سینیگال کے ریجن تانباکنڈا (Tambacounda) میں احمدیہ مسجد کا افتتاح
محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ سینیگال کو ریجن تانباکنڈا (Tambacounda) کے ایک گاوٴں مانجنگ کنڈا (Manjang Counda) میں ایک نئی مسجد تعمیر کرنے کی توفیق ملی۔ الحمد للہ علیٰ ذالک
یہ گاؤں سینیگال اور گیمبیا کے بارڈر پر واقع ہے اور مکرم منور احمد خورشید صاحب مرحوم سابق امیر جماعت سینیگال کے ذریعہ احمدیت یہاں ۱۹۹۸ء میں آئی۔ ابتدا میں یہاں جماعت کو شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ اوائل میں تین خاندانوں نے احمدیت قبول کی جس کے نتیجے میں نہ صرف اس گاؤں کے لوگوں نے بلکہ گردوپیش کے ۱۵؍ گاؤں نے ان احمدیوں کا سماجی بائیکاٹ کر دیا۔ ان کو خوشی غمی میں بھی نہ بلایا جاتا اور نہ شامل ہونے دیا جاتا۔ غرض ان ابتدائی احمدیوں نے بڑی ثابت قدمی سے ان مشکل حالات کا مقابلہ کیا اور اپنے لیے ۳x۴میٹر کی ایک چھوٹی سی جھونپڑی نما مسجد بھی بنا لی۔
بعد ازاں جب معلمین و مبلغین باقاعدہ تبلیغی و تربیتی غرض سے دورے کرتے رہے اور دیگر احباب کے گھر فرداً فرداً جا کر حال احوال پوچھتے رہے تو ان کے دلوں کے زنگ بھی اترنا شروع ہوئے اور چھ مزید خاندانوں نے بیعت کر لی۔ اس طرح یہ چھوٹی سی جھونپڑی نما مسجد چھوٹی پڑ گئی اور مرور زمانہ کے ساتھ اس کی حالت بھی کافی خستہ حال ہو چکی تھی۔
اس پر اس گاؤں کے احباب جماعت نے مکرم ناصر احمد سدھو صاحب امیر جماعت سینیگال کی خدمت میں مسجد کی توسیع کی درخواست کی اور اپنی طرف سے ہر قسم کے تعاون کی بھی یقین دہانی کروائی۔
اس پر مورخہ ۱۰؍ جنوری ۲۰۲۳ء کو پرانی مسجد کی جگہ نئی مسجد کی تعمیر کا آغاز ہوا۔ گاؤں کے احباب نے اینٹیں بنائیں اور مزدوری میں ہاتھ بٹایا۔ احمدی خواتین نے دور کنویں سے پانی بھر کر لانے کی ڈیوٹی سر انجام دی اور تینوں وقت مستری و مزدوروں کے لیے کھانے و دیگر لوازمات کا اہتمام کرتی رہیں۔
محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسجد کی تعمیر چھ ماہ کے قلیل عرصہ میں مکمل ہوئی۔ احباب جماعت نے بڑی لگن و محنت سے کام کیا۔ دوران تعمیر متعدد واقعات ایسے رونما ہوئے جو احباب کے ازدیاد ایمان کا موجب ہوئے اور بقول اہالیان گاؤں یہ باتیں معجزات سے کم نہیں۔
پہلا واقعہ کچھ یوں ہے کہ مخالفین پُرانی مسجد ہونے کے باعث احمدیوں پر ہنستے اور کہتے کہ اس دُور دراز گاؤں میں تمہیں کون مسجد بنا کر دے گا۔ یہ گاوٴں سینیگال اور گیمبیا کے بارڈر پر واقع ہے۔
اب جب مسجد تعمیر ہونے لگی تو مخالفین نے شدید تعجب کا اظہار کیا اور دوران تعمیر متعدد بار آ کر احمدیوں سے اس بات کا اظہار کیا کہ ہم یہ خیال نہیں کر سکتے تھے کہ آپ لوگ یہاں مسجد بنا لیں گے۔ مگر آپ کی ثابت قدمی اور ترقی دیکھ کر ہم آپ کی مخالفت بھی نہیں کریں گے۔
دوسرا واقعہ کچھ یوں ہے کہ دوران تعمیر احباب گدھا ریڑھوں پر تعمیر کے لیے قریبی نالہ سے ریت لاتے تھے۔ اس دوران ایک دن اونچائی سے ریڑھا گدھے سمیت نیچے گڑھے میں جا گرا۔ مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے نہ کوئی جانی نقصان ہوا، نہ گدھے کو کوئی تکلیف پہنچی اور نہ ہی ریڑھا ٹوٹا۔ مقامی احمدیوں نے فون کر کے جذباتی انداز میں یہ واقعہ سنایا اور اسے معجزہ قرار دیا۔ کیونکہ دُوردراز گاؤں میں ایک گدھا اور ریڑھا ہی اس احمدی کا کُل وسیلہ روزگار تھا۔
مسجد کا کُل رقبہ ۱۵۰؍ مربع میٹر ہے جس میں سے مسقف حصہ ۸۱؍ مربع میٹر ہے۔ مورخہ ۲۳؍ جون ۲۰۲۳ء کو مکرم امیر صاحب دار الحکومت ڈاکار سے وفد کے ہمراہ ۵۰۰؍ کلومیٹر کا سفر کر کے مسجد کے افتتاح کے لیے تانباکنڈا ریجن پہنچے۔ احباب جماعت نے کلمہ توحید کو ترنم سے پڑھ کر استقبال کیا۔ بعد ازاں مسجد کے دروازے پر آکر دعا کروائی جس میں دور و نزدیک سے آئے احمدی و غیر احمدی مرد و زن کثیر تعداد میں شامل ہوئے۔ اس کے بعد مسجد میں آ کر نماز جمعہ کی امامت کروائی۔
بعد از نماز جمعہ احباب جماعت نے جذباتی رنگ میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ہم شکر گزار ہیں کہ ایک غریب اور دُوردراز جماعت کو یاد رکھا۔ اس کے بعد بعض مہمانوں نے اپنے تاثرات کا اظہار کیا جن میں گاؤں کے چیف اور امام بھی شامل تھے۔