حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یومِ پیدائش
کرسمس(Christmas)کا تہوار عیسائی دنیا میں ۲۵؍دسمبر کو حضرت یسوع مسیح کے یومِ پیدائش کے طور پر منایاجاتا ہے۔جرمنی میں اس کے لیے Weihnachtکا لفظ استعمال ہوتا ہے یعنی مقدس رات (Holy Night)۔
جہاں تک اس تہوار اور دن کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے ساتھ جوڑنے کا تعلق ہے تو موجودہ دور میں یہ محض ایک روایت کے طور پر ہی رہ گیا ہے ورنہ اس کے بارے میں جو تحقیق ہوچکی ہے، اُس سے قطعاً یہ بات پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچتی۔ آپ کوئی انسائیکلو پیڈیا اٹھا لیں اور اس کا مطالعہ کریں تو Christmasیا یسوع کی پیدائش کے عنوان کو جب دیکھیں گے تو آپ کو یہی لکھا ہوا ملے گا کہ یسوع مسیح سردی کے موسم یعنی ۲۵؍دسمبر کو پیدا نہیں ہوئے تھے۔بائبل کے مطالعہ سے بھی یہی پتا چلتا ہے کہ یسوع مسیح کی پیدائش سردی کے موسم میں نہیں ہوئی تھی۔
چنانچہ لوقا کی انجیل میں لکھا ہے:قیصر اوگُستس (Caesar Augustus) کی طرف سے یہ حکم جاری ہوا کہ ساری دنیا کے لوگوں کے نام لکھے جائیں۔ سب لوگ نام لکھوانے کے لیے اپنے اپنے شہر کو گئے۔پس یوسف بھی گلیل کے شہر ناصرہ سے داؤد کے شہر بیت لحم گیا جو یہودیہ میں ہے تاکہ اپنی منگیتر مریم کے ساتھ جو حاملہ تھی نام لکھوائے اور جب وہ وہاں تھے تو ایسا ہوا کہ اس کے وضع حمل کا وقت آپہنچا۔اور اس کا پہلوٹا بیٹا پیدا ہوا۔(لوقا۲:۱-۷)
خود مسیحی علماء کہتے ہیں کہ تاریخ کے مطابق ایسے ملک میں جہاں سردی کا موسم انتہائی شدید ہوتا ہو یہ ممکن نہیں کہ ایسی مردم شماری کے لیے جس میں لوگوں کو دُور دراز کا سفر کرنا پڑے تکلیف دی جائے کیونکہ اس زمانہ میں شدید سردی کے موسم میں سفر کرنا انتہائی مشکل تھا خصوصاً حاملہ عورتوں کے لیے اور اس سلسلہ میں خود یسوع مسیح کی شہادت موجود ہے اور وہ یہ کہ جب آپ نے یروشلم کی بربادی کی پیشگوئی کی تو فرمایا:پس دعا کرو کہ تم کو جاڑوں میں یا سبت کے دن بھاگنا نہ پڑے کیونکہ اس دن ایسی مصیبت ہوگی کہ دنیا کے شروع سے نہ اب تک ہوئی نہ کبھی ہوگی۔(متی۲۴:۲۰)
گویا عہد نامہ جدید کے مطابق جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی تو اس وقت سرکاری مردم شماری بھی ہوئی تھی اور ایسی تقریب جس میں ہر کس وناکس کو دُور دراز سفر کرنا پڑے، سخت سردی کے موسم میں ممکن نہیں جیسا کہ متی کے بیان سے ثابت ہے۔
علاوہ ازیں لوقا کی انجیل سے اس بارےمیں ایک اَور گواہی ملتی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ جب یسوع مسیح کی پیدائش ہوئی تو اُس وقت سردی نہ تھی بلکہ گرمیوں کا موسم تھا۔ چنانچہ حضرت مریم کے ہاں پہلے بیٹے کی ولادت کا حال بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:اُسی علاقہ میں چرواہے تھے جو رات کو میدان میں رہ کر اپنے گلہ کی نگہبانی کررہے تھے۔ (لوقا۲:۸)
دنیا میں ہر جگہ رات کے وقت جانوروں کو صرف موسم گرما میں ہی باہر کھلی جگہوں پر رکھا جاتا ہے نہ کہ موسم سرما میں اور وہ بھی جب کہ موسم سرما اپنی شدّت کے اعتبار سے اپنے عروج پر ہو۔اس امر کی تصدیق آدم کلارک (Adam Clarke) جو کہ بائبل اور تاریخ کا بہت بڑا نام ہے، کی اس بات سے بھی ہوتی ہے جو انہوں نے اپنی بائبل کی تفسیر میں درج بالا آیت کی تشریح لکھی ہے۔
موصوف لکھتے ہیں کہ’’یہودیوں میں عام طور پر یہ دستور تھا کہ Passover کے قریب اپنے جانوروں کو باہر میدانوں میں پہاڑوں پر بھیج دیتےتھے۔( یاد رہے کہ Passover یعنی فسح کی عید Nisan کے مہینہ میں ہوتی ہے جو یہودی کیلنڈر کا پہلا مہینہ ہے۔یہ یہودی مذہب کی سب سے بڑی عید ہےجو مصر سے بنی اسرائیل کے نکلنے کی یاد میں منائی جاتی ہے اور Nisan جو پہلے Abibکہلاتا تھا Gregorianکیلنڈر کے مطابق مارچ اور اپریل میں آتا ہے)اور پہلی بارش کے ہوتے ہی واپس اصطبل میں لے آتے تھے۔ فسح کی عید موسم بہار میں منائی جاتی تھی اور پہلی بارش یہودی کیلنڈر کے ماہ Machesvan (نومبر اکتوبر) کے شروع میں ہوتی تھی جس سے پتا چلتا ہے کہ گرمیوں کے موسم میں جانور باہر رکھے جاتے تھے۔اور چونکہ چرواہے ابھی تک اپنے ریوڑ کو واپس نہیں لائے تھے جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اکتوبر کا مہینہ ابھی شروع نہیں ہوا تھا۔پھر مزید لکھتا ہے کہ اس سے ظاہر ہے کہ ہمارے آقا(یسوع مسیح) ۲۵؍دسمبر کو پیدا نہیں ہوئے تھے کیونکہ اس مہینہ میں جانور باہر نہیں رکھے جاتے تھے اور یہ بھی کہ وہ ستمبر کے بعد بھی پیدا نہیں ہوئے تھے۔ کیونکہ ستمبر کے بعد بھی جانور باہر نہیں رکھے جاتے اس لیے ان دلائل کی روشنی میں ہمیں یہ نظریہ ترک کرنا ہوگا کہ یسوع مسیح ۲۵؍دسمبر کو پیدا ہوئے تھے۔‘‘
(Clarke, Commentary on Bible, Mathew-Like)
اس امر کی شہادت بائبل کے ایک دوسرے مقام سے بھی ملتی ہے کہ فلسطین میں سردیوں کاموسم شدید بارشوں کا موسم بھی ہوتا ہے یعنی ایسے موسم میں جانور باہر میدان میں نہیں رکھے جاسکتے۔ عزرا کی کتاب میں لکھا ہے:یہودا اور بن یامین کے سب مرد اُن تینوں دنوں کے اندر یروشلم میں اکٹھے ہوئے۔مہینہ نواں تھا(Kislev یعنی نومبر، دسمبر) اور اس کی بیسویں تاریخ تھی اور سب لوگ… بڑی بارش کے سبب سے خدا کے گھر کے سامنے کے میدان میں بیٹھے کانپ رہے تھے۔(عزرا ۱۰:۹)
Adam Clarke بائبل کی تفسیر میں مزید لکھتا ہے:
The time in which Christ was born has been considered a subject of great importance among Christians. However, the matter has been considered of no moment by him who inspired the evangelists, as not on hint is dropped on the subject by which it might be possible even to guess nearly to the time, except the chronological fact mentioned above.
(Clarke commentary of Bible Mathew-Like under Luke 2:8 Edition 1997)
ترجمہ: حضرت یسوع کی پیدائش کا وقت عیسائیوں میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔لیکن جس نے اناجیل نویسوں کو الہام کیا اس نے ایک ہلکا سا اشارہ بھی اس مضمون کی طرف نہیں کیا کہ جس سے اُس کی پیدائش کے وقت کا اندازہ بھی کیا جاسکتا۔ سوائے اس کے کہ میں نے جس تاریخی حقیقت کا اوپر ذکر کیا ہے۔
اب قرآن کریم کا بیان بھی ملاحظہ ہو، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش والی آیتِ کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں:قرآن بتاتا ہے کہ مسیح اس موسم میں پیدا ہوئے جس میں کھجور پھل دیتی ہے اور کھجور کے زیادہ پھل دینے کا زمانہ دسمبر نہیں ہوتا بلکہ جولائی اگست ہوتا ہے اور پھر جب ہم دیکھیں کہ خدا تعالیٰ نے انہیں ایک چشمے کا بھی پتہ بتایا جہاں وہ اپنے بچے کو نہلا سکتی تھیں اور اپنی صفائی کرسکتی تھیں۔
تو اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ جولائی اور اگست کا مہینہ تھا ورنہ سخت سردی کے موسم میں چشمے کے پانی سے نہانا اور بچے کو بھی غسل دینا خصوصاً ایک پہاڑ پر اور عرب کے شمال میں عقل کے بالکل خلاف ہے…قرآن کریم تو حضرت مریم سے کہتا ہے…تُو کھجور کے تنا کو ہلا، تجھ پر تازہ کھجوریں گریں گی… اور کھجور یں زیادہ تر جولائی اگست میں ہوتی ہیں۔(تفسیر کبیر جلد۵صفحہ ۷۹، ایڈیشن۱۹۸۶ء)
قاموس الکتاب (جو بائبل کا اردو انسائیکلو پیڈیا ہے) میں زیرِ لفظ کھجور لکھا ہے کہ ’’یہ درخت فلسطین میں بہت عام ہے بعض شہر اس درخت کی کثرت کی وجہ سے مشہور تھے مثلاً یریجو کو خُرموں کا شہر کہتے تھے۔ ‘‘(استثناء۳۴:۳ قضاۃ۲,۳:۱۳,۱:۱۶ تواریخ۲۸:۱۵حزقیل۴۸:۲۸,۴۷:۱۹)
کرسمس کی ابتدا اور اصلیت
اب اس امر کا ایک دوسرے زاویہ سے جائزہ لیتے ہیں اور وہ یہ کہ کرسمس منانے کا رواج ابتدائی مسیحیت میں تھا ہی نہیں اور نہ ہی بزرگوں کا یومِ پیدائش منانے کا کوئی حکم یا ذکر بائبل میں ملتا ہے۔کیتھولک انسائیکلو پیڈیا کے مطابق مسیحیت کی ابتدا میں جو تہوار منائے جاتےتھے ان میں کرسمس کا کہیں ذکر ہی نہیں ملتا بلکہ پیدائش کے دنوں کے منانے کی ممانعت ملتی ہے۔ مسیحیت کے بزرگ اور بائبل کے بہت بڑے عالم اورگین (Origen)اس امر کا اقرار کرتے ہیں کہ کتب مقدس میں کسی بھی نیک ہستی کا یومِ پیدائش منانے کا ذکر نہیں ملتا۔ اگر یوم پیدائش منانے کا ذکر ملتا ہے تو صرف گناہ گار (اور انبیاء کے مخالفین) لوگوں کا یومِ پیدائش منانے کاذکر ملتاہے۔
(مثلاً فرعون اور ہیرودیس متی۱۴:۶ پیدائش ۴۰۲۰مرقس-۶:۲۱ ناقلCATHOLIC ENCYCLOPEDIA Vol.3 under Christmas)
مسیحیت میں کرسمس منانے کا باقاعدہ آغاز۳۵۰ء کے بعد ہوا ہے۔لیکن اس زمانے سے کرسمس منانے کی مخالفت بھی ہوتی رہی چونکہ یہ تہوار کیتھولک تہوار مانا جاتا ہے اس لیے پروٹیسٹنٹ تحریک کے بعد کرسمس منانے کی شدید مخالفت ہوتی رہی خصوصاً امریکہ، انگلینڈ اور یورپ کے دیگر ممالک میں کرسمس منانے کو قانونی طور پر منع قرار دے دیا گیا اور ۱۶۴۲ءسے۱۶۸۰ء تک بعض ممالک میں جرم قرار دے دیا گیا تھا۔
۲۵؍دسمبر کے دن کرسمس منانے کی وجہ
۲۵؍دسمبر کے دن Winter Solsticeکا دن منانا بت پرست اقوام کا پرانا دستور تھا۔ Solistice کے معنی ہیں سورج (Sol) اور ٹھہرنا Solice یعنی اس روز سورج ٹھہر جاتا ہے۔ یعنی دن بڑے ہونے کا آغاز اس دن سے ہوتا ہے اور سمجھا جاتا ہے کہ یہ سورج کی پیدائش کا دن ہے اس لیے اس دن رومن (Roman) سورج دیوتا کا یوم پیدائش مناتے تھے۔چونکہ چوتھی صدی میں کثرت سے رومن لوگوں نے مسیحیت اختیار کر لی تھی مگر وہ اپنی پرانی روایات اور تہوار چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھے اس لیے چوتھی صدی میں کیتھولک چرچ نے باقاعدہ اس تاریخ کو یسوع مسیح کا یومِ پیدائش منانے کا علان کردیا۔