اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان
۲۰۲۳ءمیں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب
وزیر مذہبی امور کا بیان
۲۷؍ مئی ۲۰۲۳ء:جمعیت علماء اسلام کے سینیٹر محمد طلحہ محمود نے صحافیوں کو بلا کر ایک ویڈیو پیغام دیا اور اس پیغام کو پھر اپنے ٹوئٹر پر بھی نشر کیا۔اس ٹوئٹ کا عنوان اس طرح سے ہے کہ سوشل میڈیا پر قادیانی مصنوعات کی تشہیر کا معاملہ۔وفاقی وزیر مذہبی امور سینیٹر محمد طلحہ محمود کا سخت رد عمل۔بروشرز ختم کرنے کا حکم۔دو روز میں رپورٹ طلب۔
دو منٹ تیرہ سیکنڈ کی اس ویڈیو میں وزیر مذہبی امور نے گفتگو کم کی ہے اور غصہ زیادہ نکالا ہے۔جس معاملے پر وہ بول رہا ہے وہ شیزان نامی اشیائے خورو نوش بنانے والی ایک کمپنی ہے جس کے اکثریتی حصص احمدی مالکان کے پاس ہیں۔کچھ عرصہ قبل حج پر جانے والے عازمین کو کچھ اشتہار دیے گئے تھے اور ان میں اس کمپنی کی مصنوعات کا بھی ذکر تھا۔ وزیر نے کہا کہ اس سے اس کو بہت دکھ پہنچا ہے۔ اس نے متعلقہ اداروں سے دو روز کے اندر رپورٹ طلب کرلی ہے اور کہا کہ اس سے حاجیوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے۔
واضح ہے کہ اس وزیر نے اپنی ذاتی تشہیر کے لیے ایک غیرمتعلقہ موضوع کو متعلقہ بنانے کےلیے یہ بیان دیا ہے۔ سب حاجی غیر مسلموں کے بنائے ہوئے جہاز میں سفر کر کے حج کےلیے جارہے تھے۔ کسی نے اس سے چھلانگ لگانے کی کوشش نہیں کی کہ یہ تو غیر مسلموں نے بنایا ہے۔ اس کےعلاوہ ستّر اور اسّی کی دہائی میں احمدی بھی حج کے لیے جاتے تھے اور پاکستان کے علاوہ دوسرے ملکوں سے ابھی تک احمدی حج پر جا رہے ہیں۔
یہ وزیر چند فتنہ پرور مذہبی انتہا پسندوں کے بہکانے پر کچھ دور ہی نکل گئے۔ ایک ایسا ملک جو مئی ۲۰۲۳ء سے سنگین معاشی اور سیاسی بحران کا شکار ہے، کے ایک وزیر کے پاس ایسی معمولی شکایتوں کو حل کرنے کے لیے وقت ہونا یقیناً اچنبھے کی بات ہے۔
مسجد پر حملے کی سنگین دھمکی
چک چٹھہ ،حافظ آباد۔مئی ۲۰۲۳ء:احمدیوں کے خلاف منظّم مخالفت یہاں لمبے عرصے سے چلی آرہی ہے۔تحریک لبیک کے ضلعی صدر نے ایس ایچ او کو درخواست دی کہ احمدیوں نے اپنی عبادتگاہ(مسجد) پر مینارے تعمیر کیے ہیں اور اس کی وجہ سے دھوکا کھا کر کئی مسلمان اس میں داخل ہو ئے ہیں۔ لہٰذا اس کےخلاف کارروائی کی جائے۔
اس پر وہاں کے مقامی صدر جماعت کو تھانے میں بلا کر کہا گیا کہ ان میناروں کو مسمار کر دیں۔ اس پر موصوف نے بتایا کہ یہ مینارے امتناع قادیانیت آرڈینینس قانون سے بہت پہلے سے تعمیر شدہ ہیں۔
بین الاقوامی مذہبی آزادی کے متعلق امریکی کمیشن کی سال ۲۰۲۲ء کی سالانہ رپورٹ
۲۲؍ مئی ۲۰۲۳ء:روزنامہ ڈان کے ۲۲؍ مئی ۲۰۲۳ء کے اداریے میں پاکستان کی ایک رپورٹ پر تبصرہ کیا گیا ہے۔اور یہ تبصرہ ریکارڈ میں لانے کےقابل ہے۔لہٰذا ہم اس کو احباب کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔جو یوں ہے۔
اقلیتوں کے متعلق رپورٹ:حالیہ دو امریکی رپورٹیں کچھ ایسا منظر نامہ پیش کر رہی ہیں جس سے پتا چلتا ہے کہ پاکستان میں مذہبی آزادی کی حالت تشویش ناک ہے۔
بین الاقوامی مذہبی آزادی کے متعلق امریکی کمیشن کی سال ۲۰۲۲ء کی سالانہ رپورٹ میں مذہب کی بنیاد پر ہونے والے ظلم و ستم کی ایک لمبی فہرست شامل ہے۔اس میں بتایا گیا ہے کہ سال ۲۰۲۲ء میں باون لوگوں پر توہین کے مقدمات درج کیے گئے ہیںجن میں سے اکثریت احمدیوں کی تھی۔اس میں جبری تبدیلی مذہب اور ٹارگٹڈ کلنگ (ہدف بنا کر قتل کرنا) شامل ہے۔
اس میں چند ایک مثبت چیزیں بھی شامل ہیں۔تاہم سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور یو ایس سی آر ایف کی ایک رپورٹ میں پاکستان کو انتہائی تشویش ناک ممالک کی فہرست میں شامل کرنے اور پاکستان پر کچھ پابندیاں عائد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
پاکستان کی وزارت خارجہ نے اس رپورٹ کو کم علمی پر مبنی،غیر ذمہ دارانہ اور غیر سود مند قرار دیا ہے۔اور ساتھ یہ کھوکھلا دعویٰ بھی پیش کیا ہے کہ پاکستان کا آئین مذہبی آزادی کے لیے انتہائی مضبوط ڈھانچہ فراہم کرتا ہے۔
ممکن ہےکہ کوئی کہہ دے کہ امریکہ ایسی رپورٹوں کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ ہمیں اس بات سے تو اختلاف ہو سکتاہے لیکن اس بات سے کوئی اختلاف نہیں کہ جو کچھ ان رپورٹوں میں ہے وہ سب سچ ہے۔
اگر ایسی رپورٹس مرتب نہ بھی کی جائیں تو بھی پاکستان میں مذہبی آزادی کی صورتحال خوشکن ہونے کا دور دور تک وہم بھی نہیں کیا جا سکتا۔لوگوں کو توہین کے الزام لگا کر تشدد کر کے قتل کرنا،جھوٹے مقدمات بنانااور مخصوص مذہبی اقلیتوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانا آج کے پاکستان کی کڑوی سچائیاں ہیں۔ایسا اس لیے ہے کہ جہاں پاکستان بنانے والوں نے یہ سوچا تھا کہ یہ ایک ایسا ملک ہو گا جہاں سب مذہب و ملت کی تفریق کے بغیر اپنے اپنے عقائد کے مطابق زندگی بسر کریں گے وہاں آج یہ ملک پاگل پن کے شکار مذہبی شدت پسندوں کے ہاتھوں یرغمال ہو چکا ہے۔ اور آج جہاں ہم پہنچ چکے ہیں اس کے پیچھے بڑا ہاتھ ہماری اسٹیبلشمنٹ کا ہے۔اس حقیقت کا انکار کرنےکی بجائے ریاست کو چاہیے کہ مذہبی دہشتگردی کےاس ناسور کی صف لپیٹے۔ایسا صرف بیرونی طاقتوں کو خوش کرنے کےلیے نہیں بلکہ پاکستان کو ایک رہنے کےقابل جگہ بنانےکےلیے کیا جانا چاہیے۔(ڈیلی ڈان۔ ۲۲؍مئی ۲۰۲۳ء)
پرویز الٰہی کی مکافات عمل
لاہور: یکم جون ۲۰۲۳ء: ۲؍ جون ۲۰۲۳ء کو روزنامہ ڈان نے یہ خبر دی کہ ’’ایک ہفتے کے محاصرے کے بعد پرویز الٰہی کو گرفتار کر لیا گیا‘‘۔جب وہ اپنی گلبرگ کی رہائش سے فرار ہو رہے تھے تب ان کو انسداد بدعنوانی اینٹی کرپشن پولیس نے گرفتار کر لیا۔نگران وزیر داخلہ عامر میر نے کہا کہ پرویز الٰہی نے گرفتاری کے وقت مزاحمت کی۔لیکن گاڑی کا شیشہ توڑ کر ان کو گرفتار کرلیا گیا۔ انہیں گجرات میں ترقیاتی منصوبوں میں کمیشن کھانے کےالزام میں گرفتار کیا گیاہے۔پرویز الٰہی ۲۰۱۸ء میں پنجاب اسمبلی کے سپیکر بنے اور پھر ۲۰۲۲ء میں انہیں تحریک انصاف نے وزیر اعلیٰ بنایا۔ یہ اپنی سیاست چمکانے کےلیے احمدیت مخالف انتہائی رویے کامظاہرہ کرتے رہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ ان کی گرفتاری تحریک انصاف چھوڑنے کےلیے نہیں ہے بلکہ ان کی بدعنوانیوں کے باعث کی گئی ہے۔ موصوف نے کمیشن کی صورت میں اربوں روپے ہڑپ کیے ہیں اور بہت بڑی زرعی زمین کو ہاؤسنگ سوسائٹی کے چکر میں برباد کر دیا ہے۔ چودھری پرویز الٰہی کا بیٹا مونس الٰہی ڈالرز لے کر ملک سے فرار ہو گیا۔
احمدی ان عارضی چیزوں کو واجبی سی اہمیت دیتے ہیں لیکن ساتھ روحانی اور آسمانی نظام پر بھی یقین کامل رکھتے ہیں۔جو کچھ پرویز الٰہی احمدیوں کے ساتھ کرتے رہے احمدیوں کو یقین تھا کہ یہ اپنا مکافات عمل پا لیں گے۔ختم نبوت کے مقدس عقیدے کی سیاسی آڑ میں انہیں عارضی عروج تو ملا لیکن جو انہوں نے بویا اب کاٹنا پڑ رہا ہے۔ ہم کسی بھی تفصیل میں جانے کی بجائے میڈیا میں موجو ان کے بیانات کا ذکر کریں گے جن سے واضح ہو گا کہ وہ کس طرح اسلام کی خدمت کا سہر اپنے سر پر سجاتے ہیں۔
اس سے قبل کہ ہم ان کی ناجائز احمدیت مخالفت کا ذکر کریں۔یہ بھی ضروری ہے کہ ان کے اپنی سیاست کو چمکانے کےلیے اسلام کا نام استعمال کرنے کا بھی کچھ تذکرہ کیا جائے۔
٭…جب وہ سپیکر پنجاب اسمبلی تھے تو انہوں نے متفقہ طور پر قرارداد پاس کروائی کہ وفاقی حکومت پر توہین کے قوانین میں سختی کا مطالبہ کروایا جائے اور سعودی عرب کی طرز پر چھان بین کا ایسا نظام وضع کیا جانا چاہیے جو کہ سوشل میڈیا پر توہین آمیز موادکی تشریح کرے۔اس پر انسانی حقوق کے ایک سرگرم رکن یاسر ہمدانی نے ٹوئٹ کیا کہ پاکستان میں مذہب ایک انفرادی معاملے کی بجائے ریاست کا کاروبار بن چکا ہے۔ بے شک صرف ایک کاروبار بن چکا ہے۔
٭…۲؍جولائی ۲۰۲۰ء کو اسلام آباد میں ایک مندر کی تعمیر کے وقت موصوف نے کہا کہ یہ اسلام کی روح کے منافی ہے۔
٭…۲۰۲۰ء میں اس نے پنجاب اسمبلی میں تحفظ بنیاد اسلام نامی بل منظورکروایا۔اور اس کو بڑی کامیابی قرار دیا اور کہاکہ یہ اسلام کی حفاظت اور سربلندی کا کام کرے گا۔
٭…اس بل پر گورنر کے دستخط ہونا باقی تھے۔ جزوی طور پر دیکھنے سے ہی لگ رہا تھا کہ یہ بل اتنا خطرناک ہے کہ اگر اس کو لاگو کر دیا جاتا تو یہ بل مذہبی انتہاپسندی اور ظلم و جبر کی ایک نئی لہر کو جنم دے دیتا۔ وفاقی حکومت نےاس بل کا نوٹس لیا اور پھر اس بل کو منظر عام سے غائب کر دیا گیا۔
٭…نومبر ۲۰۲۱ء میں اس نے مولویوں کی ناجائز تعریف کے پل باندھتےہوئے بیان دیا کہ ان کی مذہبی رواداری قابل تحسین ہے۔ اور یہ وہی سال ہے جس کے اپریل اور اکتوبر میں تحریک لبیک کے شدت پسند ملاوٴں نے حکومت کے خلاف خونی مظاہرے کیے تھے۔
٭…ارزاں ملانوں نے بھی پرویز الٰہی کی پیٹھ ٹھونکی اور ۷؍ستمبر کو ایک مولوی نے بیان دیا کہ’’ وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی سخت محنت اور ہماری بڑی حمایت کر رہے ہیں۔ قادیانیو! تم کچھ نہیں ہو ہم نے تمہارے بڑوں کو بھی جوتے کی نوک پر رکھا تھا‘‘۔
یہ سب تو تھے ان کے اسلام کی خدمت کے دعاوی۔ اب ان کی احمدیت مخالفت پر روشنی ڈالتے ہیں۔
٭…مئی ۲۰۲۰ء میں پنجاب اسمبلی نے ان کی زیر صدارت ایک قرارداد منظور کی۔ اس میں کہا گیا کہ’’ پنجاب اسمبلی وفاقی کابینہ کےاس اقدام کو سراہتی ہے کہ قادیانیوں کو اقلیتی کمیشن میں شامل نہیں کیا گیا۔جو لوگ(یعنی احمدی) سازشوں میں شریک ہیں ان کو کڑی سے کڑی سزائیں دی جائیں۔ختم نبوت ہمارے لیے آخری حد ہے‘‘۔
٭…۲۰۲۰ء میں ہی انہوں نے اپنے سیاسی فائدے کےلیے مذہب کو استعمال کرتے ہوئے الیکشن میں کامیابی حاصل کی اور ایک ویڈیو پیغام میں ۷؍ستمبرکو ختم نبوت کا دن قرار دیا اور امتناع قادیانیت آرڈیننس اور آئین کی دوسری ترمیم کی تعریف کی۔
٭…اکتوبر ۲۰۲۱ء میں پنجاب اسمبلی میں نکاح نامے کے ساتھ دلہن اور دولہے کی طرف سے ختم نبوت کا حلف نامہ شامل کرنا لازمی قرار دلوایا۔ جس میں یہ اقرار کرنا بھی لازمی ہے کہ وہ جماعت احمدیہ کےبانی کو جھوٹا مانتے ہیں۔نعوذباللہ
٭…جون ۲۰۲۱ء میں پنجاب اسمبلی کے نئے ہال کی دیوار پر کچھ آیات لکھی گئیں تو موصوف نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ایسی کوئی آیت نہ ہو جو احمدیوں کے پیش کردہ ختم نبوت کے مفہوم کی حمایت کرتی ہو۔
٭…ملک الیاس اعوان، نائب صدر مسلم لیگ ق نے ڈپٹی کمشنر خوشاب کو درخواست دی کہ ضلع سے تمام احمدیوں کونکالا جائے۔
٭…وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی نے ترکی کی نیلی مسجد کی طرز پر ایک مسجد بنانے کا ارادہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اس کے باہر جلی حروف میں لکھا ہو گاکہ ’اس میں قادیانیوں کا داخلہ منع ہے‘۔’’ہماری کسی ایسے شخص سے دوستی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی لین دین جو نبوت کے اختتام پر یقین نہیں رکھتا‘‘۔ موصوف نے مزید کہا کہ اگر وہ (احمدی ) رہنا چاہتے ہیں تو اقلیت کے طور پر رہیں اور اگر جانا چاہتے ہیں تو ان کو چلے جانا چاہیے۔
٭…موصوف کےدور حکومت میں اٹھائیس احمدی مساجد کو مسمار کیا گیا،نقصان پہنچایا گیا یا سیل کر دیا گیا۔ تین سو چوہتر احمدیوں کی قبروں کے کتبے مسمار کر دیے گئے اور یہ زیادہ تر انتظامیہ نے کیے۔
٭…احمدیوں کو مخاطب کرتے ہوئے وہ ویڈیو میں یہ کہتے پائے گئے کہ’’ہم ان کے مقابل پر ڈٹے ہوئے ہیں اورمیں نے بطور سپیکر پنجاب اسمبلی اور پھر بطور وزیراعلیٰ پنجاب ان کو اس جگہ پہنچایا ہے جو ان کی اصل جگہ ہے‘‘۔
لوگ دیکھ رہے ہیں اور پرویز الٰہی کے مذہبی ہتھکنڈوں کا مشاہدہ بھی کر رہے ہیں۔فرائیڈے ٹائمز نے ایک اداریہ لکھا جس کا عنوان تھا’’مذہبی سیاسی پیچیدگی‘‘۔۲۴؍ جولائی ۲۰۲۰ء کو پاکستان کے انسانی حقوق کے کمیشن نے پنجاب اسمبلی کو فرقہ واریت کو ہوا دینے پر خبردار کیا تھا۔پرویز الٰہی اور اس کے ہم نوا جو اسلام کا ڈھول پیٹ رہے ہیں ان کواس سرزمین ،یہاں کے لوگوں،اسلام اور خود پر کچھ رحم کرنا چاہیے اورتعصّب، نفرت انگیزی ،عدم برداشت اوراسلام کے نام پر تفریق سے گریز کرنا چاہیے۔
۲۰۱۸ء میں ان کو بحریہ ٹاؤن مقدمہ میں سپریم کورٹ نے بلایا تھا اور اب ایف آئی اے نےفروری ۲۰۲۳ء میں آڈیو لیک معاملے میں ان کے خلاف کارروائی کی ہے۔ڈان کی ایک رپورٹ کے مطابق موصوف کے سابق پرنسپل سیکرٹری کے خلاف بھی بد عنوانی کا ایک مقدمہ درج کیا گیا ہے۔آجکل مقدمات،سماعتوں اور گرفتاریوں کا سامنا ہے۔
ایسا لگ رہا ہے کہ پرویز الٰہی کو مکافات عمل نے آخر کار اپنی لپیٹ میں لےہی لیا ہے۔
(مرتبہ: مہر محمد داؤد )