شادی بیاہ کے موقعوں پر دکھاوے سے بچیں
خود انسان کو اگر وہ حقیقت پسند بن کے اپنا جائزہ لے تو پتہ لگ جاتا ہے کہ یہ کام جو وہ کر رہا ہے یہ دنیا دکھاوے کے لئے ہے یا خدا تعالیٰ کی خاطر؟ اگر انسان کو یہ پتہ ہو کہ میرا ہر عمل خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہونا چاہئے اور ہو گا تو تبھی مجھے ثواب بھی ملے گا تو تبھی وہ نیک اعمال کی طرف کوشش کرتا ہے۔ تبھی وہ اس جستجو میں رہے گا کہ میں زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کی تلاش کروں اور اُن پر عمل کروں اور جب یہ ہو گا تو پھر نہ ریا پیدا ہو گی نہ دوسری برائیاں پیدا ہوں گی۔
(خطبہ جمعہ ۳۰؍مارچ ۲۰۱۲ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۲۰؍اپریل ۲۰۱۲ء)
اصل میں تو نیّت مراد ہے۔ اب دیکھیں کہ آج کل بھی شادی بیاہوں میں صرف ایک دو دفعہ پہننے کے لئے دلہن کے لئے یا دولہا کے لئے بھی اور رشتہ داروں کے لئے بھی کتنے مہنگے جوڑے بنوائے جاتے ہیں جو ہزاروں میں بلکہ لاکھوں میں چلے جاتے ہیں، صرف دکھانے کے لئے کہ ہمارے جہیز میں اتنے مہنگے مہنگے جوڑے ہیں یا اتنے قیمتی جوڑے ہیں یا ہم نے اتنا قیمتی جو ڑا پہنا ہو اہے۔ صرف فخر اور دکھاوا ہوتا ہے۔ کیونکہ پہلے تو یہ ہوتا تھاپرانے زمانے میں کہ قیمتی جوڑا ہے تو آئندہ وہ کام بھی آجاتا تھا۔ کام سچا ہوتا تھا اچھا ہوتا تھا پھر اب تو وہ بھی نہیں رہا کہ جو اگلی نسلوں میں یااگلے بچوں کے کام میں آجائیں ایسے کپڑے۔ یونہی ضائع ہو جاتے ہیں، ضائع ہو رہے ہوتے ہیں۔ پھر فیشن کے پیچھے چل کر دکھاوے اور فخر کے اظہار کی رو میں بہ کر قرآن کریم کے اس حکم کی بھی خلاف ورزی کر رہے ہوتے ہیں کہ اپنی زینتوں کو چھپاؤ۔ فیشن میں بس ایسے ایسے عریاں قسم کے لباس سل رہے ہوتے ہیں کسی کو کوئی خیال ہی نہیں ہوتا۔ تو احمدی بچوں اور احمدی خواتین کو ایسے لباسوں سے جن سے ننگ ظاہر ہوتا ہو پرہیز کرنا چاہئے۔ اور پھر فخر کے لئے لباس پہنیں گے تو دوسری برائیاں بھی جنم لیں گی۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی بچی ہر احمدی عورت کو ایمان کی پوشاک ہی پہنائے اور دنیاوی لباس جو دکھاوے کے لباس ہیں ان سے بچائے رکھے۔ اسی طرح مرد بھی اگر دکھاوے کے طور پر کپڑے پہنتے ہیں، لباس پہن رہے ہیں تو وہ بھی اسی زمرے میں آتے ہیں۔ صاف ستھرا اچھا لباس پہننا منع نہیں۔ اس سوچ کے ساتھ یہ لباس پہننا منع ہے کہ اس میں فخر کا اظہار ہوتا ہو، دکھاوا ہوتا ہو۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲؍جنوری ۲۰۰۴ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۷؍فروری ۲۰۰۴ء)