متفرق مضامین

حقوقِ نسواں(حصہ اول)

(لئیقہ احمد۔ جرمنی)

اسلام سے قبل جو عورت کی حالت تھی وہ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہے۔ اس کو کوئی بھی حقوق حاصل نہیں تھے۔بعض علاقوں میں اگر باپ اپنی بیٹی کو مار ڈالتا تو وہ اُن کے لیے باعثِ عزت ہوتا۔ بعض قبائل میں لڑکیوں کو زندہ دفن کردیا جاتا یا پھر گلا گھونٹ کر مار دیا جاتا۔ نکاح کرنے کی کوئی تعداد مقرر نہ تھی۔ایک سے زیادہ بہنوں سے بھی ایک ہی شخص شادی کرلیتا۔ عورت کے مقام اور مرتبہ کا یہ حال تھا کہ بسا اوقات باپ کے مرنے کے بعد بیٹے اپنی سوتیلی ماں سے شادی کرلیتے۔ عورت کو وراثت میں کچھ حصہ دینے کا تصور ہی نہ تھا۔ اگرچہ عربوں میں مہمان نوازی کا جذبہ اور بہادرانہ اخلاق موجود تھے مگر عورت کے ساتھ حسنِ سلوک یا اُ س کے حقوق دینے میں عربوں کے بہت سے قبائل صفر تھے۔ جس طرح آج یورپ میں شراب اور رقص و سرود کی محفلیں سجتی ہیں بالکل یہی حال اسلام سے پہلے عرب میں تھا۔ عورت کو ہوا و ہوس کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔اُس دور کے شعراء اپنے ان کارناموں کو شاعری کی صورت میں بڑے فخر سے محفلوں میں سناتے۔ عورت کے لیے وہ تاریکی کا دور تھا۔

اسلامی تعلیمات نے عورت کو جس بلند مقام و مرتبہ سے نوازا اور جو حقوق عورت کو ملے اس کے بانی حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا احسان عورت ذات کبھی بھی نہیں اتار سکتی۔حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ۲۶؍ جولائی ۱۹۸۶ء کو مستورات سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’خصوصاً ایک بات بہت ہی قابلِ توجہ ہے جسے آج کا انسان فراموش کردیتا ہے اور وہ یہ ہے کہ تمام انسانی تہذیب میں، اور جب میں یہ کہتا ہوں تو تمام انسانی تہذیب پر اُس کی تاریخ پر نظر ڈال کر یہ بات کہتا ہوں۔تمام انسانی تہذیب میں صرف ایک مرد ہے جس نے عورت کی آزادی کی تحریک چلائی اور عورت کو اس کے حقوق دئیے وہ حضرت اقدس محمد ﷺ ہیں۔باقی تمام تحریکات جو عورت کی آزادی کے نام پر چلائی گئی ہیں وہ تمام عورتوں کی طرف سے چلائی گئی ہیں۔آج تک ساری کائنات میں ایک بھی مرد نہیں ہمارے آقا و مولیٰ محمد مصطفےٰﷺ کے سوا، جن کے دستِ کرم سے عورت کو فیض نصیب ہوا ہو۔‘‘(اوڑھنی والیوں کے کے لیے پھول جلد ۲ صفحہ ۴۲)

اسلام نے عورت کو اس کا مقام ومرتبہ دیتے ہوئے جو حقوق دیے اس کی چند مثالیں ہم دیکھ سکتے ہیں:

عورت کو زندہ رہنے کا حق ، وراثت کا حق، شادی سے پہلے خاوند کو دوسری شادی سے منع کرنے کا حق ، خلع یا طلاق کا حق ، اپنی جائیداد بنانے کا حق ، تعلیم حاصل کرنے کا حق ، دینی اور معاشرتی معاملات میں مشورہ دینے کا حق ، عورت کے ساتھ حسنِ سلوک کی تعلیم ، عورت پر ناجائز الزامات لگانے کی ممانعت۔

عورت کو زندہ رہنے کا حق:اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے: وَاِذَا بُشِّرَ اَحَدُہُمۡ بِالۡاُنۡثٰی ظَلَّ وَجۡہُہٗ مُسۡوَدًّا وَّہُوَ کَظِیۡمٌ۔ یَتَوَارٰی مِنَ الۡقَوۡمِ مِنۡ سُوۡٓءِ مَا بُشِّرَ بِہٖ ؕ اَیُمۡسِکُہٗ عَلٰی ہُوۡنٍ اَمۡ یَدُسُّہٗ فِی التُّرَابِ ؕ اَلَا سَآءَ مَا یَحۡکُمُوۡنَ۔ (النحل:۵۹-۶۰) اور جب ان میں سے کسی کو لڑکی کی بشارت دی جائے تو اس کا چہرہ غم سے سیاہ پڑ جاتا ہے اور وہ (اسے) ضبط کرنے کی کوشش کررہا ہوتا ہے۔ وہ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے اس (خبر) کی تکلیف کی وجہ سے جس کی بشارت اُسے دی گئی۔ کیا وہ رسوائی کے باوجود (اللہ کے) اُس (احسان) کو روک رکھے یا اسے مٹی میں گاڑ دے؟ خبردار! بہت ہی بُرا ہے جو وہ فیصلہ کرتے ہیں۔

یہ سب سے پہلا مقام اور مرتبہ ہے جو اسلام نے عورت کو دیا جس کی وجہ سے اُس نے دنیا میں جینا سیکھا۔عورت کو عزت ملی، اس کا ایک تقدّس قائم ہوا۔اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں عورتوں کے نام سے ایک سورت بھی نازل فرمائی جس کا نام ’’سورۃ النساء ‘‘ ہے اور اسلام کے نزول کے بعد عرب مسلمانوں میں اس طرح کے واقعات نہیں ہوئے۔

وراثت کا حق:اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے: وَلِلنِّسَآءِ نَصِیۡبٌ مِّمَّا تَرَکَ الۡوَالِدٰنِ وَالۡاَقۡرَبُوۡنَ مِمَّا قَلَّ مِنۡہُ اَوۡ کَثُرَ ؕ نَصِیۡبًا مَّفۡرُوۡضًا۔(النساء:۸) اور عورتوں کےلئے بھی اس ترکہ میں ایک حصّہ ہے جو والدین اور اقرباءنے چھوڑا۔ خواہ وہ تھوڑا ہو یا زیادہ۔ (یہ ایک) فرض کیا گیا حصّہ (ہے)۔

اسلام سے پہلے عرب میں عورت کو ’’ورثہ‘‘ کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا مگر اسلامی تعلیم کا احسان ہے کہ اس نے عورت کو ورثہ ملنے کا حق دیا۔آج اسلامی تعلیمات پر اعتراض کرنے والے مغربی ممالک نے خود عورت کو وراثت کا حق انیسویں صدی سے دینا شروع کیا۔اس سے پہلے ان کی عورتوں کو تصوّر بھی نہ تھا کہ ان کو وراثت کا حق مل سکتا ہے۔(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button