خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۷؍ فروری۲۰۲۳ء بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکے)
سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےخطبہ کے عنوان کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب:فرمایا: جیسا کہ ہر احمدی جانتا ہے کہ ۲۰؍ فروری کا دن جماعت میں پیشگوئی مصلح موعود کے حوالے سے یاد رکھا جاتا ہے اور اس مناسبت سے جماعتوں میں جلسےبھی ہوتے ہیں۔ مَیں نے مناسب سمجھا کہ آج کے خطبہ میں اس حوالے سے کچھ باتیں کروں…اس وقت میں حضرت مصلح موعودؓ کے علمی اور متفرق کارناموں میں سے بعض کا ذکر پیش کروں گا۔
سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےپیشگوئی مصلح موعود کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:یہ پیشگوئی حضرت مسیح موعودؑ کے ہاں ایک لڑکے کی ولادت کی تھی جو بہت سی خوبیوں کا مالک ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کی خاص تائید و نصرت اسے حاصل ہو گی۔ حضرت مسیح موعودؑ نے اس بات کو، پیشگوئی کو اس طرح بیان فرمایا ہے۔ فرمایا:’’پہلی پیشگوئی بالہام اللہ تعالیٰ واعلامہ عزوجل خدائے رحیم و کریم بزرگ و برتر نے جو ہر یک چیز پر قادر ہے (جلّ شانہ و عزّاسمہ) مجھ کو اپنے الہام سے مخاطب کر کے فرمایا کہ مَیں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں اُسی کے موافق جو تُو نے مجھ سے مانگا۔ سو مَیں نے تیری تضرّعات کو سنااور تیری دعاؤں کو اپنی رحمت سے بپایہ قبولیت جگہ دی اور تیرے سفر کو (جو ہوشیار پور اور لدھیانہ کا سفر ہے) تیرے لئے مبارک کر دیا۔ سو قدرت اور رحمت اور قربت کا نشان تجھے دیا جاتا ہے۔ فضل اور احسان کا نشان تجھے عطا ہوتا ہے اور فتح اور ظفر کی کلید تجھے ملتی ہے۔ اے مظفر! تجھ پر سلام۔ خدا نے یہ کہا تا وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں موت کے پنجہ سے نجات پاویں اور وہ جو قبروں میں دبے پڑے ہیں باہر آویں اور تا دینِ اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو اور تاحق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آ جائے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے اور تا لوگ سمجھیں کہ میں قادر ہوں جو چاہتا ہوں کرتا ہوں اور تا وہ یقین لائیں کہ میں تیرے ساتھ ہوں۔ اور تا انہیں جو خدا کے وجود پر ایمان نہیں لاتے اور خدا اور خدا کے دین اور اس کی کتاب اور اس کے پاک رسول محمد مصطفیٰؐ کو انکار اور تکذیب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ایک کھلی نشانی ملے اور مجرموں کی راہ ظاہر ہو جائے۔ سو تجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا۔ ایک زکی غلام (لڑکا) تجھے ملے گا۔ وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذریت و نسل ہو گا۔ خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے اس کا نام عَمَانُوایل اور بشیر بھی ہے۔ اس کو مقدس روح دی گئی ہے اور وہ رِجس سے پاک ہے۔ وہ نور اللہ ہے۔ مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے۔ اُس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا۔ وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہو گا۔ وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا۔ وہ کلمة اللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت و غیوری نے اسے اپنے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے۔ وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا اور دل کا حلیم اور علومِ ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا اور وہ تین کو چار کرنے وا لا ہوگا…‘‘۔تین کو چار کرنے کے بارے میں حضرت مسیح موعودؑنے لکھا ہے کہ’’(اس کے معنے سمجھ میں نہیں آئے۔)‘‘دو شنبہ ہے مبارک دوشنبہ۔ فرزند دلبند گرامیٔ ارجمند۔مَظْہَرُ الْاَوَّلِ وَ الْآخر، مَظْہَرُ الْحَقِّ وَالْعَلَاءِ کَأَنَّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَآءِ۔ جس کا نزول بہت مبارک اور جلالِ الٰہی کے ظہور کا موجب ہو گا۔ نور آتا ہے نور۔ جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا۔ ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اُس کے سر پر ہو گا۔ وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رَستگاری کا موجب ہو گا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا۔ وَ کَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًّا۔‘‘چنانچہ اس پیشگوئی کے مطابق اُس مدّت کے اندر جو آپؑ نے بیان فرمائی تھی بیٹا پیدا ہوا جس کا نام حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے خلیفة المسیح الثانی کے مقام پر بھی بٹھایا۔ پھر ایک لمبے عرصےبعد خلیفہ ثانیؓ نے اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر یہ اعلان فرمایا کہ جس بیٹے کی مصلح موعود ہونے کی حضرت مسیح موعودؑ نے خبر دی تھی وہ مَیں ہی ہوں۔ اس بیٹے کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیے جانے، ذہین و فہیم ہونے اور دوسری خصوصیات کے اپنے بھی اور غیر بھی معترف ہیں اور خوب جانتے ہیں اور اس کا اعتراف غیروں نے کھل کر کیا ہے۔
سوال نمبر۳: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت مصلح موعودؓ کی صحت اوردنیاوی تعلیم کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:آپؓ کا بچپن صحت کے لحاظ سے نہایت کمزوری میں گزرا، بیماری میں گزرا۔ آنکھوں کی تکلیف وغیرہ بھی رہی۔ نظر بھی ایک وقت میں ایک آنکھ سے جاتی رہی۔ پھر دنیاوی تعلیم کے لحاظ سے بھی آپؓ کی تعلیم نہ ہونے کے برابر تھی۔ آپؓ نے خود فرمایا کہ مشکل سے میری پرائمری تک تعلیم ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا آپؓ کو دینی و دنیوی علوم سے پُر کرنے کا اس لیے اللہ تعالیٰ نے ایسے ایسے زبردست اور عقل کو دنگ کر دینے والے خطابات اور خطبات آپؓ سے کروائے اور ایسے ایسے مضامین آپؓ نے لکھے کہ جو اپنی مثال آپ ہیں اور غیر بھی ان کے معترف ہیں۔
سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے حضرت مصلح موعودؓ کی کتب،خطابات،لیکچرز،مضامین اور پیغامات کےحوالہ سےکیاجائزہ پیش فرمایا؟
جواب: فرمایا:آپؓ کی تصنیفات، تقاریر، مضامین، خطبات اور مجالس عرفان وغیرہ کی تعداد اور حجم کا ایک جائزہ پیش کرتا ہوں۔ جو کتب،خطابات، لیکچرز، مضامین پیغامات وغیرہ کی شکل میں شائع ہوئے یا اب تقریباً مکمل ہیں ا ور وہ جو تقاریر، خطابات وغیرہ انوار العلوم کی شکل میں شائع ہونے کے لیے تیار ہیں۔ ان کی کل اڑتیس (38) جلدیں بن جائیں گی اور ان کی تعداد چودہ سو چوبیس (1424) ہے اور اس کے کُل صفحات بیس ہزار تین سو چالیس(20340) ہیں۔ اتنے ہو جائیں گے اندازاً۔ تفسیر کبیر،تفسیر صغیر سمیت دیگر تفسیری مواد کے صفحات اٹھائیس ہزار سات سو پینتیس (28735) ہیں۔ 1808خطبات جمعہ ہیں جن کے صفحات اٹھارہ ہزار سات سو پانچ (18705) ہیں۔ اکاون (51) خطباتِ عید الفطر ہیں جن کے صفحات پانچ سو تین(503) ہیں۔ بیالیس (42) خطباتِ عید الاضحی ہیں جن کے صفحات چار سو پانچ (405) ہیں۔150خطباتِ نکاح ہیں جن کے صفحات چھ سو چوراسی (684) ہیں۔ خطاباتِ شوریٰ جلد اوّل تا سوم بھی شائع ہوئی ہے اس کے صفحات دو ہزار ایک سو اکتیس (2131) ہیں یہ سارے اور جو مختلف اور بھی ہیں ان صفحات کو اکٹھا کیا جائے، جمع کیا جائے تو کُل تقریباً پچہتر ہزار (75000) صفحات بنتے ہیں۔ ریسرچ سیل نے الحکم اور الفضل کے 1913ء سے 1970ء تک کے شماروں کو دیکھا ہے تو یہ کہتے ہیں کہ کچھ مزید مواد سامنے آیا ہے جو ابھی تک انوارالعلوم یا کسی کتاب میں شائع نہیں ہو سکا۔ اس تفصیل کے مطابق پچپن(55)مضامین، ستائیس (27) تقاریر، ایک سو تینتالیس(143) مجالس عرفان، دو سو بائیس (222) عناوین ملفوظات اور ایک سو اکتیس (131) مکتوبات ابھی تک مل چکے ہیں۔ ایک بڑا وسیع علمی ذخیرہ ہے۔
سوال نمبر۵:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے اخبار’’روشنی ‘‘کے حضرت مصلح موعودؓ کی وفات پرتبصرہ کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:حضرت مصلح موعودؓکی وفات پر اخبار روشنی سری نگر نے ۱۱؍نومبر ۱۹۶۵ء میں لکھا کہ’’آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے اولین صدر جناب مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی وفات حسرت آیات۔‘‘ ایک جیّد عالم اور مفکر تھے۔ تقریر کرنے میں شاید ہی کوئی آپ کا ثانی تھا۔یہاں تک کہ ’’اسلام کا اقتصادی نظام’’اور’’اسلام کا نظام نو‘‘جیسے دقیق موضوعات پر ایک ایک ہی صحبت میں جو تقاریر ہوئیں وہ کتابی صورت میں شائع ہو کر مقبول عام ہو چکی ہیں۔ آپ کے عالم و فاضل ہونے کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس’’کے جج جسٹس ‘‘سر ظفراللہ خان صاحب بھی آپ کے مریدوں میں سے ہیں اور انہی کے الفاظ میں آپ کی ذات صفات حسنہ کا ایک ایسا دلکش مجموعہ پیش کرتی ہے جس کا ایک شخص کے وجود میں ہونا بہت نادر ہے …ظاہری اور باطنی علوم کا سرچشمہ بھی ہیں۔’’ آپ تخیل اور عمل کے میدانوں کے یکساں شہسوار ہیں۔ آپ کی زندگی کا بہت سا حصہ ذکر و فکر میں گزرتا ہے لیکن میدان عمل میں آپ ایک اولوالعزم اور جری قائد بھی ہیں۔‘‘…جناب مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کا ہر کشمیری دل سے مداح ہے کیونکہ تحریک حریت کشمیر میں آپ کا بہت بڑا حصہ ہے۔ ۱۹۳۱ء میں جب تحریک کشمیر شروع ہوئی تو آپ ہی آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے اولین صدر تھے اور یہ آپ ہی کی کوششوں کا ثمرہ تھا کہ تحریک پروان چڑھی اور اس کا غلغلہ چاردانگ عالم میں ہوا۔‘‘
سوال نمبر۶:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے ویمبلےکانفرنس میں حضرت مصلح موعودؓ کےمضمون پرغیروں کےکیاتاثرات بیان فرمائے؟
جواب: فرمایا:ویمبلےکانفرنس تو جماعت کی تاریخ میں کافی مشہور ہے۔ اس میں آپؓ کا جو مضمون پڑھا گیا اس میں غیروں کے تاثرات کیا تھے۔مضمون کے خاتمےپر پریذیڈنٹ نے مختصر الفاظ میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ’’مجھے زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں۔ مضمون کی خوبی اور لطافت کا اندازہ خود مضمون نے کرا لیا ہے۔‘‘ میں صرف اپنی طرف سے اور حاضرینِ جلسہ کی طرف سے مضمون کی خوبی ترتیب، خوبی خیالات اور اعلیٰ درجہ کے طریقِ استدلال کے لئے حضرت خلیفة المسیح کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ حاضرین کے چہرے زبانِ حال سے میرے اس کہنے کے ساتھ متفق ہیں اور مَیں یقین کرتا ہوں کہ وہ اقرار کرتے ہیں کہ مَیں ان کی طرف سے شکریہ کرنے میں حق پر ہوں اور ان کی ترجمانی کا حق ادا کر رہا ہوں۔ پھر حضرت صاحب کی طرف مخاطب ہو کر عرض کیا کہ مَیں آپ کو لیکچر کی کامیابی پر مبارک باد عرض کرتا ہوں آپ کا مضمون بہترین مضمون تھا جو آج پڑھے گئے۔‘‘رپورٹ لکھنے والے لکھتے ہیں ’’… ایک صاحب حضرت کے حضور حاضر ہوئے اور انہوں نے عرض کیا کہ میں نے ہندوستان میں تیس سال کام کیا ہے اور مسلمانوں کے حالات اور دلائل کا مطالعہ کیا ہے۔ کیونکہ میں ایک مشنری کی حیثیت سے ہندوستان میں رہا ہوں مگر جس خوبی، صفائی اور لطافت سے آپ نے آج کے مضمون کو پیش کیا ہے مَیں نے اس سے پہلے کبھی کسی جگہ بھی نہیں سنا۔ مجھے اس مضمون کو سن کرکیا بلحاظ خیالات، کیا بلحاظ ترتیب اور کیا بلحاظ دلائل بہت گہرا اثر ہوا ہے۔‘‘