مکتوب افریقہ
بر اعظم افریقہ میں گذشتہ ماہ میں پیش آمدہ واقعات پیشِ خدمت ہیں:
سوڈان میں خانہ جنگی
ملک سوڈان ایک طویل عرصہ سے خانہ جنگی اور عدم استحکام کا شکار ہے۔ ۱۹۵۶ءمیں آزادی کے بعد سے اب تک ملک میں پندرہ مرتبہ مارشل لا لگ چکا ہے۔ سوڈان پر زیادہ عرصہ فوج نے ہی حکومت کی ہے۔خانہ جنگیوں،کمزور حکومتوں،وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور بد عنوانی کی وجہ سے ۲۰۱۱ءمیں سوڈان دو ملکوں میں تقسیم ہو گیااور ایک نیا ملک ساؤتھ سوڈان وجود میں آیا۔سوڈان کے مغربی خطہDarfur میں ایک طویل عرصہ سے نسلی وقبائلی خانہ جنگی اور زمین اور پانی پر تنازعات جاری ہیں۔ ۲۰۰۳ء میں جب اس علاقہ سے حکومت کے خلاف بغاوت کی لہر اٹھی توسا بق فوجی اور سیاسی راہنما عمر البشیر نے اس سےسختی سے نمٹنے کا عزم کیا۔فوجی آپریشن کے نتیجہ میں پورے خطہ میں فسادات پھوٹ پڑے۔فسادات کو ختم کرنے کے لیے سابق فوجی سربراہ عمر البشیر نے ایک نیم فوجی ملیشیا جنجاوید کی مدد لی۔اس غیر حکومتی تنظیم کی مدد سے بغاوت کو کسی قدر کچل دیا گیا مگر اس دوران ملیشیا کے خلاف جنگی جرائم، وسیع پیمانے پر بے گناہ لوگوں کو قتل کرنے، دہشت گردی و ناجائز قبضے کے الزامات بھی لگتے رہے ہیں۔اس نیم فوجی ملیشیا نے طاقت حاصل کرنے کے لیے متعدد سرکاری کانوں،وسائل اور معدنیات پر قبضہ کیا۔ ۲۰۱۳ء میں حکومت نے اس نیم فوجی ملیشیا کو Rapid Response (RSF) Forces F) کا نام دیا اور باقاعدہ فوج کی شکل دے دی گئی۔نیزایک قبائلی لیڈرMohamed Hamdan Dagaloکو اس کا سربراہ بنایا۔ Dagalo کو عُرفِ عام میں Hemedti بھی کہا جاتا ہے۔ RSFنے بیرون ملک متعدد غیر حکومتی مسلح گروہوں سے روابط بڑھا کر اپنے اثرو رسوخ کو بہت بڑھا لیا ہے۔اس وقت RSF کو عددی اور عسکری طاقت کی بدولت ملکی فوج سے زیادہ طاقت حاصل ہے اور اس کی سربراہی Hemedti کر رہا ہے۔جبکہ ملکی افواج جسے Sudan Armed Forces (SAF)F)کہتے ہیں، کی سربراہی موجودہ حکومتی سربراہ جنرل عبد الفتح البرہان کر رہا ہے۔
دسمبر ۲۰۱۸ء میں صدرعمر البشیرکو حکومت سے بےد خل کرنے کے لیے احتجاج کا آغاز ہوا۔8 ماہ کی سول نافرمانی اور پرتشدد احتجاج کے بعد سوڈانی فوج نےRSFکی مدد سے عمر البشیر کی حکومت گرا دی اوراسے خرطوم میں قید کر دیا۔عوام نے فوجی بغاوت کے خلاف احتجاج کیا۔ دارالحکومت میں طویل دھرنا بھی دیا مگر RSFنے اس کو سختی سے کچل دیا اور خرطوم میں دھرنے پر کریک ڈاؤن کر کے سینکڑوں لوگوں کو قتل کیا۔
اگست ۲۰۱۹ء میں افریقی یونین، ایتھوپیا اوربین الاقوامی دباؤ اور ثالثی کے نتیجہ میں سوڈانی فوج نے ایک عبوری مشترکہ سویلین ملٹری یونٹی گورنمنٹ ( عبوری خودمختاری کونسل) میں اقتدار کا اشتراک کرنے پر اتفاق کیا۔ جس کی سربراہی عبد اللہ حمدوک کو دی گئی۔مگر اکتوبر ۲۰۲۱ء میں سوڈانی فوج نے پھر اقتدار پر قبضہ کر تے ہوئے نامزد سربراہ عبد اللہ حمدوک کو نظربند کر دیا۔نومبر میں عبد اللہ حمدوک کو دوبارہ وزیر اعظم مقرر کیا گیا مگر فروری ۲۰۲۲ء میں انہوں نے اپنے عہدے سے استعفی دے دیا اور جمہوری حکومت کے قیام کےلیے احتجاج شروع کرنے کا اعلان کیا۔
بار بار کی فوجی مداخلتوں، اقتدار کی کھینچا تانی اور طاقت کے لالچ میں ۲۰۲۳ء کے آغاز سے فوج کے دونوں دھڑوں (ملکی افواج اورRSF) میں اختلافات اور جھگڑے شروع ہو گئے۔ فوج نے RSFکو میروو شہر میں اپنے اڈے بنانے سے روکا جس سے انکار پر دونوں فریقین میں جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ ۱۵؍اپریل کو RSF نے خرطوم کے ایئر پورٹ اور ملک بھر میں سوڈانی فوج کے مراکز پر حملہ کیا۔دونوں گروپوں کے درمیان صدارتی محل اور جنرل البرہان کی رہائش گاہ پر جھڑپیں ہوئیں۔ جواب میںSAF نے تمام ہوائی اڈے بند کر دیے اور RSF کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے۔ ریاستی نشریاتی ادارے، سوڈان ٹی وی کے ہیڈکوارٹر میں جھڑپیں ہوئیں، جنہیں بعد میں RSF فورسز نے اپنے کنڑول میں لے لیا۔فوج کے دو حصوں میں تصادم نے پورے ملک کے لیے ایک نئی خانہ جنگی کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ہزاروں کی تعداد میں سوڈانی افراد نے خرطوم سے ملک کے دوسرے حصوں کی طرف نقل مکانی شروع کر دی۔نیز بہت سے افراد نے ہمسایہ ملکوں میں بھی پناہ لی ہے۔
اکتوبر ۲۰۲۳ء تک سوڈانی فوج کوDarfur میں پسپائی کا سامنا ہے اور جن علاقوں اور فوجی اڈوں کا RSF نے محاصرہ کیا ہے وہاں رسد اور مدد پہنچانے میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ RSF فورسز کی پیش قدمی روکنے کے لیے فضائی برتری نے بھی سوڈانی فوج کو فائدہ نہیں دیا۔ ۲۶؍ اکتوبر کو RSF فورسز نے SAF کے سولہویں انفنٹری ڈویژن کے ہیڈکوارٹر پر قبضہ کرنے کے بعد، سوڈان کے دوسرے بڑے شہر نیالا پر قبضہ کر لیا۔نیالا فوجی اعتبار سے نہایت اہم شہر ہے۔اس میں ایک بین الاقوامی ہوائی اڈہ موجود ہے اور یہاں سے وسطی افریقہ سے سرحدی رابطہ ممکن ہے جس کا مطلب ہے کہ اب RSFکو بیرونی ممالک سے فوجی مدد حاصل کرنے میں مزید سہولت ہو گی۔اس فتح کے بعد RSF جنگجو ا لفشیرشہر اور زلنگی سٹیٹ میں اپنے تسلط کو مضبوط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔جنوب مشرق میں باغیوں نے الایلافون قصبے پرقبضہ کرلیا ہے اور تیل کی پائپ لائن کے ساتھ ایک پمپنگ اسٹیشن کا کنٹرول حاصل کر لیا جس کی مدد سے جنوبی سوڈان سے پورٹ سوڈان تک تیل کی ترسیل کی جارہی ہے۔نیزبلیلہ میں ایک اہم آئل فیلڈ اور ایئر پورٹ پر بھی قبضے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
نومبر۲۰۲۳ء میںRSFنے جنینا شہر میںSAFکے پندرھویں انفنٹری ڈویژن کے ہیڈکوارٹر کا محاصرہ کیا اور دو دن کے بعد قبضہ کر لیا۔ متعدد فوجی ہمسایہ ملک بھا گ گئے۔قبضے کے بعد جنگجوؤں نے شہر میں قتل عام بھی کیا۔ ایڈ ڈائین میں تعینات ۲۰ویں انفنٹری ڈویژن کے ہیڈ کوارٹر پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق پورے دارفور میں حکومتی فوج کی رٹ ختم ہونے کے قریب ہے اور جلد ہی جنگجو تمام علاقے پر قابض ہو جائیں گے۔ RSFکے ساتھ ساتھ اور بھی مسلح تنظیمیں سوڈان کے جنوبی علاقوں میں حکومت کے خلاف کام کر رہی ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق اب تک ۹ہزار افراد قتل کیے جا چکے ہیں اور بارہ ہزار سے زائد افراد زخمی ہیں۔سینکڑوں کی تعداد میں افراد لاپتا بھی ہیں۔اکتوبر ۲۰۲۳ء تک ۵۴لاکھ کے قریب افراد بے گھر ہو چکے ہیں جن میں ایک تعداد ہمسایہ ملکوں (چاڈ۔مصر۔ساؤتھ سوڈان،سینٹرل افریقن رپبلک)میں ہجرت کر گئی ہے جبکہ بہت بڑی تعداد اپنے ہی ملک میں بے گھر ہو چکی ہے۔متعدد ممالک کی جانب سے فریقین میں مذاکرات اور صلح کی کوشش کی جا رہی ہے مگر ابھی تک وہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئیں۔
سیرالیون میں فوجی انقلاب کی کوشش
نومبر کے آخری ہفتہ مغربی افریقہ کے ایک اَور ملک سیرالیون میں فوجی بغاوت کی کوشش کی گئی۔ جسے ناکام بنا دیا گیا۔۲۶؍ نومبر۲۰۲۳ء کو صبح دارالحکومت فری ٹاؤن میں چند مسلح افراد نے صدر مملکت کے گھر کے قریب ایک فوجی اڈے کے اسلحہ خانے میں گھسنے کی کوشش کی۔ پھر شہر کی دو اہم جیلوں پر حملہ کر کے کچھ قیدیوں کو رہا کر دیا۔حکومت کے مطابق، اس پر تشدد کی کارروائی میں ۱۳؍ فوجیوں سمیت کم از کم ۱۸؍ افراد ہلاک ہوئے اور ۲۲۰۰؍ کے قریب افراد جیلوں سے فرار ہوئے۔ واقعہ کے بعد ملک بھر میں کرفیو نافذ کر دیا گیا۔ جو رات کے اوقات میں دسمبر کے آخری عشرہ تک نافذ رہا۔
پولیس نے اس سلسلہ میں کئی فوجی افسران اور عام شہریوںکو گرفتار کیا۔ان میں حاضر سروس اور ریٹائرڈ فوجی اور پولیس کے ساتھ ساتھ کچھ عام شہری بھی شامل تھے۔
وزیر اطلاعات نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’’ یہ واقعہ بغاوت کی ناکام کوشش تھی۔ اس کا مقصد جمہوری طور پر منتخب حکومت کو غیر قانونی طور پر گرانا تھا۔کوشش ناکام ہوگئی، اور بہت سارے راہنما یا تو پولیس کی حراست میں ہیں یا فرار ہیں۔ ہم ان کو پکڑنے کی کوشش کریں گے اور انہیں سیرا لیون کے قوانین کی پوری طاقت کے مطابق گرفت میں لیں گے‘‘۔
تجزیہ کاروں کے مطابق بظاہر اس واقعہ کی بنیاد کوئی نہیں مگر اس کے آگے پیچھے کے حالات کو سامنے رکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ معاشرےمیں عدم تحفظ اور بے چینی ہے۔ ملک میں بےروزگاری کی شرح بہت زیادہ ہے۔جون ۲۰۲۳ء میں عام انتخابات کے نتیجہ Julius Maada Bioکی جماعت کی فتح ہوئی۔ اپوزیشن لیڈر نے ان انتخابات کو قبول کرنے سے انکار کیا۔ الیکشنز کے بعد سے ملک میں عد م استحکام ہے۔ ۲۰۲۰ء کے بعد سے وسطی اور مغربی افریقہ کے چھ ممالک میں فوجی بغاوت ہو چکی ہے جن میں گنی،مالی، برکینافاسو،چاڈ،نائیجر اور گبون شامل ہیں۔
عالمی معیشت میں BRICS گروپ کی پیش قدمی، نائیجیریا کی BRICS میں شمولیت کی خواہش
BRICSگروپ، اصل میں برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ پر مشتمل ہے جو دنیا کے معاشی ڈھانچے کو از سر نو تبدیل کرنے پر زور دے رہا ہے۔اس وقت عالمی معیشت امریکہ اور اس کے زیر اثر یورپی ممالک کے ہاتھ میں ہے۔ BRICSگروپ کا بنیادی مقصد اپنے معاشی اثر و رسوخ کو بڑھا کر عالمی منڈیوں،معیشت،تجارت اور بعد ازاں سیاست پر غلبہ حاصل کرنا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ایک جیسی معاشی ترقی اور اقدار رکھنے والے مذکورہ بالا ممالک نے یہ تنظیم بنائی اوراب اس میں مزید ممالک کو شامل کیا جا رہا ہے تا کہ اس کو مزید مضبوط کر سکیں۔ چنانچہ اگست میں ہونے والے سر براہی اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ اس میں نئے اراکین کو شامل کیا جاسکے گا جن میں سعودی عرب، ایران، ایتھوپیا، مصر، ارجنٹائن اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔ افریقہ کی سب سے بڑی معیشت نائیجیریا بھی اس گروپ میں شامل ہونے کی خواہاں ہے۔ ایک بیان میں ملک کے وزیر خارجہ یوسف تغگر نے کہا: ’’ہمیں BRICS جیسے گروپوں سے تعلق رکھنے کی ضرورت ہے، جیسے G-20 اور تمام دیگر گروپوں سے رابطہ رکھنے کی ضرورت ہے۔اگر آبادی اور معیشت کے لحاظ سے سب سے بڑے ممالک کا تعلق ہونا چاہیے، تو نائیجیریا اس کا حصہ کیوں نہیں ہے‘‘۔وزیر خارجہ نے اس بات کی امید ظاہر کی ہے کہ نائیجیریا ۲ سال کے اندر اس گروپ میں شامل ہو جائے گا۔اس وقت نائیجیریا کے مغرب سے اچھے اقتصادی تعلقات ہیں۔ BRICS میں شمولیت کے بعد یقیناً ان پر اثر پڑے گا۔
کینیا، ایتھوپیا،صومالیہ میں بد ترین سیلاب
Horn of Africaکے ممالک گذشتہ تین سالوں سے بارش نہ ہونے سے خشک سالی کا شکار تھے۔ مگر اس سال نومبر میں طاقتور اورموسلادھار بارشوں کے نتیجہ میں ان ممالک میں غیر معمولی سیلابی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ایتھوپیا، کینیا اور صومالیہ غیر معمولی پیمانے پر سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔ تینوں ممالک کے عارضی اعداد و شمار کے مطابق کم از کم ۲۸۰؍ افراد ہلاک اور ۲۸؍ لاکھ سے زیادہ بے گھر ہو چکے ہیں۔اقوام متحدہ نے سیلاب سے متاثرہ لوگوں کے لیے ۲۵ملین ڈالر امداد کا اعلان کیا ہے۔ایک اندازے کے مطابق ۱۵؍لاکھ ایکڑ زرعی زمین اور فصلیں بارشوں اورسیلاب کے نتیجہ میں تباہ ہو گئی ہیں۔ماہرین موسمیات کے مطابق اس سال نومبر سے دسمبر تک معمول سے ۳۰۰ فیصد زیادہ بارش ہونے کا امکان ہے۔ غیر معمولی بارشوں کو ماہرین موسمیات Indian Ocean dipole کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔ Indian Ocean dipoleسے مراد ہے کہ بحر ہند کے مشرقی اور مغربی حصہ کے درجہ حرارت میں غیرمعمولی فرق کے نتیجہ میں مشرقی افریقہ میں بہت زیادہ بارشوں کا امکان ہے جبکہ جنوب مشرقی ایشیا ئی ممالک اور آسڑیلیا میں خشک سالی اور Bushfire کا امکان ہے۔