بُرے خیالات آنا شیطان کا ایک وسوسہ ہے
حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓفرماتے ہیں کہوسوسوں کا پیدا ہونا ضروری ہے۔ پر جب تک انسان اس کے شر سے بچا رہے یعنی ان کو اپنے دل میں جگہ نہ دے اور ان پر قائم نہ ہو، تب تک کوئی حرج نہیں۔ ایک دفعہ ایک شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے عرض کی کہ میرے دل میں بُرے بُرے خیالات پیدا ہوتے ہیں، کیا میں ان کے سبب سے گناہگار ہوں۔ فرمایا فقط برے خیال کا اٹھنا اور گزر جانا تم کو گناہگار نہیں کرتا۔ یہ شیطان کا ایک وسوسہ ہے۔ جیسا کہ بعض انسان جو شیطان کی طرح ہوتے ہیں لوگوں کے دلوں میں بُرے خیالات ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں، پس فقط ان کی بات سننے سے اور رد کر دینے سے کوئی گناہگار نہیں ہو سکتا۔ ہاں وہ گناہگار ہوتا ہے جو ان کی بات کو مان لیتا اور اس پر عمل کرلیتا ہے۔ (حقائق الفرقان جلد نمبر ۴ صفحہ۵۸۰)
تو بہت ساری ایسی باتیں زندگی میں ہیں، انسان کو پیش آتی ہیں جہاں شیطان ہر وقت وسوسے دل میں ڈالتا رہتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کے علاوہ پھر مذہب کی باتیں شروع ہو جاتی ہیں ، پھر اور باتیں ہو جاتی ہیں، تو اگر شیطان کی باتیں مان لیں پھر تو گناہگار ہو گئے۔ اگر انسان شیطان سے لڑتا رہے اور نیت ہوکہ میں نے اس کی بات نہیں ماننی تو اگر برے خیال آتے بھی ہیں تو اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتا ہے۔ لیکن جیسا کہ میں نے کہا، اگر عمل کریں تو جیسا کہ اس حدیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ایک چراگاہ ہے، ایک رکھ ہے جس میں جانا منع ہے تو وہاں قدم رکھ لیا تو پھر نقصان اٹھائیں گے، پھر اللہ تعالیٰ جو چاہے سلوک کرے۔
(خطبہ جمعہ ۹؍جولائی ۲۰۰۴ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۳؍جولائی ۲۰۰۴ء)