خلاصہ خطبہ جمعہ

حالت جنگ میں سرورِ کونین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوۂ حسنہ نیز فلسطین کے معصوموں کے لیے دعا کی مکرر تحریک۔ خلاصہ خطبہ جمعہ یکم دسمبر ۲۰۲۳ء

(ادارہ الفضل انٹرنیشنل)

٭… جنگی قیدیوں سے حسن سلوک کی وجہ یہ تھی کہ آپؐ کی کسی سے ذاتی دشمنی نہیں تھی بلکہ اللہ تعالیٰ کے دین کو مٹانے والوں کےخلاف جنگ تھی

٭… آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کے اصول وقواعدمقرر فرمائے، معاہدوں کا پاس بھی کیا اور ان چیزوں پر انتہائی درجہ تک عمل بھی کیا

٭… آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی قرآن کریم کے احکام کی عملی تفسیرتھی جہاں عدل و انصاف اور امن کا قیام بنیادی اصول بیان کیے گئے ہیں

٭…آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوہ انصاف کے متعلق قرآنی تعلیم کی روشنی میں ہر پہلو پر حاوی اور اس کے اعلیٰ معیار قائم کرنے والا تھا

٭… جنگ احد کے پس منظر کا تفصیلی تذکرہ

٭… فلسطین کے معصوم مسلمانوں کےلیے دعا کی مکرر تحریک

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ یکم دسمبر۲۰۲۳ء بمطابق یکم فتح ۱۴۰۲؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ یکم دسمبر۲۰۲۳ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔ تشہد، تعوذ، اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات کے حوالے سے کچھ بیان کروں گا۔ آپؐ کی شخصیت کے پہلو اور آپؐ کا اُسوہ ان حالات میں کس طرح ہمارے سامنےآتا ہے۔جنگ بدر کے حوالے سے ہم دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح آپؐ نے قیدیوں کو سہولتیں مہیا فرمائیں۔قیدی خود کہتے ہیں کہ آپؐ کی ہدایت کے مطابق صحابہ اپنی خوراک سے بہتر خوراک ہمیں دیتے تھے۔پھر آپؐ نے بڑی آسان شرائط پر ان قیدیوں کو رہا کردیاتھا۔

بعض کا فدیہ صرف اتنا تھا کہ جن کو لکھنا پڑھنا آتا ہے وہ مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں۔

یہ سب اس لیے تھا کہ آپؐ کی کسی سے ذاتی دشمنی نہیں تھی بلکہ اللہ تعالیٰ کے دین کو مٹانے والوں کےخلاف جنگ تھی۔بعض لوگ دشمن کی طرف سے اپنی مجبوریوں کی وجہ پر شامل ہوتے تھےاور مسلمانوں سے لڑنا نہیں چاہتے تھے۔ان کو آپؐ نے بہت سی سہولتیں مہیا فرمائیں۔ بعض ان میں سے مسلمان بھی ہوگئے تھے۔آپؐ نے جنگ کے اصول وقواعدمقرر فرمائے، معاہدوں کا پاس بھی کیا اور ان چیزوں پر انتہائی درجہ تک عمل بھی کیا۔

آپؐ کی زندگی قرآن کریم کے احکام کی عملی تفسیر تھی جہاں عدل و انصاف اور امن کا قیام بنیادی اصول بیان کیے گئے ہیں۔اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے کہ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ لِلّٰہِ شُہَدَآءَ بِالۡقِسۡطِ ۫ وَلَا یَجۡرِمَنَّکُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ عَلٰۤی اَلَّا تَعۡدِلُوۡا ؕ اِعۡدِلُوۡا ۟ ہُوَ اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰی ۫ وَاتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ۔ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر مضبوطی سے نگرانی کرتے ہوئے انصاف کی تائید میں گواہ بن جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔ انصاف کرو یہ تقویٰ کے سب سے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرو۔ یقیناً اللہ اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے جو تم کرتے ہو۔پس آپؐ کا اُسوہ اس تعلیم کی روشنی میں ہر پہلو پر حاوی اور اس کے اعلیٰ معیار قائم کرنے والا تھا۔

آج احد کے حوالے سے کچھ بیان کروں گا۔جیسا کہ واقعات ثابت کرتے ہیں کہ یہ جنگ بھی دشمن نے اپنی دشمنی کی آگ کی وجہ سے شروع کی تھی اور مجبورا ًمسلمانوں کو بھی جنگ کےلیے نکلنا پڑا۔یہ غزوہ معرکہ بدر کے ایک برس کے بعد شوال تین ہجری میں بروز ہفتہ پیش آیا۔

مؤرخین اور سیرت نگاروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ غزوہ احد شوال تین ہجری میں پیش آیا۔

البتہ ایک قول چار ہجری کا بھی ہے اور زیادہ ترسات اور پندرہ شوال کا بھی تذکرہ کیا جاتا ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے جمعہ کے روز بعد عصر روانہ ہوئے اور بروز ہفتہ طلوع سورج سے قبل میدان احد پہنچے۔ سیرت خاتم النبیینؐ میں غزوہ احد کی تاریخ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓنے ۱۵؍ شوال ۳؍ہجری ۳۱؍ مارچ۶۲۴؍ عیسوی بروز ہفتہ بیان کی ہے۔

اس غزوہ کا سبب یہ ہوا کہ جب غزوہ بدر میں قریش کو عبرتناک شکست ہوئی تو قریش کےسرکردہ لوگوں میں سے، جیسے عبداللہ بن ابی ربیعہ، عکرمہ بن ابو جہل، صفوان بن امیہ اور دوسرے کچھ سرکردہ ابو سفیان کے پاس آئےجن کااُس تجارتی قافلہ میں مال تھا جو جنگ بدر کا سبب بنا تھا اور جو مکہ میں لا کر دارالندوہ میں رکھ دیا گیا تھا۔ انہوں نے ابو سفیان کو کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لوگوں کو قتل کردیا ہے اس لیے اس مال تجارت سےاُن کے ساتھ جنگ کی تیاری کریں ممکن ہے کہ ہم اپنے مقتولوں کا بدلہ لے سکیں اور کہا کہ ہم خوشی سے اس بات کےلیے تیار ہیں کہ اس مال تجارت کے منافع سے ایک لشکر تیار کیا جائے۔ان کی تجویز منظور ہوئی۔

قریش نے مال میں سے ۲۵؍ہزار منافع جنگ کےلیے الگ کرکے اصل مال مالکوں کو دے دیا۔

اس ایک عام سبب کے علاوہ کچھ اور اُمور بھی تھے جو کہ اس جنگ کے اسباب قرار دیے جاسکتے ہیں۔غزوہ بدر کے بعد اہل مکہ کا شام جانا محال ہوچکا تھاکیونکہ مکہ کی تجارت کا راستہ مدینے کے مضافات سے گزرتا تھا اور قریش کو اپنے سابقہ ظلم و ستم کے باعث وہاں سے گزرنا دشوار ہوتا جارہا تھا۔غزوات اور سرایہ میں شکست، بدر میں سرداران قریش کا قتل اور ستر مشرکین کی گرفتاری جیسے اُمور اُن کی شہرت اور معاشرتی حالت پربدنما داغ تھے۔ وہ انتقام لینا چاہتے تھے تاکہ اُن کی ساکھ کو بحال کیا جاسکے۔ایک مصنف نے ایک سبب یہ بیان کیا ہے کہ قریش کو بعض مہمات میں ناکامی ہوئی اور اس کی وجہ سے ان میں رنج و غم اور انتقام کا جذبہ بہت زیادہ ہوگیا تھا۔ بہرحال اور بھی بہت سی وجوہات تھیں جس کی وجہ سے قریش جنگ کی تیاری کرتے رہے۔ اِرد گِرد کےقبائل کواپنےساتھ ملانےکےلیےکسی کو لالچ اور کسی کو غیرت و حمیت دلا کر ساتھ ملا لیا۔ حضرت عباسؓ کی طرف سے ایک خط کے ذریعہ کفار کی ان تیاریوں کی اطلاع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوگئی۔دوسری طرف یہوداورمنافقین نے مشہور کردیا کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کوکوئی اچھی خبر موصول نہیں ہوئی۔ انہوں نے اس خبر میں رنگ آمیزی کرکے خوب پھیلاکر مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی۔ہرایک چوکنا ہوگیا۔شورو غوغا تھا کہ مشرکین مکہ جنگ کےلیے آرہے ہیں۔

رمضان تین ہجری کے آخر یا شوال کے شروع میں قریش کا لشکر مکہ سے نکلا۔ تعداد تین ہزار تھی جس میں سات سو سپاہی، دو سو گھوڑے اور تین ہزار اونٹ تھے۔

پندرہ عورتیں بھی ساتھ تھیں جن میں ابو سفیان، عکرمہ بن ابوجہل، صفوان بن امیہ، خالد بن ولید اور عمرو بن العاص کی بیویاں بھی شامل تھیں۔ حضرت عباسؓ نے لشکر قریش کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلومات فراہم کیں جس کا ابو سفیان کو پتا لگا تو وہ حواس باختہ ہوگیا۔صفوان بن امیہ بولا کہ ہماری تعداد زیادہ ہے، سامان حرب زیادہ ہے، ہم ان کا جانی اور مالی نقصان کرنے کی طاقت رکھتے ہیں جبکہ وہ اس قابل نہیں ہیں۔

ابوسفیان کی بیوی ہند نے کہا کہ تم لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ کی قبر کھود ڈالو اور ہر شخص کے فدیہ میں اُن کی والدہ کا ایک عضو دے دینا۔ قریش نے اس سے اختلاف کیا کہ اس طرح وہ ہمارے مُردوں کی قبریں کھودیں گے۔ اس لشکر کی عورتیں جوشِ انتقام دلا رہی تھیں اور یہ قافلہ آگے بڑھتا رہا۔ دوسری طرف مسلمان تیاری میں تھے۔

سیرت خاتم النبیین میں لکھا ہے کہ ا ٓنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دو صحابیوں کو لشکر قریش کی خبر رسانی کےلیے روانہ فرمایااور اس موقع پر آپؐ نے مسلمانوں کی تعداد و طاقت معلوم کرنے کےلیے مدینے کی تمام مسلمان آبادی کی مردم شماری کروائی تو معلوم ہوا کہ کل پندرہ سو مسلمان متنفس ہیں۔

اس وقت کے حالات کےما تحت اس کو بڑی تعداد سمجھا گیا۔بعض صحابہؓ نے خوشی کے جوش میں یہاں تک کہہ دیا کہ کیا اب بھی کسی کا ڈر ہوسکتا ہے ؟

جب جنگ احد کی تیاری کےلیےمشاورت ہوئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک خواب کی بنا پرجس میں آپؐ نے ایک گائے ذبح ہوتے دیکھی اورآپؐ نے مزید دیکھا کہ آپؐ کی تلوار کا سِرا ٹوٹ گیا ہے

یہ تعبیر فرمائی کہ میرے عزیزوں میں سے کسی کی شہادت کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے یا شایدخود مجھے اس مہم میں کوئی تکلیف پہنچے۔

بہرحال آپؐ نے مشورہ مانگا کہ قریش کا مقابلہ مدینہ میں ہی رہ کرکیا جائے یا باہر نکل کر کیا جائے۔ آپؐ نے اپنے خواب کی بنا پر صحابہؓ سے فرمایا کہ اگر تمہاری رائے ہو تو عورتوں اور بچوں کو محفوظ مقام پر پہنچادیں اور تم میدان میں ٹھہرو۔بعض اکابر صحابہ ؓنے حالات کی اونچ نیچ کو سوچ کر اور شاید کسی قدر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خواب سے بھی متاثر ہوکر یہ رائے دی کہ مدینہ میں ہی ٹھہر کر مقابلہ کرنا مناسب ہے۔یہی رائے عبد اللہ بن ابی سلول رئیس المنافقین نے دی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس رائے کو پسند فرمایا۔البتہ مسلمان نوجوانوں کی ایک جماعت نے جو بدر کی جنگ میں شامل نہیں ہوئے تھے اور اپنی شہادت سے دین کی خدمت کا موقع حاصل کرنے کےلیے بے تاب تھے بہت اصرار کیا کہ آپ ہمیں مدینہ سے باہر لے کر چلیں تاکہ دشمن ہمیں بزدل نہ سمجھے۔

آپؐ نے نوجوانوں کی رائے مان لی اور فیصلہ فرمایا کہ

ہم کھلے میدان میں نکل کر کفار کا مقابلہ کریں گے

اور جمعہ کی نماز کے بعد آپؐ نے مسلمانوں میں عام تحریک فرمائی کہ جہاد فی سبیل اللہ کی غرض سے اس غزوہ میں شامل ہوکر ثواب حاصل کریں۔باقی تفصیل ان شاء اللہ آئندہ بیان ہوگی۔

حضور انور نے آخر میں فرمایا کہ فلسطینیوں کےلیے دعائیں کرتے رہیں۔

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ فرمائیں:

https://www.alfazl.com/2023/12/01/84794/

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button