یَّتَمَنَّوۡہُ اَبَدًۢا بِمَا قَدَّمَتۡ اَیۡدِیۡہِمۡ ؕ وَاللّٰہُ عَلِیۡمٌۢ بِالظّٰلِمِیۡنَ)موت کی تمنا کرو، اگر تم سچے ہو۔ اور وہ ہرگز کبھی بھی اس کی تمنا نہیں کریں گے بسبب اس کے جو اُن کے ہاتھوں نے آگے بھیجا ہے اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔
سورۃ الجمعہ کی آیت نمبر ۸ ہے :وَلَا يَتَمَنَّوْنَهُ أَبَدًا بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ( اور وہ ہرگز اس کی تمنّا نہیں کریں گے بسبب اس کے جو اُن کے ہاتھوں نے آگے بھیجا ہے )دشمن مباہلہ کے لیے کبھی راضی نہیں ہوں گے۔ (حقائق الفرقان جلد ۴ صفحہ ۱۲۱)
سورۃ الحشر کی آیت نمبر ۱۵ہے: لَا یُقَاتِلُوۡنَکُمۡ جَمِیۡعًا اِلَّا فِیۡ قُرًی مُّحَصَّنَۃٍ اَوۡ مِنۡ وَّرَآءِ جُدُرٍ ؕ بَاۡسُہُمۡ بَیۡنَہُمۡ شَدِیۡدٌ ؕ تَحۡسَبُہُمۡ جَمِیۡعًا وَّقُلُوۡبُہُمۡ شَتّٰی ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ قَوۡمٌ لَّا یَعۡقِلُوۡنَ (وہ تم سے اکٹھے لڑائی نہیں کریں گے مگر قلعہ بند بستیوں میں یا پھر فصیلوں کے پرلی طرف سے۔ اُن کی لڑائی آپس میں بہت سخت ہے۔ تو انہیں اکٹھا سمجھتا ہے جبکہ ان کے دل پھٹے ہوئے ہیں۔ یہ اس لیے ہے کہ وہ ایک ایسی قوم ہیں جو عقل نہیں کرتے) حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں: یہ یہودیوں کے متعلق ایک پیشگوئی ہے جو قیامت تک اسی طرح پوری ہوتی رہے گی۔ جب تک یہود کو مضبوط دفاعی قلعے مہیا نہ ہوں، جو ہر زمانہ کے حالات کے مطابق بدلتے رہتے ہیں، اور اس کے نتیجہ میں ان کو اپنی برتری کا یقین نہ ہو وہ کبھی بھی مدمقابل سے لڑائی نہیں کریں گے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے دل آپس میں اکٹھے ہیں۔ بظاہر وہ اپنے دشمن کے مقابل پر اکٹھے نظر آتے ہیں مگر آپس میں ہمیشہ ان کے دل ایک دوسرے سے پھٹے رہتے ہیں۔ فی زمانہ جن لوگوں کو آنحضورﷺ نے یہود کے مشابہ قرار دیا ہے ان کا بھی بعینہیہی حال ہے۔(ترجمہ قرآن حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ صفحہ ۱۰۱۴)
سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر۲۸،۲۷ ہیں: وَاَنۡزَلَ الَّذِیۡنَ ظَاہَرُوۡہُمۡ مِّنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ مِنۡ صَیَاصِیۡہِمۡ وَقَذَفَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمُ الرُّعۡبَ فَرِیۡقًا تَقۡتُلُوۡنَ وَتَاۡسِرُوۡنَ فَرِیۡقًاوَاَوۡرَثَکُمۡ اَرۡضَہُمۡ وَدِیَارَہُمۡ وَاَمۡوَالَہُمۡ وَاَرۡضًا لَّمۡ تَطَـُٔوۡہَا۔(اور اس نے اُن لوگوں کو جنہوں نے اہل کتاب میں سے ان کی مدد کی تھی ان کے قلعوں سے نیچے اتار دیا اور ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا۔ ان میں سے ایک فریق کو تم قتل کررہے تھے اور ایک فریق کو قیدی بنا رہے تھے۔ اور تمہیں ان کی زمین اور ان کے مکانوں اور ان کے اموال کا وارث بنا دیا اور ایسی زمین کا بھی جسے تم نے (اس وقت تک) قدموں تلے پامال نہیں کیا تھا۔) حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں :ان میں جنگ احزاب کے وقت غداری کرنے والے یہود کا ذکر ہے۔ اگرچہ انہوں نے بہت مضبوط دفاعی قلعے بنائے ہوئے تھے مگر جب اللہ تعالیٰ نے ان پر مومنوں کے غلبہ کا فیصلہ کرلیا تو قلعے ان کے کچھ کام نہ آئے بلکہ خود اپنے ہاتھوں سے ان کو مسمار کرنے لگے۔اور پھر ایسے علاقوں کی فتوحات کی پیشگوئی ہے جن میں ابھی تک مسلمانوں کو قدم رکھنے کا موقع نہیں ملا۔ دراصل اس میں پیشگوئیوں کا ایک لمبا سلسلہ ہے۔(ترجمہ قرآن )حضرت مصلح موعود ؓکے نزدیک أَرْضًا لَمْ تَطَئُوهَاسے مراد خیبر ہے (تفسیر صغیر )
صحف سابقہ کی پیشگوئیاں
رسول اللہؐ کی آمد کوئی اتفاقی واقعہ نہیں تھا بلکہ خدا تعالیٰ کی ازلی تقدیر کا حصہ تھا اس لیے سابقہ انبیا٫ نے بھی آپ کی آمد کی خبر دی اور مختلف زاویوں سے آپ کی زندگی کے واقعات بیان کیے۔ اس مضمون میں صرف وہ حصے درج کیے جاتے ہیں جن کا خاص تعلق جنگوں اور فتوحات سے ہے۔
استثناء میں حضرت موسیٰ کے حوالہ سے لکھا ہے: ’’خداوند سینا سے آیا اور شعیر سے اُن پر طلوع ہوا۔ فاران ہی کے پہاڑسے وہ جلوہ گر ہوا۔ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا او ر اُس کے داہنے ہاتھ میں ایک آتشی شریعت اُن کے لیے تھی‘‘۔(استثناء باب ۳۳ آیت ۲۰)
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اِس کلام میں اپنے تین جلوے بتائے ہیں۔ پہلا جلوہ سینا سے حضرت موسیٰ پر ظاہر ہوا۔دوسرا جلوہ شعیر میں حضرت مسیح علیہ السلام پر ظاہر ہوا۔ تیسرا جلوہ فاران سے ظاہر ہونا تھا۔ فاران سے مراد وہ پہاڑ ہیں جو مدینہ اور مکہ کے درمیان ہیں۔اور ۱۰ ہزار قدوسیوں سے مراد وہ صحابہؓ ہیں جو فتح مکہ کے موقع پر رسول کریمﷺ کے ہمرکاب تھے۔ اور مدینہ کی ریاست جو چند مربع میل پر مشتمل تھی رسول اللہﷺ کی زندگی میں ۱۰ لاکھ مربع میل پر پھیل گئی۔
حضرت یسعیاہ کی پیشگوئی میں مدینہ سے یہود قبائل کے جلا وطن ہونے کا بھی ذکر ہے چنانچہ جہاں وہ قرآن کے نزول کی پیشگوئی کرتے ہیں وہاں یہ بھی بتاتے ہیں’’ حکم پر حکم قانون پر قانون تھوڑا یہاں تھوڑا وہاں تاکہ وے چلے جائیں اور پچھاڑی گریں اور شکست کھائیں اور دام میں پھنسیں اور گرفتار ہوویں۔ (یسعیاہ باب ۲۸ آیات ۹ تا ۱۳)اس میں یہ ذکر ہے کہ مدینہ کے یہود مسلمانوں کو امن سے نہیں رہنے دیں گے تو بعض قتل کیے گئے بعض نے شکست کھائی اور بعض گرفتار ہوئے۔(تفسیر کبیر جلد۱ صفحہ ۳۷۶ تا ۳۷۸ )
یسعیاہ نبی کو الہاماً جنگ بدر کی خبر دی گئی ان کے الہامی کلام میں بنو اسمٰعیل اور عرب کے متعلق لکھا ہے:’’ا ے دوانیوں کے قافلو! پانی لے کر پیاسے کا استقبال کرنے آؤ۔ … ہنوز ایک برس مزدور کے سے ایک ٹھیک برس میں قیدار کی ساری حشمت جاتی رہے گی‘‘۔ (یسعیاہ باب۲۱ آیت ۱۳ تا ۱۷)
اس پیشگوئی میں رسول کریمﷺ کی ہجرت کے ایک سال بعد جو جنگ بدر ہوئی تھی اُس کا ذکر کیا گیا ہے۔ اِس سے بنو قیدار یعنی مکہ اور مکہ کے اِردگرد رہنے والے لوگ بہت بُری طرح مسلمانوں سے ہارے۔
حبقوق نبی نے مسیح سے ۶۲۶ برس پہلے کہا: ’’خدا تیمات سے وہ جو قدوس ہے کوہ فاران سے آیا۔سلاہ۔ اُس کی شوکت سے آسمان چھپ گیا اور زمین اُس کی حمد سے معمور ہوئی اور اُس کی جگمگاہٹ نور کی مانند تھی۔ اُس کے ہاتھ سے کرنیں نکلیں پر وہاں بھی اُس کی قدرت درپردہ تھی۔ مری اُس کے آگے آگے چلی اور اُس کے قدموں پر کشتی وبا روانہ کھڑا ہو اور اُس نے زمین کو لرزہ دیا۔ اُس نے نگاہ کی اور قدموں کو پراگندہ کر دیا اور قدیم پہاڑ ریزہ ریزہ ہو گئے اور پرانی پہاڑیاں اُس کے آگے دھنس گئیں۔ اُس کی قدیم راہیں یہی ہیں۔ میں نے دیکھا کہ کوشاں کے خیموں پر بپت تھی اور زمین مدیان کے پردے کانپ جاتے تھے‘‘۔
اِس پیشگوئی میں بھی تیمہ اور کوہ فاران سے ایک قدوس کے ظاہر ہونے کا ذکر آتا ہے۔ تیمہ سرزمین اور کوہ فاران سے ظاہر ہونے والے نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور اُن کی آتشی شریعت قرآن کریم تھی جس نے گناہوں او ر شیطانی کاروبار کو جلا کر راکھ کردیا …پھر لکھا ہے’’مری اُس کے آگے چلی اور اُس کے قدموں پر آتشی وباروانہ ہوئی‘‘۔ یہ پیشگوئی بھی محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہی صادق آتی ہے۔ کیونکہ آپ کے ذریعہ خد اتعالیٰ نے آپ کے دشمن کو تباہ کیا۔ گو اِس جگہ مری کے الفاظ ہیں جو بیماری پر دلالت کرتے ہیں مگر مراد تباہی اور ہلاکت ہی ہے کیونکہ جس ذریعہ سے بھی موت عام ہو جائے وہ مری اور وبا کہلائے گا۔پھر لکھا ہے ’’وہ کھڑا ہوا اور اُس نے زمین کو لرزہ دیا۔ اُس نے نگاہ کی اور قدموں کو پراگندہ کر دیا‘‘۔
جس نے ز مین کو لر دیا اور جس کی نگاہ نے قدموں کو پراگندہ کر دیا وہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے۔ خود آپ نے دعویٰ فرمایا ہے نصرت بالرعب مسیرة شھر ( صحیح بخاری کتاب التیمم باب قول اللہ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا حدیث نمبر۳۳۵ ) خدا تعالیٰ نے مجھے رعب عطا فرما کر میری مدد کی ہے میں جہاں جاؤں ایک مہینہ کے فاصلہ تک دشمن مجھ سے ڈر جاتا ہے۔
پھر لکھا ہے ’’قدیم پہاڑ ریزہ ریزہ ہو گئے ‘‘یہ پیشگوئی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہی ثابت ہوئی، کیونکہ آپ کے دشمن آپ کے مقابلہ میں ہلاک و تباہ ہو گئے اور پہاڑ اور پہاڑیوں سے مراد طاقتور دشمن ہی ہوا کرتے ہیں۔
پھر لکھا ہے ’’میں نے دیکھا کہ کوشاں کے خیموں پر بپت تھی اور زمین مدیان کے پردے کانپ رہے تھے‘‘۔اِس پیشگوئی سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ آنے والا موعود شام سے کسی باہر کے علاقے کا ہو گا اور جب اُس کی فوجیں کیش یا کوشان اور مدائن کے علاقوں کی طرف بڑھیں گی تو اُن علاقوں کی فوجیں اور اس کی فوجوں کے آگے لرز جائیں گی۔ جب آپ کی مٹھی بھر فوج آپ کے خلیفہ اوّل حضر ت ابوبکرؓ کے زمانہ میں فلسطین کی طرف بڑھی تو باوجود اس کے کہ کنعان اُس وقت قیصر روما کے ماتحت تھا اور وہ آدھی دنیا کا بادشاہ تھا مسلمانوں کی مٹھی بھر فوج کے آگے قیصر کی فوجیں اس طرح بھاگیں کہ کیش کے خیموں پر آفت آگئی اور زمین مدیان کے پردے کانپ گئے اور ان علاقوں نے اپنی نجات اس میں پائی کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادموں کے قدموں میں اپنے ہتھیار ڈال دیں۔وہ برباد ہو گئے اور پرانی پہاڑیاں اُس کے آگے دھنس گئیں۔(دیباچہ تفسیر القرآن انوار العلوم جلد ۲۰ صفحہ ۱۰۸)
حضرت سلیمان ؑ کہتے ہیں ’’تیرے محبوب کو دوسرے محبوب کی نسبت سے کیا فضیلت ہے۔میرا محبوب سرخ و سفید ہے۔ دس ہزار آدمیوں کے درمیان وہ جھنڈے کی مانند کھڑا ہوتا ہے…۔ اے یروشلم کی بیٹیو! یہ میرا پیارا ہے یہ میرا جانی ہے‘‘۔(غزل الغزلات باب۵ آیت ۹ تا ۱۶)
اس لمبی پیشگوئی میں بتایا گیا ہے کہ ایک نبی پیدا ہوگاجو دوسرے نبیوں سے افضل ہوگا، وہ دس ہزار سپاہیوں کے ساتھ ہوگا، اُس کے لب سے مُر ٹپکتا ہے، وہ محمدیم ہے۔ آپ کا کلام صحیح معنوں میں دنیا کے لیے مُر ثابت ہوا ہے اور اس میں انسانی اصلاح کے لیے تمام قواعد بیان کر دیے گئے اور آپ ہی ہیں جن کا نام محمد تھا۔
یسعیاہ باب ۵ میں پیشگوئی ہے:’’وہ قوموں کے لیے دُور سے ایک جھنڈا کھڑا کرتا ہے … اور دیکھ وے دوڑ کے جلد آتے ہیں۔ کوئی اُن میں نہ تھک جاتا اور نہ پھسل پڑتا ہے۔ وے نہیں اُونگھتے اور نہیں سوتے۔… اُن کے گھوڑوں کے سم چقماق کے پتھر کی مانند… وے جوان شیروں کی مانند گرجتے ہیں‘‘۔ (یسعیاہ باب۵ آیت ۲۶ تا ۳۰)
اس پیشگوئی میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک زمانہ میں تمام قوموں کے لیے فلسطین سے دُور کسی جگہ پر ایک جھنڈا کھڑا کرے گا اور اس جھنڈے والا دنیا کی مختلف قوموں کو بلائے گا اور وہ جلدی سے دَوڑ کر اُس کے پاس جمع ہو جائیں گی۔ وہ لوگ بڑی بڑی قربانیاں کرنے والے ہوں گے اور غفلت اور سستی سے محفوظ ہوں گے۔اُنہیں لڑائیاں کرنی پڑیں گی۔ اُن کے گھوڑوں کے سموں سے آگ نکلے گی اور ہوا میں گرداُڑے گی۔
یہ پیشگوئی کُلّی طور پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر چسپاں ہوتی ہے۔ فلسطین سے دُور یعنی مکہ میں آپ ظاہر ہوئے اور آپ کا جھنڈا مدینہ میں کھڑا کیا گیاآپ ہی کی آواز پر چاروں طرف سے لوگ دوڑنے لگ گئے اور جلد جلد آپ کے گرد جمع ہو گئے۔اور اُنہوں نے ایسی قربانیاں اور اَن تھک کو ششیں کیں کہ دشمن سے دشمن بھی اُن کی قربانیوں کی تعریف کیے بغیر نہیں رہتا۔
دانیال نبی کی کتاب میں نبوکد نضر بادشاہ کی خواب درج ہے:’’اس بادشاہ نے ایک بڑی مورت دیکھی۔ جس کا سر،سینہ، بازو، شکم، رانیں، ٹانگیں اور پاؤں مختلف دھاتوں سے بنے ہوئے تھے۔ ایک پتھر آکر گرا جس نے اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور اس پتھر نے تمام زمین کو بھر دیا‘‘۔(خلاصہ از دانیال باب۲ آیت۳۱ تا۳۵)
اس کی تعبیر دانیال نبی نے یہ کی کہ اس مورت کے مختلف اعضاء سے مراد دوسری سلطنتیں ہیں اور پتھر کے متعلق فرمایا:’’اُن بادشاہوں کے ایام میں آسمان کا خد ا ایک سلطنت برپا کرے گا جو تا ابد نیست نہ ہووے گی اور وہ سلطنت دوسری قوم کے قبضہ میں نہ پڑے گی وہ اُن سب مملکتوں کو ٹکڑے ٹکڑے اور نیست کرے گی اور وہی تاابد قائم رہے گی‘‘۔(دانیال باب۲آیت۳۷تا۴۵)
اس خواب میں ان سلطنتوں کا ذکر ہے جو مختلف علاقوں میں پھیلی ہوئی تھیں اوریہ سلطنتیں حضرت محمد رسول اللہﷺ اور صحابہؓ سے ٹکر انے کی وجہ سے تباہ ہوئیں اور رسول کریمﷺ کی حکومت قائم ہو گئی۔ اسی کے متعلق یسعیاہ باب ۸ آیت ۱۴ میں ایک آنے والے موعود کے متعلق لکھا ہے:’’وہ تمہارے لئے ایک مقدس ہو گاپر اسرائیل کے دونوں گھرانوں کے لئے ٹکر کا پتھر اور ٹھوکر کھانے کی چٹان‘‘۔ اور متی باب ۲۱ آیت ۴۴ میں لکھا ہے۔ ’’جو اِس پتھر پر گرے گا چور ہو جائے گا پر جس پر وہ گرے گا اُسے پیس ڈالے گا‘‘۔ اسی طرح زبور باب ۱۱۸ آیت ۴۲ میں لکھا ہے۔’’وہ پتھر جسے معماروں نے ردّ کیا کونے کا سِرا ہو گیا‘‘۔
ہندو کتب میں رسول کریمﷺ کے بارے میں پیشگوئیاں موجود ہیں ان میں لکھا ہے کہ جنگ کے دوران دیوتا اس کی مدد کریں گے (کالکی پران باب ۲ منتر ۷۔بحوالہ ڈاکٹر نائیک کے فیصلہ کن مناظرے،ترتیب امر شاہد۔صفحہ ۳۳۲۔بک کارنر جہلم)گو کہ ہر جنگ میں ہی اللہ اور اس کے فرشتوں نے رسول اللہﷺ کی مدد کی لیکن خصوصیت کے ساتھ جن جنگوں میں مدد کا قرآن میں ذکر ہے ان میں جنگ بدر سر فہرست ہے۔
رسول اللہﷺ کی زندگی کے ایک حصہ سے تعلق رکھنے والی یہ پیشگوئیاں اس بات کی کافی دلیل ہیں کہ خدا ہی نے یہ قرآن نازل کیا ہے۔وہی سچا خدا ہے جس نے محمدرسول اللہﷺ کو مبعوث فرمایا جو غیب کا عالم ہے اور اپنے رسولوں کو غیب پر مطلع کرتا ہے اور ان کی سچائی ثابت کرتا ہے۔ ان کے مطالعہ سے مومنوں کے ایمان میں ہمیشہ اضافہ ہوتا ہے۔