اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان
۲۰۲۳ءمیں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب
مسلم ورلڈ لیگ کےایک بیان کا عمومی جائزہ
(گذشتہ سے پیوستہ )جومشوف بار ہا ’’ہم ‘‘اور ’’وہ‘‘ کے الفاظ استعمال کرتا ہے۔اور بار ہا اس کا اسلامو فوبیا کے معاملے میں ذکر کرتا ہے۔ لیکن اس بات کو تسلیم بھی نہیں کرتا۔ ہم اس کو اس بات پر مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتے کیونکہ مسلم معاشروں میں مذہبی بنیادوں پر ایسی سوچ حاوی ہے۔شاید شیخ کو بھی اس بات کا ادراک ہو کہ۱۹۵۳ء میں پاکستان پنجاب میں ہونے والے فسادات کی رپورٹ میں پولیس نے احمدیوں کو’’وہ یا انہیں‘‘ او ر مخالفین احمدیت کو ’’ہم یا ہمیں ‘‘کہہ کے مخاطب کیا تھا۔مزید برآں مخالفین احمدیت نےاحرار کے ساتھ اپنوں جیسا سلوک کیا گیا تھا اور احمدیوں کے ساتھ غیروں جیسا۔ حال ہی میں جب ایک احمدی وفد ایک ڈپٹی کمشنر کے پاس مخالفین کی شکایت کےلیے گیا تو اس نے کہا کہ آپ مجھے ’’اِن میں سے ایک‘‘ ہی سمجھیں۔
جومشوف سویڈن کی جمہوریت پر فخر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ مسلم ممالک اس سے محروم ہیں اور وہاں پر صرف ایک مطلق العنان شخص کی حکومت ہوتی ہے۔اور وہاں پر اجتماعی رائے سے برعکس رائے رکھنے والوں کو سخت ایذا رسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اب سویڈن کے متعلق تو اس کی بات کافی حد تک درست ہے لیکن پوری مسلم دنیا کےلیے نہیں۔ ترکی میں جمہوریت ہے اور وہاں کی معیشت بھی اچھی ہے۔ بہت سے ممالک میں بادشاہت بھی ہے۔ گو پاکستان میں بھی جمہوریت ہے لیکن ریاست بڑے پیمانے پر آئین کی دھجیاں بکھیرتی ہے اور جمہوریت کی اقدار کو پامال کر تی نظر آتی ہے۔دہائیوں تک عسکری قیادت نے ملک پر حکمرانی کی ہے۔اور امتناع احمدیت قوانین بھی عسکری قیادت نےہی بنائے تھے۔قانون کے مطابق ملک کا صدر یا وزیر اعظم مسلمان ہونا چاہیے۔ عمران خان نے اپنی حکومت کے ابتدائی ایام میں ایک احمدی معیشت دان عاطف میاں کو اپنی اٹھارہ رکنی مشاورتی کمیٹی میں شامل کیالیکن مذہبی عناصر کے دباؤ میں آکر دوسرےہی دن ان کو استعفیٰ دینےکو کہہ دیا۔قاعدے قوانین کے الفاظ کوعمداًاس طرح سے چنا جاتا ہے کہ دہائیوں سے احمدیوں کو ووٹ کے حق سے محروم کیا جا رہا ہے۔ نوے فیصد اکثریت والے شہر ربوہ میں ایک مقامی کونسلر بھی احمدی نہیں ہے۔ لہٰذا جومشوف سو فیصد غلط بھی نہیں ہے۔
جومشوف کہتا ہےکہ مہاجرین اور اسلامیت کو روکنا چاہیے۔ایسے مطالبات کرنے میں وہ تنہا نہیں ہے۔ پاکستان میں بھی بہت سے مولوی اور اشرافیہ ایسی ہے جن کے احمدیوں کے متعلق ایسے مطالبات موجود ہیں۔ان احمدیوں کے متعلق جو وہیں پیدا ہوئے اور کسی بھی دوسرے شہری کی طرح پاکستان کےشہری ہیں تحریک لبیک کے سربراہ علامہ رضوی نے کہا تھا کہ’’جس دن اسلام کی حکومت قائم ہوئی مرزائیوں(احمدیوں ) کے پاس انتخاب کا ایک ہی حق ہو گا۔ یا تو کلمہ پڑھ کے مسلمان ہو جائیں یا پھر موت کو قبول کر لیں۔یہ ملاںتو جومشوف کو میلوں پیچھے چھوڑ گیا۔اپنے اس اندھے تعصب میں اسے کسی عام آدمی کی نہیں بلکہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی حمایت حاصل تھی۔ اس نے کہا کہ’’ہماری کوئی دوستی اور راہ رسم کسی بھی ایسے شخص سے نہیں ہے جو ختم نبوت کو نہیں مانتا۔اگر وہ(احمدی) یہاں رہنا چاہتے ہیں تو اقلیت بن کےرہیں اور اگر جانا چاہتے ہیں تو ان کو چلے جانا چاہیے‘‘۔جومشوف کے برعکس جہاں وہ مہاجرین کو روک رہا ہے وہاں یہ شخص احمدیوں کو دیس نکالا دینے کی بات کر رہا ہے۔
اب جہاں تک الگ رائے رکھنے والوں کا سوال ہے تو انتہائی معمولی اختلاف کی وجہ سے احمدیوں پر ڈھائے جانے والے ظلموں کے پہاڑ کی تفصیل ہم پہلے ہی بیان کر چکے ہیں۔ زندگی کے ہر شعبے میں احمدیوں پر دروازے بند کیے جارہے ہیں۔ گذشتہ سال بائیس احمدی طلبہ کو صرف اپنے عقیدے کی وجہ سے سکولوں سے نکال دیا گیا۔ایک احمدی کو سرکاری ادارے میں ایک ٹینڈر میں شرکت سے صرف احمدی ہونے کی وجہ سے روک دیا گیا۔احمدیوں کے قومیائے گئے تعلیمی ادارے جان بوجھ کر احمدیوں کو واپس نہیں کیے گئے۔ایک ریل گاڑی کو سا لہا سال ربوہ سٹیشن پر رکنے نہیں دیا گیا کہ احمدی اس سے کوئی فائدہ نہ اٹھا لیں۔ایک سو سات احمدیوں پر جھوٹے مقدمات بنائے گئے۔تناسب کے لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو ایسا ہی ہے جیسے سترہ ہزار سنیوں پر مقدمے بنائے جائیں۔چالیس سال سے احمدیوں کو ربوہ میں سالانہ جلسہ نہیں کرنے دیا جا رہا جبکہ مخالفین احمدیت کو سال میں دو بار سہولیات بھی مہیا کی جاتی ہیں کہ وہ ربوہ میں آکر نفرت اور اشتعال انگیزی سے بھرپور تقریبات منعقد کریں۔جس طرح کی لغو زبان وہاں مقامی احمدی آبادی اور ان کے بزرگان کے لیے استعمال کی جاتی ہے اس کو تو بیان بھی نہیں کیا جا سکتا۔
مذہب کے علاوہ بھی تمام معاملات میں احمدیوں کو امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔چاہے تجارت ہو یا کوئی اور چیز۔ لاہور کی مشہور الیکٹرانک مارکیٹ حفیظ سنٹر کے باہر ہر دکاندار نے لکھ رکھا ہے کہ کوئی بھی احمدی اس دکان میں داخل نہ ہو۔عمران خان کے پینتالیس مہینوں کے دور حکومت میں پچیس احمدی مساجد کو شہید کیا گیا،نقصان پہنچایا گیا اور کئی ایک کو جلا دیا گیا۔چار مساجد کو سیل کیا گیا اور چار مساجد کے تعمیری کام کو درمیان میں روک دیا گیا۔ ملاوٴں نے پولیس کے اہلکاروں کے ساتھ مل کر تین سو چوہتر احمدیوں کی قبروں کے کتبے مسمار کر دیے۔جبرو استبداد کا یہ بازار تا حال یونہی گرم کیا جا رہا ہے۔احمدیوں پر ظلم و ستم کی داستان الف لیلہ کی داستانوں سے بہت زیادہ لمبی ہے۔ اس کا جلد اختتام ہونا چاہیے۔ بہر حال احمدیت دنیا میں پھل پھول رہی ہے۔ اور پھلتی پھولتی رہے گی۔
ایک آخری الزام جو کہ جومشوف نے قرآن پر لگایا وہ یہ ہےکہ قرآن مسلمانوں کو یہ درس دیتا ہے کہ وہ غیر مسلموں کو قتل کریں اور انجیل کے متعلق وہ کہتا ہے کہ عیسائیوں کویہ حکم ہے کہ وہ اپنے خلاف امتیازی سلوک کا بدلہ لیں۔ اور اس بنا پر سویڈن کے عیسائیوںکو کہتا ہے کہ وہ مسلمانوں سے بدلہ لیں۔یہ انتہائی بدنیتی پر مبنی الزام ہے۔ اسلام اور عیسائیت دونوں امن،عفو و درگزر اور محبت کا درس دیتے ہیں۔اور دونوں ہی ضرورت پڑنے پر اپنے دفاع کی اجازت دیتے ہیں۔سویڈن کی عسکری قوت اسی مقصد کے لیے ہے اور وہ اسی اصول پر کاربند بھی ہے۔مان لیتے ہیں کہ مشرق و مغرب میں اخلاق کے ان اعلیٰ معیاروں کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا۔ لیکن ہم پاکستان میں احمدیوں کے ساتھ روا سلوک کی بات کرتے ہیں۔مجلس تحفظ ختم نبوت ملتان کی جانب سے ایک صفحے پر مشتمل پمفلٹ تقسیم کیا گیا۔اس میں مرکزی شوریٰ کی جانب سے حتمی فتویٰ درج کیا گیا ہے کہ ’’احمدی کذابوں کو تین دن کا وقت دینا چاہیےکہ وہ دنیا کے باقی ایک ارب دس کروڑ مسلمانوں کی طرح واپس اسلام میں آجائیں۔تین دن کے بعد تمام احمدیوں کو لائن میں کھڑا کر کے ان کو قتل کرنا شروع کر دینا چاہیے اور اس وقت تک یہ سلسلہ جاری رکھنا چاہیے جب تک تمام احمدی ختم نہ ہو جائیں‘‘۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ سب کوئی خفیہ معلومات نہیں ہیں بلکہ ریاست فخریہ طور پر ان سب کارروائیوں کا سہرا اپنے سر سجاتی ہے جن کا اس سے قبل ذکر ہو چکا ہے۔
نیز یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ شیخ العیسیٰ کے ہی پیشرو تھے جو عالمی اسلامی تنظیم کی روح و روواں تھےا ور ۱۹۷۰ءمیں احمدیت مخالف قوانین پاکستان میں لاگو کروانے میں پیش پیش تھے۔۱۹۷۴ء میں مکہ میں تنظیم اسلامی کی ایک تقریب منعقد ہوئی جس میں رابطہ عالم اسلامی کی حمایت سے ایک قرارداد پیش کی گئی۔ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے تمام مظالم جو اوپر بیان کیے گئے وہ درحقیقت اس قرارداد کی شق نمبر ایک تا چھ پر عمل درآمد کا ہی نتیجہ ہے۔ہم بطور احمدی پچاس سال پہلے اس تنظیم کی قرارداد کی وجہ سے کیے جانے والے ظلم و ستم کو بھولنے کےلیے تیار ہیں لیکن کیا اس تنظیم کی نئی قیادت مسلم امہ کے مفاد میں ان متشددانہ اورغلط پالیسیوں کو درست کرنے کےلیے تیار ہے۔
بات کو ختم کرتے ہوئے ہم یہاں پر ایک مناسب حکمت عملی پیش کر دیتے ہیں کہ اگر درحقیقت اسلاموفوبیا سے لڑنا ہے تو جواب الجواب دینے کے لیے بیان بازی اور اداریے لکھنے سے کچھ بھی نہیں ہو گا۔ اسلامی دنیا میں کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے اور جو شیخ نے اسلامی تعلیم بیان کی ہے اس کو کہیں بھی نافذ نہیں کیا جا رہا۔بلکہ مسلمان ملکوں میں ان تعلیمات کو نام نہاد ملاں، اشرافیہ اور سیاستدان اپنے پیروں تلے روند رہے ہیں۔جیسے انیسویں صدی میں ترکی یورپ کا مرد بیمار تھا اسی طرح مسلم ممالک دنیا کا مرد بیمار بنے ہوئے ہیں۔شیخ العیسیٰ اور اس کی ورلڈ مسلم لیگ مسلمان ممالک پر دباؤ ڈال سکتے ہیں اور ان کو مجبور کر سکتے ہیں کہ وہ درست سمت کا تعین کریں۔تیل سے حاصل ہونے والی دولت مدرسوں،مذہبی نوعیت کی سیاسی جماعتوں اور ایسی حکومتوں کو مدد فراہم کرنے میں خرچ ہو رہی ہے جو دہشتگردی کو پروان چڑھا رہی ہیں۔ پاکستان میں ہزاروں مدرسے ہیں ورلڈ مسلم لیگ اور خلیجی ممالک جو ایشیا اور افریقہ میں ان مدرسوں کو مالی معاونت فراہم کرتے ہیں ان کو چاہیے کہ مدرسوں کی انتظامیہ کو مجبور کریں کہ وہ اپنے نصاب میں واضح تبدیلیاں کریں۔ نیز ان سے یہ مطالبہ کریں کہ وہ طالبان،القاعدہ اور ISISجیسی دہشتگرد جماعتوں کی کھل کر مذمت کریں۔صرف ان مدرسوں کو فنڈز جاری کریں جو کہ ان باتوں پر عمل پیرا ہوں اورمسلمان ملکوں کی سیاسی اشرافیہ کو اس بات پر مجبور کریں کہ وہ اپنے آئین و قانون سے تعصب،تفریق اور نام نہاد اسلامیت کو ہذف کریں۔
اگر تو شیخ کی اسلامی تنظیم ان باتوں کے لیے کوشاں ہے تو یہ بات احمدیہ کے لیے خوش آئند ہے۔ اس کام کے آغاز کے لیے بہترین جگہ پاکستان ہے۔اور یہ مسلم ممالک میں اہمیت بھی رکھتا ہے اور اپنی متعصبانہ پالیسیوںاور حقیقی اسلامی تعلیمات سے گریز کرتے ہوئے ضیاء کے پیش کردہ نام نہاد اسلامی نظام کے پیچھے چلتے تباہی کے دہانے پر آ کھڑا ہے۔ اگر تنظیم اسلامی یہ کام کرے تو یقیناً اسے تاریخ میں اپنے مثبت رویے اور اسلام کے لیے گراں قدر خدمات کے باعث ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
(مرتبہ: مہر محمد داؤد )