ہر ایک کو اپنا محاسبہ کرتے رہنا چاہئے
اس لئے میں نے جو پہلی آیت تلاوت کی ہے(حٰم سجدہ:۳۴) اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے والے کی تعریف کرکے یہ بھی فرمایا کہ صرف وہ نیکی کی طرف بلاتے ہی نہیں ہیں بلکہ نیک اعمال خود بھی بجالانے والے ہیں۔ ان کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ یہ نہیں کہ وہ خود کچھ کر رہے ہوں اور لوگوں کو کچھ کہہ رہے ہوں۔ اور جب ان کا قول و فعل ایک جیسا ہو گا تو تبھی وہ اللہ تعالیٰ کے حضور یہ بات کہنے کے بھی حقدار ہوں گے کہ ہم کامل فرمانبرداروں میں سے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ تو غیب کا علم جانتا ہے۔ وہ تو ہمارے سینوں میں چھپی ہوئی باتوں کا خوب علم رکھتا ہے۔ ہر بات اس کے علم میں ہے۔ اگر ہمارے قول وفعل میں تضاد ہو گا تو وہ فرمائے گا کہ تم جھوٹ بولتے ہو، تم کامل فرمانبرداروں میں نہیں ہو کیونکہ تمہارے قول و فعل میں تضاد ہے۔ کہتے کچھ ہو کرتے کچھ ہو۔ اس لئے ایمان لانے والوں کو دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے یہ نصیحت فرمائی کہ یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ۔ کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَاللّٰہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَالَا تَفْعَلُوْنَ(الصف:۲۔۳)۔ کہ اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو تم کیوں وہ کہتے ہوجو کرتے نہیں۔ اللہ کے نزدیک یہ بہت بڑا گناہ ہے کہ تم وہ کہو جو تم کرتے نہیں۔ تو اللہ تعالیٰ کو تو دھوکا نہیں دیا جا سکتا۔ لوگوں کی آنکھوں میں تو دھول جھونکی جا سکتی ہے۔ اپنی ظاہری پاکیزگی کا اظہار کرکے لوگوں سے تو واہ واہ کروائی جا سکتی ہے۔ لوگوں کو تو علم نہیں ہوتا، نیکی کا ظاہری تأثر لے کر وہ کسی کو عہدیدار بنانے کے لئے ووٹ بھی دے دیتے ہیں اور عہدیدار بن بھی جاتے ہیں۔ پھر بڑھ بڑھ کر داعیان میں اپنے نام بھی لکھوا لیتے ہیں۔ لیکن اس کا فائدہ کیا ہو گا۔ کیونکہ تمہارے قول و فعل میں تضاد ہو گا اس وجہ سے تم اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں گنہگار ہو گے۔ فائدہ کی بجائے الٹا نقصان ہے۔ اس لئے ہر ایک کو اپنا محاسبہ کرتے رہنا چاہئے۔ کام میں برکتیں بھی اس وقت پڑتی ہیں جب نیتیں صاف ہوں۔ اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ۔
(خطبہ جمعہ فرمودو ۴؍جون ۲۰۰۴ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۱۸؍جون ۲۰۰۴ء)