قرآن کامعلّم اورعاشق قرآن محترم قاری محمدعاشق صاحب
ہماری خوش قسمتی تھی کہ محترم قاری محمدعاشق صاحب جیسی عظیم ہستی کی رہائش ہمارے محلہ میں تھی۔اللہ تعالیٰ نے آپ کے وجودمیں بہت ساری خوبیوں کوجمع کردیاتھا جن میں سے کچھ باتیں پیش خدمت ہیں۔
محترم قاری محمدعاشق صاحب ہمارے محلہ کی شان اورپہچان تھے۔ہمیں یہ اعزازحاصل ہے کہ آپ ہماری مسجدمیں خطیب اورامام الصلوٰۃ تھے، وقت کی پابندی آپ کاطرۂ امتیازتھا۔جونہی نمازکا وقت ہوتا آپ بلاتا خیرنمازکےلیے کھڑے ہوجاتے تھے۔اور کہاکرتے تھے کہ یہ قرآن کاحکم ہے إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً کہ یقیناً نماز مومنوں پرایک مقررہ وقت پرفرض ہے۔اس لیے ہمیشہ وقت مقررہ کاخیال رکھناچاہیے۔
آپ کی اقتدا میں نمازپڑھنے کابہت مزہ آتا۔نیزآپ کی بہترین قراءت کی بدولت ہمارے محلہ کے مقتدیوں کی تلاوت میں بہت بہتری آئی اوربہت سے بچوں اوربڑوں نے آپ سے سن کرنمازوں میں پڑھی جانے والی کئی سورتیں یادکرلیں۔
محترم قاری محمدعاشق صاحب اپنے نام کی مناسبت سے واقعۃً عاشق قرآن تھے۔ آپ نہایت محبت اورعمدگی سے قرآن کریم کی تلاوت کرتے۔آپ ’’خيرُكُم من تعلَّم القرآن وعلَّمَهُ ‘‘کی زندہ مثال تھے۔ اورآپ نے قرآن سیکھ کراسے آگے دوسروں کوسکھانے کاحق اداکردیا۔ان گنت لوگوں نے قاری محمد عاشق صاحب سے براہ راست قرآن سیکھا۔اسی طرح بے شمارلوگ ایسے ہیں جنہوں نے ایم ٹی اے یایوٹیوب پریاآپ کی آڈیو وڈیو ریکارڈنگ کی مددسے قرآن کریم سیکھا۔ الغرض ساری دنیامیں آپ کے شاگرد موجود ہیں جنہوں نے آپ سے قرآن سیکھااورآج وہ دوسروں کوقرآن سکھانے کی سعادت پارہے ہیں۔
محترم قاری محمدعاشق صاحب میرے استادتھے۔جب خاکسارکی بطورصدرمحلہ منظوری آئی اورآپ میری مجلس عاملہ کے رکن منتخب ہوئےتومجھے محترم قاری صاحب سے طبعاً ایک حجاب سامحسوس ہوتاتھالیکن ان کی بے تکلفی اورسادگی کے ساتھ نظام کی اطاعت کاجذبہ کھل کرسامنے آیا۔ جب بھی مرکزی ہدایات ان کے سامنے رکھی جاتیں تو بلاچون وچرا انہیں تسلیم کرتے بلکہ اپنے عمل سے اس کی تصدیق کرتے تھےاورہرممکن تعاون کیا کرتے تھے اس لحاظ سے آپ اطاعتِ امیرکی ایک عمدہ مثال تھے۔
نمازعصرکے بعدآپ مسجد میں ترجمہ قرآن کی کلاس لیاکرتے تھے اورپہلے نہایت عمدگی سےاس آیت کی تلاوت کاطریق بتاتے،پھراس کالفظی ترجمہ پڑھاتےاورساتھ اس کابامحاورہ ترجمہ اورمشکل مقامات کی مختصرتشریح بھی بیان کردیتے۔ اگرکسی جگہ اشکال پیداہوتاتواپنے شاگردمربیان سے پوچھنے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہ کرتے تھے۔
اگرکوئی دوست کلاس میں شامل ہوئے بغیر چلا جاتا تو بعدمیں ملاقات کرکے پوچھتے کہ آخروہ کونساضروری کام تھا جوقرآن کریم سے زیادہ اہم تھا؟آپ اسے سمجھاتے کہ قرآن سیکھنے میں آپ کافائدہ ہے۔ اگرچندمنٹ آپ کلاس میں بیٹھ جائیں گے تواس سے آپ کے کام میں کوئی ہرج نہیں ہوگا بلکہ اس میں برکت پڑجائے گی۔
جب پابندیوں کی وجہ سے قرآن کلاس بندکرنی پڑی توبہت دکھ کے ساتھ کہتے کہ نہ جانے اس قوم کاکیا بنے گا جولوگوں کوقرآن پڑھنے سے منع کرتے ہیں حالانکہ یہ لوگ جس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہوتے ہیں اس عظیم رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے توقرآن پڑھنے اورپڑھانے کی بے شمار فضیلت بیان فرمائی ہے۔
محترم قاری محمدعاشق صاحب نہ صرف میرے بلکہ میرے دوبچوں کے بھی استادتھے۔ بڑی بیٹی نے جب قرآن کریم حفظ کیااوران کو سنایا تو مسجدمیں ملے اورمبارک باددی کہ آپ کی بیٹی نے قرآن کریم مکمل کرلیاہے۔ جب چھوٹابیٹا آپ کی شاگردی میں آیاتواس وقت بھی کئی ہدایات دیتے رہتے جس پرعمل کرکے اس نے حفظ قرآن کاآخری ٹیسٹ بڑے اچھے نمبروں میں پاس کیاتوبڑے خوش ہوئے اورکہاکہ ماشاء اللہ آپ کے گھرمیں دوحافظ قرآن بن گئے ہیں اب کوشش کریں کہ وہ دہرائی کرتے رہیں تاکہ ان کاحفظ پختہ رہے۔
محترم قاری محمدعاشق صاحب بہت مہمان نوازتھے۔ جو بھی آپ سے ملنے آتا ہمیشہ مسکرا کر اورکھلے دل کے ساتھ اس کا استقبال کرتے اورچائے وغیرہ پیش کرتے۔ آخری سالوں میں بیماری اورضعف کے باوجودان کی مہمان نوازی میں کوئی فرق نہ آیا اورزیادہ دیربیٹھنے کے باوجودان کے چہرہ پر کبھی ملال نہ آتا۔ پاکستان کے علاوہ کئی دفعہ بیرون ملک سے ان کے شاگردملنے آتے تو ان سے وہاں کے حالات دریافت کرتے اورلمباعرصہ ان کے ساتھ بیٹھ کرپرانی یادیں تازہ کرتے۔
مہمان نوازی کے تعلق میں گرم گرم چائے پیش کرکے اکثرکہاکرتے تھے کہ چائے میں یہ خوبیاں ضرورہونی چاہئیں۔ ۱۔ لب سوز،یعنی اتنی گرم ہوکہ ہونٹوں کوجلانے والی ہو ۲۔ لب دوز، یعنی اتنی میٹھی ہوکہ دونوں ہونٹ آپس میں چپک جائیں۔ ۳۔ لبریز ،یعنی کپ لبالب بھراہواہو۔
چندسال پہلے کی بات ہے کہ محترم قاری صاحب کی بیٹی نے(جوکہ صدرلجنہ تھیں) مجھے فون کیاکہ ہمارے گھرکے باہرکچھ مولوی کھڑے ہیں اوروہ قاری صاحب کاپوچھ رہے ہیں۔ کہیں یہ شرپسندنہ ہوں۔میں چند دوستوں کولے کر فوراً ان کے گھرپہنچاتودیکھاکہ تین افرادایک کارپرآئے ہیں اور وہاں کھڑے ہیں۔ ان سے تعارف ہوا اورآنے کامقصدپوچھاتوانہوں نے بتایاکہ وہ قاری محمدعاشق صاحب کے پرانے وقتوں کے دوست ہیں اورہم ان سے ملناچاہتے ہیں۔ چنانچہ ان کوبٹھایاگیا، ان کی مہمان نوازی کی گئی اورتفصیلی بات چیت ہوئی توپتا چلاکہ وہ کسی مدرسہ کے استادہیں اورقاری صاحب کے قبول احمدیت سے قبل کے زمانہ میں ہم مکتب تھے۔ جب انہوں نے قاری صاحب سے احمدیت قبول کرنے کے بعدکے حالات دریافت کیے توجسمانی ضعف اورکمزوری کے باوجودقاری صاحب نے ان کے سامنے بڑی جرأت اورفخرکے ساتھ وہ واقعات بیان کیے جواحمدیت قبول کرنے کے بعدپیش آئےاورکس طرح ان کواحمدیت سے ہٹانے کےلیےلالچ دیے گئے اوردھمکی آمیزپیغامات ملے لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں استقامت عطافرمائی اورپھرآپ نےقبول احمدیت کے شیریں ثمرات بیان کیے اورخدمت قرآن کی جوتوفیق ملی اس کاتذکرہ کیا۔ جس کا وہ نہایت عمدہ اثرلے کرگئے۔ اس وقت مجھے اندازہ ہواکہ آپ احمدیت کی سچائی پرکس قدرپختہ اور کامل یقین رکھتے ہیں اورآپ نے احمدیت کی خاطرکتنی تکالیف برداشت کیں لیکن جماعت سے سرموانحراف نہیں کیابلکہ ہمیشہ آگے قدم بڑھایا۔ اوران قربانیوں کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ نے ان پرکتنے بڑے فضل نازل فرمائے۔
جانے سے پہلے مولوی صاحب نے خواہش کااظہارکیاکہ قاری صاحب انہیں تلاوت سنائیں۔ چنانچہ قاری صاحب نے ان کونہایت خوش الحانی سے قرآن کریم کی چندآیات کی تلاوت سنائی تووہ بڑے خوش ہوئےاورکہنے لگے کہ زمانہ درازکے بعدبھی آپ کی تلاوت کا اندازماشاء اللہ پہلے کی طرح ہی ہے بلکہ پہلے سے بھی بہترہوا ہے۔
الغرض محترم قاری محمدعاشق صاحب بہت بڑے عاشق قرآن اوراحمدیت کے فدائی تھے۔ ساری زندگی قرآن کریم کواپنا اوڑھنا بچھونا بنا کررکھا۔ اس کی تعلیم کوہرآن آگے پھیلایا اورعالم باعمل کی حیثیت سے دنیاسے کوچ فرمایا۔ اللہ تعالیٰ آپ کوجنت الفردوس میں اعلیٰ مقام پرسرفرازفرمائے اورہمیں آپ کے نیک کاموں کوجاری رکھنے کی توفیق عطافرمائے۔آمین