مسیح موعود کی خلافت دائمی خلافت ہو گی
ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم اس دور میں اس پیشگوئی کو پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں اور اس دائمی خلافت کے عینی شاہد بن گئے ہیں بلکہ اس کو ماننے والوں میں شامل ہیں اور اس کی برکات سے فیض پانے والے بن گئے ہیں۔ ایک حدیث میں آتا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت ایک مبارک امت ہے۔ یہ نہیں معلوم ہو سکے گا کہ اس کا اول زمانہ بہتر ہے یا آخری زمانہ، یعنی دونوں زمانے شان و شوکت والے ہوں گے۔
اس آخری زمانے کی بھی وضاحت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی فرما دی کہ وہ کیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھے تھے کہ آپؐ پر سورۃ جمعہ نازل ہوئی جب آپؐ نے اس کی آیت وَآخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ پڑھی جس کے معنے یہ ہیں کہ کچھ بعد میں آنے والے لوگ بھی ان صحابہ ؓ میں شامل ہوں گے جو ابھی ان کے ساتھ نہیں ملے۔ تو ایک آدمی نے پوچھا یا رسول اللہؐ! یہ کون لوگ ہیں جو درجہ تو صحابہؓ کا رکھتے ہیں لیکن ابھی ان میں شامل نہیں ہوئے۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سوال کا جواب نہ دیا۔ اس آدمی نے تین دفعہ یہ سوال دوہرایا۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت سلمان فارسی ؓ ہم میں بیٹھے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ ان کے کندھے پر رکھا اور فرمایا کہ اگر ایمان ثریا کے پاس بھی پہنچ گیا یعنی زمین سے اٹھ گیا تو ان لوگوں میں سے کچھ لوگ واپس لے آئیں گے۔
یعنی آخرین سے مراد وہ زمانہ ہے جب مسیح موعود کا ظہور ہو گا اور اس پر ایمان لانے والے، اس کا قرب پانے والے، اس کی صحبت پانے والے صحابہ کا درجہ رکھیں گے۔ پس جب ہم کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا اور یہ زمانہ پانے کی توفیق عطا فرمائی جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے کا درجہ دیا ہے۔ تو یہ بھی ضروری تھا کہ اس پیشگوئی کے مطابق خلافت علیٰ منہاج نبوت بھی قائم رہے۔ یہاں یہ وضاحت کر دی ہے جیسا کہ پہلے حدیث(کی روشنی)میں مَیں نے کہا کہ مسیح موعود کی خلافت عارضی نہیں ہے بلکہ یہ دائمی خلافت ہو گی۔(خطبہ جمعہ ۲۱؍مئی ۲۰۰۴ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۴؍جون۲۰۰۴ء)