متفرق مضامین

صدقہ کا وسیع مفہوم

(ظہیر احمد طاہر ابن نذیر احمد خادم۔جرمنی)

اگر دل میں صدق اور اخلاص نہ رہے تو وہ صدقہ صدقہ نہیں رہتا۔ بلکہ ایک ریاکاری کی حرکت ہوجاتی ہے

عرف عام میں صدقہ سےہر وہ چیز مراد لی جاتی ہے جو انسان اپنے مال میں سے اللہ تعالیٰ کی رضا اوراُس کے قرب کی خاطر خرچ کرتا ہے۔ اسی لیے زکوٰۃ کے لیے بھی صدقے کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کےمصارف کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہاِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلۡفُقَرَآءِ وَالۡمَسٰکِیۡنِ وَالۡعٰمِلِیۡنَ عَلَیۡہَا وَالۡمُؤَلَّفَۃِ قُلُوۡبُہُمۡ وَفِی الرِّقَابِ وَالۡغٰرِمِیۡنَ وَفِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَابۡنِ السَّبِیۡلِ ؕ فَرِیۡضَۃً مِّنَ اللّٰہِ ؕ وَاللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ (توبہ:۶۰) صدقات تو محض محتاجوں اور مسکینوں اور اُن (صدقات) کا انتظام کرنے والوں اور جن کی تالیفِ قلب کی جا رہی ہو اور گردنوں کو آزاد کرانے اور چٹی میں مبتلا لوگوں اور اللہ کی راہ میں عمومی خرچ کرنے اور مسافروں کے لیے ہیں۔ یہ اللہ کی طرف سے ایک فرض ہے اور اللہ دائمی علم رکھنے والا (اور) بہت حکمت والا ہے۔

بنیادی طور پر صدقے کا لفظ ’صدق ‘سے نکلا ہے جس کے معنے سچائی، پائیداری اور ظاہر وباطن کا ایک ہونا بیان ہوئے ہیں گویا صدقہ کسی انسان کے صدق کوظاہر کرنے کا اہم ذریعہ اور صادقوں کی بڑی نشانی ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اسی اہم نکتہ کو بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ’’تقدیر کو اللہ بدل دیتا ہے اور رونا دھونا اور صدقات فردِ قراردادِجرم کو بھی ردّی کردیتے ہیں۔ اُصول خیرات کا اسی سے نکلا ہے۔ یہ طریق اللہ کو راضی کرنے کے لیے ہیں۔ علم تعبیرالرؤیا میں مال کلیجہ ہوتا ہے۔ اس لیے خیرات کرنا جان دینا ہوتا ہے۔ انسان خیرات کرتے وقت کس قدر صدق و ثبات دکھاتا ہے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ صرف قیل وقال سے کچھ نہیں بنتا، جب تک کہ عملی رنگ میں لاکر کسی بات کو نہ دکھایا جاوے۔ صدقہ اس کو اسی لیے کہتے ہیں کہ صادقوں پر نشان کردیتا ہے۔‘‘(ملفوظات جلد اوّل صفحہ ۱۵۵، ایڈیشن۱۹۸۸ء)

اسلام کا نظام زندگی

اس سے پہلے کہ صدقہ کے معانی اوراس کا نہایت مفید مفہوم بیان کیا جائے، ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی نظام زندگی کے بارےمیں کچھ بیان کردیا جائے۔ سو جاننا چاہیے کہ اسلام نے اپنے ہر نظام خواہ وہ سیاسی ہو یا اقتصادی، تمدّنی ہو یا کوئی دوسرا نظام، ان سب کی بنیاد اس امر پر رکھی ہے کہ اصل بادشاہت اور مالکیت اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے یعنی وہی مختارِ کل اورہر چیز کا مالک ہے۔اسی نے نظام عالم کو جاری کیا ہے اس لیے جس طرح وہ چاہتا ہےاُس کے بندوں کو اُس کی مرضی اور منشاکے مطا بق دنیا کے نظام کو چلانا چاہیے تاکہ اُس کی حکومت دنیا میں قائم ہواور اُس کے نام کا ڈنکا بجے۔ اسی مقصد کے حصول کے لیے وہ وقتاً فوقتاًاپنے چنیدہ بندوں کے ذریعہ آسمانی راہنمائی نازل فرماتا رہتاہے۔پس جو لوگ اُس کی مرضی اور منشاکے مطابق چلیں گے اُن کے لیے اگلے جہان میں ترقیات کا ایک لا متناہی سلسلہ جاری کیا گیا ہے لیکن جو لوگ انکار کریں گے ان کی باز پُرس ہو گی اور اُنہیں جوابدہی کے عمل سے گزرنا پڑے گا۔اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں اپنی حاکمیت اعلیٰ کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ وَتَبٰرَکَ الَّذِیْ لَہٗ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ وَمَا بَیۡنَہُمَا ۚ وَعِنۡدَہٗ عِلۡمُ السَّاعَۃِ ۚ وَاِلَیۡہِ تُرۡجَعُوۡنَ (زخرف:۸۶) اور ایک وہی برکت والا ثابت ہوا جس کے لیے آسمانوں اور زمین کی اور جو کچھ ان کے درمیان ہے بادشاہت ہے۔ اور اس کے پاس اس خاص گھڑی کا علم ہے اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤگے۔قرآن کریم کے ایک اور مقام پر فرمایا ہے:وَلِلّٰہِ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ ؕ وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ (اٰلِ عمران:۱۹۰) اور اللہ ہی کے لیے ہے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت۔ اور اللہ ہر چیز پر جسے وہ چاہے دائمی قدرت رکھتا ہے۔نیز فرمایا ہے : تَبٰرَکَ الَّذِیۡ بِیَدِہِ الۡمُلۡکُ ۫ وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرُ (الْمُلْکِ:۲) بس ایک وہی برکت والا ثابت ہوا جس کے قبضہء قدرت میں تمام بادشاہت ہے اور وہ ہر چیز پر جسے وہ چاہے دائمی قدرت رکھتا ہے۔

زمین و آسمان کی ہر چیز انسانوں کے فائدہ کے لیے ہے

زمین و آسمان کے اُسی مالک اور بادشاہ نے یہ بھی بتایا ہے کہ رزق کی تقسیم کا اختیار اُس نے اپنے پاس رکھا ہے۔ قُلۡ اِنَّ رَبِّیۡ یَبۡسُطُ الرِّزۡقَ لِمَنۡ یَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِہٖ وَیَقۡدِرُ لَہٗ ؕ وَمَاۤ اَنۡفَقۡتُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ فَہُوَ یُخۡلِفُہٗ ۚ وَہُوَ خَیۡرُ الرّٰزِقِیۡنَ۔(سبا:۴۰) تُو کہہ دے کہ یقیناً میرا ربّ اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہے رزق کشادہ کردیتا ہے اور (کبھی) اس کے لیے (رزق) تنگ بھی کرتا ہے اور جو چیز بھی تم خرچ کرتے ہو تو وہی ہے جو اس کا بدلہ دیتا ہے اور وہ رزق عطا کرنے والوں میں سب سے بہتر ہے۔زمین وآسمان کےاُسی مالک نے یہ اعلان بھی فرمایا ہے کہ ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَکُمۡ مَّا فِی الۡاَرۡضِ جَمِیۡعًا (الْبَقَرَۃ:۳۰) وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے وہ سب کا سب پیدا کیا جو زمین میں ہے۔اس آیت سے واضح ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہے وہ سب بنی نوع انسان کی مشترکہ وراثت ہےاور سب انسان اُن کے مالک ہیں۔ اگر اس اصول کو مان کر اُس پر عمل کیا جائے تو باہمی رقابتیں،حسد، بغض اور عداوتیں کم ہوجائیں گی اورانسان ایک دوسرے کے ہمدرد اور خیرخواہ بن جائیں گے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے ایک اور مقام پریہ اعلان فرمایا ہے کہ وَسَخَّرَ لَکُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الۡاَرۡضِ جَمِیۡعًا مِّنۡہُ ؕاِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یَّتَفَکَّرُوۡنَ (الْجَاثِیَۃِ:۱۴) اور جو بھی آسمانوں میں اور زمین میں ہے اس میں سے سب اس نے تمہارے لیے مسخر کر دیا۔ اس میں غوروفکر کرنے والوں کے لیے یقیناً کھلے کھلے نشانات ہیں۔یعنی زمین و آسمان میں جو کچھ ہے اُسےسب انسانوں کی خدمت کے لیے پیدا کیا گیاہے۔سو معلوم ہوا ہے کہ جن جن چیزوں سے کوئی انسان فائدہ اُٹھا رہا ہے وہ سب انسانوں کے لیے بنائی گئی ہیں۔ اس لیے جو لوگ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی چیزوں سے زیادہ فائدہ اُٹھا رہے ہیں اُن کے لیے ضروری ہے کہ وہ اُس میں سے اُن لوگوں پر بھی خرچ کریں جو کسی وجہ سےان چیزوں سےفائدہ اُٹھانے سے محروم ہیں۔

اگرچہ اسلام انفرادی حقِ ملکیت کوبھی تسلیم کرتا ہے لیکن وہ اس طور پر نہیں ہونا چاہیے کہ چند لوگ کسی چیز پر قابض ہوجائیں اوردیگر لوگوں کوکلی طور پر اُس سے محروم کر دیں بلکہ اُس میں سے ضرورت مندوں کا حصہ نکالتے رہنا چاہیے۔ اگرموجودہ زمانے کے حالات پر ہی نگاہ ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ دولت کی نامناسب تقسیم اور دوسروں کا حق تسلیم نہ کرنے کے نتیجہ میں نہ صرف انفرادی طور پر بغض و حسد بڑھ رہا ہے بلکہ قومیں قوموں سے نالاں اور ایک دوسرے کی دشمن بنی ہوئی ہیں۔قرآن کریم کے ایک اور مقام پر مال و دولت عطا کرنے والے نے سمجھایاہے کہ میرے دیے ہوئے مال و دولت میں سوال کرنے والوں اور ضرورت مندوں کا حق مَیں نے مقرر کیا ہے۔اس لیے اگر تم کسی کی مالی مدد کرتے ہو تو اُس پر احسان نہیں کرتے بلکہ یہ تو اُن کا حق ہےجوتم اُنہیں واپس لوٹاتے ہو۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے : فِیْٓ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ۔ لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ(الْمَعَارِجِ:۲۵۔۲۶)جن کے اموال میں ایک معیّن حق ہے۔مانگنے والے کے لیے اور محروم کے لیے۔ قرآن کریم کے ایک اور مقام پر فرمایا ہے: وَفِیۡۤ اَمۡوَالِہِمۡ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ(الذّٰرِیٰتِ:۲۰) اور ان کے اموال میں سوال کرنے والوں اور بے سوال ضرورت مندوں کے لیے ایک حق تھا۔

پس صدقہ ایک قسم کے قرض کی ادائیگی ہے۔ صدقات تو اس لیے مقرر کیے گئے ہیں تاکہ دولت چند ہاتھوں میں جمع ہونے کی بجائے گردش میں رہے اور معاشرے کے کمزور طبقات بھی اپنی بنیادی ضروریاتِ زندگی پوری کرنے کے قابل ہوسکیں۔حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’صدقہ کے متعلق چوتھا پہلو اسلام نے یہ پیش کیا ہے کہ صدقہ کی حقیقت بیان کی ہے اور بتایا ہے کہ صدقہ ایک قسم کے قرضہ کی ادائیگی ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں صدقہ ملنے کی وجہ سے لوگ کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور ان میں سستی اور کاہلی پیدا ہو جاتی ہے۔مگر اسلام کہتا ہے فِیْٓ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ۔ لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ۔ فِیْٓ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ محتاج اور مساکین کا حق ہے کہ تم انہیں اپنے مال میں سے دو۔ اگر تم کسی محتاج کو دیتے ہو تو اس پر احسان نہیں کرتے بلکہ اس کا حق ادا کرتے ہو۔ دوسری جگہ اس حق کی تشریح ان الفاظ میں کی گئی ہےکہ وَسَخَّرَ لَكُمْ مَّا فی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مِّنْہُ (الجاثیۃ:۱۴) یعنی زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے اے بنی نوع انسان اسے ہم نے بغیر تمہاری محنت اور بغیر کسی قسم کی اُجرت کے تمہاری خدمت میں لگا دیا ہے۔ اب ا گر زمین اور آسمانوں کی چیزیں صرف زید یا بکر کی خدمت میں لگی ہوئی ہوں تو ان کاوہ مالک ہو سکتا ہے لیکن اگر یہ چیزیں غریب اور امیر سب کی خدمت کر رہی ہیں تو معلوم ہوا کہ سب چیزیں سب کے لئے پیدا کی گئی ہیں صرف زید یا بکر کے لئے نہیں پیدا کی گئیں۔ اگر سورج صرف بادشاہ کے لئے پیدا کیا جاتا تو چاہئے تھا کہ اسی کو نظر آتا اور اسی کو فائدہ پہنچاتامگر سورج بادشاہ کو بھی اسی طرح روشنی اور گرمی پہنچاتا ہے جس طرح ایک فقیر کو۔ یہی حال دوسری چیزوں کا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے بنی نوع انسان کی مشترکہ جائیداد ہے اور سب دولت اسی کے ذریعہ کمائی جاتی ہے۔سَخَّرَ لَكُمْ کے ماتحت ہی انسان دنیا میں مال و دولت حاصل کرتا ہے۔ پس ساری کی ساری کمائی پبلک پراپرٹی سے ہی ہو رہی ہے جو خدا تعالیٰ نے ساری دنیا کے لئے پیدا کی ہے۔ بےشک جو محنت ومشقت کرکے اس سے کماتا ہے اس کا زیادہ حق ہےمگر پراپرٹی میں حصہ رکھنے والے کا بھی تو حق ہوتا ہے۔ جو محنت کرتا ہے اس کا زیادہ حق ہوتا ہے۔ لیکن جس چیز میں محنت کرتا ہے وہ چونکہ مشترک ہے اس لئے اس کے لینے میں وہ بھی شریک ہے جس کی اس میں شراکت ہے۔ یہ حق صدقہ اور زکوٰۃ کے ذریعہ ادا کیا جاتا ہے۔

اب دیکھو یہ نکتہ بیان کر کے کس طرح امراء اور دولت مندوں کا تکبر توڑا گیا ہے۔ جب غرباء کا بھی امراء کے مال و دولت میں حق ہے تو اگر کوئی امیر ان کو دیتا ہے تو ان کا حق ادا کرتا ہے نہ کہ ان پر احسان کرتا ہے۔ ادھر غرباء اور محتاجوں کو شرمندگی سے یہ کہہ کر بچا لیا کہ مالداروں کے مال میں تمہارا بھی حق ہے۔ ہم نے ان کو ساری رقم دے کر ان کا فرض مقرر کر دیا ہے کہ ہمارے محتاج بندوں کو بھی دیں ساری کی ساری کمائی خود ہی نہ کھا جائیں۔‘‘(فضائل القرآن (۳)انوار العلوم جلد ۱۱ صفحہ ۵۷۸۔۵۷۹)

ہر نیک کام صدقہ ہے

جاننا چاہیے کہ صدقہ جہاں اسلام کے معاشی نظام کاایک نہایت اہم، مفید اور بابرکت جزو ہے، وہیں صدقہ نیکیوں کی بہت وسیع، نہایت عمدہ اور مفید راہ ہے۔اگر مسلمان صدقے کے اُس مفہوم کو سمجھ لیں جو ہمارے نبی کریمﷺنے بیان فرمایا ہے تو اُس کے نتیجہ میں دنیا امن، سکون اور سلامتی کا گہوارہ بن سکتی ہے۔آنحضرتﷺنے فرمایاہے:کُلُّ مَعْرُوْفٍ صَدَقَۃٌ۔ (صحیح البخاری کتاب الادب بَاب کُلُّ مَعْرُوْفٍ صَدَقَۃ حدیث:۶۰۲۱) ہر نیک کام صدقہ ہے یعنی ایک مسلمان اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے جو بھی نیک کام کرے گا اُسے اُس نیکی کے بدلے میں اُسی طرح اجر دیا جائے گاجس طرح صدقہ دینے والے کو دیا جاتا ہے۔آنحضرتﷺنے فرمایا ہے کہ صدقہ دینا ہر مسلمان کے لیے لازم ہے یعنی اسلام اس لیے آیا ہے کہ اُس کے ماننے والے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کو کبھی فراموش نہ ہونے دیں۔ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا : عَلَی کُلِّ مُسْلِمٍ صَدَقَۃٌ۔ ہر مسلمان پر صدقہ کرنا ضروری ہے۔ لوگوں نے کہا:یا نبی اللہ! جو شخص طاقت نہ رکھے ؟ آپؐ نے فرمایا:وہ اپنے ہاتھ سے محنت کرے۔ خود بھی فائدہ اُٹھائے اور صدقہ بھی دے۔ انہوں نے کہا:اگر یہ بھی نہ ہوسکے ؟ آپؐ نے فرمایا:حاجت مند مصیبت زدہ کی مدد کرے۔ انہوں نے کہا:اگر یہ بھی نہ ہوسکے تو؟ آپؐ نے فرمایا:چاہیے کہ اچھی بات پر عمل کرے اور بدی سے باز رہے۔ یہی اُس کے لیے صدقہ ہے۔(صحیح البخاری کتاب الزکوٰۃ باب ۳۰:عَلَی کُلِّ مُسْلِمٍ صَدَقَۃٌ حدیث:۱۴۴۵)

لوگوں کے ہر جوڑ پر صدقہ لازم ہے۔رسول اللہﷺنے فرمایاہے: ہر دن جس میں سورج طلوع ہوتا ہے۔ لوگوں کے ہر جوڑ پر صدقہ ہے۔ آپؐ نے فرمایا: تم دو آدمیوں کے درمیان انصاف کرتے ہو یہ بھی صدقہ ہے۔ تم کسی آدمی کو اس کی سواری میں مدد کرتے ہو اور اسے اس پر سوار کراتے ہو یا اس پر اس کا سامان اُٹھواتے ہو یہ بھی صدقہ ہے اور اچھی بات (کہنابھی ) صدقہ ہے اور ہر وہ قدم جو تم نماز کے لیے اُٹھاتے ہو صدقہ ہے اور تم راستہ سے تکلیف دہ چیز ہٹاتے ہو وہ (بھی ) صدقہ ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الزکوٰۃ:بَاب بَیَان أَنَّ اسْمَ الصَّدَقَۃِ یَقَعُ عَلَی کُلِّ نَوْعٍ مِنَ الْمَعْرُوْفِ حدیث:۱۶۶۳) رسول اللہﷺنے فرمایا ہے:کُلُّ سُلَامَی مِنَ النَّاسِ عَلَیْہِ صَدَقَۃٌ کُلُّ یَوْمٍ تَطْلُعُ فِیْہِ الشَّمْسُ یَعْدِلُ بَیْنَ النَّاسِ صَدَقَۃٌ۔(صحیح البخاری کتاب الصلح بَاب:فَضْلُ الْاِصْلَاحِ بَیْنَ النَّاسِ وَالْعَدْلِ بَیْنَھُم حدیث:۲۷۰۷) آدمی کے ہر جوڑ پر ہر دن جس میں سورج نکلتا ہے صدقہ لازم ہے۔ لوگوں کے درمیان عدل کرے تو یہ بھی صدقہ ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہابیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے : آدم کی اولاد میں سے ہر انسان کی تخلیق میں تین سو ساٹھ جوڑ ہیں پس جس شخص نے اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہا اور اَلْحَمْدُلِلّٰہِ کہا اور لَا اِلٰہَ اِلَّا للّٰہُ کہا اور سُبْحَانَ اللّٰہِ کہا اور اللہ سے مغفرت چاہی اور لوگوں کے راستہ سے پتھر ہٹایا، کانٹا یا ہڈی لوگوں کے راستہ سے ہٹائی یا نیکی کا حکم دیا یا برائی سے روکا، ان۳۶۰ جوڑوں کی تعداد کے مطابق۔ وہ اس دن چلے گا اور اس نے اپنی جان کو آگ سے دُور کردیا۔ (صحیح مسلم کتاب الزکوٰۃ بَاب بَیَانِ أَنَّ اسْمَ الصَّدَقَۃِ یَقَعُ عَلَی کُلِّ نَوْعٍ مِنَ الْمَعْرُوْفِ حدیث:۱۶۶۱)

صدقہ کے وسیع معنی

نبی کریمﷺنے فرمایا ہے کہ أَفْضَلُ الصَّدَقَۃِ أَنْ یَتَعَلَّمَ الْمَرْءُ الْمُسْلِمُ عِلْمًا ثُمَّ یُعَلِّمَہُ أَخَاہُ الْمُسْلِمَ (سنن ابن ماجہ کتاب مقدمۃ المؤلف بَاب:ثَوَابُ مُعَلِّمِ النَّاسِ الْخَیْرحدیث:۲۴۳) سب سے افضل صدقہ یہ ہے کہ ایک مسلمان شخص علم سیکھے اور پھر وہ اسے اپنے مسلمان بھائی کو سکھائے۔یعنی ایک مومن کا دوسرے مومن کو فائدہ مند علم سکھانا اُس کی طرف سے صدقہ بن جاتا ہے۔ آپﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اپنے شر کو لوگوں سے روکے رکھ۔ یہی تیری طرف سے تیرے نفس کے لیے صدقہ ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الایمان بَاب بَیَان کُوْنِ الْاِیْمَانِ بِاللّہِ تَعَالَی أَفْضَلَ الْاَعْمَالِ حدیث:۱۱۱) اب اسی ارشادِ مبارک پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ کتنےہی مسلمان مختلف اوقات میں ہمیں علم سکھاتےہیں اور اس طرح وہ نیکیوں کا صدقہ ہمارے درمیان تقسیم کرتے رہتے ہیں اور ہم بڑی خوشی سے یہ صدقہ وصول کرلیتے ہیں۔ اسی طرح جومسلمان اپنے شر سے دوسروں کو بچاتا ہے۔ وہ اُس کی طرف سے صدقہ بن جاتا ہے گویا ہر امیروغریب اور چھوٹا بڑا مسلمان ساری زندگی صدقے کے اس فیض کو دنیا میں تقسیم کرتا رہتا ہے۔ آنحضرتﷺنے یہ بھی فرمایا ہے کہ تمہارا اپنے (مسلمان) بھائی کی طرف دیکھ کر مسکرادینا صدقہ ہے، اُسے نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا صدقہ ہے۔ کسی بھولے بھٹکے کو راستہ بتادینا صدقہ ہے، نابیناکے ساتھ چلنا صدقہ ہے، راستے سے پتھر، کانٹا یا ہڈی ہٹادینا صدقہ ہے اور اپنے ڈول میں سے اپنے بھائی کے ڈول میں کچھ ڈال دینا بھی صدقہ ہے۔(الجمامع الکبیر للترمذی أبواب البروالصلۃ بَا مَاجَاءَ فِی صَنَائِعِ الْمَعْرُوْفِ حدیث:۱۹۵۶) اگر کچھ لوگوں کے مطابق صدقہ واقعی معیوب چیز ہے توپھر کس طرح ممکن تھا کہ نبی کریمﷺ ہر نیک کام کو صدقہ قرار دیتے۔

صدقہ کے وسیع مواقع

نبی کریمﷺکے ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ تکبیرکہنا،تحمید کرنا، تہلیل اور تسبیح بیان کرنا یعنی اَللّٰہُ اَکْبَرُ، اَلْحَمدُلِلّٰہ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ اور سُبْحَانَ اللّٰہِ کہناصدقہ ہے۔نیکی کی تلقین کرنا صدقہ ہے۔بدی سے روکنا اور اس سے بچتے رہنا صدقہ ہے۔ مخلوق خدا کی خدمت کرنا اور اُن کی ضروریات کا خیال رکھنا صدقہ ہے۔ نوع انسان کی ہمدردی اور خیر خواہی صدقہ ہے۔ مسلمان بھائی کی طرف مسکرا کر دیکھنا صدقہ ہے۔ عدل کرناصدقہ ہے۔کسی کو پانی پلانا صدقہ ہے۔ کسی کو کھانا پکانے کے لیے نمک یا آگ دینا صدقہ ہے۔کسی کو دودھ والا جانور دینے سے اُس جانور کا دودھ اُس کی طرف سے صدقہ بن جاتا ہے۔کسی کے ہاں مہمان تین دن سے زیادہ ٹھہرے وہ گھر والوں کی طرف سے صدقہ بن جاتا ہے۔کسی کو اس کی سواری پر سوار ہونے میں مدد دینا اور اُس کا سامان اُٹھوانا صدقہ ہے۔یعنی ہرنیک کام میں حصہ لیناصدقہ ہے اورنیک کام میں مدد کرنا بھی صدقہ ہے۔الْکَلِمَۃُ الطَّیِّبَۃُ صَدَقَۃٌ (صحیح البخاری کتاب الجھاد والسیر باب مَنْ اَخَذَ بالرّکَابِ ونَحْوِہِ حدیث:۲۹۸۹) اچھی بات کہناصدقہ ہے۔اچھی بات پر عمل کرناصدقہ ہے۔ راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹا دینا صدقہ ہے۔کسی کو اپنے شر سے بچائے رکھنا صدقہ ہے۔نماز کے لیے اٹھنے والا ہر قدم صدقہ ہے۔تہجد گزار اگر کسی روز نیند کے غلبے کی وجہ سے اُٹھ نہ سکے تو اُس کی نیند اُس کی طرف سے صدقہ بن جاتی ہے یعنی اچھی اورنیک نیتوں کا پھل صدقے کی صورت میں دیا جاتا ہے۔قرآن کریم کی تلاوت صدقہ ہے۔ اپنے گھر والوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا صدقہ ہے۔اپنی کمائی میں سے اپنی ذات پر، اپنی بیوی پر،اپنے بچوں پر اور اپنے خادم پر خرچ کرنا صدقہ ہے۔امانت دار خزانچی کو صدقے کا ثواب دیا جاتا ہے۔اگر کوئی کسی مسلمان کے درخت یا فصل کو نقصان پہنچادے، اُس میں سے کچھ چوری ہوجائے،کوئی انسان،چرند،پرندیا کوئی بھی اُس میں سے کھالے تو وہ بھی اس کی طرف سے صدقہ شمار ہوگا۔گویا ہر وہ کام جورضائےالٰہی کے حصول کے لیے کیاجائےیا جس سے مخلوق خدا کو فائدہ پہنچے صدقہ کہلاتاہے۔حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے: اپنے شر کو لوگوں سے روکے رکھ۔ یہی تیری طرف سے تیرے نفس کے لیے صدقہ ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الایمان بَاب بَیَان کُوْنِ الْاِیْمَانِ بِاللّٰہِ تَعَالَی أَفْضَلَ الْاَعْمَالِ حدیث:۱۱۱)

حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ کے بعض صحابہؓ نے آپﷺ کی خدمت میں عرض کیا یارسول اللہؐ ! مالدار لوگ سب اجر لے گئے وہ نماز پڑھتے ہیں جیسا کہ ہم نماز پڑھتے ہیں اور وہ روزے رکھتے ہیں جیسا کہ ہم روزے رکھتے ہیں اور وہ اپنے زائد اموال میں سے صدقہ کرتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: کیا اللہ نے تمہارے لیے وہ چیز نہیں بنائی جو تم صدقہ کرو ؟یقیناً ہر تسبیح صدقہ ہے۔ ہر تکبیر صدقہ ہے اور ہر تحمید صدقہ ہے اور ہر تہلیل صدقہ ہے اور نیکی کا حکم دینا صدقہ ہے اور بدی سے روکنا صدقہ ہے اور تمہارا اپنی بیوی سے تعلق قائم کرنا بھی صدقہ ہے۔ انہوں نے عرض کیا یارسول اللہؐ !ہم میں سے اگر کوئی اپنی خواہش پوری کرتا ہے تو اس میں بھی اُس کے لیے اجر ہے ؟ آپؐ نے فرمایا: تمہارا کیا خیال ہے اگر اپنی خواہش حرام جگہ پوری کرتا تو کیا اس پر بوجھ نہ ہوتا؟ اسی طرح جب وہ اُسے جائز طریقہ سے کرتا ہے تو اُس کے لیے اجر ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الزکوٰۃ بَاب بَیَانِ أَنَّ اسْمَ الصَّدَقَۃِ یَقَعُ عَلَی کُلِّ نَوْعٍ مِنَ الْمَعْرُوْفِ حدیث:۱۶۶۰)

بیوی کے منہ میں لقمہ ڈالنابھی نیکی ہے: أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: اِنَّکَ لَنْ تُنْفِقَ نَفَقَۃً تَبْتَغِی بِھَا وَجْہَ اللّٰہِ اِلَّا أُجِرْتَ عَلَیْھَا حَتَّی مَا تَجْعَلُ فِی فِی امْرَأَتِکَ (صحیح البخاری کتاب الایمان باب :مَا جَاءَ أَنَّ الْأَعْمَالَ بِالنِّیَّۃِ وَالْحِسْبَۃِ حدیث:۵۶) رسول اللہﷺنے فرمایا ہے کہ تُو جب کبھی بھی کوئی ایسا خرچ کرے گا کہ جس سے تو اللہ کی رضا مندی چاہتا ہوگا تو ضرور ہے کہ اس کا بدلہ تجھے دیا جائے۔ یہاں تک کہ اس (لقمہ) پر بھی جو تو اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتا ہے۔

تلاوت قرآن کریم صدقہ ہے:عنعُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ: الْجَاھِرُ بِالْقُرْآنِ، کَالْجَاھِرِ بِالصَّدَقَۃِ، وَالْمُسِرُّ بِالْقُرْآنِ، کَالمُسِرِّ بِالصَّدَقَۃِ (الجامع الکبیر للترمذی أبواب فضائل القرآن باب:۲۰،حدیث:۲۹۱۹) حضرت عقبہ بن عامرؓبیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا: قرآن کریم کی بلند آواز میں تلاوت کرنے والا اعلانیہ صدقہ دینے والے کی طرح ہے اور قرآن کریم کی مخفی آواز میں تلاوت کرنے والا خفیہ صدقہ دینے والے کی طرح ہے۔

نمک اور آگ دینا بھی صدقہ ہے: عَنْ عَائِشَۃَ أَنَّھَا قَالَتْ یَا رَسُولَ اللّٰہِ، مَا الشَّیْئُ الَّذِیْ لَا یَحِلُّ مَنْعُہُ؟ قَالَ: الْمَاءُ وَالْمِلْحُ وَالنَّارُ، قَالَتْ: قُلْتُ یَا رَسُولَ اللّٰہِ ھَذَا الْمَاءُ قَدْ عَرَفْنَاہُ فَمَا بَالُ الْمِلْحِ وَالنَّارِ، قَالَ: یَاحُمَیْرَاءُ! مَنْ أَعْطَى نَارًا، فَكَأَنَّمَا تَصَدَّقَ بِجَمِیْعِ مَا أَنْضَجَتْ تِلْكَ النَّارُ، وَمَنْ أَعْطَى مِلْحًا، فَكَأَنَّمَا تَصَدَّقَ بِجَمِیْعِ مَا طَیَّبَ ذَالِكَ الْمِلْحُ، وَمَنْ سَقَى مُسْلِمًا شَرْبَۃَ مِنْ مَاءٍ حَیْثُ یُوْجَدُ الْمَاءُ، فَكَأَنَّمَا أَعْتَقَ رَقَبَۃً، وَمَنْ سَقَى مُسْلِمًا شَرْبَۃً مِنْ مَاءٍ حَیْثُ لَا یُوْجَدُ الْمَاءُ، فَكَأَنَّمَا أَحْیَاھَا۔(سنن ابن ماجہ،أَبْوَابُ الرُّھُوْنِ، بَابُ الْمُسْلِمُونَ شُرَكَاءُ فِی ثَلاَثٍ حدیث:۲۴۷۴) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا :اےاللہ کے رسولؐ! کون سی چیز ایسی ہےجس کا روکنا جائز نہیں ہے؟ آپؐ نے فرمایا:پانی، نمک اور آگ۔ میں نے پوچھا:اے اللہ کے رسولؐ! اس پانی کی اہمیت سے تو ہم واقف ہیں لیکن نمک اور آگ کو روکناکیوں منع ہے ؟ آپؐ نے فرمایا: اے حمیراء! جو کسی کو آگ دیتا ہے اُس نے گویاوہ تمام کھانا صدقہ کیا جو اُس پر پکایا گیا۔ اورجس نےکسی کو نمک دیا توگویا اُس نے وہ تمام کھانا صدقہ کیا جس نے کھانے کو ذائقہ دار بنایا۔ جس شخص نے کسی مسلمان کواُس جگہ پانی پلایا جہاں پانی میسر ہو توگویا اُس نے ایک غلام کو آزاد کیا۔ لیکن جو کسی مسلمان کو ایسی جگہ پانی پلائے جہاں پانی دستیاب نہ ہوتو گویا اس نے اُسے نئی زندگی عطا کردی۔

امانت دار خزانچی کو صدقے کا ثواب ملتا ہے: حضرت ابوموسیٰ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں نبیﷺ نے فرمایا: یقیناًوہ مسلمان امانتدار خزانچی جو صدقہ کرنے کے حکم کو نافذ کرتا ہے۔ جس کا اسے حکم دیا گیا اور وہ اس شخص کو مکمل اور پورا پورا اپنے دل کی خوشی کے ساتھ دیتا ہے اور جس شخص کے لیے اسے وہ چیز دینے کا حکم دیا گیا ہے وہ اس کے سپرد کردیتا ہے وہ دو صدقہ کرنے والوں میں سے ایک ہے۔(صحیح مسلم کتاب الزکوٰۃ باب أَجْرِ الْخَازِنِ الْأَمِیْنِ …)

مسلمان کا نقصان بھی صدقہ شمار ہوتا ہے: نبی کریمﷺ نےیہ بھی فرمایاہے کہ کوئی مسلمان درخت نہیں لگاتا مگر جو بھی اس میں سے کھایا جائے وہ اس کی طرف سے صدقہ ہوتا ہے اور جو اس میں سے چوری ہوجائے وہ بھی اس کی طرف سے صدقہ ہے۔ اور جو درندے اس سے کھائیں وہ بھی اس کی طرف سے صدقہ ہوتا ہے اور جو پرندے کھائیں وہ بھی اس کی طرف سے صدقہ ہوتا ہے اور کوئی بھی اس کو نقصان نہیں پہنچاتا مگر وہ اس کے لیے صدقہ ہوتا ہے۔(صحیح مسلم کتاب المساقاۃ بَاب: فَضْلُ الْغَرسِ وَالزَّرْعِ حدیث:۲۸۸۶)

قیامت تک کے لیے ثواب کا ذریعہ:حضرت جابر بن عبداللہ ؓکہتے ہیں کہ نبیﷺ حضرت ام معبدؓ کے پاس باغ میں تشریف لائے اور دریافت فرمایا: اے ام معبدؓ! یہ کھجور کا باغ کس نے لگایا ہے ؟ مسلمان نے یا کافر نے ؟ انہوں نے کہا کہ مسلمان نے۔ آپؐ نے فرمایا: کوئی مسلمان درخت نہیں لگاتا جس سے کوئی انسان یا کوئی جانور یا کوئی پرندہ کھائے مگر وہ قیامت کے دن تک اس کے لیے صدقہ ہوجاتا ہے۔ (صحیح مسلم کتاب المساقاۃ بَاب: فَضْلُ الْغَرسِ وَالزَّرْعِ حدیث:۲۸۸۹)

ہرنیک کام میں مدد کرنا صدقہ ہے: نبی کریمﷺ کے متعدد ارشادات سے ہر پڑھنے والا جان چکا ہے کہ نیکی کےکسی کام میں حصہ لینا، نیکی کی کوئی راہ اختیار کرنا اور کسی نیک کام میں دوسروں کی مدد کرنا صدقہ ہے۔حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ایک آدمی کو اکیلے نماز پڑھتے دیکھا تو آپؐ نے فرمایا:اَلَارَجُلٌ یَتَصَدَّقُ عَلَی ھَذَا فَیُصَلِّی مَعَہُ (سنن ابوداؤد کتاب الصلاۃ بَابٌ فی الْجَمْعِ فِی الْمَسْجِدِ مَرَّتَیْنِ حدیث:۵۷۴) کیا کوئی آدمی اس پر صدقہ نہیں کرسکتا کہ اس کے ساتھ مل کر نماز پڑھ لے۔

نبیﷺنے اپنی اولاد کو صدقات سے کیوں منع فرمایا؟

بعض لوگ ضرورت کے باوجود صدقہ کی چیز یا رقم قبول کرتے ہوئے گھبراتے اور ہچکچاتے ہیں شایدوہ صدقہ کو معیوب خیال کرتے ہیں حالانکہ یہ اسلام کے معاشی نظام کا ایک اہم ترین جزو ہے۔جیسا کہ نبی کریمﷺ کے متعدد ارشادات سے واضح کیا جاچکا ہے کہ ہر مسلمان کسی نہ کسی رنگ میں ہر روز صدقہ دے بھی رہا ہوتا ہے اور لے بھی رہا ہوتا ہے گویا صدقہ نیکیوں کی ایک بہت بڑی راہ ہے۔اس لیے صدقہ اپنی ذات میں بری چیز نہیں ہے کہ کوئی انسان جائز ضرورت کے ہوتے ہوئے اُسے قبول کرنے سے گریز کرے۔ بریرہؓ نامی ایک خاتون نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو گوشت تحفہ دیا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم اس گوشت میں سے ہمارے لیے پکاتی۔ حضرت عائشہ ؓنے کہا : وہ تو بریرہ کو صدقہ دیا گیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: وہ اس کے لیے صدقہ ہے اور ہمارے لیے ہدیہ ہے۔ (صحیح مسلم کتاب لعتق بَاب اِنَّمَا الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ حدیث:۲۷۵۱) اس حدیث سےبھی پتا چلتا ہے کہ صدقہ اپنی ذات میں بری چیز نہیں ہے بلکہ رسول کریمﷺنے اپنی اولاد کو صدقہ سے منع فرماکر اپنی امت کے غریب اور نادار افراد پر بہت بڑا احسان فرمایا ہےکیونکہ دنیا کا قانون اسی طرح جاری ہے کہ آج اگرکوئی انسان امیر ہے توکسی وقت وہ یا اُس کی اولادیں غریب ہوجاتی ہیں اور جو آج غریب ہے اُس کو اللہ تعالیٰ غنی اور مالدار بنا دیتا ہے۔قدرت کے جاری کردہ اس نظام کو آنحضرتﷺ بخوبی جانتے تھے کہ کسی وقت میری اولاد پر بھی غربت آسکتی ہے۔اس لیے اگر آنحضرتﷺ اپنی اولاد کے لیے صدقات لیناپسند فرمالیتے تو امت کے اکثر افراد نے نبی کریمﷺ سے بے پناہ محبت کی بنا پر صدقات دیتے وقت آپؐ کی نسل کےغریب افراد کو ترجیح دینی تھی اور یوں اُمت کے بے شمار مستحق اور ضرورتمند اپنی ضرورتیں پوری کرنے سے محروم ہوتے رہتے۔پس آپﷺ نے اپنی اولاد کو صدقات سے منع فرماکر اپنی امت کےغرباء پر بہت بڑا احسان فرمایا ہے۔ اس اہم نکتہ کو بیان کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے فرمایاہے کہ ’’رسول کریمﷺ نے دنیا کی ترقی کے لئے اپنی ہی قربانی نہیں کی۔ بلکہ اپنی آئندہ نسل کی بھی قربانی کی ہے اور یہ قربانی نہایت عظیم الشان قربانی ہے۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ لوگ بڑی بڑی قربانیاں دیتے ہیں۔لیکن ان قربانیوں کی غرض یہ ہوتی ہے کہ اُن کی اولاد کو فائدہ پہنچ جائے۔ پس اولاد کی قربانی اکثر اوقات اپنی قربانی سے بھی شاندار ہوتی ہے۔ آپؐ نے اس قربانی کا بھی نہایت شاندار نمونہ دکھایا ہے۔چنانچہ آپؐ نے حکم دیا ہے کہ صدقات کا مال میری اولاد کے لیے منع ہے۔ رسول کریمﷺجیسا دانا انسان اس اَمر کو خوب سمجھ سکتا تھا کہ زمانہ یکساں نہیں رہتا۔ میری اولاد پر بھی ایسا وقت آسکتا ہے اور آئے گا کہ وہ لوگوں کی امداد کی محتاج ہوگی۔ لیکن باوجود اس کے آپؐ نے فرمادیا کہ میری اولاد کے لیے صدقہ منع ہے۔گویا ایک ہی رستہ جو غرباء کی ترقی کے لیے کھلا ہے؛ اسے اپنی اولاد کے لیے بند کردیا اور اس کی وجہ اس کے سوا کیا ہوسکتی ہے کہ آپؐ نے خیال فرمایا کہ اگر صدقہ میری اولاد کے لیے کھلا رہا تو اسرائیلی نبیوں کی اولاد کی طرح میری اُمت کے لوگ بھی میرے تعلق کی وجہ سے صدقہ میری اولاد کو ہی زیادہ تر دیں گے۔ اور مسلمانوں کے دوسرے غرباء تکلیف اٹھائیں گے۔ پس آپ نے دوسرے مسلمان غرباء کو تکلیف سے بچانے کے لیے اپنی اولاد کو صدقہ سے محروم کردیااور گویا دوسرے مسلمانوں کی خاطر اپنی اولاد کو قربان کردیا۔ یہ کس قدر قربانی ہے اور کیسی شاندار قربانی ہے۔ اگر مسلمان اس قربانی کی حقیقت کو سمجھیں تو سادات کو کبھی تنگ دست نہ رہنے دیں کیونکہ اس طرح رسول کریمﷺنے دوسرے مسلمانوں کی خاطر اپنی اولاد کو قربان کیا ہے۔ مسلمانوں کا بھی فرض ہے کہ اس قربانی کے مقابلہ میں ایک شاندار قربانی کریں اور جس دروازہ کو صدقہ کی شکل میں بند کیا گیا ہے اسے ہدیہ کی شکل میں کھول دیں۔ ‘‘(دنیا کا محسن، انوارالعلوم جلد ۱۰صفحہ ۳۰۷)

حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی جب آپؑ کے پاس آئے تو اس وقت انہوں نے جو مکالمہ آپ سے کیا اُس کا ذکر کرتے ہوئے قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ فَلَمَّا دَخَلُوۡا عَلَیۡہِ قَالُوۡا یٰۤاَیُّہَا الۡعَزِیۡزُ مَسَّنَا وَاَہۡلَنَا الضُّرُّ وَجِئۡنَا بِبِضَاعَۃٍ مُّزۡجٰٮۃٍ فَاَوۡفِ لَنَا الۡکَیۡلَ وَتَصَدَّقۡ عَلَیۡنَا ؕ اِنَّ اللّٰہَ یَجۡزِی الۡمُتَصَدِّقِیۡنَ۔ (یُوْسُفَ:۸۹) پس جب وہ اس کی جناب میں حاضر ہوئے انہوں نے کہا اے صاحب اختیار! ہمیں اور ہمارے گھر والوں کو بہت تکلیف پہنچی ہے اور ہم تھوڑی سی پونجی لائے ہیں۔ پس ہمیں بھرپور تول عطا کر اور ہم پر صدقہ کر۔ یقیناً اللہ صدقہ خیرات کرنے والوں کو جزا دیتا ہے۔اس آیت کریمہ سے بھی واضح ہے کہ کسی نبی کی اولاد کے لیے صدقات لینا کوئی معیوب اَمرنہیں ہے۔

صدقہ صدق اور اخلاص سے دیناچاہیے

پس امیروں کا فرض ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے کمزور اور ضرورتمند افراد کابہت خیال رکھیں اور اُن کے حقوق کی ادائیگی میں غفلت نہ برتیں۔ اسی طرح جو بھی صدقات دیں وہ احسان جتلانے کی غرض سے نہ ہوں بلکہ صدقات صدق دل اور اخلاص سے دینے چاہئیں تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور قبولیت کے درجے پر پہنچ جائیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام صدقات کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’اکثر لوگ غریبوں پر احسان کرتے ہیں اور احسان میں یہ ایک مخفی عیب ہے کہ احسان کرنے والا خیال کرتا ہے کہ میں نے احسان کیا ہے اور کم سے کم وہ اپنے احسان کے عوض میںشکریہ یا دعا چاہتا ہے اور اگر کوئی ممنون منت اس کا مخالف ہوجائے تو اس کا نام احسان فراموش رکھتا ہے۔ بعض وقت اپنے احسان کی وجہ سے اس پر فوق الطاقت بوجھ ڈال دیتا ہے اور اپنا احسان اس کو یاد دلاتا ہے جیسا کہ احسان کرنے والوں کو خدا تعالیٰ متنبہ کرنے کے لئے فرماتا ہے ۔لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِکُمْ بِالْمَنِّ وَالْاَذٰی (البقرہ:۲۶۵)یعنی اے احسان کرنے والو! اپنے صدقات کو جن کی صدق پر بنا چاہیے۔ احسان یاد دلانے اور دکھ دینے کے ساتھ برباد مت کرو۔ یعنی صدقہ کا لفظ صدق سے مشتق ہے۔ پس اگر دل میں صدق اور اخلاص نہ رہے تو وہ صدقہ صدقہ نہیں رہتا۔ بلکہ ایک ریاکاری کی حرکت ہوجاتی ہے۔ غرض احسان کرنے والے میں یہ ایک خامی ہوتی ہے کہ کبھی غصہ میں آکر اپنا احسان بھی یاد دلا دیتا ہے اسی وجہ سے خدا تعالیٰ نے احسان کرنے والوں کو ڈرایا ہے۔‘‘ (اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد ۱۰صفحہ ۳۵۳۔۳۵۴)

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں صدقات کے اصل مقصداور مفہوم کو سمجھتے ہوئے نیکیوں کے ان وسیع مواقع سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرماتا رہے۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button