سچا علم قرآن شریف سے ملتا ہے
اصل میں علماء عالِم کی جمع ہے اور علم اس چیز کو کہتے ہیں جو یقینی اور قطعی ہو اور سچا علم قرآن شریف سے ملتا ہے۔یہ نہ یونانیوں کے فلسفہ سے ملتا ہے نہ حال کے انگلستانی فلسفہ سے بلکہ یہ سچا ایمانی فلسفہ قرآن کریم کے طفیل سے ملتا ہے۔مومن کا کمال اور معراج یہی ہے کہ وہ علماء کے درجہ پر پہنچے اور اسے حق الیقین کا وہ مقام حاصل ہو جو علم کا انتہائی درجہ ہے۔لیکن جو لوگ علوم حقّہ سے بہرہ ور نہیں ہیں اور معرفت اور بصیرت کی راہیں ان پر کھلی ہوئی نہیں ہیںوہ گو اپنے منہ سے اپنے آپ کو عالم کہیں مگر فی الحقیقت ایسے لوگ علم کی خوبیوں اور صفات سے بالکل بے بہرہ ہیں اور وہ روشنی اور نور جو حقیقی علم سے ملتا ہے ان میں بالکل پایا نہیں جاتا بلکہ ایسے لوگ سراسر خسارہ اور نقصان میں ہیں۔یہ اپنی آخرت دُخان اور تاریکی سے بھر لیتے ہیں۔ایسے ہی لوگوں کے حق میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔مَنۡ کَانَ فِیۡ ہٰذِہٖۤ اَعۡمٰی فَہُوَ فِی الۡاٰخِرَۃِ اَعۡمٰی (بنی اسرائیل:۷۳)جو آدمی اس دنیا میں اندھا ہےوہ آخرت میں بھی اندھا اٹھایا جائے گا۔یعنی جس کو یہاں علم بصیرت اور معرفت نہیں دی گئی اسے وہاں کیا علم ملے گا۔اللہ تعالیٰ کو دیکھنے والی آنکھ اسی دنیا سے لے جانی پڑتی ہے۔جو آدمی یہاں ایسی آنکھ پیدا نہیں کرتا اسے یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو آخرت کے دن دیکھ لے گا۔
لیکن جن لوگوں کو سچی معرفت اور بصیرت دی جاتی ہے اور وہ علم جس کا نتیجہ خشیۃ اللہ ہے، عطا کیا جاتا ہے۔ وہ وہی لوگ ہیں جن کو اس حدیث میں انبیاء بنی اسرائیل سے تشبیہ دی گئی ہے۔
(ملفوظات جلد اول صفحہ ۳۴۸-۳۴۹، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)