خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب فرمودہ ۱۰؍ فروری ۲۰۲۳ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے) یوکے)
سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے خطبہ کے عنوان کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب:فرمایا: گذشتہ خطبےمیں حضرت مسیح موعود ؑکے ارشادات قرآن کریم کی عظمت اور اہمیت کے بارے میں بیان کر رہا تھا۔ آج اس سلسلےمیں مزید کچھ پیش کروں گا۔
سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےخطبہ کےآغازمیں ’’تحفہ قیصریہ‘‘کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:قرآن کریم کے فضائل اوراہمیت کو بیان فرماتے ہوئےاپنی تصنیف تحفہ قیصریہ میں جوملکہ وکٹوریہ کی ڈائمنڈجوبلی کےموقع پرآپؑ نےتصنیف فرمائی تھی۔جس میں ملکہ کواسلام کاپیغام دیاتھااوراسلام کی تبلیغ کی تھی اس میں تحریرکرتے ہوئےآپؑ فرماتے ہیں کہ’’قرآن عمیق حکمتوں سے پُر ہے اور ہر ایک تعلیم میں انجیل کی نسبت حقیقی نیکی کے سکھلانے کے لئے آگے قدم رکھتا ہے۔ بالخصوص سچے اور غیر متغیر خدا کے دیکھنے کا چراغ تو قرآن ہی کے ہاتھ میں ہے۔ اگر وہ دنیا میں نہ آیا ہوتا تو خدا جانے دنیا میں مخلوق پرستی کا عدد کس نمبر تک پہنچ جاتا۔ سو شکر کا مقام ہے کہ خدا کی وحدانیت جو زمین سے گم ہوگئی تھی۔ دوبارہ قائم ہوگئی‘‘۔
سوال نمبر۳:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مخالفین اسلام کی طرف سےکی جانےوالی توہین قرآن کی کیاوجہ بیان فرمائی؟
جواب: فرمایا:اب کون تھا اُس زمانے میں جس نے اتنی جرأت سے قیصرۂ ہند کو اس طرح کا یہ پیغام بھیجا ہو، اسلام کی تبلیغ کی ہو۔آج یہی لوگ جن میں اتنی جرأت نہ تھی کہ اسلام اور قرآنِ کریم کی عظمت بیان کرتے، ہمیں یہ کہتے ہیں کہ نعوذ باللہ حضرت مسیح موعودؑیا جماعتِ احمدیہ قرآن کریم کی توہین کر رہی ہے اور جو غیر مسلم ہیں وہ ان کی حرکتیں دیکھ کر اسلام کی مخالفت میں اس قدر اندھے ہو گئے ہیں کہ قرآنِ کریم کی عظمت کا ردّ تو کرنہیں سکتے اس لیے دل کی تسکین کے لیے قرآنِ کریم کے نسخوں کو جلا کر اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہیں جس طرح سویڈن میں یہ واقعات ہو رہے ہیں۔ سکینڈےنیوین ملکوں میں ہوتے رہے ہیں۔ پچھلے دنوں بھی ہوا۔اگر مسلمان زمانے کے امام کو مان لیں اور قرآنِ کریم کی تعلیم کو سمجھتے ہوئے اس پر عمل کریں تو غیر مسلموں کو کبھی اس طرح قرآن کریم کی توہین کی جرأت نہ ہو۔اللہ تعالیٰ ہی ان لوگوں کو عقل دے۔
سوال نمبر۴:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ’’خدا تعالیٰ کو کس طرح دیکھا جاسکتا ہے‘‘کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:آپؑ فرماتے ہیں ’’قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرو تو اسی جہان میں خدا کو دیکھ لو گے۔وہ خدا جو دنیا کی نظر سے ہزاروں پردوں میں ہے اس کی شناخت کے لئے بجز قرآنی تعلیم کے اَور کوئی بھی ذریعہ نہیں۔ قرآن شریف معقولی رنگ میں اور آسمانی نشانوں کے رنگ میں نہایت سہل اور آسان طریق سے خدائے تعالیٰ کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔‘‘اس کی تعلیم پر عمل کرو گے تو نشانات ایسے ظاہر ہوں گے کہ خدا کے وجود کا پتہ لگ جائے گا۔ اور اس میں ایک برکت اور قوتِ جاذبہ ہے جو خدا کے طالب کو دمبدم خدا کی طرف کھینچتی اور روشنی اور سکینت اوراطمینان بخشتی ہے اور قرآن شریف پر سچا ایمان لانے والا صرف فلسفیوں کی طرح یہ ظن نہیں رکھتا کہ اس پُر حکمت عالم کا بنانے والا کوئی ہونا چاہئے بلکہ وہ ایک ذاتی بصیرت حاصل کرکے اور ایک پاک رؤیت سے مشرف ہوکر یقین کی آنکھ سے دیکھ لیتا ہے کہ فی الواقع وہ صانع موجود ہے اور اس پاک کلام کی روشنی حاصل کرنے والا محض خشک معقولیوں کی طرح یہ گمان نہیں رکھتا کہ خدا واحد لاشریک ہے بلکہ صدہا چمکتے ہوئے نشانوں کے ساتھ جو اس کا ہاتھ پکڑ کر ظلمت سے نکالتے ہیں واقعی طور پر مشاہدہ کرلیتا ہے کہ درحقیقت ذات اور صفات میں خدا کا کوئی بھی شریک نہیں اورنہ صرف اس قدر بلکہ وہ عملی طور پر دنیا کو دکھا دیتا ہے کہ وہ ایساہی خدا کو سمجھتا ہے اوروحدتِ الٰہی کی عظمت ایسی اس کے دل میں سما جاتی ہے کہ وہ الٰہی ارادہ کے آگے تمام دنیا کو ایک مرے ہوئے کیڑے کی طرح بلکہ مطلق لاشے اورسراسر کالعدم سمجھتا ہے۔‘‘
سوال نمبر۵:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ’’قرآن کریم ایک معجزہ ہے‘‘کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:آپؑ فرماتے ہیں:’’معجزہ کی اصل حقیقت یہ ہے کہ معجزہ ایسے امر خارق عادت کو کہتے ہیں کہ فریقِ مخالف اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز آجائے۔خواہ وہ امر بظاہر نظر انسانی طاقتوں کے اندر ہی معلوم ہو جیساکہ قرآنِ شریف کا معجزہ جو ملک عرب کے تمام باشندوں کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔ پس وہ اگرچہ بنظرِ سرسری انسانی طاقتوں کے اندر معلوم ہوتا تھا لیکن اس کی نظیر پیش کرنے سے عرب کے تمام باشندے عاجز آگئے۔ پس معجزہ کی حقیقت سمجھنے کے لئے قرآن شریف کا کلام نہایت روشن مثال ہے کہ بظاہر وہ بھی ایک کلام ہے جیساکہ انسان کا کلام ہوتا ہے لیکن وہ اپنی فصیح تقریر کے لحاظ سے اور نہایت لذیذ اور مصفیٰ اور رنگین عبارت کے لحاظ سے جو ہر جگہ حق اور حکمت کی پابندی کا التزام رکھتی ہے اور نیز روشن دلائل کے لحاظ سے جو تمام دنیا کے مخالفانہ دلائل پر غالب آگئیں اور نیز زبردست پیشگوئیوں کے لحاظ سے ایک ایسا لاجواب معجزہ ہے جو باوجود گذرنے تیرہ سو برس کے اب تک کوئی مخالف اس کا مقابلہ نہیں کرسکا اور نہ کسی کو طاقت ہے جو کرے۔ قرآن شریف کو تمام دنیا کی کتابوں سے یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ معجزانہ پیشگوئیوں کو بھی معجزانہ عبارات میں جو اعلیٰ درجہ کی بلاغت اور فصاحت سے پُر اور حق اور حکمت سے بھری ہوئی ہیں بیان فرماتا ہے۔ غرض اصلی اور بھاری مقصد معجزہ سے حق اور باطل یا صادق اور کاذب میں ایک امتیاز دکھلانا ہے اور ایسے امتیازی امر کا نام معجزہ یا دوسرے لفظوں میں نشان ہے۔ نشان ایک ایسا ضروری امر ہے کہ اس کے بغیر خدائے تعالیٰ کے وجود پر بھی پورا یقین کرنا ممکن نہیں اور نہ وہ ثمرہ حاصل ہونا ممکن ہے کہ جو پورے یقین سے حاصل ہوسکتا ہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ مذہب کی اصلی سچائی خدا تعالیٰ کی ہستی کی شناخت سے وابستہ ہے۔ ‘‘
سوال نمبر۶:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے ’’قرآن کریم متقیوں کے لیے ہدایت ہے‘‘کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:حضرت مسیح موعودؑ اس بارے میں فرماتے ہیں کہ’’ان آیات میں جو معرفت کا نکتہ مخفی ہے وہ یہ ہے کہ …خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ الٓم۔ ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَیبَ فِیهِ هُدًی لِّلْمُتَّقِینَ (البقرة:۲-۳)یعنی یہ وہ کتاب ہے جو خدا تعالیٰ کے علم سے ظہور پذیر ہوئی ہے اور چونکہ اس کا علم جہل اور نسیان سے پاک ہے۔اس لئے یہ کتاب ہر ایک شک و شبہ سے خالی ہے اور چونکہ خدا تعالیٰ کا علم انسانوں کی تکمیل کے لئے اپنے اندر ایک کامل طاقت رکھتا ہے اس لئے یہ کتاب متقین کے لئے ایک کامل ہدایت ہے۔ اور ان کو اس مقام تک پہنچاتی ہے جو انسانی فطرت کی ترقیات کے لئے آخری مقام ہے۔ اور‘‘ پھر اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ متقی کون ہیں جن کو ہدایت فرماتا ہے،فرماتے ہیں: ’’خدا ان آیات میں فرماتا ہے کہ متقی وہ ہیں کہ جو پوشیدہ خدا پر ایمان لاتے ہیں اور نماز کو قائم کرتے ہیں اور اپنے مالوں میں سے کچھ خدا کی راہ میں دیتے ہیں اور قرآن شریف اور پہلی کتابوں پر ایمان لاتے ہیں وہی ہدایت کے سر پر ہیں اور وہی نجات پائیں گے۔‘‘
سوال نمبر۷:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے’’قرآن کریم تعلق باللہ کا ذریعہ ہے‘‘کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:آپؑ فرماتے ہیں’’یاد رہے کہ انسان اُس خدائے غیب الغیب کو ہر گز اپنی قوت سے شناخت نہیں کر سکتا جب تک وہ خود اپنے تئیں اپنے نشانوں سے شناخت نہ کراوے اور خدا تعالیٰ سے سچا تعلق ہر گز پیدا نہیں ہو سکتا جب تک وہ تعلق خاص خدا تعالیٰ کے ذریعہ سے پیدا نہ ہو اور نفسانی آلائشیں ہر گز نفس میں سے نکل نہیں سکتیں جب تک خدائے قادر کی طرف سے ایک روشنی دل میں داخل نہ ہو اور دیکھو کہ میں اس شہادتِ رویت کو پیش کرتا ہوں کہ وہ تعلق محض قرآن کریم کی پیروی سے حاصل ہوتا ہے دوسری کتابوں میں اب کوئی زندگی کی روح نہیں اور آسمان کے نیچے صرف ایک ہی کتاب ہے جو اس محبوب حقیقی کا چہرہ دکھلاتی ہے یعنی قرآن شریف۔پس قرآن کريم کے حکموں پر عمل کرنے سے خدا تعالیٰ کا چہرہ ديکھا جا سکتا ہے۔
سوال نمبر۸: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے’’قرآن کریم کے قصّے دراصل پیشگوئیاں ہیں ‘‘کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:آپؑ فرماتے ہیں:’’جس قدر قرآن شریف میں قصے ہیں وہ بھی درحقیقت قصے نہیں بلکہ وہ پیشگوئیاں ہیں جو قصوں کے رنگ میں لکھی گئی ہیں۔ ہاں وہ توریت میں تو ضرور صرف قصے پائے جاتے ہیں مگر قرآن شریف نے ہر ایک قصہ کو رسول کریم کے لئے اور اسلام کے لئے ایک پیشگوئی قرار دے دیا ہے اور یہ قصوں کی پیشگوئیاں بھی کمال صفائی سے پوری ہوئی ہیں۔ غرض قرآن شریف معارف و حقائق کا ایک دریا ہے اور پیشگوئیوں کا ایک سمندر ہے اور ممکن نہیں کہ کوئی انسان بجز ذریعہ قرآن شریف کے پورے طور پر خدا تعالیٰ پر یقین لاسکے کیونکہ یہ خاصیت خاص طور پر قرآن شریف میں ہی ہے کہ اس کی کامل پیروی سے وہ پردے جو خدا میں اور انسان میں حائل ہیں سب دُور ہو جاتے ہیں۔ ہر ایک مذہب والامحض قصہ کے طور پر خدا کانام لیتا ہے مگر قرآن شریف اس محبوبِ حقیقی کاچہرہ دکھلا دیتا ہے اور یقین کانور انسان کے دل میں داخل کر دیتا ہے اور وہ خدا جو تمام دنیا پر پوشیدہ ہے وہ محض قرآن شریف کے ذریعہ سے دکھائی دیتا ہے۔‘‘بشرطیکہ حقیقی طور پر قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کیا جائے۔ پھر آپؑ فرماتے ہیںکہ ’’قرآن کریم کے دو حصے ہیں۔ کوئی بات قصہ کے رنگ میں ہوتی ہے اور بعض احکام ہدایت کے رنگ میں ہوتے ہیں …جو لوگ قصص اور ہدایات میں تمیز نہیں کرتے ان کو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور قرآن کریم میں اختلاف ثابت کرنے کے موجب ہوتے ہیں اور گویا اپنی عملی صورت میں قرآن کریم کو ہاتھ سے دے بیٹھے ہیں کیونکہ قرآن شریف کی نسبت تو خدا تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ لَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیہِ اخْتِلَافًا کَثِیرًا(النساء:۸۳)‘‘کہ اگر وہ اللہ کے سوا کسی اَور کی طرف سے ہوتا تو ضرور اس میں بہت اختلاف پایا جاتا۔ فرماتے ہیں کہ ’’اور عدم اختلاف اس کے منجانب اللہ ہونے کی دلیل ٹھہرائی گئی ہے‘‘کہ اختلاف نہیں ہے اس لیے یہ اللہ کی طرف سے ہے۔’’لیکن یہ ناعاقبت اندیش قصص اور ہدایات میں تمیز نہ کرنے کی وجہ سے اختلاف پیدا کر کے اس کو مِنْ عِنْدِ غَیرِ اللّٰہِ ٹھہراتے ہیں۔ افسوس ان کی دانش پر!!!۔ جیساکہ بیان ہوا تھا قصص پیشگوئیوں کے رنگ رکھتے ہیں اور جو دوسرے احکامات ہیں۔ ان کو اگر ملا کے بعض لوگ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ غلط فہمی میں پڑ جاتے ہیں۔ خود عرفان نہیں ان کو سمجھنے کا اور جو تفسیر کی جائے اس پر تحریف کا الزام لگا دیتے ہیں۔