اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان
۲۰۲۳ءمیں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب
نوکری سے برطرف کیے گئے ایک جج کے ٹویٹ پر تبصرہ
۲۰؍مئی ۲۰۲۳ء:شوکت عزیز صدیقی جو کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا جج تھا، نے شرارت سے بھرپور ایک ٹویٹ کیا جس پر غور کرنا،تجزیہ کرنا اور اس پر اپنی رائے کا اظہار کرنا ضروری ہے۔یہ ٹویٹ ثمینہ ہاشمی نامی خاتون نے نشر کیا۔
شوکت عزیز کا ٹویٹ کچھ یوں ہے کہ ’’امریکہ، کینیڈا، برطانیہ، یورپی ممالک اور پاکستان میں موجود قادیانی پورے جوش وخروش کےساتھ آرمی چیف سید عاصم منیر کے خلاف متحرک ہیں اور ان کی ذات کے خلاف زہریلا پراپیگنڈا کرنےکےایجنڈے پر کارفرما ہیں۔مخبر زلمے خلیل زاد بھی ’’اجرتی ترجمان ‘‘ہے صیہونی و قادیانی اتحاد کا‘‘
ٹویٹ پر ثمینہ ہاشمی نے اپنا تبصرہ یوں کیاہے کہ’’سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ جیسا پڑھالکھا آدمی اس قدر بے تکی گفتگو کیسے کر سکتا ہے۔شوکت عزیز صدیقی صاحب جس کو مشہور کرنا ہو اس کو قادیانیوں کے خلاف ثابت کر دو۔یہ ہتھکنڈے اب کافی پرانے ہو گئے ہیں۔آپ صرف یہ بتا دیں کہ آپ کو کیوں نکالا؟آپ چاہ رہے ہیں کہ عاصم منیر کے گُن گا کر reinstateہو جائیں‘‘
ثمینہ ہاشمی نے جو کہا ہے وہ تو فقط برفانی تودے کی نوک کے برابر ہے۔اورجو کچھ پانچ سال قبل ہوا تھا اس کے متعلق صرف اشارہ ہے۔موقع کی مناسبت سے ہم اس کہانی کو یہاں بیان کر دیتے ہیں تا کہ ایسےگمراہ کن ٹویٹ کرنے والے کی حقیقت
معلوم ہوسکے۔
پانچ سال قبل ایک مخالف احمدیت مولوی ہائی کورٹ کے جج شوکت عزیز کی عدالت میں احمدیوں کے متعلق کسی معاملے میں پیش ہوا۔ شوکت عزیز نے ہفتوں بلکہ مہینوں اس کیس کو سنا اوربطور غیر جانبدار عدالتی مشیر انتہائی شدت پسند مخالفین احمدیت مولویوں اور اپنے من پسند ’آئینی ماہرین‘ کو احمدیوں کے خلاف فتویٰ دینےکےلیے اپنی عدالت میں مدعو کیا جبکہ کسی احمدی کو ایک منٹ کےلیے بھی بات کرنے کےلیے نہ بلایا گیا جن کےخلاف یہ سب کارروائی کی جارہی تھی۔بعد ازاں اس نے ایک سو بہتّر صفحات پر مشتمل ایک ضخیم،معاندانہ فیصلہ دیا۔اپنے اس فیصلے میں اس نے خلاصۃًیہ تجاویز دیں:
٭…انتظامی عہدوں،آرمی اور عدالتی عہدوں کے لیے اپنےایمان کو ثابت کرنے کےلیے ایک حلف نامہ دینا لازمی ہوگا۔
٭…ایوان کو ایسے قواعد و ضوابط کوبروئے کار لانا چاہیے جس سے ختم نبوت کے منکرین کو (نوکریوں) سے برطرف کیا جائے۔
٭…پاکستان کے شہریوں کو اپنی دوسری مستند دستاویزات کےساتھ مذہبی شناخت ( کےکاغذات) بھی مہیا کیے جانے چاہئیں۔
٭…انتظامی عہدوں پر تعینات افراد کی مذہبی شناخت کا علم نہ ہونا انتہائی خطرناک اور ترقی کی راہ میں حائل ایک رکاوٹ ہے۔
٭…اقلیتیں جو اپنی ممتاز شناخت نہیں رکھتیں وہ اپنے ناموں اور لباس کی وجہ سے بحران پیدا کر رہی ہیں۔
٭… غیر مسلموں کی آئینی نوعیت کے عہدوں پر تقرری ہماری اساس اور روایات کے خلاف ہے۔
٭…ہر مسلمان کو اپنی اساس یعنی ختم نبوت پر ایمان کی حفاظت کرنی چاہیے۔
٭…شناختی کارڈ،پاسپورٹ،پیدائش سرٹیفیکیٹ اور ووٹر لسٹ میں اندراج کےلیے ہر فرد واحد کو مسلمان ہونے یا نہ ہونے کی بنیاد پر حلف نامہ دینا چاہیے۔
٭…نادرا کو معینہ مہلت دینی چاہیے تا کہ جو بھی اپنے شناختی کارڈ میں موجود معلومات کے حوالے سے تبدیلی کروانا چاہتا ہے وہ کروا لے خاص طور پر مذہب کے حوالے سے۔
٭…ریاست کو چاہیےکہ وہ مسلم امّہکے حقوق،جذبات اور مذہبی عقائد کی حفاظت کرے اور غیر مسلموں کے حقوق کی بھی حفاظت کرے جو اسلام کی روشنی میں آئین کے مطابق ہیں۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ بعض سیاسی مبصرین کے مطابق ایساوسیع الاثر فیصلہ دینے کا اختیار صرف سپریم کورٹ کے پاس ہے۔ ہائی کورٹ کا جج ایسا فیصلہ دینے کا مجاز نہیں۔
پاکستان کے انسانی حقوق کےکمیشن نے اس فیصلے کو انتہائی خطرناک قرار دیا ہے۔ساتھ ہی انہوں نے حکومت سے گزارش کی ہے کہ اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کےلیے اس انتہائی سخت فیصلے کے خلاف جلدکارروائی کرے۔
شوکت عزیزصدیقی نے مقدمہ کی سماعت کےدوران جو مشاہدات اور تبصرے پیش کیے وہ ایک ہائی کورٹ کے جج کے شایان شان نہیں ہیں۔مثلاًاس نے کہاکہ
٭…اگراحمدی پاکستان میں رہنا چاہتے ہیں تو غیر مسلموں کی طرح رہیں اور اسلام میں نقب نہ لگائیں۔
٭…علماء کو چاہیےکہ وہ حکومت سے مطالبہ کریں کہ پاکستان کو آئین کے مطابق چلایا جائے۔
٭…علماء کی ایک کمیٹی کو کسی بھی عہدیدار کی تقرری سے پہلے اس شخص کےعقائد کا جائزہ لینا چاہیے۔
٭…(بقول اس کے) اسلام کے ابتدائی زمانے میں غیر مسلموں کو الگ لباس پہننے کو کہا جاتا تھا تا کہ ان کی شناخت ہو سکے۔
٭…جب اس کو ختم نبوت کے موضوع پر بات کرتے ہوئے احتیاط برتنے کا مطالبہ کیا گیا تواس نے نہایت بےاعتنائی سے کہا کہ اگر آسمان بھی گر جائے تو مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
٭…شوکت عزیزصدیقی نے نادرا کے افسران کو اپنی عدالت میں بلا کر کہا کہ وہ مذہب اور بالخصوص احمدیوں کے متعلق جلدحلف نامے تیار کر کے ان کا نفاذعمل میں لائیں۔
٭…اس نے کہا جن دس ہزار لوگوں نے اپنا مذہب تبدیل کرکے اپنے آپ کواحمدی لکھوایا ہے ان کے بیرون ملک سفر کرنے کا ریکارڈ ا س کے سامنے پیش کیا جائے۔
٭…مزید وہ یہ چاہتا تھا کہ ہر احمدی کے نام کے ساتھ غلام مرزائی یا مرزائی لکھا جائے۔
اس موقع پر بعض ایسے پاکستانی جن کو تاریخ کا علم ہے سامنے آئے اور اس حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کیا۔مثلاً:
٭…پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن کی ممبر زہرہ یوسف نے اس فیصلے کو انتہائی خطرناک قرار دیا۔
٭…سروپ اعجاز از ہیومن رائٹس واچ نے کہاکہ یہ جج نہ صرف پاکستان میں ہر ایک کی مذہبی آزادی پر حملہ آور ہے بلکہ ایک خاص فرقہ پر ساری توجہ مرکوز کر رہا ہے جو احمدی ہیں۔اس طرح کا فیصلہ تشدد کو مزید ہوا دے گا۔
٭…ایک صحافی نے کہا کہ عدالت نےاس فیصلے کا اردوترجمہ بھی جاری کیا ہے۔یہ ترجمہ ان احمدیت مخالف مذہبی جنونیوں کے لیے اس کو سمجھنے اور اس پر اپنے طریق پر عمل کرنے میں آسانی پیدا کر دے گاجو انگریزی زبان نہیں جانتے۔
٭…اخبار The Nationنے یہ رائے دی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں اتنی تو بصیرت ہونی چاہیے تھی کہ ایسا فیصلہ کس قدر بد سلوکی اور قتل وغارت کا دروازہ کھول سکتا ہے۔مزید برآں احمدیوں کی ایک بلیک لسٹ تیار کرنا،جو کہ خوفناک طریق پر تشدد کرنے والے کیمپوں کی یاد دلاتا ہے،ایک خاص مذہبی گروہ کو نشانہ بنا رہا ہے اور آئین کی برابری کی شق کے مخالف ہے۔
٭…مہر تارڑ نے مضمون لکھا جس کا عنوان تھا کہ پاکستان میں احمدیوں کی زندگی جہنم کیوں ہے۔اس میں انہوں نے احمدیوں کی نسل کشی کی ایک منظم سازش کے متعلق خبردار کیا اور لکھا کہ اب یہ احمدیوں کے شکار کا موسم ہے۔اب کی بار یہ پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔پاکستان اب کسی بھی ایسے فرد کے رہنے کی جگہ نہیں ہے جو اپنے آپ کو احمدی کے طور دیکھتا ہے یا اپنی زندگی احمدی مسلمان کے طور پر گزارنا چاہتا ہے۔
جماعت احمدیہ نے شوکت عزیز صدیقی کے اس یک طرفہ فیصلےپر بڑھا چڑھا کرکوئی بات نہیں کی بلکہ ایک سیدھی اور مبنی برحق رائے کا اظہار کیا کہ یہ فیصلہ جھوٹ،حقائق کو توڑ مروڑکر پیش کرنے،بہتان بازی،تذلیل،قیاس آرائی اور افواہوں پر مبنی ہے۔شوکت عزیز صدیقی جیسے جج ہی ہیں جو مقدس عدالت کےلیے بدنامی اور بے اعتباری کا باعث بنتے ہیں۔یہ چیز پاکستان کے پیچھے آسیب کی طرح چمٹ گئی ہے۔ اور اس سے پاکستان کو مستقل نقصان پہنچ رہا ہے۔
بدقسمتی سے اس فیصلے کے پانچ سال بعد شوکت عزیز نے ایک نامناسب ٹویٹ کی ہے جس کا پہلے ذکر کیا جاچکا ہے۔ شاید موصوف نےاپنے فیصلے کے چند مہینوں بعد اپنے ساتھ ہونے والے سلوک سے سبق نہیں سیکھا ۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے ۲۰۱۸ء کی سالانہ رپورٹ سے اس کا کچھ احوال پیش کرتے ہیں۔
ایک جھوٹے جج کا واضح نظر آنے والا بد انجام
۱۱؍اکتوبر ۲۰۱۸ء کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج شوکت عزیز صدیقی کو سپریم کونسل نے برطرف کرنے کا مشورہ دیا۔صدر نے بخوشی اسی دن اس کو برطرف کر دیا۔ وزارت قانون نے اسی دن اس کا اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کا تشخص منسوخ کر دیا اور اسی شام تمام ٹی وی چینلز نے اس خبر کو نشر کر دیا۔شوکت عزیز صدیقی کو بہت سارے مقدموں،ان کی سماعتوں،فیصلوں اورباقی سب چیزوں کے علاوہ احمدیوں کے متعلق ایک سو بہتّر صفحات پر مشتمل فیصلے کے حوالےسے یاد رکھا جائے گا۔
موصوف کی طرف سے جماعت احمدیہ کو بدنام کرنے کے لیے لگائے جانے والے بہتان اور سفلہ پن پر مبنی اس تکلیف دہ فیصلے کے تین ماہ اور سات دن کے بعد ہی گھر بھیج دیا گیا۔
سپریم جوڈیشل کونسل جس کی صدارت چیف جسٹس نے کی تھی انہوں نے شوکت عزیز صدیقی کے متعلق فیصلے کا یوں خلاصہ پیش کیا کہ کوڈ آف کنڈکٹ کے آرٹیکل ۲ میں لکھا ہے کہ جج پرہیزگار،زبان کا سچا،صاحب دانش،محتاط،تحمل سے کام لینے والا،پُرسکون،متوازن اور غیر جانبدار ہو۔
۱۳؍اکتوبر ۲۰۱۸ءکو ڈان اخبار نے لکھا کہ شوکت عزیز صدیقی کو اس احمدیت مخالف فیصلے میں ضابطہ اخلاق کی تمام شقوں کو بری طرح پامال کرنے کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا،گو کہ یہ فیصلہ ابھی تک مؤثر اور لاگو ہے۔
قابل ذکر امور
٭… تمام واقعات اور بیانات کے ثبوت جو اس واقعہ سے متعلقہ ہیں وہ اخبارات کے تراشوں،ویڈیو اور رپورٹس کی شکل میں موجودہیں۔
٭… شوکت عزیز صدیقی کے احمدیہ کیس پر کارروائی کے طریق کارپر دس صفحات پرمبنی ایک رپورٹ ۲۰۱۸ء کی سالانہ احمدیہ پرسیکیوشن رپورٹ باب A1میں موجود ہے۔نیز شوکت عزیز صدیقی کے ایک سو بہتّر صفحات پر مشتمل فیصلے کی تردید جولائی ۲۰۱۸ء کی ماہانہ رپورٹ میں اضافی چھتیس صفحات کی شکل میں موجود ہے۔
٭…الفضل انٹرنیشنل میں اگست تا نومبر۲۰۱۸ء ۱۳؍اقساط پر مشتمل مضمون بعنوان’’اسلام آباد(پاکستان) کی ہائی کورٹ کا فیصلہ (ایک تجزیہ)‘‘شائع کیا گیا جس میں اس فیصلہ پر زیر حاصل بحث کی گئی ہے۔قارئین درج ذیل لنک پر ان مضامین سے استفادہ کر سکتے ہیں:
٭…٭…٭