اپنے دوست سوچ سمجھ کر بناؤ
حضرت مصلح موعود ؓنے مثال بیان فرمائی ہے کہ ایک سکھ طالبعلم تھا جس کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بڑی عقیدت تھی۔ تو اس نے آپؑ کو لکھا کہ پہلے تو مجھے خدا کی ہستی پر بڑا یقین تھا لیکن اب مجھے کچھ کچھ شکوک و شبہات پیدا ہونے لگ گئے ہیں۔ تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کو جواب دیا کہ تمہارے ساتھیوں میں سے کوئی دہریت کے خیالات رکھتا ہے جس کا تم پہ اثر پڑ رہا ہے، اس لئے اپنی جگہ بدل لو۔ چنانچہ اس نے اپنی سیٹ بدل لی اور خودبخود اس کی اصلاح ہوگئی۔ فرماتے ہیں کہ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انسان پر کتنا برا اثر پڑتا ہے۔ یعنی یہی حکمت ہے جس کے ماتحت رسول کریمﷺ جس کسی مجلس میں تشریف رکھتے تھے تو بڑی کثرت سے استغفار فرمایا کرتے تھے تاکہ کوئی بری تحریک آپؐ کے قلبِ مُطہّر پر اثر انداز نہ ہو۔ (تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ ۴۸۱، ۴۸۲)…. یہ بھی نظر رکھنی چاہئے کہ بچوں کے دوست کون ہیں بچوں کے دوستوں کا بھی پتہ ہونا چاہئے۔ یہ مثال تو ابھی آپ نے سن ہی لی۔ اس سیٹ پر بیٹھنے کی وجہ سے ہی صرف اس طالبعلم پر دہریت کا اثر ہو رہا تھا۔ لیکن یہ مثالیں کئی دفعہ پیش کرنے کے باوجود، کئی دفعہ سمجھانے کے باوجود، ابھی بھی والدین کی یہ شکایات ملتی رہتی ہیں کہ انہوں نے سختی کرکے یا پھر بالکل دوسری طرف جا کر غلط حمایت کرکے بچوں کو بگاڑ دیا۔ ایک بچہ جو پندرہ سولہ سال کی عمر تک بڑا اچھا ہوتا ہے جماعت سے بھی تعلق ہوتا ہے، نظام سے بھی تعلق ہوتا ہے، اطفال الاحمدیہ کی تنظیم میں بھی حصّہ لے رہا ہوتا ہے۔ جب وہ پندرہ سولہ سال کی عمر کو پہنچتا ہے تو پھر ایک دم پیچھے ہٹنا شروع ہو جاتا ہے اور پھر ہٹتا چلا جاتا ہے، یہاں تک کہ ایسی بھی شکایتیں آئیں کہ ایسے بچے ماں باپ سے بھی علیحدہ ہوگئے۔ اور پھر بعض بچیاں بھی اس طرح ضائع ہو جاتی ہیں۔ جن کا بہر حال افسوس ہوتا ہے۔ تو اگر والدین شروع سے ہی اس بات کا خیال رکھیں تو یہ مسائل پیدا نہ ہوں۔ پھر بچوں کو بھی میں کہتا ہوں کہ اپنے دوست سوچ سمجھ کر بناؤ۔ یہ نہ سمجھو کہ والدین تمہارے دشمن ہیں یا کسی سے روک رہے ہیں بلکہ سولہ سترہ سال کی عمر ایسی ہوتی ہے کہ خود ہوش کرنی چاہئے، دیکھنا چاہئے کہ ہمارے جو دوست ہیں بگاڑنے والے تو نہیں، اللہ تعالیٰ سے دُور لے جانے والے تو نہیں ہیں۔ کیونکہ جو اللہ تعالیٰ سے دُور لے جانے والے ہیں وہ تمہارے خیر خواہ نہیں ہوسکتے۔ تمہارے ہمدرد نہیں ہو سکتے، تمہارے سچے دوست نہیں ہو سکتے۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۱؍ جون ۲۰۰۴ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۲۵؍جون ۲۰۰۴ء)