بیت لحم (Bethlehem) اور کھجور
عبرانی میں بیت لحم کا مطلب ہے ’’روٹی کا گھر‘‘۔ فلسطین کی یہ بستی حضرت مسیحؑ کی جائے پیدائش کے طورپرسمجھی جاتی ہے۔ یہ شہر فصیل کے اندر سفید پتھروں سے تعمیر کیا گیا ہے اور یروشلم کے قدیم شہر سے تقریباً ۹؍کلومیٹر جنوب میں واقع ہے۔ اس جگہ حضرت یسوع مسیح کی روایتی جائے پیدائش کے اوپر ایک گرجا بنا ہوا ہے۔ اس کو کنیستہ المہد یا Church of Nativityکہا جاتا ہے۔ جس کے نیچے ایک تہ خانہ ہے۔ اسی جگہ کو عالم عیسائیت میں جائے پیدائش کے اعتبار سے مقدس ترین مقام سمجھا جاتا ہے۔ یہ بستی سلطنت اردن میں شامل تھی۔ جون ۱۹۶۷ء کی جنگ میں اس پراسرائیل نے قبضہ کر لیا۔ بستی کے رہنے والے عام طور پر مسیحی ہیں اور مسلمانوں کی تعداد بھی کم نہیں۔ یہ شہر اس وقت ویسٹ بینک فلسطین کے اندر واقع ہے۔بیت لحم یروشلم کے قریب ہی واقع ہے مگر ان دونوں شہروں کے درمیان تقسیم کی جانے والی رکاوٹیں کھڑی کی گئی ہیں۔حضرت عیسیٰ کی جائے پیدائش پر پہلا چرچ چوتھی صدی عیسوی میں تعمیر کیا گیا تھا تاہم چھٹی صدی عیسوی میں آگ لگنے کے باعث اسے نقصان پہنچا اور اس کے بعد چرچ کی از سر نو تعمیر کی گئی۔
بیت لحم کا کل رقبہ ۶۵۹؍ مربع کلو میٹر اور آبادی دو لاکھ دس ہزار ۴۸۴؍ نفوس بتائی گئی ہے۔ شہر میں ۴۹.۲؍ مربع کلومیٹر علاقے پر ۷۲؍ یہودی کالونیاں اور دیگر اسرائیلی مراکز قائم ہیں۔ ان میں ۳۴؍ مراکز کے لیے ۱۳.۳؍ مربع کلو میٹر جگہ مختص ہے۔ اہم اسرائیلی مقامات میں ۱۵؍ بڑی یہودی کالونیاں، تین فوجی کیمپ، ۱۵؍ چھوٹی کالونیاں اور ایک سیاحتی مرکز قائم ہے۔
سلطنت روم کے آثار میں ایک مشہور قلعہ ہےجو بیت لحم سے چھ کلومیٹر جنوب میں ایک پہاڑی پر بنایا گیا تھا۔ یہ قلعہ ایک بہت بڑے محل کی باقیات پر مشتمل ہے جسے بادشاہ ہیروڈ نے ۳۷؍قبل مسیح میں اپنی بیوی کے لیے بنوایا تھا اور اس محل میں عالیشان عمارتیں، گول دیواریں، قلعہ بند کمرے، غسل خانے اور باغات تھے۔
سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ سورہ مریم کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں:’’اس مقام پر ایک بہت بڑی مشکل پیش آجاتی ہے جس کو حل کرنا ہمارے لیے نہایت ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ عیسائی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ حضرت مسیح ؑکی پیدائش۲۵؍دسمبرکو ہوئی اور لوقا کہتا ہے کہ قیصر اگسِطس نے اُس وقت مردم شماری کا حکم دیا تھا جس کے لیےیوسف اور مریم ناصرہ سے بیت لحم گئے اور وہیں حضرت مسیح ؑکی پیدائش ہو ئی۔ بیت لحم ایک پہاڑکی چوٹی پر واقع ہے جو سمندر سے۲۳۵۰ فٹ اونچی ہے۔اس کے اردگردسبزوادیاں ہیں اور اس پہاڑی علاقے کے اندر دو سے تین چشمے ہیں جن کو چشمہ سلیمان کہتے ہیں۔ گویا ۲۵؍دسمبر کو اُس زمانہ میں جب قیصر اگسطس کے حکم کے ماتحت یہودکی پہلی مردم شماری ہوئی مسیحؑ بیت لحم میں پیدا ہوئے۔ لیکن قرآن بتاتا ہے کہ مسیح اس موسم میں پیدا ہوئے جس میں کھجور پھل دیتی ہے اور کھجور کے زیادہ پھل دینے کا زمانہ دسمبر نہیں ہوتا بلکہ جولائی اگست ہوتا ہے۔ اور پھر جب ہم یہ دیکھیں کہ خدا تعالیٰ نے انہیں ایک چشمے کا بھی پتہ بتایا جہاں وہ اپنے بچے کو نہلا سکتی تھیں اور اپنی بھی صفائی کر سکتی تھیں تو اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ جولائی اگست کا مہینہ تھا ورنہ سخت سردی کے موسم میں چشمہ کے پا نی سے نہانا اور بچے کو بھی غسل دینا خصوصاََ ایک پہاڑ پر اور عرب کے شمال میں عقل کے بالکل خلاف تھا۔ قرآن تو حضرت مریم سے کہتا ہے کہ کھجور کے تنا کو ہلا تجھ پر تازہ کھجوریں گریں گی۔ حالانکہ کھجور اُس وقت بہت کم ہوتی ہے۔کھجور زیادہ تر جولائی اگست میں ہو تی ہے۔
ایک بات یہ بھی سامنے آتی ہے کہ یہ واقعہ یہود یہ میں ہوا ہے۔قرآن اس موقعہ پر کھجور کا ذکر کرتا ہے اور بائبل کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں زیتون بادام اور انگور ہوتا تھا کھجور کا ذکر نہیں آتا اور پھر عجیب بات یہ ہے کہ دسمبر میں بادام بھی نہیں ہوتا۔ انگور بھی نہیں ہوتا اور زیتون بھی نہیں ہوتا گویا قرآن صرف کھجور کا ذکر کرتا ہے مگر دسمبر میں کھجور بہت کم ہوتی ہے اور تاریخ بائبل یہودیہ میں زیتون، بادام اور انگور کا تو ذکر کرتی ہے لیکن کھجور کا ذکر نہیں کرتی۔ اور پھر یہ تینوں چیزیں بھی دسمبر میں نہیں ہوتیں۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیااس علاقہ میں جس میں انجیل حضرت مسیح ؑکی پیدائش بتاتی ہے کھجور ہوتی تھی یا نہیں۔ اِس کے متعلق جب ہم بائبل کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ خود بائبل اس بات پر گواہ ہے کہ اُس علاقہ میں کھجور ہواکرتی تھی۔ چنانچہ لکھا ہے ’’ تب موسٰی کے سُسر قینی کی اولاد کھجوروں کے شہر سے بنی یہوداہ کے ساتھ یہوداہ کے بیابان کو جو عراد کے دکھن کی طرف ہے چڑھیں‘‘ (قاضیوں باب ۱آیت ۱۶)عراد جس کے حوالے میں ذکر آتا ہے بیت لحم سے کوئی سو میل کے فاصلہ پرہے اور چونکہ اس سے شمال کی طرف کھجوروں کا شہر تھا۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بیت لحم کے قریب قریب یقیناً کھجوریں پائی جاتی تھیں۔ پھر یہودیہ کا علاقہ جس میں بیت لحم ہے چونکہ عرب سے ملتا ہے اس لئے بھی اُس میں کھجوروں کا پایا جانا بالکل قرین قیاس ہے۔(تفسیر کبیر جلد پنجم صفحہ ۱۸۰،۱۷۹)
نئے عہد نامہ میں موجود چاروں اناجیل میں لوقا کی واحد انجیل ہے جس نے مسیحؑ کی ولادت کے موسم کی بابت لکھا ہے اور اس کا بیان قرآن مجید کے بیان کے بھی مطابق ہے۔ ( تفسیر کبیر جلد پنجم سورہ مریم صفحہ ۱۸۴)
قرآن پاک میں ہے کہ حضرت مریمؑ، آپؑ کی ولادت کے وقت کھجور کے درخت کے نیچے گئیں۔ اس وقت کھجور کے درخت پر پھل موجود تھا۔ کھجور پر پھل کا موسم جون، جولائی میں ہوتا ہے۔ ایک عیسائی مفسراے جے گریو ایم اے ڈی (A.J GRAW.M.A.D) تفسیر ’’پیکن’’میں انجیل لوقا کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ‘‘ موسم، ماہ دسمبر کا نہیں ہو سکتا۔ ہمارا کرسمس ڈے مقابلتاً بعد کی ایک روایت ہے، جو کہ پہلے پہل مغرب میں پائی گئی‘‘۔ (تفسیر کبیر جلد پنجم سورہ مریم صفحہ۱۸۴)