لیگ آف نیشنز کے قیام اور زوال کی مختصر تاریخ جس میں ’’اقوام متحدہ‘‘ کے لیے آج بھی ایک سبق ہے
امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۷؍نومبر۲۰۲۳ء کے اختتام پر فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کے لیے دعاؤں کی تحریک فرماتے ہوئے یہ بھی انذار فرمایا:آج کل مسلمان حکومتیں بھی آواز اٹھاتی ہیں تو بڑی کمزور آواز ہے۔ بعض آوازیں اٹھی ہیں، اس سے زیادہ زور دار آواز تو بعض غیر مسلم لوگوں اور سیاست دانوں اور حکومتوں نے اٹھائی ہیں…یو این کے سیکرٹری جنرل بھی اچھا بولتے ہیں۔ آجکل تو وہ زیادہ اچھا بول رہے ہیں لیکن لگتا ہے ان کی آواز کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ لگتا ہے کہ اگر یہ جنگ مزید پھیل گئی اور عالمی جنگ کی صورت اختیار کرگئی تو اس کے خاتمے کے بعد یو این کا بھی خاتمہ ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ دنیا کو عقل دے۔ لگتا ہے کہ اب دنیا اپنی تباہی کو قریب تر لے کے آرہی ہے۔
اقوام متحدہ کے لیے اس قدر واضح انذار کو دیکھتے ہوئے اگر ہم پیچھے نظر دوڑائیں تو پتا چلتا ہے کہ جنگِ عظیم اوّل جولائی ۱۹۱۴ء سے نومبر ۱۹۱۸ء تک جاری رہی،جس میں قریباً دو کروڑ انسان ہلاک ہوئے اور اس سےکہیں زیادہ زخمی اور عمر بھر کےلیے معذور ہوئے۔ اس خونریز جنگ کے خاتمہ کے ساتھ ہی براعظم یورپ کے بعض ممالک خصوصاً انگلستان، فرانس، جرمنی وغیرہ میں بعض چھوٹی بڑی ایسی انجمنیں بننے لگیں جن کا نعرہ تھا کہ اب دوبارہ ایسی خونریز جنگ نہیں ہونی چاہیے اور سب لوگوں کے لیے امن سے رہنے کا حق محفوظ رہے۔ ایسی آوازیں مضبوط ہوتی چلی گئیں اور بالآخر جنوری ۱۹۲۰ء میں پیرس میں’’ لیگ آف نیشنز‘‘ کا قیام عمل میں آیا۔ ابتدا میں اس ادارے میں ۲۸؍ اتحادی ممالک اور ۱۴؍غیر جانبدار ممالک شامل ہوئے۔ بعدمیں یہ تعداد ۶۰؍تک پہنچ گئی۔
لیگ آف نیشنز کے قیام کے ساتھ ہی اس کے چند اداروں کا قیام بھی عمل میں آیا جن سے تنظیم کو اپنے فرائض کی بجا آوری میں سہولت ہوئی۔ ان شعبہ جات میں اسمبلی، کونسل، سیکرٹریٹ، بین الاقوامی دفتر محنت اور بین الا قوامی عدالت انصاف کا قیام شامل تھا۔ لیگ آف نیشنز ۲۰؍اپریل ۱۹۴۶ء تک قائم رہی اور اس کے بعد اس لیگ کے مذکورہ بالا ادارے UNO یعنی ’’اقوام متحدہ ‘‘کے قیام کے بعد اس میں ضم ہوتے چلے گئے۔
آج ہمارے سامنے اقوام متحدہ اپنی زندگی کے ۷۵؍سال مکمل کرچکی ہے اور اس تنظیم کے اپنے قیام کے مقاصد میں کامیاب یا ناکام ہونے پر دلائل کا سلسلہ جاری ہے۔زیر نظر مضمون میں ہم لیگ آف نیشنز کی کچھ تاریخ پر نظر ڈالتے ہوئے اس کی ناکامی کے بعض اسباب کا جائزہ لیں گے تا اقوام متحدہ کے مستقبل کو محفوظ بنایا جاسکے۔
لیگ کا تعارف
ابتدائی منشور کے مطابق لیگ آف نیشنز میں ہر وہ خود مختار ملک اور مقبوضہ علاقہ شامل ہو سکتا تھا جو بین الا قوامی ذمہ داریاں قبول کرنے اور فوجی امور و معاملات میں لیگ آف نیشنز کے فیصلوں کی پابندی کرنے کی اہلیت رکھتا ہو۔ اس لیگ کا اولین مقصد رکن ممالک میں انصاف و باہمی احترام کی بنیاد پراس مخصوص تعاون کو فروغ دینا تھا تا آئندہ کے لیے دنیا سے جنگوں کا سدّباب ہو سکے۔
اس تنظیم کا صدر مقام جنیوا تھا۔ اس کی دوسرکاری زبانیں تھیں انگریزی اور فرانسیسی۔
منشور کے مطابق ہر ملک حلف لیتا تھا کہ کسی دوسرے ملک سے تنازع کی صورت میں پرامن ذرائع سے مفاہمت کرنے کی کوشش کرے گا اور مصالحت و مفاہمت کے تمام امکانات ختم ہونے پر (ایک مخصوص مدت کے وقفے کے بعد) جنگ کا راستہ اختیار کر سکے گا۔ ساتھ ہی خلاف ورزی کی صورت میں تنظیم کے دوسرے تمام ممالک جارح ملک سے اقتصادی و مالی روابط قطع کر لینے کے پابند ہوں گے۔ یاد رہے کہ جارح کے خلاف اجتماعی فوجی قوت کے عدم استعمال کی شق نے روز اول سے ہی لیگ کی ناکامی کا بیج بودیا۔
لیگ کی بعض کامیابیاں
آغاز میں اس تنظیم کو مختلف ممالک میں مفاہمت کروانے میں کامیابی حاصل ہوئی۔مثلاًجب ۱۹۲۱ء میں پہلی بلقان جنگ کے شاخسانے کے طور پر یورپ کے ملک یوگوسلاویہ نے ہمسایہ ملک البانیہ پر حملہ کیا، تو لیگ نے بیچ بچاؤ کروایا، اس وقت کے اخبارات نے شہ سرخی جمائی تھی کہ یہ جنگ بندی لیگ آف نیشنز کی طاقت اور ساکھ کا امتحان ہوگی۔ وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح جب ۱۹۲۵ء میں بلغاریہ نے یونان پر حملہ کیا تو تنظیم ہی کی وجہ سے وقتی طور پر امن ہوگیا،یہ جنگ ایک قدرے عجیب سے نام کے ساتھ تاریخ کی کتب میں محفوظ ہے: War of the Stray Dog
مزید جائزہ لیں تو جب سویڈن اور فن لینڈ کے درمیان جزیرہ ہالینڈ کے بارے میں تلخی بڑھی تو لیگ ہی کام آئی۔ اسی طرح ترکی اور عراق کے مابین سرحدی تنازعہ پیدا ہوا تو تنظیم کی کوششوں سے ہی مفاہمت ہوئی۔ لیکن لیگ کی یہ ساکھ تادیر قائم نہ رہ سکی۔
لیگ کے رکن ممالک اور زوال کاآغاز
جیسے جیسے وقت گزرتا چلا گیا، مختلف ممالک لیگ آف نیشنز میں آکر شامل ہوتے گئے اور کچھ نے اس سے راہیں جدا کرلیں۔ جیسا کہ آغاز میں افغانستان اور روس نے بھی اس لیگ میں شمولیت اختیار کی۔لیکن ۱۹۳۵ء میں جرمنی اور جاپان نے اس لیگ کی رکنیت ترک کردی اور ان کے بعد ۱۹۳۷ءمیں اٹلی نے بھی لیگ آف نیشنز کو خیر باد کہہ دیا۔
الغرض جب طاقتوں کی مفاد پرستی بروئے کار آئی تو تنظیم کے مقاصد کو شکست ہونے لگی۔نیز اس تنظیم کو فیصلوں کے نفاذ کا کوئی اختیار حاصل نہ تھا لہٰذایہی خامی اس کی تباہی کا باعث بننے لگی۔
مثلاً آن لائن انسائیکلو پیڈیا کے مطابق لیگ آف نیشنز ایک مقامی علاقہ پر قبضے کے تنازعے پر پولینڈ اور لتھوانیا میں تصفیہ نہ کروا سکی۔ اسی طرح اٹلی اور یونان کے تنازعہ کا بھی کوئی حل نہ نکل سکا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بلند آہنگ مقاصد جن کے حصول کے لیے یہ تنظیم قائم ہوئی تھی ادھورے رہتے ہوئے نظر آنے لگے۔
۱۹۳۵ء میں اسلحہ پر پابندی عائد کرنے کے متعلق کانفرنس کی ناکامی اور اسی سال حبشہ پر اٹلی کا حملہ دراصل تنظیم کی بے اثری کا نتیجہ تھا۔ جنوبی امریکہ کے ممالک پیراگوئے اور بولیویا کے درمیان ایک باہمی مسئلہ پر جب جنگ چھڑی تو تب بھی تنظیم دونوں ممالک کے درمیان صلح صفائی نہ کروا سکی۔ جاپان نے منچوریا پر قبضہ کر لیا تو لیگ خاموش نظر آئی۔
جرمنی نے آسٹریا اور چیکو سلواکیہ پر قبضہ کیا تولیگ کی طرف سے کوئی مؤثر کارروائی نہ ہو سکی۔ ۱۹۳۹ء میں جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کیا تو یہ لیگ محض نام ہی کی نظر آئی اور وہ حملہ جنگ عظیم دوم کے آغاز کا باعث بن گیا۔ وغیرہ
لیگ آف نیشنز کااہم اجلاس جس میں ایک معزز احمدی کی طرف سے اصلاح احوال کی ایک آخری کوشش کی گئی اس وقت ہوا جب روس نے فن لینڈ پر حملہ کیا۔ تاریخ کے اس اہم موڑ پر لیگ کی اسمبلی کا اجلاس دسمبر ۱۹۳۹ء کو بلایا گیا، جس میں روس کی مذمّت کی گئی اور اسے رکنیت سے خارج کر دیا گیا۔ یہ اس انجمن کی آخری کارروائی تھی۔ لیکن تب تک دیر ہو چکی تھی۔
اس اجلاس کا احوال اس میں شریک ایک رکن ملک کے نمائندہ کی زبانی سنیں: حضرت چودھری سر محمد ظفراللہ خان صاحبؓ اپنی کتاب تحدیث نعمت میں بتاتے ہیں کہ ۱۹۳۹ء میں جب ڈومینن وزراء کی کانفرنس کے سلسلہ میں ہندوستان سے سفر کرکے ابھی انگلستان میں ہی مقیم تھے۔تب فن لینڈ کے خلاف روسی جارحیت سے نمٹنے کے لیے فن لینڈ کی درخواست پر لیگ آف نیشنز کی اسمبلی کا اجلاس بلایا گیا۔چودھری صاحب کو وائسرائے ہند کی طرف سے ہدایات موصول ہوئیں کہ آپ اس اجلاس میں ہندوستان کی نمائندگی کریں۔آپ اپنے ساتھ انڈیا آفس کے ایک تجربہ کار عہدیدار کو اپنے سیکرٹری کے طور پر لے گئے۔ نیز ہندوستان سے آپ کے ساتھ جوایک سیکرٹری آیا تھا وہ بھی شامل ہوگیا اور یوں ایک مکمل وفد بن گیا، اور حضرت چودھری صاحبؓ لیگ آف نیشنز کی اسمبلی جانے والے وفد کے سربراہ بن گئے اور وفد جنیوا پہنچ گیا…تب وائسرائے ہند کی طرف سے حضرت چودھری صاحب کو کہا گیاتھا کہ روس اور فن لینڈ کے مابین جنگ پر حالات واضح ہیں۔ ہم سب کی ہمدردی فن لینڈ کے ساتھ ہے۔ اس لیے وہاں پہنچ کر دیکھ لینا کہ کس نوع کی کارروائی مناسب ہوگی۔ اگر ضرورت سمجھو تو ہم سے مشورہ کر لینا، وفد کے قائد تم خود ہی ہوگے…۔
حضرت چودھری صاحب تحدیث نعمت میں اپنے اس سفر اور شرکاء سفر کاذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:’’ لیگ کی کونسل نے فن لینڈ کے احتجاج پر غور کرنےکے بعد سفارش کی کہ روس کو لیگ کی رکنیت سے خارج کردیا جائے۔ معاملہ اسمبلی میں آیا۔ اسمبلی میں اکثر تقریریں کونسل کی تجویز کی تائید میں ہی ہوئیں لیکن سب دبے دبے الفاظ میں۔ اس کی وجہ روس کا احترام یا روس کی طرف سے کسی کارروائی کا اندیشہ بھی تھا۔ یورپ کے سب ممالک ہٹلر سے خائف تھے اور ایسا کوئی کلمہ منہ سے نہیں نکالنا چاہتے تھے جس کے ہٹلر کی طبع نازک پر گراں گزرنے کا احتمال ہو۔ میں اس کیفیت کو دیکھ کر حیران ہوا اور کچھ دق بھی ہوا۔ اور میں نے مسٹر بٹلر سے کہا کہ میں تو صاف صاف بات کروں گا۔ انہوں نے فرمایا خدا کے لیے ضرور کرنا کیونکہ ہماری تو ہمت نہیں پڑتی۔
For heaven‘s sake, do. For we dare not.
چنانچہ جب میری باری آئی تو میں نے پہلے فن لینڈ اور روس کا سیاسی،معاشی اور ثقافتی موازنہ کیا۔ پھر روس کی بلاوجہ اور سراسر زیادتی کا تذکرہ کیا اور کونسل کی تجویز کی پرزور تائید کی اور آخر میں کہا صاحبان اس مسئلے پر لازم ہے کہ آپ سب یکجہتی اور اتفاق کے ساتھ ہر قسم کے ظلم اور زیادتی کے خلاف آواز اٹھائیں اور مناسب اقدامات کریں۔ اگر آپ سب مل کر ایسا نہیں کریں گے تو آپ کو ایک ایک کر کے کچل دیا جائے گا اور تہذیب اور اخلاق کی شمع صدیوں کے لیے گل ہو جائے گی۔
معلوم ہوتا ہے کہ اسمبلی کے صدر مسٹر ہیبمرو،جو ناروے کے نمائندہ تھے میری بے باکانہ جرأت سے خوفزدہ ہو رہے تھے۔ مجھے روک تو نہیں سکتے تھے۔لیکن جب میری تقریر ختم ہوئی تو انہوں نے ترجمان سے کہا قواعد کے تحت ساری تقریر کا ترجمہ کرنا لازم نہیں۔ صرف خلاصہ بیان کر دینا کافی ہے۔ کونسل کی تجویز منظور ہوئی اور روس لیگ آف نیشنز کی رکنیت سے خارج کر دیا گیا۔
سرآغا خان نے بعد میں مجھے بتایا کہ سوئٹزرلینڈ کے نمائندے نے ان سے کہا کہ سارے اجلاس میں کام کی تقریر ہندوستان کے نمائندہ ہی کی تھی…‘‘(تحدیث نعمت، صفحہ ۵۱۳۔۵۱۴)
الغرض لیگ آف نیشنز کا آخری اجلاس ۱۸؍اپریل ۱۹۴۶ء کو ہوا جس میں ۳۴ نمائندہ ممالک نے شرکت کی اور اس کے ساتھ ہی صرف ۲۶ سال قائم رہنے والی اس تنظیم کا متنازع حیثیت میں ۲۰؍اپریل ۱۹۴۶ء کو خاتمہ ہو گیا۔ اس دوران ۱۹۴۵ء کے وسط میں جنگ عظیم دوم کا اپنی تباہ کاریوں مع جاپان پر دو ایٹم بم گرنے کے ساتھ اختتام ہو جانے کے بعد اقوام متحدہ کے نام کے ساتھ ایک نئی بین الا قوامی تنظیم کا قیام عمل میں آ چکا تھا۔
جماعت احمدیہ کی طرف سے خامیوں کی نشاندہی
ایسا نہیں ہے کہ لیگ آف نیشنز کی بعض خامیوں اور طاقت کے عدم توازن پر کسی نے توجہ نہیں دی، یہ جماعت احمدیہ ہی تھی، جس نے اسی آغاز کے دور میں ان خطرات کو بھانپ کر اصلاح احوال کی طرف توجہ کی۔ بطور مثال بتاتے ہیں کہ جب ۱۹۲۴ء میں جماعت احمدیہ کے دوسرے امام حضرت خلیفة المسیح الثانی، المصلح الموعود رضی اللہ عنہ اپنے تاریخی سفر یورپ پر نکلے تو سلطنت برطانیہ کے رکن ممالک کی عظیم الشان کانفرنس میں جو آپؓ نے معرکہ آرا خطاب فرمایا اس میں بھی لیگ آف نیشنز کے حوالہ سے دنیا بھر کے قابل ذکر افراد کے سامنے نکتہ خیال رکھا۔اور لیگ آف نیشنز کے سامنے درست اسلامی تعلیم کھول کر رکھی۔ اپنے اسی خطاب میں آپ نے اعلان عام فرمایا:’’چونکہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے صرف روحانی خلافت دے کربھیجا تھا اس لئے آئندہ جہاں تک ہوسکے آپ کی خلافت اس وقت بھی جب کہ بادشاہتیں اس مذہب میں داخل ہوں گی، سیاسیات سے بالا رہنا چاہتی ہے۔ وہ لیگ آف نیشنز کا اصلی کام سرانجام دے گی اور مختلف ممالک کے نمائندوں سے مل کر ملکی تعلقات کو درست رکھنے کی کوشش کرے گی……‘‘(احمدیت، یعنی حقیقی اسلام۔انوارالعلوم، جلد نمبر۸ صفحہ۲۹۵)اسی طرح اسی دورہ کے دوران ۱۱؍ستمبر کو ’’قیام امن کے مسئلہ پر لیگ آف نیشنز کے شعبہ مذہب و اخلاق کے سیکرٹری مسٹر ایل سن اور مسٹر رین سے تفصیلی گفتگو فرمائی اور حکیمانہ انداز میں بتایا کہ جب تک اسلامی اصولوں پر لیگ آف نیشنز کی بنیاد قائم نہیں ہوگی یہ اپنے مقاصد میں ہرگز کامیاب نہیں ہوسکتی۔ ‘‘(تاریخ احمدیت۔ جلد چہارم۔ صفحہ ۵۴۰)
اس ملاقات کا احوال حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب نے اپنی رپورٹ میں یوں درج کیا ہے:’’…پانچ بجے کے بعد لیگ آف نیشن،ریلیجن اینڈ ایتھکس برانچ کے سیکرٹری مسٹر ایلی سن اور مسٹر رین ملاقات کے لیے آئے اور آپ نے ان کے سوالات کا جواب دیا۔
میں شہزادۂ امن کا خلیفہ ہوں
مسٹر ایلی سن نے مزاج پر سی کے بعد سوال کیا کہ ہز ہولی نس ہماری کس طرح مدد کر سکتے ہیں؟
فرمایا: مجھے ہر ایک ایسی تحریک سے جو دنیا میں بحالی امن کے واسطے کی جائے،ہمدردی ہے۔ کیونکہ سلسلہ احمدیہ کے بانی کا ایک نام خدا نے شہزادۂ امن بھی رکھا ہے۔ جس مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو مبعوث کیا ہے میرا فرض ہے کہ اس مقصد کی تکمیل کے لیے میں کوشش کروں کیونکہ میں اس شہزادۂ امن کا خلیفہ ہوں۔ قرآن کریم کی بعض تعلیمات دور آخر کے نبی کے زمانہ میں پورے ہونے والی ہیں۔ اور ان کی عملی اشاعت اس عہد سے وابستہ ہے۔ان میں سے ایک اشاعت امن بھی ہے۔ مذہب کی اشاعت تلوار سے ممنوع ہے۔ ہمارے سلسلہ کی تعلیم سے دنیا کو امن کی اشاعت میں بہت مدد ملی ہے اور فائدہ ہوا ہے۔ چنانچہ ہندوستان کی سرحد پر قیام امن کے متعلق خود برطانوی عمالِ حکومت نے اقرار کیا ہے کہ سلسلہ احمدیہ کی تعلیم سے بہت کچھ فائدہ ہوا ہے۔
ہم مذہب کی اشاعت کے لیے تلوار اور جنگ کے قائل نہیں اور مذہب کی اشاعت کے لیے تلوار کا جہاد جسے مسلمان غلطی سے اپنا آخری آلہ سمجھتے ہیں، ہمارے سلسلہ میں ممنوع ہے۔ یہ اسلام کی تعلیم ہے۔ اس کا اجراء اور اشاعت ہمارے سلسلہ کے بانی کے ذریعے ہوئی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہمیں ہندوستان اور مسلمانوں کے دوسرے ممالک میں اس تعلیم کی اشاعت و اظہار کی وجہ سے اذیت پہنچتی ہے۔ چنانچہ افغانستان کی رعایااور افغانستان کی حکومت نے ہمارے آدمیوں کو شہید کر دیا ہے۔ ابھی حال ہی میں ۳۱؍اگست ۱۹۲۴ء کو ہمارے ایک مبلغ کو سنگسار کر کے شہید کیا ہے۔ مگر باوجود ان تمام تکالیف اور اذیتوں کے میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ بانی سلسلہ نے جو عالمگیر امن کی بنیاد رکھی ہے، اسے مکمل کروں اور اس مقصد کے لیے میں ہر ممکن مدد دینے کے لیے تیار ہوں اور ہر قربانی کے لیے آمادہ۔‘‘
اس کے بعد رپورٹ میں حضرت شیخ صاحب نے اس موقع پر مسٹر رین نے مذہبی رواداری کے متعلق ایک سوال کیا جس کا حضور رضی اللہ عنہ نے تفصیلی جواب عنایت فرمایا۔مزید رپورٹ کرتے ہوئے لکھا:
قیام امن میں امداد
’’مسٹر ایلی سن نے سوال کیا کہ ہم ہندوستان میں ایک شاخ قائم کرنا چاہتے ہیں کیا آپ ہمیں مدد دیں گے ؟ مسز بیسنٹ نے بھی مدد کا وعدہ کیا ہے۔
فرمایا: مسز بیسنٹ پولیٹکس میں دخل دیتی ہیں۔ اس لیے ان کی امداد لیگ آف نیشنز کے لیے زیادہ مفید نہیں ہوگی۔ ہم ہر قسم کی مدد دینے کے لیے تیار ہیں۔ اور ہم اس پاک مقصد کے لیے ایسے لوگوں کے ساتھ بھی کوآپریٹ کریں گے جو ہمارے مخالف ہیں۔ البتہ یہ شرط ہوگی کہ ہم کسی مذہبی اصول کی بنا ءپر شمولیت سے مجبور نہ ہو جائیں۔
میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ لیگ ابھی تک ایک کامل اوزار امن کے لیے نہیں ہے۔ کیونکہ دو صورتوں سے امن قائم ہو سکتا ہے۔ اول دلوں میں تبدیلی ہو۔ اگر دلوں میں تبدیلی پیدا ہو جائے تو پھر لیگ کی ضرورت نہیں۔ دوم طاقت سے۔ اور اس طاقت سے میرا یہ مطلب نہیں کہ لیگ ایک فوج رکھے۔ اس صورت میں لیگ خود ایک فریق بن جائے گی۔بلکہ میرا مطلب یہ ہے کہ جو قوم نقض امن کرے۔ باقی تمام اقوام اس کے خلاف اخلاقی طاقت کا استعمال کریں اور جب وہ مغلوب ہو جائے تو صلح کے وقت صرف اسی امر کو جو باعث تنازعہ تھا،منوا دیا جاوے۔دوسری باتوں کو مغلوب سمجھ کر پیش نہ کیا جائے۔ جیسا کہ عہد نامہ ورسیلز میں کیا گیا۔ مسٹر ایلی سن نے دریافت کیا کہ جناب کو اپنی کوششوں سے ہم کس طرح واقف رکھیں۔ فرمایا: ہمارے مقامی قائم مقام کے ذریعے جو لندن میں مولوی عبدالرحیم درد ایم اے ہوں گے۔‘‘(الفضل، قادیان، ۱۴؍اکتوبر ۱۹۲۴، صفحہ ۳۔۴)
جماعت احمدیہ کی طرف سے لیگ آف نیشنز سے ۱۹۲۴ءمیں کابل میں احمدیوں کی محض عقیدہ کی بناپر ہونے والی دردناک شہادت پر آواز اٹھانے کا مطالبہ کیا گیاتھا۔ جس پربرصغیر کے معاصر اخبارات نے بھی جماعت احمدیہ کو اس مطالبہ پر حق بجانب قرار دیا تھا۔ کیونکہ رکن ممالک کے افراد کے مذہبی حقوق کی حفاظت بھی اہم ترین امور میں سے ہے۔(الفضل۔ ۵؍مارچ ۱۹۲۵۔ صفحہ ۶)
حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ لیگ آف نیشنز سمیت امن عالم کے قائم اور برقرار رکھنے کی ہر کاوش کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے لیکن کسی کی صریح غلطیوں پر نشاندہی کرکے اس شخص یا ادارے کو ناکامی سے روکنا بھی تو ایک خاص نیکی ہوا کرتی ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اپنی تفسیر کبیر میں سورة الکوثر کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’…غیر قوم حکومتوں کے ساتھ جو تعلقات ہوتے ہیں ان کے متعلق بھی اسلام نے ایسے قوانین مقرر کیے ہیں، جن کا کوئی مذہب مقابلہ نہیں کر سکتا۔ مثلاً اسلام نے حکومتوں کے آپس کے اختلافات کو دُور کرنے کے لیے بعض اہم اصول تجویز کیے ہیں، جو اتنے مکمل ہیں کہ ان کا مقابلہ نہ پہلی لیگ آف نیشنز کر سکتی تھی اور نہ اب جو یونائٹڈ نیشنز کی انجمن بنی ہے یہ اس کا مقابلہ کر سکتی ہے۔ کیونکہ قرآن کریم کے مقرر کردہ اصولوں کو نہ پوری طرح اس پہلی انجمن نے اخذ کیا اور نہ موجودہ انجمن ان کو اختیار کر رہی ہے۔(اس کا تفصیلی ذکر میں نے اپنی کتاب ’’احمدیت‘‘میں کیا ہے )قرآن مجید میں آتا ہے یعنی جب دو قومیں آپس میں لڑ پڑیں تو دوسری حکومتوں کو چاہیے کہ وہ ان دونوں پر دباؤ ڈالیں اور ان کے آپس کے اختلافات کو دُور کریں۔اور اگر فیصلہ ہو جانے کے بعد دونوں میں سے کوئی قوم اس فیصلہ کو ماننے سے انکار کر دے اور دوسری قوم پر حملہ کر دے تو پھر سب حکومتوں کو چاہیے کہ وہ متحد طور پراس پر لشکر کشی کریں تاکہ وہ لڑائی سے رک جائے۔اور اس فیصلہ کو تسلیم کر لے جو مختلف اقوام کے نمائندوں نے کیا ہے۔اور اگر وہ اپنی غلطی کو تسلیم کر کے لڑائی چھوڑ دے تو صلح کرانے والی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ اپنا پہلا فیصلہ ہی نافذ کریں۔ دوسری حکومت سے کوئی ناجائز فائدہ نہ اٹھائیں۔ اور اس کو لُوٹنے کی کوشش نہ کریں۔ یہی کافی ہے کہ دنیا میں امن قائم ہو گیا۔
جب لیگ آف نیشنز قائم ہوئی، ان دنوں میں انگلستان گیا ہوا تھا۔ میں نے اسی وقت کہہ دیا تھا کہ یہ کبھی کامیاب نہیں ہوگی۔کیونکہ قرآن کریم نے یہ شرط رکھی ہے کہ جب دو قوموں میں اختلاف ہو جائے تو ان میں سے کوئی تمہارا فیصلہ نہ مانے تو باقی سب حکومتیں اس پر مل کر لشکر کشی کردیں۔ لیکن لیگ آف نیشنز میں اس قسم کی لشکر کشی کی کوئی صورت نہیں رکھی گئی اور اب یونائیٹڈ نیشنز کی انجمن بنی ہے، اس کے متعلق بھی میں وہی کچھ کہتا ہوں کہ یہ بھی کبھی کامیاب نہیں ہوگی جب تک کہ وہ اپنے قواعد نہ بدلے۔کیونکہ اس میں بھی وہ شرائط پورے طور پر نہیں پائی جاتیں جو اسلام نے تجویز کی ہیں…۔‘‘(تفسیر کبیر جلد دہم۔ صفحہ ۳۱۳-۳۱۲)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی اتّباع میں آپؓ کے بھیجے گئے مبلغین بھی اپنے اپنے دائرہ اثر میں لیگ آف نیشنز اور اقوام متحدہ کی بعض خامیوں کی نشاندہی کرتے رہے۔ نہایت اعتماد سے دنیا کے بڑے بڑے ایوانوں تک پیغام حق پہنچایا۔مثلاً جماعت کے ایک فاضل مبلغ محترم مولانا محمد صدیق امرتسری، واقف زندگی سابق مبلغ متفرق ممالک، اپنی نہایت قیمتی تصنیف ’’روح پرور یادیں‘‘میں ایک جگہ ’’اقوام متحدہ کی ایک واضح خامی کی نشاندہی ‘‘کے عنوان سے تحریر فرماتے ہیں:’’دسمبر ۱۹۵۹ء میں اقوام متحدہ کے نامور سیکرٹری جنرل ڈیگ ہیمر شولڈ افریقن ممالک کا سرکاری دورہ کرتے ہوئے سب سے پہلے لائبیریاکے دارالحکومت منروویا تشریف لائے۔ اور تین دن قیام کرکے لائبیریاکے سیاسی ثقافتی اور عام ملکی حالات کا مطالعہ کرتے رہے۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خاکسار نے ۲۳؍دسمبر ۱۹۵۹ء کو بحیثیت مبلغ انچارج احمدیہ مشن لائبیریاان سے ملاقات کرکے ان کی خدمت میں قرآن کریم انگریزی کی ایک کاپی، نیز ٹیچنگ آف اسلام، احمدیت، لائف آف محمدؐ اور ہمارے بیرونی مشن وغیرہ کتب دستی طور پر انہیں پیش کیں۔ ساتھ ہی ایک ٹائپ شدہ خیر مقدم ایڈریس بھی انہیں دیا۔ جس کے بعض حصے انہوں نے اسی وقت پڑھ کر ہمارا شکریہ ادا کیا۔‘‘
اقوام متحدہ جیسے ادارے کے سربراہ سے نہایت جرأت سے مخاطب ہوکر اس احمدی مبلغ نے اقوام متحدہ کی خامی بتاتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی بیان فرمودہ سورۃ الحجرات کی آیت ۱۰ کی تفسیر کوبھی بنیاد بنایا ہوگا۔اس آیت کابامحاورہ ترجمہ درج کرکے نیچےنوٹ میں حضورؓ فرماتے ہیں:’’اس آیت میں یو این او کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ افسوس لیگ آف نیشنز نے اس پر پورا عمل نہ کیا اور ناکام رہی۔
یواین او بھی بزدلی دکھارہی ہے اور ناکامی کے آثار ہیں۔ جب تک پوری طرح اس آیت میں بتائی ہوئی شرائط پر یو این او عمل نہ کرے گی۔ کامیاب نہ ہوگی۔‘‘(تفسیر صغیر،زیر آیت مذکورہ بالا۔ صفحہ ۸۵۹، فٹ نوٹ نمبر ۱)اس احمدی مبلغ کی طرف سے پیش کردہ اس قیمتی ایڈریس کا اردو مفہوم اور اس کے جواب میں اقوام متحدہ کے ایگزیکٹو آفس آف جنرل سیکرٹری سے ان کے پرسنل سیکرٹری Wachmeister کا شکریہ کا خط ’’روح پرور یادیں‘‘ کے صفحہ ۵۳۴ سے ۵۳۸ پر ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ جس میں پرسنل سیکرٹری نے لکھا کہ ’’جنرل سیکرٹری اقوام متحدہ کے متعلق قرآن کریم کے پیش کردہ اصولوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اورآپ کے مشن اور جماعت کے لئے نیک تمناؤں کا اظہار کرتے ہیں۔‘‘
مزید آگے بڑھیں تو ملتا ہے کہ ۱۲؍اکتوبر ۱۹۵۱ء کو مجلس خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع منعقدہ ربوہ، پاکستان سے افتتاحی خطاب کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے احمدی نوجوانوں کو قرآن کریم کی تلاوت اور اس پر غور کرنے کی طرف خصوصیت سے توجہ دینے کی طرف بلایا، اور بتایا کہ قرآن کریم کے ساتھ تعلق قائم کیے بغیر کبھی بھی اخلاق صحیحہ پیدا نہیں ہوسکتے۔ اور جب تک اخلاق صحیحہ پیدا نہ ہوں اُس وقت تک دنیا میں ہرگز روحانی تغیر نمودار نہیں ہوسکتا جو دنیا کے تمام مصائب کا واحد حل ہے۔ اسی تسلسل میں آپؓ نے فرمایا:’’آج بھی قرآن مجید دنیا کی تمام ضروریات کو پورا کرسکتا ہے۔ دنیا نے امن کےقیام کے لئے کتنی کوششیں کیں۔ کبھی لیگ آف نیشنز بنی، اور کبھی یونائیٹڈ نیشنز۔ لیکن وہ ناکام ثابت ہورہی ہیں۔ اس لئے کہ ان کی کوششوں کی بنیاد روحانیت پر نہیں رکھی گئی۔ اور ان میں اپنے اپنے مفاد اور حق کو مقدم رکھا جاتا ہے۔ دراصل دنیا کے مصائب کاحل اخلاق صحیحہ کے قیام پر مبنی ہے۔ اور اخلاق صحیحہ دنیاوی کوششوں سے نہیں بلکہ قرآن مجید ہی کی بتائی ہوئی تعلیم سے قائم ہوسکتے ہیں…‘‘(روزنامہ الفضل، لاہور۔ ۱۶؍کتوبر ۱۹۵۱ء، صفحہ ۲)
سفیر امن کی امنِ عالم کے لیے مساعی
الغرض لیگ آف نیشنز کے بعد اقوام متحدہ نے بھی اسی ڈھلوان کا سفر جاری رکھا، جس کا اگلا مرحلہ ہر کس وناکس کو معلوم ہی ہے۔ لیکن یہ نہیں کہ جماعت احمدیہ کی طرف سے اقوام متحدہ کو خواب غفلت سے بیدار کرنے اور درست راہ کی طرف راہنمائی کرنے کا سلسلہ رک گیا، ہرگز ایسا نہیں ہے۔
بطور مثال بتاتے ہیں کہ مورخہ ۲۲؍مئی ۲۰۲۱ء کو امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ پہلی مرتبہ گیمبیا کے ۱۵؍صحافیوں کی پریس کانفرنس منعقد ہوئی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس کانفرنس کی صدارت اپنے دفتر اسلام آباد (Tilford) سے فرمائی جبکہ میڈیا ممبران نے آن لائن، ایم ٹی اے سٹوڈیو گیمبیا (بانجل) سے شرکت کی۔۵۵ منٹ جاری رہنے والی اس میٹنگ میں صحافیوں کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے سوالات پوچھنے کا موقع ملا جن میں مشرقِ وسطیٰ میں برپا ہونے والے حالیہ مظالم اور تشددکے واقعات، مسلمان ممالک میں اتحاد کی کمی اور عالمی امن کے قیام کے متعلق سوالات شامل تھے۔
اس ملاقات کے دوران عالمی امور پر بات کرتے ہوئے حضور انور نے فرمایا:’’جہاں تک عالمگیر معاملات کا تعلق ہے جب تک انصاف نہ ہوگا، امن قائم نہیں ہو سکتا۔ اگر آپ کے دوہرے معیار ہوں گے جیساکہ ہم آج کی دنیا میں دیکھتے ہیں، جن کا مظاہرہ بڑی طاقتوں سے ہوتاہے تو پھر وہ دنیا میں امن کو قائم نہیں کر سکتے۔ لیگ آف نیشنز کے قیام کے بعد بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ لیگ آف نیشنز کا قیام اس غرض سے کیا گیا تھا کہ ہر ملک کو مساوی حقوق اور انصاف مل سکے۔ مگر وہ ناکام ہوگئی اور اس کا خمیازہ دوسری جنگ عظیم کی صورت میں بھگتنا پڑا۔‘‘
آج کے دور میں اقوام متحدہ کی کارکردگی کا موازنہ لیگ آف نیشنز کی ناکامی سے کرتے ہوئے حضورِ انور نے فرمایا:’’یہی حالات آج اقوام متحدہ کے بھی ہیں۔ وہ انصاف سے کام نہیں لے رہے۔ غریب اور امیر کے لیے ان کے دوہرے معیار ہیں یعنی مغربی ممالک اور افریقی اور ایشیائی ممالک کے لیے، اور یہی وجہ ہے کہ ہم آج دنیا میں بد امنی دیکھ رہے ہیں۔ پس انصاف کے بغیر قیام امن ناممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے اور حضرت محمدﷺ نے فرمایا ہے کہ تمہیں مقامی سطح پر بھی، گھروں میں بھی اور بین الاقوامی سطح پر بھی انصاف کو قائم کرنا ہوگا۔ تب ہی معاشرے میں امن دیکھ سکتے ہو۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل، ۱۵؍جون ۲۰۲۱ء)
اسی راہنمائی اور فکرمندی کی تازہ ترین مثال وہ خطبہ جمعہ ہے، جس میں جماعت احمدیہ کے پانچویں امام حضرت خلیفةالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے حماس اور اسرائیلی حکومت کی باہمی جنگ میں مظلوم فلسطینیوں کے لیے دعا کی مکررتحریک کرتے ہوئے فرمایا:’’یہ لوگ جس کی لاٹھی اس کی بھینس پر عمل کرتے ہیں۔ جن کے ہاتھ میں دنیا کی معیشت ہے ان کے آگے ہی انہوں نے جھکنا ہے۔ اگر جائزہ لیا جائے تو لگتا ہے کہ بڑی طاقتیں جنگ بھڑکانے پر تُلی ہوئی ہیں بجائے اس کو ٹھنڈا کرنے کے۔ یہ لوگ جنگ ختم کرنا نہیں چاہتے۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد جنگوں کے خاتمے کے لیے بڑی طاقتوں نے لیگ آف نیشنز بنائی لیکن انصاف کے تقاضے پورے نہ کرنے اور اپنی برتری قائم رکھنے کی وجہ سے یہ ناکام ہو گئی اور دوسری جنگ عظیم ہوئی اور کہتے ہیں سات کروڑ سے زیادہ جانیں ضائع ہوئیں۔ اب یہی حال یواین (UN)کا ہو رہا ہے۔ بنائی تو اس لیے گئی تھی کہ دنیا میں انصاف قائم کیا جائے گا اور مظلوم کا ساتھ دیا جائے گا۔ جنگوں کے خاتمے کی کوشش کی جائے گی لیکن ان باتوں کا دُور دُور تک پتہ نہیں۔ اپنے مفادات کو ہی ہر کوئی دیکھ رہا ہے۔ اب جو اس بے انصافی کی وجہ سے جنگ ہو گی اس کے نقصان کا تصور ہی عام آدمی نہیں کر سکتا اور یہ سب بڑی طاقتوں کو پتہ ہے کہ کتنا شدید نقصان ہو گا لیکن پھر بھی انصاف قائم کرنے پر کوئی توجہ نہیں ہے اور توجہ دینے پر کوئی تیار بھی نہیں ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۳؍اکتوبر ۲۰۲۳ء)
اقوامِ متحدہ کو تشکیل دیتے ہوئے اس کے چارٹر میں اس کا جو بنیادی مقصد بیان کیا گیا تھا وہ تھا ’آنے والی نسلی کو جنگ کی لعنت سے محفوظ رکھنا۔‘مگر اقوام متحدہ کے قیام سے لے کر اب تک گذشتہ پون صدی میں ڈھائی سو سے زیادہ جنگیں ہو چکی ہیں۔ جن میں سے دو بڑے محاذ اس وقت بھی اپنی حدّت سے ساری دنیاکو متاثر کررہے ہیں۔اور ان شعلوں کے بےقابو ہونے کے خدشات کا اظہار ہر طرف سے ہونے لگا ہے۔ اگر پہلی لیگ کو اپنے منشور کی بعض خامیوں نے ناکام کیا تو موجودہ اقوام متحدہ کو ویٹو پاور جیسے عجیب قاعدہ نے عجیب مخمصے میں لا کھڑا کیاہے۔ اور بادی النظر میں چند ملکوں کو حاصل یہ ویٹو کا حق مغربی دنیا میں رائج نظام جمہوریت سے صریح متصادم بھی تو ہے جہاں ساری دنیاایک طرف ہوتی ہے اور ویٹو پاور کا حامل کوئی ایک ملک دوسری طرف۔
پس خدا کے مقرر کردہ خلیفہ وقت کے مذکورہ بالا اس قدر واضح پیغام اور انذار کے بعد آخر پر ہم کہتے ہیں کہ اقوام متحدہ کے دوسرے سیکرٹری جنرلڈیگ ہیمرسکولڈ (Dag Hammarskjöld) نے ایک موقعہ پر کہا تھا کہ اقوام متحدہ ’’انسانیت کو جنت میں لے جانے کے لیے نہیں، بلکہ انسانیت کو جہنم سے بچانے کے لیے قائم کی گئی ہے۔‘‘
اور آج صورت حال یوں ہے کہ اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک کی عین ناک کے نیچے لاکھوں معصوموں کی زندگی کو جہنم بنادیا گیا ہے۔ یادرہے کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: اَنَّہٗ مَنۡ قَتَلَ نَفۡسًۢا بِغَیۡرِ نَفۡسٍ اَوۡ فَسَادٍ فِی الۡاَرۡضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیۡعًا (سورہ المائدہ آیت ۳۳)’’جس نے بھی کسی ایسے نفس کو قتل کیا جس نے کسی دوسرے کی جان نہ لی ہو یا زمین میں فساد نہ پھیلایا ہو تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا۔‘‘ (ترجمہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ)
خدا کا کلام بہت ہی لطیف اور غیر معمولی ہے، اس آیت کی روشنی میں وہ تمام حرماں نصیب جو غزہ میں یا روئے زمین پر کسی بھی ظالم کے ہاتھوں ناحق خون میں نہلائے گئے، ان کے لیے تو آج کی ساری انسانی برادری ہی اپنی طاقت و حیثیت میں مردہ کے برابر ٹھہرگئی اور جنگ کا ایندھن بننے والے ہر بچے بوڑھے کے تصور میں جو بھی تصویر کائنات تھی، اس مظلوم کے آنکھیں موندھنے اور مٹی اوڑھنے کے ساتھ ہی وہ تمام نقشہ رُوزگار مٹ گیا۔
اس آیت پر مزید غور کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ آج دنیا کے مشرق و مغرب کے باسی اپنی نادانی میں سمجھ رہے ہیں کہ بربادی اور جنگ کی چکی میں تو بس فلسطین اور یوکرائن والے ہی پس رہے ہیں، اور دنیا کے دوسرے ممالک میں تو سب لوگ آرام و راحت سے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ زندگی کے سب لطف اٹھا رہے ہیں۔ ایسے تمام افکار اور ان کے حامل لوگ سخت غلطی پر ہیں۔ کیونکہ آج دنیا کی دوسری تمام اقوام اور امصار صرف اس وجہ سے امن میں ہیں کہ دست قاتل ابھی وہاں تک پہنچا ہی نہیں۔ ورنہ جس نے ایک غزہ کو خون میں نہلادیا، اس کو اگر ضرورت پڑی تو وہ کسی دوسرے شہرو قریہ کو ملیا میٹ کرنے سے کہاں باز رہنے والا ہوگا۔کیونکہ انسانی جان کی حرمت یکساں ہے، اور آج کی دنیا میں ظالم کا ہاتھ روکنے والا کوئی بچا ہی نہیں۔ سوائے خدا کے۔ اور اسی خداکے سامنے دنیا بھر کے احمدی مردو زن اپنے محبوب آقا و مطاع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی آواز پر سربسجود ہیں۔ وہ ضرور اپنے پیارے کی فریادوں کو سنے گا۔ اور ظالم کا ہاتھ کاٹے گا۔ ان شاء اللہ