حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی ہیں جنہوں نے ہر لحاظ سے اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کیا ہے
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ۲۰؍ اکتوبر۲۰۱۷ء)
آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی ہیں جنہوں نے ہر لحاظ سے اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کیا ہے اور آپؐ کی شان کو بلند فرمایا ہے اور یہی آپ کی بعثت کا مقصد تھا جس پر علماء کو ہر وقت اعتراض رہتا ہے۔
اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ زندہ نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، آپؑ فرماتے ہیں:’’غور کر کے دیکھو کہ جب یہ لوگ خلافِ قرآن و سنّت کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ زندہ آسمان پر بیٹھے ہیں تو پادریوں کو نکتہ چینی کا موقع ملتا ہے اور وہ جھٹ پٹ کہہ اٹھتے ہیں کہ تمہارا پیغمبر مر گیا اور معاذ اللہ وہ زمینی ہے‘‘۔ (اور یہی کچھ ٹی وی چینلوں پر ہوتا رہا ہے جس پر عرب دنیا میں بڑی بے چینی پیدا ہوتی رہی ہے۔ آخر کار جب ہماری دلیلیں سنیں، ’’حِوار‘‘کے پروگرام سنے، ایم ٹی اے پر عربی پروگرام سنے، تب بہت سارے لوگوں نے اس کو پسند کیا اور ان دلائل کے قائل ہوئے۔ لیکن علماء پھر بھی قائل نہیں ہو رہے۔) آپ فرماتے ہیں کہ ’’حضرت عیسیٰ زندہ اور آسمانی ہے اور اس کے ساتھ ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کر کے کہتے ہیں کہ وہ مردہ ہے‘‘۔ ان کی یہ باتیں ہیں کہ وہ جھٹ کہتے ہیں کہ تمہارا پیغمبر مر گیا معاذ اللہ وہ زمینی ہے۔ عیسائی پادری یہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ زندہ ہیں اور آسمانی ہیں اور اس کے ساتھ ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کر کے عیسائی یہ کہتے ہیں کہ وہ مردہ ہے۔ یہی ان کا پراپیگنڈہ ہوتا رہا ہے۔(آپ فرماتے ہیں کہ ’’سوچ کر بتاؤ کہ وہ پیغمبر جو افضل الرسل اور خاتم الانبیاء ہے ایسا اعتقاد کر کے اس کی فضیلت اور خاتمیّت کو یہ لوگ بٹّہ نہیں لگاتے؟ ضرور لگاتے ہیں اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کا ارتکاب کرتے ہیں۔‘‘آپ فرماتے ہیں کہ ’’مَیں یقین رکھتا ہوں کہ پادریوں سے جس قدر توہین ان لوگوں نے اسلام کی کرائی ہے‘‘(یعنی ان مسلمانوں نے جویہ نظریہ رکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ زندہ ہیں ) ’’اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مردہ کہلایا ہے۔ اسی کی سزامیں یہ نکبت اور بدبختی ان کے شامل حال ہو رہی ہے‘‘۔ (مسلمانوں کا جو حال ہے یہ اسی وجہ سے ہے۔) آپ فرماتے ہیں کہ ’’ایک طرف تو منہ سے کہتے ہیں کہ وہ افضل الانبیاء ہیں۔‘‘(یعنی) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سب انبیاء سے افضل ہیں ’’اور دوسری طرف اقرار کرلیتے ہیں کہ63 سال کے بعد مر گئے اور مسیح اب تک زندہ ہے اور نہیں مرا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتا ہے وَکَانَ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکَ عَظِیْمًا‘‘(کہ اللہ تعالیٰ کا تجھ پر بہت بڑا فضل ہے۔) ’’پھر کیا یہ ارشاد الٰہی غلط ہے؟‘‘۔ فرماتے ہیں ’’نہیں۔ یہ بالکل درست اور صحیح ہے۔ وہ جھوٹے ہیں جو کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مُردہ ہیں۔ اس سے بڑھ کر کوئی کلمہ توہین کا نہیں ہو سکتا۔ حقیقت یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں ایسی فضیلت ہے جو کسی نبی میں نہیں ہے۔ مَیں اس کو عزیز رکھتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات کو جو شخص بیان نہیں کرتا وہ میرے نزدیک کافر ہے‘‘۔ آپ فرماتے ہیں ’’کس قدر افسوس کی بات ہے کہ جس نبی کی اُمّت کہلاتے ہیں اسی کو معاذ اللہ مُردہ کہتے ہیں اور اس نبی کو جس کی اُمّت کا خاتمہ ضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْکَنَۃ پر ہوا ہے۔‘‘(یعنی ان پر ذلت اور مسکینی کی مار ڈالی گئی تھی) ’’اسے زندہ کہا جاتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 5صفحہ 28-29۔ ایڈیشن 1984ء)
اس بات کو بیان کرنے کے بعد کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جو نبی آچکے، وہ اب کوئی بھی نہیں آ سکتا۔ اب نہ عیسیٰ علیہ السلام آ سکتے ہیں۔ وہ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کے نبی تھے اور وہ فوت ہوگئے۔ حضرت موسیٰ کی اُمّت کا اب کوئی نبی نہیں آ سکتا۔ پھر آپ بیان فرماتے ہیں کہ یہ فیض اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے اور آپ کی پیروی سے ہی جاری ہو سکتا ہے اور ہوا ہے کیونکہ آپ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی زندہ نبی ہیں۔ چنانچہ اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو مسیح موعود اور مہدی معہود بنا کر بھیجا ہے جس کا درجہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع نبی کا اور غیر شرعی نبی کا ہے۔ چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں کہ’’مَیں نے محض خدا کے فضل سے، نہ اپنے کسی ہنر سے، اس نعمت سے کامل حصہ پایا ہے جو مجھ سے پہلے نبیوں اور رسولوں اور خدا کے برگزیدوں کو دی گئی تھی۔ اور میرے لئے اس نعمت کا پانا ممکن نہ تھا اگر مَیں اپنے سیدو مولیٰ فخر الانبیاء اور خیر الوریٰ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے راہوں کی پیروی نہ کرتا۔ سو مَیں نے جو کچھ پایا اس پیروی سے پایا اور مَیں اپنے سچے اور کامل علم سے جانتا ہوں کہ کوئی انسان بجز پیروی اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا تک نہیں پہنچ سکتا اور نہ معرفتِ کاملہ کا حصہ پا سکتا ہے۔ اور مَیں اس جگہ یہ بھی بتلاتا ہوں کہ وہ کیا چیز ہے کہ سچی اور کامل پیروی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب باتوں سے پہلے دل میں پیدا ہوتی ہے۔ سو یاد رہے کہ وہ قلبِ سلیم ہے۔ یعنی دل سے دنیا کی محبت نکل جاتی ہے اور دل ایک ابدی اور لازوال لذّت کا طالب ہو جاتا ہے۔ پھر بعد اس کے ایک مصفّیٰ اور کامل محبت الٰہی بباعث اس قلبِ سلیم کے حاصل ہوتی ہے‘‘۔ (جب دنیا کی محبت نکالی جاتی ہے تو پھر محبت الٰہی حاصل ہوتی ہے۔) ’’اور یہ سب نعمتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے بطور وراثت ملتی ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہےقُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ۔ یعنی ان کو کہہ دے کہ اگر تم خدا سے محبت کرتے ہو تو آؤ میری پیروی کرو تا خدا بھی تم سے محبت کرے۔ بلکہ یکطرفہ محبت کا دعویٰ بالکل ایک جھوٹ اور لاف و گزاف ہے۔ جب انسان سچے طور پر خدا تعالیٰ سے محبت کرتا ہے تو خدا بھی اس سے محبت کرتا ہے۔ تب زمین پر اس کے لئے ایک قبولیت پھیلائی جاتی ہے اور ہزاروں انسانوں کے دلوں میں ایک سچی محبت اس کی ڈال دی جاتی ہے اور ایک قوتِ جذب اس کو عنایت ہوتی ہے اور ایک نور اس کو دیا جاتا ہے جو ہمیشہ اس کے ساتھ ہوتا ہے…‘‘۔ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 64-65)