نکاح کے بندھن میں تقویٰ کی اہمیت
اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کا لفظ قرآن کریم میں اتنی بار استعمال کیا ہے کہ اس کی کوئی انتہا نہیں اور شاید ہی کوئی اَور لفظ اتنی بار استعمال ہوا ہو۔ مختلف پیرایوں اور مختلف شکلوں میں اس کے بارے میں توجہ دلائی گئی ہے۔ بلکہ ایک مسلمان جب شادی کے بندھن میں بندھتا ہے تو اس وقت نکاح کے خطبہ میں پانچ دفعہ تقویٰ کے بارہ میں ذکر آتا ہے۔ تقویٰ کی اہمیت کا اسی بات سے اندازہ کر لیں۔ کیونکہ شادی میں مرد اور عورت ایک نئی زندگی کا آغاز کر رہے ہوتے ہیں اور نہ صرف مرد اور عورت ایک معاہدہ کر رہے ہوتے ہیں بلکہ دو خاندان آپس میں ایک تعلق پیدا کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر تقویٰ نہ ہو تو معاشرے میں ایک فساد پیدا ہو جائے۔ پھر ایک مسلمان عورت اور مرد کے ایک تعلق میں بندھنے کے نتیجہ میں نئے وجودوں کی آمد ہوتی ہے۔ اگر ایک مسلمان میاں بیوی تقویٰ پر قائم نہیں رہیں گے تو آنے والی نسل کے متقی ہونے کی کوئی ضمانت نہیں۔ تو خلاصہ یہ کہ تقویٰ ایک ایسی بنیادی چیز ہے جس کے بغیر خداتعالیٰ کے ملنے اور اس سے زندہ تعلق جوڑنے کا تصور ہی غلط ہے۔(خطبہ جمعہ فرمودہ۲۶؍مارچ ۲۰۰۴ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۶؍اپریل ۲۰۰۴ء)
جماعت احمدیہ میں بہرحال دیکھا جائے گا کہ لڑکی جہاں رشتہ کررہی ہے یا جہاں رشتے کی خواہش رکھتی ہے وہ لڑکا بہرحال احمدی ہو۔ کیونکہ ان تمام باتوں کا مقصد پاک معاشرے کا قیام ہے۔ نیکیوں کو قائم کرنا ہے اور نیک اولاد کا حصول ہے۔ اگر احمدی لڑکے احمدی لڑکیوں کو چھوڑ کر اور احمدی لڑکیاں احمدی لڑکوں کو چھوڑ کر دوسروں سے شادی کریں گے تو معاشرے میں، خاندان میں فساد پیدا ہونے کا خطرہ ہوگا۔ نئی نسل کے دین سے ہٹنے کا خطرہ پیدا ہو جائے گا۔ اس لئے دین کا کفو دیکھنا بھی اس طرح ضروری ہے جس طرح دنیا کا۔ ہمارے لڑکوں اور لڑکیوں کو بعضوں کو بڑا رجحان ہوتا ہے غیروں میں رشتے کرنے کا۔ اس طرف توجہ دینے کی بہت ضرورت ہے۔ خاص طور پر اس آزاد معاشرے میں۔ نظام کی بھی فکر اس لئے بڑھ گئی ہے کہ ایسے معاملات اب کافی زیادہ ہونے لگ گئے ہیں کہ اپنی مرضی سے غیروں میں، دوسرے مذاہب میں رشتے کرنے لگ جاتے ہیں۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۴؍دسمبر ۲۰۰۴؍ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۷؍ جنوری ۲۰۰۴ء)