جلسے کا مقصد ایمان اور یقین میں ترقی ہے۔ خطبہ جمعہ 27؍ ستمبر 2019ء
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 27؍ ستمبر 2019ء بمطابق 27؍تبوک 1398 ہجری شمسی بمقام جلسہ گاہ جماعت احمدیہ ہالینڈ، نن سپیت (ہالینڈ)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ ہالینڈ کا جلسہ سالانہ شروع ہو رہا ہے اور کئی سال بعد مجھے بھی اللہ تعالیٰ توفیق دے رہا ہے کہ آپ کے جلسے میں شامل ہوں۔ گذشتہ کئی سال سے امیر صاحب جلسے پر آنے کا کہتے رہے مگر دوسری جماعتی مصروفیات کی وجہ سے باوجود خواہش کے یہ ممکن نہیں ہو سکا۔ بہرحال اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ وہ مجھے آج اس جلسے میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرما رہا ہے۔ گذشتہ چند سالوں میں ہالینڈ میں جماعت کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے،3/1 تو اضافہ یقیناً ہوا ہے۔ بہت سے لوگ پاکستان سے ہجرت کر کے آئے ہیں، کچھ نئے لوگ بھی جماعت میں شامل ہوئے ہیں ۔بہرحال دنیا کی دوسری جماعتوں کی طرح ہالینڈ کی جماعت بھی اپنی جو ان کی تعداد تھی یا جو ان کے وسائل تھے اس لحاظ سے ترقی کر رہی ہے۔ لٹریچر وغیرہ کی اشاعت بھی اب یہاں بہتر طریقے پر ہو رہی ہے۔ نئے سینٹر اور ایک مسجد بھی جماعت کو ملی ہے۔ ابھی میں نے دیکھی تو نہیں لیکن لوگوں سے المیرے کی مسجد کی خوب صورتی کی تعریف سنی ہے کہ آپ لوگوں نے بڑی اچھی مسجد بنائی ہے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ اگلے ہفتے اس کا افتتاح یعنی رسمی افتتاح بھی ہو گا۔و یسے تو وہاں نمازیں پڑھی جا رہی ہوں گی اور پڑھی جا رہی ہیں۔ لیکن ہمیشہ یاد رکھیں یہ تعداد میں اضافہ یا مشن اور سینٹرز بنانا یا مسجد تعمیر کرنا اسی وقت فائدہ دیتا ہے جب ان کے مقاصد کو پورا کیا جائے۔ پس یہاں رہنے والے ہر احمدی کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے اور اس بات کی ضرور ت ہے کہ دیکھے اور تلاش کرے کہ وہ کیا مقاصد ہیں جو ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی بیعت میں آ کر پورے کرنے ہیں۔
جیسا کہ میں نے کہا کہ ان پچھلے چند سالوں میں بہت سے احمدی ہجرت کر کے یہاں آئے ہیں اور یہاں جماعت کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ کیوں ہجرت کر کے آئے ہیں؟ اس لیے کہ خاص طور پر پاکستان میں احمدیوں کو مذہبی آزادی نہیں ہے، احمدیوں کو مذہب کے نام پر تنگ کیا جاتا ہے، ان کے حقوق سلب کیے جاتے ہیں اس لیے کہ انہوں نے زمانے کے امام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی اور حکم کے مطابق مانا ہے۔ ہمیں اللہ تعالیٰ کا نام لینے اور اس کی عبادت کرنے سے اس لیے روکا جاتا ہے کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کی بیعت میں کیوں آئے ہیں۔ مسجدیں بنانا تو ایک طرف ہمیں اپنے لوگوں کی تربیت کے لیے جلسے اور اجتماع کرنے سے بھی روکا جاتا ہے بلکہ گھروں میں بھی قانون کی رُو سے ہم نمازیں نہیں پڑھ سکتے۔ عیدِ قربان پر ہم جانوروں کی قربانی نہیں کر سکتے بلکہ قانون اس کی اجازت نہیں دیتا۔اس پر بھی مقدمے ہو جاتے ہیں اور اس لیے بھی کہ نام نہاد علماء اور ان کے چیلوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ پس ایسے حالات میں بہت سے احمدی پاکستان سے ہجرت کر کے دوسرے ممالک جہاں مذہبی آزادی ہے چلے جاتے ہیں، ہجرت کر گئے ہیں۔
آپ میں سے بھی جو یہاں ہجرت کر کے آئے ہیں انہیں یہاں مذہبی آزادی بھی ہے اور مالی اور معاشی لحاظ سے بھی اپنی حالتوں کو بہتر کرنے کے مواقع بھی ملے ہیں۔پس ہر احمدی کو جو ان پابندیوں سے آزاد ہو کر زندگی گزار رہا ہے جو ان کو پاکستان میں تھیں خاص طور پر اس وجہ سے پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہیے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی بیعت میں آنے کا حق ادا کرنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔ اپنی روحانی ،علمی اور اخلاقی حالت کو بہتر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس بات پر ہی خوش نہیں ہو جانا چاہیے کہ ہم آزاد ہیں اور کوئی ایسی پابندی ہم پر نہیں ہے جو ہمیں اپنے مذہب پر عمل کرنے سے روکے۔ اگر ہمارے عمل اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق نہیں، اگر ہم نے اپنے اندر پاک تبدیلیاں پہلے سے بڑھ کر پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کی محبت کے اظہار پہلے سے بڑھ کر ہم سے ظاہر نہیں ہو رہے تو اس آزادی کا کیا فائدہ ہے، ان جلسوں میں شامل ہونے کا کیا فائدہ؟ یہ مساجد کی تعمیر کرنے کا کیا فائدہ ہے؟ حقیقی فائدہ تو ہمیں اس آزادی کا تب ہی ہو گا جب ہم بیعت کا حق ادا کریں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان جلسوں کے انعقاد کا اعلان بھی اللہ تعالیٰ سے اِذن پا کر فرمایا تھا اور اس لیے فرمایا تھا کہ ان جلسوں کی وجہ سے ہم میں پاک تبدیلیاں پیدا ہوں، ہم دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے بنیں اور اس کا صحیح فہم اور ادراک ہمیں حاصل ہو۔ ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اپنے دلوں میں پیدا کرنے والے ہوں۔ اپنی روحانی ، اخلاقی اور علمی حالت بہتر کرنے والے ہوں اور اس کے لیے ہر ممکن کوشش کریں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام ایک جگہ جلسے کے مقاصد کو بیان فرماتے ہوئے فرماتے ہیں اور اپنی بیعت میں آنے والوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’تمام مخلصین داخلین سلسلہ بیعت اس عاجز پر ظاہر ہو کہ بیعت کرنے سے غرض یہ ہے کہ تا دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو۔ اور اپنے مولیٰ کریم اور رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دل پر غالب آ جائے اور ایسی حالت انقطاع پیدا ہو جائے جس سے سفر آخرت مکروہ معلوم نہ ہو۔‘‘
(آسمانی فیصلہ، روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 351)
پس بڑا واضح ارشاد ہے کہ میری بیعت میں آ کر صرف زبانی دعوے تک نہ رہو بلکہ مخلصین میں شامل ہو جاؤ اور اخلاص اور وفا میں اس وقت ترقی ہو سکتی ہے جب اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سب محبتوں سے بڑھ کر ہو۔ اس لیے شرائطِ بیعت میں بھی آپ نے یہ شرط رکھی ہے کہ بیعت کرنے والا قال اللہ اور قال الرسولؐ کو ہر معاملے میں دستور العمل قرار دے گا (ماخوذ از ازالہ اوہام حصہ دوم، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564)۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کی ہر بات کو اپنے ہر معاملے میں تب ہی رہ نما بنایا جا سکتا ہے جب حقیقی محبت ہو۔ پس یہ جلسے اس لیے منعقد کیے جاتے ہیں تا کہ بار بار ہمیں اس بات کی یاددہانی ہوتی رہے کہ ہماری بیعت کا مقصد کیا ہے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ دنیا کی محبت بالکل نکل جائے اور اللہ اور اس کے رسول کی محبت اس پر غالب آ جائے۔ اس کے لیے بڑی جدو جہد کی ضرورت ہے۔ اور جب ہم نے عہدِ بیعت کیا ہے تو یہ جد و جہد کرنی چاہیے اور کرنی پڑے گی۔ ہمیں اپنے دنیاوی کاروبار اپنی عبادتوں کے لیے قربان کرنی پڑیں گے۔ دنیاوی مصروفیات اللہ تعالیٰ کے حق ادا کرنے کے لیے قربان کرنے پڑیں گی۔ جو چیز ہمیں اللہ تعالیٰ کے قرب سے روکتی ہے اس سے بچنا ہو گا۔ اگر ہماری ملازمتیں، ہماری تجارتیں اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے سے روکتی ہیں تو ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی جماعت میں رہنے کے لیے ان برائیوں سے اپنے آپ کو بچانا ہو گا، ان روکوں کو دُور کرنا ہو گا۔ اسی طرح اگر ہماری انائیں، ہماری نام نہاد دنیاوی عزتیں اور شہرتیں، ہماری خود غرضانہ سوچیں اور عمل حقوق العباد ادا کرنے سے روک رہی ہیں تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی ہے۔ حقوق العباد ادا کرنے کا بھی اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے اور یہ نافرمانی کر کے ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں رہنے کے مقصد کو پورا نہیں کر رہے۔
پھر جس بات کی طرف آپؑ نے توجہ دلائی ہے وہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت۔ آپؑ نے واضح فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت تمام انسانوں سے محبت سے زیادہ ہونی چاہیے، ان سب پر حاوی ہونی چاہیے کیونکہ خدا تعالیٰ تک اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے ہی پہنچا جا سکتا ہے۔ آپؐ کے حکموں پر عمل کر کے اور آپؐ کی سنت پر چل کر ہی خدا تعالیٰ تک پہنچا جا سکتا ہے۔ دعاؤں کی قبولیت اور انجام بخیر ہونے کا وسیلہ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں کہ
’’ دیکھو اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے
قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللّهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللّهُ(اٰلِ عمران:32)‘‘
یعنی کہہ دے اے لوگو! اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو تو اس صورت میں وہ بھی تم سے محبت کرے گا یعنی اللہ تعالیٰ بھی محبت کرے گا اُس وقت جب تم رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کروگے، ان کی سنت پر عمل کرو گے، ان کے حکموں کو بجا لاؤ گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’خدا کے محبوب بننے کے واسطے صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی ہی ایک راہ ہے اور کوئی دوسری راہ نہیں کہ تم کو خدا سے ملا دے۔ انسان کا مدعا صرف اس ایک واحد لاشریک خدا کی تلاش ہونا چاہیے۔‘‘ یہی مقصد ہونا چاہیے کہ ہم نے صرف واحد اور لاشریک خدا کی تلاش کرنی ہے کسی اَور چیز کی تلاش نہیں کرنی، کسی اَور کو اللہ کے مقابلے پر کھڑا نہیں کرنا۔ فرمایا ’’شرک اور بدعت سے اجتناب کرنا چاہیے، رسوم کا تابع اور ہوا و ہوس کا مطیع نہ بننا چاہیے۔‘‘ فرمایا ’’دیکھو مَیں پھر کہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی راہ کے سوا اَور کسی طرح انسان کامیاب نہیں ہو سکتا۔‘‘ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’ہمارا صرف ایک ہی رسولؐ ہے اور صرف ایک ہی قرآن شریف اس رسول پر نازل ہوا ہے جس کی تابعداری سے ہم خدا کو پا سکتے ہیں۔‘‘
(ملفوظات جلد 5 صفحہ 124-125)
فرمایا تم یاد رکھو کہ قرآن شریف اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی پیروی اور نماز روزہ وغیرہ جو مسنون طریقے ہیں ان کے سوا خدا کے فضل اور برکات کے دروازے کھولنے کی اَور کوئی کنجی ہے ہی نہیں۔ یہی ایک راستہ ہے کوئی اور دوسرا راستہ نہیں۔ پس ان برکات کو حاصل کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور اس محبت کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکموں پر چلنا بھی ضروری ہے۔ اگر یہ نہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے واضح فرما دیا کہ پھر میری بیعت بھی بے فائدہ ہے۔ تمہارا یہاں جلسوں پر جمع ہونا بھی بے فائدہ ہے۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا مَیں تو اللہ تعالیٰ کے اس محبوب کا عاشق ہوں۔ پس اگر تم میری بیعت میں رہنا چاہتے ہو تو لازما ً تمہیں بھی میرے محبوب سے محبت کرنی ہو گی۔
پھر فرمایا اپنے اندر حالتِ انقطاع پیدا کرو یعنی ایسی حالت پیدا کرو جو دنیا کے لہو و لعب اور چکا چوند سے تمہیں علیحدہ کر دے۔ تمہارا ہر عمل اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کے تابع ہو جائے۔ یقیناً دنیا کمانا اور دنیا کے کام اور کاروبار کرنا یہ منع نہیں ہے، خدا تعالیٰ نے ہی ان کا حکم دیا ہے۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم یہ کام کیا کرتے تھے، وہ بھی کاروبار کرتے تھے ،تجارتیں کرتے تھے، ان کے بڑے بڑے کاروبار تھے۔ وہ بھی لاکھوں اور کروڑوں کے کاروبار کرتے تھے اور لین دین کرتے تھے اور لاکھوں اور کروڑوں کی جائیداد کے مالک تھے لیکن اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کی محبت ان پر غالب تھی اور وہ ہر وقت اس فکر میں رہتے تھے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی عبادت کے حق بھی ادا کرنے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکموں کی پیروی بھی کرنی ہے۔ انہیں یہ فکر ہوتی تھی کہ ہم سے کوئی ایسا فعل سرزد نہ ہو جائے جس سے ہمارا محبوب ہم سے ناراض ہو۔ آج کل میں خطبات میں صحابہ کا ذکر کرتا ہوں۔ بہت سارے صحابہ کی مثالیں ملتی ہیں کیسی ان کی عبادتیں تھیں، کیسا ان کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا معیار تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیےکس محبت کے ان کے جذبات تھے ۔ پس انہیں یہ فکر ہوتی تھی کہ ہمارے سے ایسا کوئی فعل سرزد نہ ہو جائے جو ہمارے محبوب کو ہم سے ناراض کر دے۔ پس ہمارے ذہنوں میں بھی یہ بات رہنی چاہیے کہ تمام تر دنیاوی مصروفیات کے باوجود ہم نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ سے محبت میں کمی نہیں آنے دینی۔ ان شاء اللہ ۔اور اس کے لیے حتی المقدور اللہ تعالیٰ اور کے رسول کے حکموں پر عمل کرنے کی کوشش کرنی ہے اور اپنی حالتوں کو بہتر کرنے کے لیے اورجلسے کے روحانی ماحول سے فیض اٹھانے کے لیے اور اپنی عملی حالتوں میں بہتری لانے کے لیے ہی ہم ان تین دنوں کے لیے جمع ہو ئے ہیں۔
پس یہ ہمیشہ خیال رکھنا چاہیے اور یہی ہماری سوچ ہونی چاہیے کہ ہمارے یہاں تین دن جمع ہونے کا مقصد کیا ہے۔ یہی کہ اس روحانی ماحول سے فیض اٹھائیں، اپنی عملی حالتوں میں بہتری لانے کی کوشش کریں اور اپنی برائیوں کو دور کریں، ان دنوں میں عبادتوں کے ساتھ ساتھ ذکرِ الٰہی اور استغفار کی طرف ہم توجہ دیں۔ اگر ہماری یہ سوچ نہیں تو ہمارا جلسے پر آنا فضول ہے۔ عقل مندی کا تقاضا تو یہی ہے کہ ان تین دنوں کو ایک ٹریننگ کیمپ کے طور پر سمجھا جائے اور ہماری عملی حالتوں میں جو کمیاں ہو گئی ہیں اور ہو جاتی ہیں جب انسان ایک ماحول سے باہر نکلتا ہے تو انہیں دور کرنے کی کوشش کریں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام ایک جگہ جلسے کے فوائد بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
’’حتی الوسع تمام دوستوں کو محض للہ ربّانی باتوں کے سننے کے لیے اور دعا میں شریک ہونے کے لیے اس تاریخ پر آ جانا چاہیے‘‘ اور فرمایا ’’اور اس جلسہ میں ایسے حقائق اور معارف کے سنانے کا شغل رہے گا جو ایمان اور یقین اور معرفت کو ترقی دینے کے لیے ضروری ہیں۔‘‘
(آسمانی فیصلہ، روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 351-352)
پس جلسے کا مقصد ایمان اور یقین میں ترقی ہے، معرفت میں بڑھنا ہے۔ آپؑ نے ایک موقعے پر یہ بھی فرمایا کہ یہ دنیاوی میلوں کی طرح کا میلہ نہیں ہے۔(ماخوذ از شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 395)کہ ہم اکٹھے ہو گئے اور شور و غل کر دیا اور جمع ہو گئے اور اپنی تعداد ظاہر کر دی ۔یہ تو مقصد نہیں ہے۔ پس جلسے پر آنے والے ہر شخص کو ،مرد کو بھی، عورت کو بھی، جوان کو بھی، بوڑھے کو بھی اس طرف توجہ رکھنی چاہیے کہ اس کا ایمان اور یقین اور معرفت بڑھے تا کہ خد ااور اس کے رسول کی محبت میں اضافہ ہو۔ ایمان اور یقین اور معرفت بڑھتی ہے تب ہی اللہ اور اس کے رسولؐ کی محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کے مقام اور رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کی پہچان ہی ہمیں نہیں ہے، اگر اللہ تعالیٰ کی ہستی کا ہمیں یقین ہی نہیں ہے تو معرفت کس طرح، ترقی کس طرح ہو سکتی ہے۔ اس معرفت میں بڑھنے سے ہی ایمان میں ترقی ہو گی۔
پس ہمیں یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ہم صرف رونق کے لیے ایک جگہ جمع ہو گئے ہیں اور اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے میں وقت گزار کر ہم چلے جائیں۔ اگر یہ سوچ ہے تو جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ پھر جلسے پر آنا بے فائدہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نیکیوں کے بجا لانے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے جن میں وہ نیکیاں بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرنے کے لیے ہیں اور وہ نیکیاں بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق ادا کرنے کے لیے ہیں فرماتے ہیں کہ
’’نیکی کو محض اس لیے کرنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ خوش ہو اور اس کی رضا حاصل ہو اور اس کے حکم کی تعمیل ہو قطع نظر اس کے کہ اس پر ثواب ہو یا نہ ہو۔‘‘ پس یہ ہے حقیقی محبت کا فلسفہ کہ اللہ تعالیٰ سے محبت کا تقاضا ہے کہ ہم اس کے حکموں پر عمل کریں جس میں عبادتیں بھی شامل ہیں اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق بھی شامل ہیں اور ان حکموں پر عمل اس لیے نہیں کرنا کہ اس کے بدلے میں خدا تعالیٰ ہمیں اجر دے گا، کوئی ثواب ہو گا۔ ہاں اللہ تعالیٰ کسی نیک عمل کو بغیر اجر کے نہیں جانے دیتا، ضرور اجر دیتا ہے۔ حقیقی ایمان کا تقاضا یہ ہے جیسا کہ آپؑ نے فرمایا کہ نیکی صرف اس لیے نہیں کرنی کہ ہمیں کچھ ملے بلکہ اس لیے کرنی ہے کہ ہمارے خدا کا حکم ہے کہ یہ نیکیاں کرو۔ آپؑ فرماتے ہیں ’’ایمان تب ہی کامل ہوتا ہے جبکہ یہ وسوسہ اور وہم درمیان سے اٹھ جاوے۔‘‘ اجر ملے گا کہ نہیں ملے گا اس قسم کی سوچوں میں نہ پڑ جاؤ۔ اگر یہ سوچیں ہیں تو ایمان کامل نہیں ہو سکتا ۔ فرمایا کہ ’’اگرچہ یہ سچ ہے کہ خدا تعالیٰ کسی کی نیکی کو ضائع نہیں کرتا ۔
اِنَّ اللّٰهَ لَا يُضِيْعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِيْنَ (التوبہ :120)‘‘
کہ اللہ تعالیٰ محسنوں کا اجر کبھی ضائع نہیں کرتا۔ فرمایا ’’مگر نیکی کرنے والے کو اجر مدّنظر نہیں رکھنا چاہیے۔‘‘
(ملفوظات جلد 2 صفحہ 371-372)
پس حقیقی نیکی یہی ہے کہ بغیر کسی لالچ کے یا انعام کے کی جائے اور اس اصول کو سامنے رکھ کر ہم بندوں سے بھی حسنِ سلوک کریں، ایک دوسرے کے حق ادا کرنے کی کوشش کریں اور اس لیے کریں کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ ایک دوسرے سے حسنِ سلوک کرو۔ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے، آپؐ کی سنت ہے، آپؐ کے ارشادات ہیں کہ ایک دوسرے کے حق ادا کرنے کی کوشش کرو اور اعلیٰ اخلاق دکھاؤ تو چاہے بندوں سے اس کا بدلہ ملے یا نہ ملے، اللہ تعالیٰ ضرور اس نیکی کا بدلہ دیتا ہے۔ پس جب ہمارا خدا ایسا سلوک ہم سے کرتا ہے تو کس قدر بڑھ کر ہماری یہ ذمے داری بنتی ہے کہ اس کی رضا کے لیے ہم ان تمام باتوں پر عمل کریں جن کے کرنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے اور اُن تمام برائیوں سے بچیں جن سے بچنے کا ہمیں اس نے ہمیں حکم دیا ہے۔
یہاں آ کر، ان ملکوں میں آ کر، ترقی یافتہ ملکوں میں آ کر ہمیں اپنی حالتوں اور آزادی کے نام پر، ہر قسم کی لغویات میں پڑنے والے ماحول میں آ کر ہمیں اپنی حالتوں پر نظر رکھنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ بعض دفعہ کشائش نیکیوں کے کرنے میں ر وک بن جاتی ہے۔ حالات بہتر ہوتے ہیں، آدمی اپنے ماضی کو بھول جاتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ فلاں دنیاوی کام اگر ہم نے نہ کیا تو ہمیں نقصان ہو جائے گا لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ رزق دینے والا میں ہوں۔ پس یہ بات عموماً دنیا دار میں دیکھنے میں آتی ہے کہ وہ اس طرف توجہ دیتا ہے کہ نقصان نہ مجھے ہو جائے اور اللہ کے حق ادا نہیں کرتا اور اس بات میں بدقسمتی سے ہم میں سے بھی بعض لوگ شامل ہیں کہ اپنی نمازوں کو اپنے کاموں کے لیے قربان کر دیتے ہیں۔ نماز کا وقت آیا، دوسری طرف کام ہے تو نماز چھوڑ دی یا نماز بعض دفعہ بعد میں جمع کر کے پڑھ لی یا بعض دفعہ پڑھتے ہی نہیں ، بھول جاتے ہیں لیکن دنیاوی کام نہیں چھوڑتے تو اس سے بچنے کی ہمیں کوشش کرنی چاہیے۔ یا پھر ایسی جلدی جلدی نمازیں پڑھتے ہیں کہ جس طرح ایک فرض ہے جو گلے سے اتارنا ہے جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ یہ اللہ تعالیٰ سے محبت نہیں ہے ،یہ تو اس دنیا سے محبت کا اظہار ہے۔ پس اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی بیعت کا حق ادا کرنا ہے تو اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کرنا ہو گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے اس طرف ہمیں توجہ دلائی کہ اس حقیقت کو سمجھو کہ عبادت اللہ تعالیٰ کی محبتِ ذاتی سے رنگین ہو کر کی جائے۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد 5 صفحہ 107)
یہ اصل چیز ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور فرض سمجھ کے نہ سر سے ٹالو بلکہ فرض میں محبتِ ذاتی ہو جائے اور اس سے رنگین ہو کر یہ عبادت کی جائے اور جب ذاتی محبت سے عبادت ہو گی پھر دنیاوی غرضیں سب ختم ہو جائیں گی۔ پھر دین کو دنیا پر مقدم کرنے کی حقیقت ظاہر ہو گی اور جب دنیاوی غرضیں ختم ہو جائیں گی تو خدا پھر ایسے ایسے ذرائع سے رزق دے گا کہ انسان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
وَمَنْ يَتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا۔ وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ (الطَّلَاق:4،3)
جو شخص اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرتا ہے وَمَنْ يَتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا جو شخص اللہ کا تقویٰ اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے کوئی نہ کوئی ایسی راہ ،راستہ نکال دے گا اور اسے وہاں سے رزق دے گا جہاں سے اسے رزق آنے کا خیال بھی نہیں ہو گا۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام اس کی وضاحت میں فرماتے ہیں کہ پس خوش حالی کا اصول تقویٰ ہے۔ پھر فرمایا یہ بالکل سچ ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو ضائع نہیں کرتا اور ان کو دوسروں کے آگے ہاتھ پسارنے سے محفوظ رکھتا ہے، ہاتھ پھیلانے سے محفوظ رکھتا ہے۔ فرمایا میرا تو اعتقاد ہے کہ اگر ایک آدمی باخدا اور سچا متقی ہو تو اس کی سات پشت تک بھی خدا رحمت اور برکت کا ہاتھ رکھتا ہے۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد 5 صفحہ 245)
اور ان کی حفاظت فرماتا ہے سوائے اس کے کہ خود کوئی بدقسمتی سے اپنے ایسے اعمال کر لے جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے محروم ہو جائے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ
’’انسان کو چاہیے کہ ساری کمندوں کو جلا دے۔‘‘ جو بھی وسیلے ہیں، جو بھی کمندیں ہیں ان سب کو جلا دو ’’اور صرف محبتِ الٰہی ہی کی کمند کو باقی رہنے دے۔‘‘ صرف ایک وسیلہ ہو، ایک کمند ہو، ایک ذریعہ سمجھو جس سے تم سب کچھ حاصل کر سکتے ہو اور وہ ہے محبت الٰہی کی کمند۔ آپؑ فرماتے ہیں ’’……سچ ہے کہ جو خدا کا ہو جاتا ہے خدا اس کا ہو جاتا ہے۔‘‘ پھر فرماتے ہیں ’’……ایسے بنو کہ تا تم پر خدا تعالیٰ کی برکات اور اس کی رحمت کے آثار نازل ہوں۔‘‘ فرماتے ہیں ’’…… وہ شخص جس کا عمر پانے سے مقصد صرف ورلی دنیا ہی کے لذائذ اور حظوظ ہیں اس کی عمر کیا فائدہ بخش ہو سکتی ہے؟‘‘ جس کا مقصد ہی یہ ہے کہ مجھے عمر مل جائے اور اس دنیا کی آسائشیں اور لذتیں مجھے حاصل ہو جائیں اس کا فائدہ کیا ہے۔ ’’اس میں تو خدا کا حصہ کچھ بھی نہیں۔ وہ اپنی عمر کا مقصد صرف عمدہ کھانے کھانے اور نیند بھر کے سونے اور بیوی بچوں اور عمدہ مکان کے یا گھوڑے وغیرہ رکھنے یا عمدہ باغات یا فصل پر ہی ختم کرتا ہے۔ وہ تو صرف اپنے پیٹ کا بندہ اور شکم کا عابد ہے۔‘‘ ایسا شخص اللہ تعالیٰ کا بندہ نہیں ہے اور اس کی عبادت کرنے والا نہیں ہے بلکہ بندہ کہلا ہی نہیں سکتا بلکہ وہ تو صرف اپنی ذاتی اغراض کی عبادت کر رہا ہے۔ اس کو تو یہ غرض ہے کہ میری جائیداد ہو، میری دولت ہو، میرے گھر ہوں، میرے پاس کاریں ہوں، پہلے گھوڑے رکھے جاتے تھے، گھوڑوں کی مثالیں دی ہیں، آج کل کاروں کی مثالیں ہیں، اچھی اچھی قسم کی کار ہو۔ یہ تو صرف مقصد نہیں ہے۔ ہاں اللہ تعالیٰ نے نعمتیں دی ہیں ان سے فائدہ ضرور اٹھانا چاہیے لیکن یہ مقصد نہ ہو۔ اگر صرف یہی مقصد ہے تو پھر فرمایا وہ تو صرف ان چیزوں کا ہی بندہ ہے اور ان کی عبادت کرتا ہے اور ایسا شخص اللہ تعالیٰ کا بندہ اور اس کی عبادت کرنے والا نہیں کہلا سکتا۔ پھر بلکہ وہ اپنے ذاتی اغراض کی عبادت کر رہا ہے۔ فرمایا ’’اس نے تو اپنا مقصود و مطلوب اور معبود صرف خواہشاتِ نفسانی اور لذائذ ِحیوانی ہی کو بنایا ہوا ہے۔‘‘ یہی اس کی خواہشات ہیں۔ ’’مگر خدا تعالیٰ نے انسان کے سلسلۂ پیدائش کی علّتِ غائی‘‘ اس کا بنیادی مقصد ’’صرف اپنی عبادت رکھی ہے۔‘‘ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
’’وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاریات:57)‘‘
اور میں نے انسانوں اور جنوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ پس فرماتے ہیں ’’پس حصر کر دیا ہے۔‘‘ یہاں فیصلہ کر دیا، پابند کر دیا ’’کہ صرف عبادتِ الٰہی مقصد ہونا چاہیے اور صرف اسی غرض کے لیے یہ سارا کارخانہ بنایا گیا ہے۔ برخلاف اس کے اَور ہی اَور ارادے اور اَور ہی اَور خواہشات ہیں۔‘‘
(ملفوظات جلد 5 صفحہ 246-247)
لیکن ہوتا کیا ہے؟ دنیا میں اس وقت بالکل اس کے خلاف ہو رہا ہے، اس کے الٹ ہو رہا ہے۔ اس مقصد کے بجائے ہر انسان کے اَور ہی اَور ارادے ہیں، دنیا میں پڑ گئے ہیں اور اَور ہی اَور خواہشات ہیں، خواہشات بھی عجیب طرح کی ہو گئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو حاصل کرنے کی خواہش سے زیادہ دنیاوی خواہشات بڑھ گئی ہیں۔ پس یہ باتیں ہمیں غور اور فکر میں ڈالنے والی ہونی چاہییں کہ کس طرح ہم اپنی زندگی کے مقصد کو حاصل کرنے والے بنیں۔ صرف اس ورلی زندگی کی فکر نہ کریں۔ ہماری سوچیں، ہماری محنت صرف اس دنیا کو حاصل کرنے میں صرف نہ ہو جائے بلکہ ہم اپنی زندگی کے اصل مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لانے والے ہوں۔ ان ملکوں میں آ کر ہم اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اس کی عبادت کا حق ادا کرنے والے بنیں۔ ہمارے ارادے اور ہماری خواہشات اَور ہی اَور نہ ہوں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا بلکہ ہم اپنے پیدا کرنے والے کوپہچاننے والے بنتے ہوئے اپنی پیدائش کا حق ادا کرنے والے بنیں اور اس زمانے میں جس مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا ہے اس کو پورا کرنے والے بنیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں
میں اس لیے بھیجا گیا ہوں تا ایمانوں کو قوی کروں، مضبوط کروں اور خدا تعالیٰ کا وجود لوگوں پر ثابت کر کے دکھلاؤں ،کیونکہ ہر ایک قوم کی ایمانی حالتیں نہایت کم زور ہو گئی ہیں اور عالَم ِآخرت صرف ایک افسانہ سمجھا جاتا ہے۔ مرنے کے بعد کی زندگی کو تو سمجھتا ہی کوئی نہیں، سمجھتے ہیں ایک کہانی ہے، افسانہ ہے، کچھ بھی نہیں ہو گا۔ فرمایا اور ہر ایک انسان اپنی عملی حالت سے بتا رہا ہے کہ وہ جیسا کہ یقین دنیا اور دنیا کی جاہ و مراتب پر رکھتا ہے اور جیسا کہ بھروسا اسے دنیاوی اسباب پر ہے یہ یقین اور بھروسا ہرگز اس کو خدا تعالیٰ اور عالم آخرت پر نہیں۔ زبانوں پر کچھ اَور ہے مگر دلوں میں دنیا کی محبت کا غلبہ ہے۔ زبان پر بے شک اللہ کا نام ہے لیکن دلوں پر دنیا کی محبت کا غلبہ ہے اور یہ غلبے کا اظہار عملوں سے ہو جاتا ہے۔ آپؑ نے فرمایا کہ یہود میں خدا کی محبت ٹھندی ہو گئی تھی تو مسیح آ یا تھا اس وقت ان کو دین کی طرف لانے کے لیے اور خدا کی طرف لانے کے لیے اور اب میرے زمانے میں بھی یہی حالت ہے۔ سو مَیں بھی بھیجا گیا ہوں کہ ایمان کا زمانہ پھر آئے اور دلوں میں تقویٰ پیدا ہو۔
(ماخوذ از کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 291 تا 293 حاشیہ)
پس آج ہمارا کام ہے کہ آپ کی بیعت کا حق اد اکرتے ہوئے جہاں اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی محبت میں بڑھائیں، توحید کو اپنے دلوں میں راسخ کریں۔ خدا تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے مقابلے میں دنیا اور اس کی آسائشوں کو پسِ پشت کریں وہاں اپنے اندر ان پاک تبدیلیوں کے ساتھ اس معاشرے کو بھی خدا تعالیٰ کے قریب لانے کی کوشش کریں۔ آج دنیا خدا تعالیٰ کے وجود کو ماننے سے انکاری ہے اور ہر سال کافی بڑی تعداد میں لوگ خدا کے وجود سے انکاری ہوتے چلے جا رہے ہیں اور مذہب کو چھوڑتے چلے جا رہے ہیں، عیسائیت میں بھی اور دوسرے مذاہب میں بھی بلکہ بعض دفعہ مسلمانوں میں بھی۔
پس جو یہ لوگ انکاری ہو رہے ہیں تو ایسی صورت میں خدا تعالیٰ کی محبت ہم اپنے دلوں میں پیدا کر کے دنیا کو بھی خدا تعالیٰ کے وجود کی حقیقت سے آگاہ کریں۔ تب ہی ہم اس جلسے کے مقصد کو بھی پورا کرنے والے ہوں گے اور تب ہی ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی بیعت کے حق کو بھی ادا کرنے والے ہو گے۔ صرف اپنے اندر خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کے رسول کی محبت پیدا کرنا ہی کافی نہیں ہے ، اتنا ہی کام نہیں ہمارا بلکہ اس سے بھی بڑھ کر کام ہے ہمارا بلکہ اپنی اولادوں اور اپنی نسلوں کے دلوں میں بھی خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کے رسول ؐکی محبت پیدا کرنے کے لیے ہمیں بھرپور کوشش کرنی ہو گی اور اسی طرح جیسا کہ میں نے کہا دنیا کو بھی خدا تعالیٰ کے وجود کی حقیقت سے آگاہ کرنا ہو گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی بیعت میں آ کر، آپؑ کے مشن کو اور آپؑ کے مقصد کو آگے بڑھانا ہماری بھی ذمہ داری ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
یہ جلسے کے دن اپنی عبادتوں کے معیاروں کو بڑھانے اور ان پر مستقل رہنے کے لیے ہم صَرف کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی محبت میں ہمیشہ بڑھتے چلے جانے والے ہوں اور دنیا کی لذتیں اور خواہشات ہم پر کبھی حاوی نہ ہوں اور یہ بھی یاد رکھیں کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتا اس لیے اس کے فضلوں کو جذب کرنے کے لیے بھی بہت دعاؤں کی ضرورت ہے اور اس طرف بہت توجہ دینی ہو گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
(الفضل انٹرنیشنل 18؍اکتوبر 2019ء صفحہ 5تا8)