خداکےپہلوان: حضرت یعقوبؑ
محمود: دادی جان آپ نے پچھلی بار ہمیں حضرت یوسفؑ کی کہانی تو سنا دی مگر حضرت یعقوبؑ کی کہانی تو بتائی ہی نہیں ۔آج میں وہ سنوں گا۔
دادی جان: جی ٹھیک ہے بچو۔ حضرت یعقوبؑ حضرت ابراہیمؑ کے پوتے اور حضرت اسحاق ؑکے بیٹے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی پیدائش کی خوشخبری آپ کے دادا حضرت ابراہیمؑ کو بھی دی تھی۔ فرمایا کہ ہم نے اُسے اسحاق کی خوشخبری دی اور اسحاق کے بعد یعقوب کی بھی۔(ھود: 72) اور ایک اور جگہ لکھا ہے کہ اور اُسے ہم نے اسحاق عطا کیا اور پوتے کے طور پر یعقوب (الانبیاء:73)۔ قرآن کریم میں اکثر آپ کا نام حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسحاقؑ کے ساتھ ساتھ آیا ہے۔ آپ کی والدہ کا نام رِبْقہ یا رَبیکا تھا۔ آپ کے ایک جڑواں بھائی عیسو بھی تھے۔
عیسو کو شکار کرنا پسند تھا جبکہ حضرت یعقوبؑ خیمے میں رہنا پسند کرتے تھے۔ بائبل میں ان کے متعلق ایک واقعہ مذکور ہے کہ ایک روز حضرت اسحاقؑ نے شکار کرنے کے لیے بھجوایا۔ حضرت یعقوبؑ کی والدہ نے حضرت یعقوبؑ کا بنایا ہوا گوشت پکا کر کھانا پیش کردیا۔ بائبل کے مطابق حضرت اسحاقؑ نے ان کو خصوصی دعائیں دیں اس پر عیسو بشری تقاضے کے مطابق حسد میں مبتلا ہو گئے اور حضرت یعقوبؑ کی جان کے در پے ہوگئے۔ ان کی والدہ نے خطرہ محسوس کرتے ہوئے انہیں ہجرت کرجانے کا کہاتو حضرت یعقوبؑ اپنے ماموں کے پاس حرّان چلے گئے۔ جہاں وہ بیس سال رہے اور اپنے ماموں کی بکریاں چراتے رہے۔ اس کےبعد اللہ تعالیٰ کے حکم سے واپس ارضِ کنعان چلے آئے۔ اس دوران آپ کی شادی اپنے ماموں کی دو بیٹیوں سے ہوئی۔ پہلی بیوی سے دس لڑکے اور ایک لڑکی پیدا ہوئی اور دوسری بیوی سے حضرت یوسفؑ اور بنیامین پیدا ہوئے۔ واپس آکر ان کی اپنے بھائی سے صلح ہو گئی اور دونوں خاندان مل جل کر رہنے لگے۔ حضرت یعقوبؑ کا ذکر قرآن کریم میں نام کے ساتھ سولہ بار آیا ہے۔ پھر آخری عمر میں آپؑ اپنے بیٹے یوسفؑ کے پاس مصر چلے گئے۔
احمد: وہ پہلے کہاں رہتے تھے۔
دادی جان: حضرت ابراہیمؑ کے متعلق بتایا تھاناں کہ وہ عراق کے رہنے والے تھے پھر وہ حرّان اور بعدازاں کنعان میں رہے۔ حضرت اسحاقؑ بھی یہیں تبلیغ و اشاعت میں مصروف رہے۔ پھر حضرت یعقوبؑ ہجرت کر کے حرّان چلے گئے تھے۔ اور پھر وہاں سے واپس کنعان تشریف لے آئے۔ کنعان ایک قدیم علاقہ کا نام ہے جو آج کل کے اسرائیل، فلسطین اور اُردن پر مشتمل تھے۔ واپس پہنچ کر انہوں نے موجودہ بیت المقدس کی بنیاد رکھی۔ اور بیت المقدس (یروشلم) آباد ہوئے۔ یہیں حضرت یوسفؑ اوربنیامین کی پیدائش ہوئی۔ یوسف کی طبیعت اپنے باقی بھائیوں سے بالکل مختلف تھی۔ ان کے بھائی دنیا دار قسم کے لوگ تھے جبکہ ان کے بر عکس یوسف کارجحان ابتدا سے ہی دینی امور کی طرف تھا۔ نیکی اور تقویٰ کے زیور سے مزین یوسف اپنے بھائیوں سے بہت الگ سے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت یعقوبؑ کواپنے تمام بیٹوں میں یوسف سب سے زیادہ پیارا تھا۔
گڑیا: ایک بار ہمیں استانی صاحبہ نے بتایا تھا کہ حضرت یعقوبؑ کی نسل کو بنی اسرائیل کہا جاتا ہے۔
دادی جان : اسرائیل حضرت یعقوبؑ کا لقب ہے۔ کہتے ہیں کہ کنعان واپسی کے سفر کے دوران رات کے وقت ایک شخص سے آپ کی لڑائی شروع ہوگئی اور آپ ساری رات لڑائی کرتے رہے۔ حضرت یعقوبؑ جسمانی لحاظ سے بھی کسی پہلوان سے کم نہ تھے۔ بالآخر آپ اس لڑائی میں فتح یاب ہوئے۔ بظاہر لگتا ہےکہ یہ ایک کشف تھا کیونکہ دوسرے شخص نے آپ کو اسرائیل کا ٹائٹل دیا۔ جس کا مطلب ہے خدا کا پہلوان!
محمود :دادی جان آج تلاوت میں بنی اسرائیل بھی پڑھا تھا۔ وہ کون ہیں؟
دادی جان: ماشاء اللہ! جیسا کہ میں نے بتایا ہے حضرت یعقوبؑ کو اسرائیل کا نام خدا تعالیٰ کی طرف سے ملا تھا جس کی وجہ سے ان کی اولاد بنی اسرائیل یعنی اسرائیل کی اولاد کہلائی۔
گڑیا: پھر وہ واپس کنعان نہیں گئے؟
دادی جان: نہیں! حضرت یوسفؑ کے گم ہوجانے کے بعد آپ نے کمال صبر دکھایا لیکن آپ ان صحت و سلامتی کے لیے دعائیں کرتے رہتے تھے۔ قرآن کریم کے مطابق شدت غم سے آپ کی بینائی بھی کمزور ہو گئی تھی۔ قحط میں پھر جب حضرت یوسفؑ نے اپنےخاندان کو مصر بلا لیا تو پھر یہ بارہ قبائل مصر میں رہنے لگے۔ حضرت یعقوبؑ نے مصر میں ہی وفات پائی۔پھر فرعون کے مظالم کی وجہ سے حضرت موسیٰؑ نے اللہ تعالیٰ کے حکم پر بنی اسرائیل کو مصر سے نکالا اور واپس ارضِ مقدسہ لے گئے۔
جزاکم اللہ دادی جان! مجھے تو نیند آرہی ہے اَللّٰهُمَّ بِاسْمِكَ اَمُوْتُ وَ اَحْیَا محمود کہہ کر بستر میں گھس گیا۔
محمود کی شرارت سے باقی سب مسکرا دیے۔