مومن کو دورنگی اختیار نہیں کرنی چاہئے
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۸؍ستمبر ۲۰۱۷ء)
اس بات کو بھی ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ حکمت کا مطلب بزدلی نہیں ہے یا اپنے قریب لانے کے لئے غلط بات کی تصدیق کرنا نہیں ہے۔ مثلاً آجکل دنیا داروں نے آزادی کے نام پر ایسے قانون بنا دئیے ہیں جن کی شریعت ہرگز اجازت نہیں دیتی اور اگر ان کے خلاف کوئی بات کرے تو کہتے ہیں کہ یہ احمدی بھی اپنے آپ کو شدت پسندی سے دُور رہنے والا کہتے ہیں اور اس کے خلاف باتیں کرتے ہیں۔ ظاہر کرتے ہیں کہ ہم شدت پسندنہیں ہیں لیکن بعض معاملات میں یہ بھی شدت پسند ہیں اور مثال وہ یہ دیتے ہیں کہ جیسے عورتوں سے ہاتھ ملانے کا معاملہ ہے یا ہم جنسی کا معاملہ ہے۔ ابھی جرمنی میں مجھ سے بعض نے سوال کئے اور میرے جواب پر کچھ نے منفی تبصرہ بھی ہمارے خلاف کیا لیکن اکثریت کو سمجھ بھی آ گئی کہ کیا حقیقت ہے۔ ہمیں لڑنے کی ضرورت نہیں لیکن جو چیز غلط ہے اسے ہم نے بہرحال غلط کہنا ہے۔
گزشتہ دنوں یہاں یوکے (UK) کے ایک سیاسی پارٹی کے ممبر جن کے بارے میں مشہور ہو گیا تھا کہ وہ پارٹی لیڈر بننے کے لئے کھڑے ہوں گے انہوں نے اعلان کیا کہ وہ پارٹی لیڈر بننے کے لئے کھڑے نہیں ہوسکتے کیونکہ ایک تو وہ ہم جنسی کے خلاف ہیں اور دوسرے abortion کے خلاف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اور یہ دونوں باتیں ایسی ہیں کہ ان کے خلاف ہمارے معاشرے میں سننے کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ جہاں تک ہم جنسی کا سوال ہے قرآن میں بھی اور بائبل میں بھی، دونوں کتابوں میں قومی طور پر اس برائی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سزا کا ذکر ہے۔ لیکن abortion بعض حالات میں ہم تو جائز سمجھتے ہیں۔ بہرحال ان کا اپنا نظریہ تھا کہ وہ نہیں سمجھتے۔
اسی طرح ایک اور سیاسی پارٹی کے لیڈر نے چند مہینے ہوئے اپنی پارٹی کی سربراہی سے اس لئے استعفیٰ دے دیا کہ وہ ہم جنسی کے خلاف تھے اور انہوں نے کہا کہ اس وجہ سے مَیں اپنے ایمان اور سیاست کے درمیان تقسیم ہو کے رہ گیا ہوں اس لئے بہتر ہے کہ مَیں اپنے ایمان کو بچانے کے لئے پارٹی لیڈرشپ سے علیحدہ ہو جاؤں۔ پس اگر یہ لوگ جو دنیادار ہیں اور جن کا دین بھی اپنی اصلی حالت میں قائم نہیں ہے اپنے دنیاوی معاملات کو دین کے لئے قربان کر رہے ہیں اور مداہنت نہیں دکھاتے، بزدلی نہیں دکھاتے تو پھر ہم جو آخری اور ہمیشہ قائم رہنے والی شریعت کو ماننے والے ہیں، ہمیں کس قدر مضبوط ایمان ہونا چاہئے اور اپنے دنیاوی تعلقات میں اور تبلیغ کے تعلقات میں بھی حکمت کے ساتھ اور ٹھوس دلائل کے ساتھ ان باتوں کو رد کرنا چاہئے۔ نہ ہی اپنے دنیاوی مفادات کے لئے ان چیزوں سے ڈرنا چاہئے۔ نہ ہی اس لئے ان کی ہاں میں ہاں ملانی چاہئے کہ ان سے رابطے ختم ہو جائیں گے۔ اگر حکمت سے بات کی جائے تو کوئی رابطے ختم نہیں ہوتے۔ اور پھر اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے، پہلے بھی ذکر ہو چکا کہ ہدایت پانے والے کون ہیں، یہ مجھے پتا ہے۔ پس جس کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت دینی ہے اس کا دل خود ہی اللہ تعالیٰ کھول بھی دے گا۔ عہدیداروں کو خاص طورپر اس طرف توجہ کرنی چاہئے۔ مَیں نے ان میں یہ دیکھا ہے کہ بعض دفعہ بزدلی کا زیادہ اظہار ہو جاتا ہے۔ مخالفت کی کوئی پرواہ نہیں کرنی چاہئے۔ مخالفت تو تبلیغ کے راستے کھولتی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ’’جس قدر زور سے باطل حق کی مخالفت کرتا ہے اسی قدر حق کی قوت اور طاقت تیز ہوتی ہے۔‘‘ فرمایا’’زمینداروں میں بھی یہ بات مشہور ہے کہ جتنا جیٹھ ہاڑ تپتا ہے اُسی قدر ساون میں بارش زیادہ ہوتی ہے۔‘‘ (یعنی جس قدر مئی جون میں گرمی زیادہ ہوتی ہے اتنی برسات کے موسم میں، جولائی اگست ستمبر میں مون سون جو آتی ہے تو برسات بھی اور بارشیں بھی زیادہ ہوتی ہیں۔) فرمایا ’’یہ ایک قدرتی نظارہ ہے۔ حق کی جس قدر زور سے مخالفت ہو اُسی قدر وہ چمکتا اور اپنی شوکت دکھاتا ہے‘‘۔ فرمایا کہ’’ہم نے خود آزما کر دیکھا ہے جہاں جہاں ہماری نسبت زیادہ شور و غل ہوا ہے وہاں ایک جماعت تیار ہو گئی اور جہاں لوگ اس بات کو سن کر خاموش ہو جاتے ہیں وہاں زیادہ ترقی نہیں ہوتی‘‘۔ (ملفوظات جلد 5 صفحہ 310-311۔ ایڈیشن 1984ء)
یہ نظارے ہمیں آج بھی نظر آتے ہیں۔ گزشتہ دنوں جرمنی میں الجزائر سے آئے ہوئے وہاں کے ایک بڑے مشہور غیر از جماعت سے میری ملاقات ہوئی۔ وہ ملنے آئے تھے۔ کہنے لگے یہ تو صحیح ہے کہ اس وقت آپ کی جماعت وہاں بڑی تکلیف میں سے گزر رہی ہے لیکن تبلیغ اور جماعت کا تعارف ملک کے تقریباً تمام حصّے میں اس مخالفت کی وجہ سے ہو چکا ہے اور لوگ جماعت کو جاننے لگ گئے ہیں۔ کہنے لگے یہ جو اتنا تعارف ہوا ہے شاید آپ لوگوں سے یہ دس بیس سال میں بھی نہ ہو سکتا جتنا اس مخالفت کی وجہ سے ہوا ہے۔ اور یہ وہاں کے احمدی بھی لکھتے ہیں کہ ذرا بھی بہتر حالات ہوئے تو بہت سارے علاقے ایسے ہیں جہاں لوگ احمدیت قبول کرنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔ پس مخالفتوں یا دنیا والوں سے کسی قسم کا خوف نہیں ہونا چاہئے لیکن ساتھ ہی حکمت بھی ضروری ہے۔ تبلیغ کے لئے یہ بات بھی ضروری ہے کہ انسان کے قول اور فعل میں مطابقت ہو۔ جو کہتے ہیں اس پر عمل بھی کرنے والے ہوں۔ حکمت کی باتیں بھی تبھی منہ سے نکلتی ہیں اور دوسروں پر اثر کرتی ہیں جب قول اور فعل ایک ہو۔