مستقل طور پر تو سرزمین فلسطین عِبَادِیَ الصّٰلِحُوۡنَ کے ہاتھوں میں رہنی ہے (قسط اوّل)
امیر المومنین سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ ۱۹؍ نومبر۲۰۲۳ء کو واقفاتِ نَو بیلجیم سے منعقدہ آن لائن ملاقات کے دوران ایک واقفۂ نَو کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ یہ ظلم جو فلسطینیوں پر ہو رہا ہے، یہ ظلم ان کو لے بیٹھے گا، یہ تو مَیں ان کو مختلف ذریعہ سے کئی دفعہ پیغام بھیج چکا ہوں۔ زبور میں بھی یہ بات لکھی ہے اور زبور کی باتیں ہی ہیں جو سورة الانبیاء میں بیان کی گئی ہیں اور اس کی تفسیر اگر تمہیں اردو پڑھنی آتی ہے تو تفسیر کبیر میں پڑھ لو۔ سورة الانبیاء میں بھی اور سورۂ بنی اسرائیل کے پہلے رکوع میں دو آیتیں ہیں۔ اس میں تفصیل سے تمہیں پتا لگ جائے گا اور اس میں بائبل کے حوالے بھی تمہیں مل جائیں گے کہ بائبل نے یہودیوں کو کیا کہا تھا۔
جواب کے آخر میں حضور ایّدہ الله تعالیٰ نے فرمایا کہ کیونکہ اس وقت تو وقت نہیں، وہ لمبا بیان ہے، اور دونوں حصے پڑھ لینا سورہٴ بنی اسرائیل کے پہلے رکوع میں دو آیات اور سورة الانبیاء کی ایک آیت۔اور اتفاق سے ان دونوں سورتوں کی، ان آیات کی تفسیر حضرت مصلح موعود رضی الله تعالیٰ عنہ نے بڑی اچھی کی ہوئی ہے۔ بلکہ لجنہ کو چاہیے کہ اس کی آیتیں نکال کے بلکہ جماعتی طور پر بھی ان دونوں سورۂ بنی اسرائیل کی دو آیات اور سورۂ انبیاء کی ایک آیت کی تفسیر نکال کے لوگوں میں تقسیم کریں، آجکل کے حالات کے مطابق یہ بڑیcontemporaryہے۔
حضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ نےفلسطین کی سر زمین کے متعلق حالات حاضرہ کے تناظر میں اٹھنے والے سوالات پر جماعتوں کو مذکورہ آیات کی تفسیر بھجوائی ہے۔حضور کے ارشاد کی روشنی میں ذیل میں بالترتیب سورۂ بنی اسرائیل کے پہلے رکوع کی دو آیات ۵ اور ۶ اور سورۃ الانبیاء کی ایک آیت ۱۰۶ کی تفسیر بیان فرمود حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی الله عنہ از تفسیر کبیرپیش خدمت ہے۔(ادارہ)
وَقَضَیۡنَاۤ اِلٰی بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ فِی الۡکِتٰبِ لَتُفۡسِدُنَّ فِی الۡاَرۡضِ مَرَّتَیۡنِ وَلَتَعۡلُنَّ عُلُوًّا کَبِیۡرًا(بنی اسرائیل:۵)اور ہم نے اس کتاب میں بنی اسرائیل کو یہ بات (کھول کر) پہنچا دی تھی کہ تم یقیناً اس ملک میں دوبار فساد کرو گے۔ اور یقیناًتم بہت بڑی سرکشی (اختیار) کروگے۔
’’حلّ لُغَات۔ قَضَیۡنَا قَضَی (یَقْضِیْ) سے جمع متکلم کا صیغہ ہے۔ اور قَضَی الشَّیْءَ کے معنی ہیں اَعْلَمَهٗ وَ بَیَّنَہٗ۔ کسی چیز کو خوب کھول کر بتایا (اقرب) پس قَضَیۡنَا کے معنے ہوں گے۔ اَعْلَمَنَا وَ اَخْبَرْنَا۔ہم نے یہ بات کھول کر بتا دی۔قَضَی کی مزید تشریح کے لیے دیکھو حجرآیت نمبر۶۷۔
قَضَیۡنَا قَضٰی سے جمع متکلم کا صیغہ ہے اور قَضٰی بَیْنَ الْخَصَمَیْنِ کے معنی ہیں حَکَمَ وَ فَصَلَ۔ مدعی اور مدعا علیہ کے درمیان جھگڑے کا فیصلہ کر دیا۔ قَضَی الشَّیْءَ قَضَاءً: صَنَعَہٗ بِاِحْکَامٍ وَ قَدَّرَہٗ۔ کسی چیز کو عمدہ طور پر بنایا اور اس کا صحیح اندازہ لگایا۔ قَضَی الْاَمْرَ عَلَیْہِ: خَتَمَہٗ وَ اَوْ جَبَہٗ وَ اَلْزَمَهٗ بِہٖ۔ اس کے خلاف بات کو ختم کر دیا اور اس پر اس کو واجب کر دیا اور اس کا پورا کرنا اس کا فرض قرار دیا۔ الشَّیْءَ: اَعْلَمَهٗ وَ بَیَّنَہٗ۔کسی معاملہ کا اعلان کیا اور اس کو کھول کر بیان کیا۔ قَضَی لَكَ الْاَمْرَ اَیْ حَکَمَ لَكَ۔ کسی معاملہ کا تیرے حق میں فیصلہ کر دیا۔ (اقرب)
وَلَتَعۡلُنَّ وَلَتَعۡلُنَّ عَلَا (یَعْلُوْ) سے مضارع کا صیغہ ہے۔ اور عَلَا الشَّیْءُ کے معنے ہیں اِرْتَفَعَ۔ کوئی چیز بلند ہوئی۔ عَلَا فُلَانٌ فِی الْاَرْضِ۔ تَکَبَّرَ وَ تَجَبَّرَ۔ اس نے تکبر اور سر کشی کی۔ عَلَا فُلَانًا: غَلَبَہُ وَ قَھَرَہُ۔ کسی پر غالب آیا۔ عَلَا فُلَانًا بِالسَّیْفِ: ضَرَبَہُ۔ اسے تلوار ماری۔ عَلَا الْمَکَانَ۔صَعِدَہُ۔کسی جگہ پر چڑھا۔ عَلَا فِی الْمَکَارِمِ۔ شرف خوبیوں میں ممتاز ہوا۔ (اقرب) پس وَلَتَعۡلُنَّ کے معنے ہوں گے کہ تم سرکشی کرو گے۔
تفسیر۔ مسلمانوں کے لیے یہود سے عبرت حاصل کرنے کا موقعہ
فرمایا کہ تمہارا نبی مثیل ِموسیٰ قرار دیا گیا ہے اور اس مشابہت کو پورا کرنے کے لیے اسے بیت المقدس اور اس کے گرد کا علاقہ دیا جانے والا ہے۔ پس تم کو اس امر میں احتیاط کرنی چاہیے کہ جو کچھ بنی اسرائیل سے بعد میں معاملہ ہوا وہ تم سے نہ ہو اور وہ واقعہ یہ بیان فرماتا ہے کہ بنی اسرائیل کے متعلق ہم نے خبر دی تھی کہ دو دفعہ تم دنیا میں عظیم الشان فساد کے مرتکب ہو گے اور سخت مظالم کرو گے اور تم کو اس کی سزا میں تباہ کر دیا جائے گا۔ گو سزا دینے کا یہاں لفظًا ذکر نہیں کیا گیا۔ لیکن اگلی آیت سے یہ مضمون ظاہر ہے۔
اس آیت سے دو امور کا ثبوت
اس آیت سے مندرجہ ذیل امور نکلتے ہیں (۱) اس میں قَضَیۡنَا فِی الْکِتٰبِ کے الفاظ ہیں، جن سے مراد حضرت موسیٰ کی کتاب ہے (۲) اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ بنی اسرائیل کے دو دفعہ باغی ہو کر الٰہی عذاب میں مبتلا ہونے کی خبر اس کتاب میں پہلے سے دے دی گئی تھی۔ نئے اور پرانے مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں دو غلطیاں کی ہیں۔
اوّل تو یہ کہ بنی اسرائیل کی تباہی کے بعض واقعات تو درج کر دیئے ہیں۔ لیکن قرآنی الفاظ کی صداقت کے اظہار کے لئے وہ پیشگوئی درج نہیں کی۔ جس کا ذکر قرآن کریم نے کیا ہے۔ دوم جنہوں نے پیشگوئی بیان کرنے کی طرف توجہ کی ہے انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ پیشگوئی موسیٰ علیہ السلام کی کتاب میں بیان کی گئی تھی۔ میں نے ان دونوں امور کو مدّنظر رکھا ہے اور موسیٰ علیہ السلام کی کتب سے پیشگوئیاں بیان کی ہیں اور واقعات تاریخی جمع کر کے لکھے ہیں۔
عَلَا کے معنی
عَلَا بمعنے ظلم ہے یعنی تم لوگوں کے اوپر ظلم کرو گے، جبر کرنے لگ جاؤ گے اور تکبّر کرو گے اور ظلم سے کام لو گے۔ کیونکہ عَلَا ( یَعْلُوْ۔ عَلُوًّا) فُلَانٌ کے معنی ہوتے ہیں۔ تَکَبَّرَ وَ تَجَبَّرَ یعنی تکبر کیا اور ظلم سے کام لیا۔ وَ عَلَا فُلَانًا بِالسَّیْفِ: ضَرَبَہٗ۔ اس کو تلوار سے مارا۔
یہود کی تباہی کا ذکر بائبل میں
فِی الْکِتٰبِ کہہ کر یہ بتایا ہے کہ اس کا ذکر موسیٰ کی کتاب میں ہے۔ چنانچہ موسیٰ کی کتاب میں بھی اس کا ثبوت ملتا ہے۔ استثناء ۔باب ۲۸۔آیت ۱۵ میں لکھا ہے۔ ’’لیکن اگر تُو خداوند اپنے خدا کی آواز کا شنوا نہ ہو گا کہ اس کے سارے شرعوں اور حکموں پر جو آج کے دن مَیں تجھے بتاتا ہوں دھیان رکھ کے عمل کرے تو ایسا ہو گا کہ یہ ساری لعنتیں تجھ پر اتریں گی اور تجھ تک پہنچیں گی۔‘‘ اس کے بعد ان لعنتوں کا ذکر کیا ہے جو نافرمانی کی وجہ سے ان پر اتریں گی۔ چنانچہ فرماتا ہے۔ ’’خداوند تجھ کو اور تیرے بادشاہ کو جسے تُو اپنے اوپر قائم کرے گا ایک گروہ کے درمیان جس سے تُو اور تیرے باپ دادے واقف نہ تھے لے جائے گا۔’’آیت۳۶۔ پھر لکھا ہے۔‘‘ خداوند ایک گروہ دُور سے زمین کی انتہا سے ایسا جلد بلکہ جیساعقاب اُڑتا ہے تجھ پر چڑھا لائے گا وہ ایک گروہ ہو گی جس کی زبان تُو نہ سمجھے گا وہ ترشرو گروہ ہو گی جو نہ بوڑھے کا ادب نہ جوان پر کرم کرے گی اور وہ تیری مواشی کا پھل اور تیری زمین کا پھل کھا جائے گی یہاں تک کہ تُو ہلاک ہو جائے گا۔ اس لیے کہ غلّے اور مَے اور تیل اور تیری گائے بیل کی بڑھتی اور بھیڑ بکری کے گلّوں سے تیرے لیے کچھ نہ چھوڑے گی یہاں تک کہ وہ تجھے فنا کر دے گی اور وہ تجھے تیرے سب پھاٹکوں میں آ گھیرے گی یہاں تک کہ تیری اونچی اور محکم دیواریں جن کا تجھے اپنے سارے ملک میں بھروسا تھا گر جائیں گی اور وہ تجھے اس ساری زمین میں جسے خداوند تیرے خدا نے تجھے دیا ہے ہر ایک شہر کے سب پھاٹکوں میں آ گھیرے گی۔ اور تُو اپنے ہی بدن کا پھل ہاں اپنے بیٹوں اور اپنی بیٹیوں کا گوشت جنہیں خداوند تیرے خدا نے بخشا تھا اس محاصرہ کے وقت اور اس تنگی میں جو تیرے بیریوں کے سبب سے تجھ پر ہو گی کھائے گا۔ وہ شخص جو تم میں نرم دل اور بہت ناز پروردہ ہو گا اس کی بھی نظر اپنے بھائی کی طرف اور اپنی ہمکنار جورُو کی طرف اور اپنے باقی لڑکوں کی طرف جنہیں اس نے چھوڑ دیا ہو گا بری ہوگی یہاں تک کہ وہ اپنے بچوں کے گوشت میں سے جسے وہ کھائے گا انہیں ان میں سے کسی کو کچھ نہ دے گا کیونکہ اس محاصرے اور تنگی میں جو تیرے دشمنوں کے باعث سے تیرے سارے پھاٹکوں میں تجھ پر ہو گی اس کے لیے کچھ نہ باقی رہے گا اور وہ عورت بھی جو تمہارے درمیان نرم دل اور نہایت نازنین ہو گی ایسی کہ نزاکت اور نرمی سے اپنے پاؤں کا تلوا زمین پر لگانے کی جرأت نہیں رکھتی اس کی نظر اپنے ہمکنار شوہر کی طرف اور اپنے بیٹے کی طرف اور اپنی بیٹی کی طرف بُری ہو گی۔‘‘ (آیت ۴۹ تا ۵۶)
پھر لکھا ہے :’’اور یوں ہو گا کہ جس طرح خداوند نے تم سے خوش ہو کر تمہارے ساتھ نیکی کی اور تمہیں بہت کر دیا اسی طرح خداوند تمہاری بابت خوش ہو گا کہ تمہیں ہلاک کرے اور نیست و نابود کر ڈالے اور تُو اس سرزمین سے جس کا تُو مالک ہونے جاتا ہے جڑھ سے اکھاڑ ڈالا جائے گا۔ اور خداوند تجھ کو سب قوموں کے درمیان زمین کے اِس سِرے سے اُس سِرے تک تِتّربِتّر کرے گا اور وہاں تُو غیر معبودوں کی جو لکڑیاں اور پتھر ہیں جس سے نہ تُو نہ تیرے باپ دادے واقف تھے پرستش کرے گا۔‘‘(آیت ۶۴،۶۳)
ان آیات میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ سے الله تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو خبردار کیا ہے کہ اگر وہ احکامِ الٰہی کو توڑ دیں گے تو ایک وقت ایسا آئے گا کہ ایک غیر قوم دُور سے ان پر چڑھ آئے گی اور ان کا محاصرہ کرے گی۔ محاصرہ کے وقت قحط اور وباء پڑیں گے۔ آخر ان کے شہروں کی فصیلیں توڑ دی جائیں گی بادشاہ قید کر کے لے جایا جائے گا اور قوم جلا وطن کر کے دُور علاقوں میں بھیج دی جائے گی۔ یہ پیشگوئی ان دو فسادوں میں سے جن کا قرآن کریم نے ذکر کیا ہے پہلے فساد کی نسبت ہے۔
قضا کے معنی
یہ جو فرمایا قَضَیۡنَاۤ اِلٰی بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ ہم نے ایک وحی کے ذریعہ سے بنی اسرائیل کو آئندہ آنے والی اس مصیبت سے خبر دے دی تھی مگر افسوس کہ وہ پھر بھی ہوشیار نہ ہوئے۔
انسان کو ہوشیار کرنے کے دو مقصد
دراصل پہلے بتانے سے غرض ہوشیار کرنا ہی ہوتا ہے اور ہوشیار کرنے کے دو مقصد ہوتے ہیں۔ (۱) انسان کوشش کرے اور بچ جاوے۔ (۲) اگر نہ بچے تو اس پر حجت پوری ہو۔
آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا اپنی امّت کو ہوشیار کرنا
آنحضرتؐ نے بھی اپنی امّت کے متعلق فرمایا ہے۔ لَتَتَّبِعُنَّ سُنَنَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ (بخاری۔ کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، باب قول النبی لتتبعن سنن من کان قبلکم) کہ تم پہلے لوگوں کے طریقہ پر عمل کرو گے۔ اور بعض احادیث میں ہے کہ یہود و نصارٰی کے نقشِ قدم پر چلو گے مگر افسوس کہ باوجود ہوشیار کر دینے کے مسلمان بھی اس آفت سے نہ بچے۔
فَاِذَا جَآءَ وَعۡدُ اُوۡلٰٮھُمَا بَعَثۡنَا عَلَیۡکُمۡ عِبَادًا لَّنَاۤ اُولِیۡ بَاۡسٍ شَدِیۡدٍ فَجَاسُوۡا خِلٰلَ الدِّیَارِ وَکَانَ وَعۡدًا مَّفۡعُوۡلًا (بنی اسرائیل:۶)
اور جب ان دو (بار کے فسادوں) میں سے پہلی (بار) کا وعدہ (پورا ہونے کاوقت ) آیا ۔تو ہم نے اپنے بعض ایسے بندوں کو (تمہاری سرکوبی کے لیے) تم پر (مستولی کر کے) کھڑا کر دیا۔ جو سخت جنگ جُو تھے اور وہ (تمہارے) گھروں کے اندر جا گھسے۔ اور یہ (وعدہ بہرحال) پورا ہو کر رہنے والا وعدہ تھا۔
حلّ لُغَات۔ اُوْلِی بَأْسٍ: اُولُوْ جمع ہے جس کے معنے ذَوُوْ کے ہیں (یعنی فلاں صفت والے) اس کا مفرد نہیں آتا۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ اسم جمع ہے اور اس کا مفرد ذُوْ ہے، جیسے غَنَمٌ اسم جمع ہے۔ اور شَاۃٌ اس کا مفرد ہے۔ (اقرب) اَلْبَأْسُ: اَلْعَذَابُ۔ عذاب۔ اَلشِّدَّۃُ فِی الْحَرْبِ۔ گھمسان کی لڑائی۔ (اقرب) مزید تشریح کے لیے دیکھو سورۃ نحل ۸۲۔ پس اُوْلِی بَأْسٍ کے معنے ہوں گے۔ جنگجو۔
جَاسُوْا۔ جَاسُوْا جَاسَ (یَجُوْسُ جَوْسًا) اَلشَّیْءَ کے معنی ہیں ۔ طَلَبَہٗ بِالْاِسْتِقْصَاءِ۔کسی چیز کو حاصل کرنے میں انتہائی محنت و کاوش سے کام لیا۔ اور جَاسُوۡا خِلٰلَ الدِّیَارِ کے معنے ہیں۔ دَارُوْا فِیْھَا بِالْعَیْثِ وَالْفَسَادِ۔ علاقوں میں فساد اور تباہی مچاتے ہوئے گھس گئے۔ وَ فَسَّرَہُ الْجَوْھَرِی بِقَوْلِہٖ اَیْ تَخَلَّلُوْا فَطَلَبُوْا مَا فِیْھَا کَمَا یَجُوْسُ الرَّجُلُ الْاَخْبَارَ اَیْ یَطْلُبُھَا۔ اور جوہری نے جَاسُوۡا خِلٰلَ الدِّیَارِ کے معنے یہ کیے ہیں وہ علاقوں میں گھس گئے۔ اور مال و دولت کو حاصل کرنا چاہا۔ (اقرب)
دیار۔ دِیَارٌ دَارَ کی جمع ہے۔ اور دَارٌ کے معنی اَلْمَحَلُّ۔ مکان۔ وَ الْعَرْصَۃُ۔ صحن۔ میدان۔ اَلْبَلَدُ۔ شہر۔ ملک ۔ علاقہ (اقرب) خِلٰلَ الدِّیَارِ: مَا حَوَالِی حُدُوْدِھَا وَ مَا بَیْنَ بُیُوْتِھَا۔ ملکوں کی حدوں اور ان کے گھروں کے درمیان۔ (اقرب)
تفسیر
اب اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا حال بتاتا ہے اور فرماتا ہے کہ جب پہلے وعدہ کا وقت آگیا تو اَے بنی اسرائیل! ہم نے تم پر ایسے لوگ غالب کر دیئے جو سخت جنگ کرنے والے تھے وہ آئے اور تمہارے گھروں میں گھس گھس کر انہوں نے تم کو ہلاک کر دیا۔
وَکَانَ وَعۡدًا مَّفۡعُوۡلًا۔ وہ وعدہ ہمارا پورا ہو کر رہنے والا تھا۔ یا یہ کہ ہمارا وعدہ پورا ہو ہی گیاہے۔
آیت میں یہود پر دو عذابوں کا ذکر
جن دو عذابوں کے متعلق اس آیت میں خبر دی گئی ہے اس کا ذکر قرآن کریم میں ایک دوسری جگہ یوں کیا گیا ہے۔ لُعِنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡۢ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ عَلٰی لِسَانِ دَاوٗدَ وَعِیۡسَی ابۡنِ مَرۡیَمَ (المائدہ:۷۹)اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک دفعہ حضرت داؤدؑ کے بعد عذاب آیا اور ایک دفعہ حضرت عیسیٰؑ کے بعد آیا۔
یہود پر پہلے عذاب کا ذکر بائبل میں
پہلے عذاب کا حال بائبل سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہود حضرت موسیٰؑ کے بعد طاقتور ہو گئے تھے ۔ حتی کہ حضرت داؤدؑ کے زمانہ میں ایک زبردست حکومت کی بنیاد پڑ گئی جو ان کے بعد بھی ایک عرصہ تک قائم رہی اور آخر آہستہ آہستہ کمزوری ہوتی گئی اور آخری زمانہ میں بابل کے شمال کے علاقہ میں بسنے والی اشوری قوموں نے ان کو شکست دی یہ قوم نینوا کی بادشاہ تھی۔ انہوں نے یہود کو اپنا باجگذار بنا لیا۔ اس کے بعد ’’نیکو ‘‘ایک مصر کا شہزادہ تھا۔ اس نے اسوریوں کو شکست دی اور وہ نینوا کی بجائے مصریوں کے باجگذار بن گئے۔ ۶۰۰ سال قبل مسیح کے قریب اور حضرت داؤدؑ سے قریبًا ۴۰۰ سال بعد یرمیاہ نبی کی معرفت ان کو ان کی خرابیوں پر الله تعالیٰ نے پھر متنبہ کیا۔ اور ان کے گناہوں پر انہیں پھر تنبیہ کی اور فرمایا کہ’’ اگر اب بھی توبہ کر لو تو وہ جو تمہارے لیے جلاوطنی کی پیشگوئی تھے ٹلا دی جائے گی مگر وہ باز نہ آئے۔ ‘‘(یرمیاہ۔ باب۷)
آخر الله تعالیٰ نے بابلیوں کو ان کے عذاب کے لیے مسلّط کیا۔ یہ واقعہ بائبل کی کتاب ۲ سلاسطین باب ۲۵ میں یوں لکھا ہے۔’’ شاہِ بابل نبو کدنظر نے اور اس کی ساری فوج نے یروشلم پر چڑھائی کی ۔ ‘‘آیت۱۔ اور اس کا محاصرہ کر لیا، یہ محاصرہ بہت دیر تک رہا۔ اس وقت یروشلم کا بادشاہ صدقیاہ تھا۔جب محاصرہ نے طول پکڑا تو شہر کے اندر غلّہ کم ہو گیا۔ لکھا ہے’’ تب شہر ٹوٹا‘‘ آیت ۴ ۔یعنی بابل کی فوج نے فصیل توڑ دی۔ آخر لوگ ایک طرف کا دروازہ کھول کر بھاگے۔ صدقیاہ بادشاہ بھی بھاگا مگر پکڑا گیااس کی آنکھیں نکالی گئیں اور آنکھیں نکالنے سے پہلے اس کے بیٹوں کو اس کے سامنے ہلاک کر دیا گیا پھر اس کے پاؤں میں بیڑیاں ڈال کر اسے بابل لے گئے۔ (آیت ۴تا۷)۔ اس کے بعد شاہِ بابل نے اپنے ایک افسر بنوزردان کو یروشلم بھجوایا۔ اس نے آ کر ’’خداوند کا گھر اور بادشاہ کا قصر (محل) اور یوروشلم کے سارے گھر ہاں ہر ایک رئیس کا گھر جلا دیا اور کُسدیوں کے سارے لشکر نے جو جلوداروں کے سردار کے ہمراہ تھا ان دیواروں کو جو یروشلم کے گردا گرد تھیں گرا دیا اور باقی لوگوں کو جو شہر میں چھوڑے گئے تھے اور ان کو جنہوں نے اپنوں کو چھوڑ کے شاہِ بابل کی پناہ لی تھی تمام جماعت کے بقیہ کے ساتھ بنوزردان جلوداروں کا سردار پکڑ کر لے گیا۔ ‘‘ (آیت ۹تا۱۱)
نحمیاہ نبی کی کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ اس تباہی کا ایک بڑا باعث سبت کی بے حرمتی تھی۔ چنانچہ لکھا ہے۔’’ تب مَیں نے یہوداہ کے شریف لوگوں سے تکرار کر کے کہا کہ یہ کیا بُرا کام ہے جو تم کرتے ہو کہ سبت کے دن کو مقدس نہیں جانتےہو کیا تمہارے باپ دادوں نے ایسا نہیںکیا اور ہمارا خدا ہم پر اور اس شہر پر یہ سب آفتیں نہیں لایا؟ تب بھی تم سبت کے دن کو پاک نہ مان کے اسرائیل پر زیادہ غضب بھڑکاتے ہو؟‘‘ (باب ۱۳، آیت ۱۷۔۱۸)
اسی طرح حزقیل نبی نے بھی اس وقت یہود کو ڈرایا تھا۔ انہوں نے ان کے بہت سے گناہوں کا ذکر کرتے ہوئے ان میں سے ایک گناہ یہ گنایا ہے کہ’’ تُو نے میرے مقدسوں کو ناچیز جانا ہے اور میرے سبتوں کو ذلیل کیا ہے‘‘ ( حزقیل۔ باب ۲۲ آیت ۸)۔ پھر باب۲۳ آیت ۳۸ میں ہے۔ ’’اس کے سوا انہوں نے مجھ سے یہ کیا ہے کہ اسی دن انہوں نے میرے مقدس کو ناپاک کیا اور میرے سبتوں کو حرمت نہ دی۔‘‘
میں نے سبت کی بے حرمتی کے حوالے اس لیے دیئےہیں کہ اس جگہ صرف سخت عذاب کی خبر بتائی گئی ہے مگر درحقیقت اشارہ سورۂ نحل کی آیات کی طرف ہے جن میں کہا گیا تھا کہ اِنَّمَا جُعِلَ السَّبْتُ عَلَی الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْہِ (النحل: ۱۲۵) یعنی سبت کا عذاب ان لوگوں پر نازل کیا گیا تھا جنہوں نے الٰہی کلام میں اختلاف کر کے دین کو نقصان پہنچایا تھا۔ قرآن کریم کے مضامین کی ترتیب کی اس آیت میں ایک زبردست شہادت ہے کہ سورہ نحل جو بعد میں اُتری ہے اس میں سبت کا ذکر ہے، سورۂ بنی اسرائیل اس سے پہلے کی نازل شدہ ہے اور اس کے مضامین سورہ نحل سے اس طرح چسپاں ہو جاتے ہیں گویا سورہ نحل پہلے کی ہے اور اِسراء بعد کی۔ اور اس میں سورہ نحل کے مضامین کے جواب دیئےگئے ہیں اور ان کی تکمیل کی گئی ہے۔
تاریخ سے بابلیوں کی اس چڑھائی کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ جب یہود کمزور ہو گئے تو اسوریوں نے فلسطین کو فتح کر کے اپنا تابع کر لیا۔ لیکن اس کے بعد ایک مصری بادشاہ فرعون نیکو (Pharaoh Necho) نامی نے اسورین حکومت کو تباہ کر دیا۔ اور فلسطین اسوریوں کی حکومت سے نکل کر مصر کی حکومت تلے آ گیا۔ فرعونِ مصر نے یوسیاہ کے بیٹے الیاقیم (اس کا نام یہویقیم کر دیا گیا) Eliakim کو وہاں کا بادشاہ بنا دیا۔ لیکن اس دوران میں اسورین کی حکومت کی تباہی کو دیکھ کر اس کے ہمسایہ کلدانی(Chaldean) بادشاہ نے اپنے بیٹے نبوکدنضر (Nebuchadnezzar) کو نِیکو کے مقابلہ کے لیے بھیجا اور نبوکدنضر نے مصر کو فتح کر لیا اور فلسطین بابلیوں کے زیرِ اثر آ گیا۔ مگر فلسطین کا بادشاہ یہویقیم مصر کی طرف مائل رہا۔ اس پر نبوکدنضر نے اس پر چڑھائی کی (یہ چڑھائی نبو کد نضر کے جرنیل نے کی۵۸۷۔ق۔م۔ جس کا نام بنوزر آدم تھا) مگر اس کے لشکر پہنچنے سے پہلے بادشاہ یہویقیم مر گیا۔ اس کا بیٹا یہویکین (Jehoiachin) تابِ مقابلہ نہ لا کر معافی کا طلبگار ہوا۔اسے بابل بلا لیا گیا۔ اور صد قیاہ (Zedekiah) (یہ یہویقیم کا بھائی تھا اور اس کا اصل نام متنیاہ Mattaniah تھا) کو فلسطین کا بادشاہ بنا دیا گیا۔ مگر اس نے بھی مصر کے بادشاہ حوفرا (Hophra) کی طرفداری کی۔ اس پر بابلیوں نے ۵۸۸ قبل المسیح میں فلسطین کے دارالخلافہ کا محاصرہ کر لیا۔ آخر ۵۸۶ قبل مسیح میں شہر کی دیوار توڑ دی گئی۔ صدقیاہ بھاگا۔ مگر گرفتار کر لیا گیا۔ اور بادشاہ کے حکم سے قید کر کے بابل پہنچایا گیا۔ بابلیوں نے یہود کی مقدس عمارات کو جلا دیا۔ اور فصیل کو گرا دیا۔ اور شہر برباد کر دیا۔(تفسیرکبیر۔ جلد۶ صفحہ۲۹۰تا۲۹۶)
(باقی آئندہ)
(مرسلہ:قمر احمد ظفر۔ نمائندہ الفضل انٹرنیشنل)