کانکورڈ سپر سانک عروج و زوال
تیز رفتاری سے سفر کرنا ہمیشہ سے انسانی خواہش رہی ہے۔ ۱۹۰۳ء میں ہوائی جہاز کی ایجاد ہوئی۔ ۱۹۴۷ء میں آواز کی رفتار سے تین گنا تیزی سے اڑنے والے فائٹر جہاز بنائے جا چکے تھے اور پھر کمرشل جہازوں کے لیے سپرسانک مسافر ہوائی جہاز کا جنم ہوا جسے کانکورڈ کا نام دیا گیا ۔
امریکی پائلٹ چک گریکر نے سائونڈ بیریئر کو توڑتے ہوئے آواز کی رفتار سے زیادہ تیز جہاز اڑا کر ہوائی سفر کی تاریخ میں ایک نئے دور کا آغاز کیا۔ ۱۹۶۰ء میں برطانیہ، فرانس اور امریکہ نے کمرشل بنیادوں پر سپر سانک مسافر جہاز کی ایک ایئر لائن کے منصوبے پر کام شروع کیا جس کے ذریعے لندن سے نیویارک تک کا سفر محض تین گھنٹوں میں طے ہونا تھا۔ سپر سانک کا ڈیزائن بہت منفرد تھا، اس کی ناک (شروع کا حصہ) اوپر نیچے کی جاسکتی تھی جبکہ روایتی جہازوں میں ایسا نہیں ہوتا۔ نیز اس کے انجن عام جہازوں کی نسبت دگنی طاقت کے حامل تھے اور یہ جہاز کی پشت پر نصب تھے۔ تیاری کے بعد اس کی کئی تربیتی اور آزمائشی پروازیں کی گئیں۔ ۱۹۷۱ء میں امریکہ اس منصوبہ سے دست بردار ہو گیا کیونکہ یہ بہت مہنگا پراجیکٹ بنتا جا رہا تھا۔
۱۹۷۳ء میں پیرس میں ہونے والے ایک ایئر شو میں برطانیہ اور فرانس کا مشترکہ کانکورڈ طیارہ اور سوویت یونین کا ٹیوپلوف TU-144 نمائش کے لیے پیش کیے گئے۔ کانکورڈ نے بنا کسی دقت کے متعدد پروازیں کیں لیکن سوویت کے سپر سانک ٹیوپلوف کو حادثہ پیش آیا، عملہ کے ۶ ارکان اور آٹھ عام شہری جن کے اوپر یہ جہاز گرا اس حادثے میں مارے گئے۔ اس کے ساتھ ہی ٹیوپلوف منصہ شہود سے غائب ہو گیا جبکہ کانکورڈ میں اس ایئر شو کے بعد دنیا بھر کی درجنوں کمرشل ایئر لائنز نے دلچسپی ظاہر کی۔ عام جہازوں کی نسبت اس کی لاگت تین گنا تک ہونے کی وجہ سے اسے بہت زیادہ پذیرائی نہ مل سکی اور صرف ۱۴ جہاز ہی فروخت ہو سکے۔ آخر کار ۲۱؍جنوری ۱۹۷۶ء کو دو سپرسانک کانکورڈ کمرشل جہازوں نے پیرس اور لندن سے ریوڈی جنیرو اور بحرین کے لیے اڑانیں بھریں۔ اس کے کئی منفی پہلو بھی تھے۔ اس میں صرف ۱۰۰ مسافروں کی گنجائش تھی جو عام جہازوں کی نسبت چار گنا کم تھی۔ اسی وجہ سے اس کا ٹکٹ بہت زیادہ مہنگا تھا جسے عام مسافر برداشت نہیں کر پاتے تھے۔ اس کے طاقتور انجن کے زیادہ شور کرنے کی وجہ سے ایئرپورٹ کے اطراف میں بسنے والے لوگ اس سے سخت خائف رہتے تھے۔
۱۹۸۶ءمیں اٹلانٹک کی یک طرفہ ٹکٹ ۲۰۰۰؍ ڈالر کی تھی جو اگلے دس سال میں ۱۰ ہزار ڈالر تک پہنچ گئی۔ ایک گھنٹے کی پرواز کے بعد اسے چوبیس گھنٹوں کی مینٹیننسکی ضرورت ہوتی تھی جبکہ بوئنگ ۷۴۷ کو صرف آٹھ گھنٹے ہی درکار ہوتے تھے۔
ایسا نہیں تھا کہ کانکورڈ ہمیشہ ہی خسارے میں رہا، ۱۹۸۳ء میں برٹش ایئرویز نے ۱۰ ملین ڈالر کمائے جبکہ ایئر فرانس نے ۳ ملین ڈالر کا منافع کمایا۔ ۱۹۹۳ءمیں کانکورڈ نے دنیا کی سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی کمرشل ایئر لائن کا اعزاز اپنے نام کیا۔ ۹۰ء کے عشرے کے وسط سے لوگوں کی دلچسپی اس میں کم ہونا شروع ہو گئی یہاں تک کہ جہاز کے لیے مسافر بھی پورے نہیں ہوتے تھے۔ یہ کانکورڈ کے زوال کی ابتدا تھی ۔
اسی دوران ۲۵؍جولائی ۲۰۰۰ء کو ایئر فرانس کے طیارے کانکورڈ کو اڑان بھرنے کے دوران آگ لگ گئی۔ آن واحد میں طیارہ زمین پر آ گرا۔ طیارے میں سوار ۱۰۰ لوگوں سمیت زمین پر موجود ۴ لوگوں کی جانیں گئیں۔ تحقیق اور مزید حفاظتی تبدیلیوں کے بعد ۱۱؍ستمبر ۲۰۰۱ء کو اس کی ایک آزمائشی پرواز کی گئی۔ جب کانکورڈ لندن میں اترا تو یہ وہی وقت تھا جب ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ ہوا۔ ۲۰۰۳ء میں اسے مکمل طور پر بند کرنے کا اعلان کیا گیا۔ اپنی آخری اڑان میں اس سے ایک سلیبرٹی کی طرح کا سلوک کیا گیا۔ مئی ۲۰۰۳ءمیں یہ نیویارک سے پیرس کے لیے آخری بار روانہ ہوا، اس کے پانچ ماہ بعد برٹش ایئر ویز نے کانکورڈ کی پرواز میں نیویارک سے لندن تک آخری بار اڑان بھری۔ اپنی ۲۷ سالہ سروس میں کانکورڈ نے ۴ ملین سے زائد مسافروں کو آواز کی رفتار سے دگنی رفتار پر سفر کرتے ہوئے ان کی منزلوں تک پہنچایا۔ اپنی گھن گرج اور رفتار سے لوگوں کے رونگٹے کھڑے کر دینے والے کانکورڈ جہاز آج محض ماضی کی یاد ہیں۔ کانکورڈ نے عروج اور عروج کے بعد زوال بہت جلد دیکھ لیا تھا۔کانکورڈ کی بدولت ہوائی تاریخ میں رقم ہونے والے باب کبھی فراموش نہیں کیے جا سکتے۔ جب جب آواز کی رفتار سے تیز سفر کرنے کی بات ہوگی سپرسانک کانکورڈ کا ذکر ضرور ہوگا۔
(’م۔ ظفر‘)