احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
یہ مقدمہ حضرت مسیح موعودؑ کی راست بازی اور صداقت شعاری کی ایک دلیل اور خدا تعالیٰ کی تائید اور نصرت کا ایک زبردست نشان ہے۔اس لئے کہ قبل از وقت آپؑ کو اﷲ تعالیٰ نے ایک رؤیا کے ذریعہ اطلاع دے دی تھی
مقدمہ ڈاک و متفرقات
جیساکہ بیان ہواہے کہ یہ وہ زمانہ تھاکہ جب حضرت اقدس علیہ السلام اب صلحاء اور اولیاء کے علاوہ مذہبی دنیامیں بھی معروف ہونے لگے تھے۔ ہندوستان میں نئے نئے اخبارات ورسائل شائع ہونے لگے تھے اور خاص طور پر عیسائی مشنری صحافت کے اس ہتھیار کو استعمال کررہے تھے اور ان کی دیکھا دیکھی ہندوؤں کے کچھ اخباربھی محاذ کھول چکے تھے۔ اوران سب کا رخ بطورخاص اسلام اور بانئ اسلام کی طرف تھا۔اور اس محاذ پراگرکوئی ڈٹ کرمقابلہ کررہاتھا تواس میں نمایاں نام حضرت اقدس علیہ السلام کاتھا۔ کیونکہ وہ غیرت دینی جوآپؑ کی فطرت ثانیہ تھی وہ آپ کواس وقت تک قرارسے بیٹھنے نہیں دیتی تھی جب تک کہ آپ ان مخالفین کاناقابل تردیدجوابی مضمون سے حساب نہیں چکادیتے تھے۔ امرتسر کا اخبار وکیل ہندوستان، بنگلور ریاست میسور کا منشور محمدی، ہندو باندھو یا برادر ہندلاہور،سفیرہندامرتسر،آفتاب پنجاب، لدھیانہ کانورافشاں یہ سب وہ اخبارتھے کہ جن میں حضرت اقدسؑ کے قلم سے اسلام ،بانئ اسلام حضرت محمدمصطفیٰﷺ کی صداقت اور عظمت کے دلائل سے مرصع مضامین شائع ہورہے تھے۔اور اب گلشن احمدﷺ اور چمن اسلام کایہ گل رعنا مخالفین اسلام کے دلوں میں کانٹا بن کرکھٹکنے لگاتھا۔
اسی طرح کے مضامین میں سے ایک مضمون حضوراقدسؑ نے امرتسرکے ایک اخباروکیل ہندوستان میں شائع ہونے کے لیے بھیجا اور اس کے ساتھ ہی ایک خط بھی اسی مضمون کی بابت ایڈیٹرکولکھ کرساتھ کردیا۔اس اخبارکاایڈیٹر رُلیارام تھا جوکہ ہندوسے عیسائی ہوکرایک جوشیلا اورمتعصّب حمایتی عیسائی تھا۔پیشہ کے اعتبارسے چونکہ وہ وکیل بھی تھا اس لیے عیسائی مذہب کی طرف سے جہاں بھی ضرورت پڑتی یہ اسی عدالت میں جاپہنچتااور عیسائی قوم ومذہب کادفاع کرتا۔رلیارام نے جب یہ مضمون اور خط وصول کیاتو اسی تعصب اور بغض نے جواسلام کے خلاف خاص طورپراس کوتھا، جوش مارااور اس نے اسلام کے اس داعی الی اللہ کے خلاف محکمہ ڈاک کے قوانین سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عدالت میں ایک مقدمہ دائرکردیاکہ جس کے مطابق ایک اس طرح کے کھلے پیکٹ میں بندلفافہ رکھنا جرم تھا اوراس کی سزا چھ ماہ قیدیا۵۰۰روپے جرمانہ ہوسکتاتھا۔یہ مقدمہ گورداسپورکے ضلعی مقام دینانگرمیں سماعت ہوااور اس میں کوئی شک نہیں کہ عام قواعد وقوانین کے اعتبارسے بہت ہی سیدھاسامقدمہ تھا۔کیونکہ جوواقعات ہیں وہ ثابت شدہ ہیں اب اس سے بچنے کاایک ہی راستہ تھا کہ ’’ملزم‘‘ اس فعل سے انکار کر دے۔ وگرنہ رلیارام کواپنی فتح پرسوفیصدیقین تھا اور اس کوپریقین ہوناہی چاہیے تھا کہ واقعات مقدمہ اور قوانین اس کے ساتھ تھے۔دوسری طرف ناموروکیلوں اور ماہرقانونی مشیروں کی رائے حضرت اقدسؑ کویہی تھی کہ اس مقدمہ میں سزاسے بچنے کی ایک ہی راہ ہے اوروہ یہ کہ آپ انکارکردیں کہ آپ نے یہ مضمون یاخط اس میں رکھاہے۔ اس پرکوئی بھی وکیل یہ ثابت نہیں کرسکے گا کہ آپؑ نے ہی اس خط کوپیکٹ میں رکھاتھا۔ اور یوں عدالتی ماحول اور وکیلوں کے آئے دن کے تجربات کی روشنی میں یہ ایک چھوٹا سا معمولی ساحیلہ تھا جس سے چند ہی لمحوں میں ہارا ہوامقدمہ اپنے حق میں فیصلہ کروایاجاسکتاتھا۔
لیکن ہواکیا…؟ عدالتوں کی دنیا میں ایک نئی تاریخ رقم ہوئی ملزم نے بظاہراس معمولی سی بات کونہ صرف ماننے سے انکارکردیا بلکہ وکیلوں کے بغیراس مقدمہ میں پیش ہوئے اور توکّل ورضاکی مضبوط چٹان پرکھڑے ہوکر اقرارکیاکہ ہاں یہ پیکٹ اور یہ بندلفافہ میں نے ہی بھیجاہے …!
پھرکیاہوا…آئیے ہم اس تاریخی مقدمہ کے تاریخی فیصلہ کی رودادپڑھتے ہیں۔
آپؑ اس مقدمے کے بارے میں اپنا ایک کشف اور مقدمہ ثابت ہو جانے پر ہونے والی سزا کاذکر کرتے ہوئےتحریرفرماتے ہیں: ’’تخمیناً پندرہ یا سولہ سال کا عرصہ گذرا ہوگا یا شاید اس سے کچھ زیادہ ہو کہ اِس عاجز نے اسلام کی تائید میں آریوں کے مقابل پر ایک عیسائی کے مطبع میں جس کا نام رلیارام تھا اور وہ وکیل بھی تھا اور امرتسر میں رہتا تھا اور اس کا ایک اخبار بھی نکلتا تھا ایک مضمون بغرض طبع ہونے کے ایک پیکٹ کی صورت میں جس کی دونوں طرفیں کھلی تھیں بھیجا اور اس پیکٹ میں ایک خط بھی رکھ دیا۔ چونکہ خط میں ایسے الفاظ تھے جن میں اسلام کی تائید اور دوسرے مذاہب کے بطلان کی طرف اشارہ تھا اور مضمون کے چھاپ دینے کیلئے تاکید بھی تھی اس لئے وہ عیسائی مخالفت مذہب کی وجہ سے افروختہ ہوا اور اتفاقاً اس کو دشمنانہ حملہ کے لئے یہ موقع ملا کہ کسی علیحدہ خط کا پیکٹ میں رکھنا قانونًا ایک جرم تھا جس کی اس عاجز کو کچھ بھی اطلاع نہ تھی اور ایسے جرم کی سزا میں قوانین ڈاک کے رو سے پانسو روپیہ جرمانہ یا چھ ماہ تک قید ہے سو اس نے مخبر بن کر افسران ڈاک سے اس عاجز پر مقدمہ دائر کرادیا اور قبل اس کے جو مجھے اس مقدمہ کی کچھ اطلاع ہو روٴیا میں اللہ تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا کہ رلیارام وکیل نے ایک سانپ میرے کاٹنے کے لئے مجھ کو بھیجا ہے اور میں نے اسے مچھلی کی طرح تل کر واپس بھیج دیا ہے۔ مَیں جانتا ہوں کہ یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ آخر وہ مقدمہ جس طرز سے عدالت میں فیصلہ پایا وہ ایک ایسی نظیر ہے جو وکیلوں کے کام میں آسکتی ہے۔ غرض میں اس جرم میں صدر ضلع گورداسپورہ میں طلب کیا گیا اور جن جن وکلاء سے مقدمہ کے لئے مشورہ لیا گیا انہوں نے یہی مشورہ دیا کہ بجز دروغ گوئی کے اور کوئی راہ نہیں اور یہ صلاح دی کہ اس طرح اظہار دے دو کہ ہم نے پیکٹ میں خط نہیں ڈالا، رلیارام نے خود ڈال دیا ہوگا اور نیز بطور تسلی دہی کے کہا کہ ایسابیان کرنے سے شہادت پر فیصلہ ہوجائے گا اور دو چار جھوٹے گواہ دے کر بریّت ہوجائے گی ورنہ صورت مقدمہ سخت مشکل ہے اور کوئی طریق رہائی نہیں۔ مگر میں نے ان سب کو جواب دیا کہ میں کسی حالت میں راستی کو چھوڑنا نہیں چاہتا جو ہوگا سو ہوگا تب اسی دن یا دوسرے دن مجھے ایک انگریز کی عدالت میں پیش کیا گیا اور میرے مقابل پر ڈاک خانہ جات کا افسر بحیثیت سرکاری مدعی ہونے کے حاضر ہوا۔ اس وقت حاکم عدالت نے اپنے ہاتھ سے میرا اظہار لکھا اور سب سے پہلے مجھ سے یہی سوال کیا کہ کیا یہ خط تم نے اپنے پیکٹ میں رکھ دیا تھا اور یہ خط اور یہ پیکٹ تمہارا ہے۔ تب میں نے بلا توقّف جواب دیا کہ یہ میرا ہی خط اور میرا ہی پیکٹ ہے اور میں نے اس خط کو پیکٹ کے اندر رکھ کر روانہ کیا تھا مگر میں نے گورنمنٹ کی نقصان رسانی محصول کےلئے بدنیتی سے یہ کام نہیں کیا بلکہ میں نے اس خط کو اس مضمون سے کچھ علیحدہ نہیں سمجھا اور نہ اس میں کوئی نج کی بات تھی۔ اس بات کو سنتے ہی خدا تعالیٰ نے اس انگریز کے دل کو میری طرف پھیر دیا اور میرے مقابل پر افسر ڈاک خانہ جات نے بہت شور مچایا اور لمبی لمبی تقریریں انگریزی میں کیں جن کو میں نہیں سمجھتا تھا مگر اس قدر میں سمجھتا تھا کہ ہر ایک تقریر کے بعد زبان انگریزی میں وہ حاکم نو نو کر کے اس کی سب باتوں کو رد کردیتا تھا۔ انجام کار جب وہ افسر مدعی اپنے تمام وجوہ پیش کرچکا اور اپنے تمام بخارات نکال چکا تو حاکم نے فیصلہ لکھنے کی طرف توجہ کی اور شاید سطر یا ڈیڑھ سطر لکھ کر مجھ کو کہا کہ اچھا آپ کیلئے رخصت۔ یہ سن کر میں عدالت کے کمرہ سے باہر ہوا اور اپنے محسن حقیقی کا شکر بجا لایا جس نے ایک افسر انگریز کے مقابل پر مجھ کو ہی فتح بخشی اور میں خوب جانتا ہوں کہ اس وقت صدق کی برکت سے خدا تعالیٰ نے اس بلا سے مجھ کو نجات دی۔ میں نے اس سے پہلے یہ خواب بھی دیکھی تھی کہ ایک شخص نے میری ٹوپی اتارنے کیلئے ہاتھ مارا۔ میں نے کہا کیا کرنے لگا ہے تب اس نے ٹوپی کو میرے سر پر ہی رہنے دیا اور کہا کہ خیر ہے خیر ہے۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام،روحانی خزائن جلد ۵صفحہ ۲۹۷-۲۹۹)
ایک دوسری جگہ اس سے متعلقہ ایک اَور خواب اور مقدمہ کاذکرکرتے ہوئے تحریرفرماتے ہیں: ’’ایک دفعہ قانون ڈاک کی خلاف ورزی کا مقدمہ میرے پر چلایا گیا جس کی سزا پانچ سو روپیہ جرمانہ یا چھ ماہ قید تھی اور بظاہر سبیل رہائی معلوم نہیں ہوتی تھی تب بعد دعا خواب میں خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا کہ وہ مقدمہ رفع دفع کر دیا جائے گا اس مقدمہ کا مخبر ایک عیسائی رلیا رام نام تھا جو امرتسر میں وکیل تھا اور میں نے خواب میں یہ بھی دیکھا کہ اُس نے میری طرف ایک سانپ بھیجا ہے اور میں نے اُس سانپ کو مچھلی کی طرح تل کر اُس کی طرف واپس بھیج دیا ہے۔ چونکہ وہ وکیل تھا اس لئے میرے مقدمہ کی نظیر گویا اُس کے لئے کارآمدتھی اور تلی ہوئی مچھلی کا کام دیتی تھی چنانچہ وہ مقدمہ پہلی پیشی میں ہی خارج ہو گیا‘‘۔ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲صفحہ ۲۴۸)
حیات احمدؑ میں اس مقدمہ کی بابت حضرت عرفانی صاحبؓ بیان کرتے ہیں: ’’انہی ایام میں جبکہ آپؑ اسلام کی تائید میں اور مذاہب باطلہ ،مخالف اسلام کی تردید میں اخبارات میں مضامین لکھ رہے تھے۔آپؑ قانون ڈاکخانہ جات کے ماتحت ایک مقدمہ کی لپیٹ میں آگئے۔یہ مقدمہ حضرت مسیح موعودؑ کی راست بازی اور صداقت شعاری کی ایک دلیل اور خدا تعالیٰ کی تائید اور نصرت کا ایک زبردست نشان ہے۔اس لئے کہ قبل از وقت آپؑ کو اﷲ تعالیٰ نے ایک رؤیا کے ذریعہ اطلاع دے دی تھی۔ میں نے آپؑ کے سوانح حیات کے سلسلہ میں آپؑ کی صداقت شعاری کے نظائر پیش کرتے ہوئے اسی کتاب…میں اس مقدمہ کے حالات بیان کر دیئے ہیں۔ کہ کس طرح پر رلیا رام نام ایک وکیل نے (جو اخبار وکیل ہندوستان کا مالک اور عیسائی تھا) حضرت مرزا صاحبؑ کے خلاف ڈاکخانجات کے قانون کے ماتحت مقدمہ بنوایا اور آپؑ نے اس مقدمہ میں اپنی راست بازی کا برملا اظہار دیا۔اور باوجودیکہ قانون پیشہ لوگ آپؑ کو صاف اور صحیح بیان نہ دینے کا مشورہ دیتے تھے مگر آپؑ نے پرواہ نہ کی۔
اس مقدمہ کے متعلق میرے مکرم و محترم بھائی مولوی فضل الدین صاحب نے بعض لوگوں کے اعتراض پر کہ ڈاکخانہ کا کوئی ایسا قاعدہ نہیں۔ تحقیقات کی اور اس تحقیقات کو سیرت المہدی کے حصہ دوم میں حضرت صاحبزادہ نے مشتہر کیا ہے۔ مولوی صاحب کہتے ہیں کہ مجھے اس اعتراض کی فکر تھی۔اور میں نے محکمہ ڈاک کے پرانے قوانین کی دیکھ بھال شروع کی تو 1866ء کے ایکٹ نمبر 14 دفعہ 16 و 56 اور گورنمنٹ آف انڈیا کے نوٹیفیکیشن نمبر 42 – 24مورخہ 7 ؍دسمبر 1877 ء دفعہ 43 میں صاف طور پر یہ حوالہ نکل آیا کہ فلاں فعل کا ارتکاب جرم ہےجس کی سزا یہ ہے۔یعنی وہی جو حضرت صاحب نے لکھی تھی۔اور اس پر مزید یہ علم ہواکہ ایک عینی شہادت اس بات کی مل گئی۔کہ واقعہ میں حضرت صاحب کے خلاف محکمہ ڈاک کی طرف سے ایسا مقدمہ ہوا تھا۔یہ شہادت شیخ نبی بخش صاحب وکیل گورداسپور کی شہادت ہے۔جو بہت پرانے وکیل اور سلسلہ احمدیہ کے مخالفین میں سے ہیں۔ انہوں نے لکھ کر دیا کہ ’’مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مرزا صاحب پر ڈاکخانہ والوں نے فوجداری مقدمہ دائر کیا تھا۔اور وہ پیروی کرتے تھے۔مرزا صاحب کی طرف سے شیخ علی احمد وکیل پیروکار تھے۔میں اور شیخ علی احمد کچہری میں اکٹھے کھڑے تھے۔جبکہ مرزا صاحب ان کو اپنا مقدمہ بتا رہے تھے۔خواہ مقدمہ کم محصول کا تھا۔یا لفافہ میں مختلف مضامین کے کاغذات ڈالنے کا تھا۔بہر حال اس قِسم کا تھا۔چونکہ میں نے پیروی نہیں کی۔ اس لئے دفعہ یاد نہیں رہی۔فقط نبی بخش 22؍جنوری 1924ء‘‘
میں اس مقدمہ کی واقعیت کے لئے کسی ثبوت کی ضرورت نہ سمجھتا تھا۔مگر یہ شہادت خدا تعالیٰ نے ایسے آدمی کے ہاتھ سے پیدا کر دی ہے۔جس کو اس سلسلہ سے عداوت اور مخالفت رہی ہے۔ اس لئے میں نے اس کو اپنی تالیف میں لے آنا ضروری سمجھا۔و اِلّا مجھے شیخ علی احمد صاحب وکیل نے خود اس مقدمہ کے واقعات سنائے تھے۔انہوں نے کہا کہ یہ مقدمہ آخری دفعہ مقام دینہ نگر پیش ہوا تھا۔اور میں نے ہرچند چاہا کہ مرزا صاحب انکار کر دیں کہ یہ خط اس میں نہیں رکھا تھا۔میرے نزدیک اس کا کوئی ثبوت نہیں ہو سکتاتھا کہ وہ خط اسی پیکٹ میں سے برآمد ہوا۔اور اس کے متعلق شہادت قوی نہ تھی۔ بوجہ اختلاف مذہب خود لالہ رلیا رام کی شہادت قابل پذیرائی نہ تھی۔میں جس قدر اصرار کرتا تھا۔اسی قدر مرزا صاحب انکار کرنے سے انکار کرتے تھے۔میں نے انکو ہر چند ڈرایا کہ نتیجہ اچھا نہ ہو گا۔اور خواہ نخواہ ایک معزز خاندان پر فوجداری مقدمہ میں سزا پانے کا داغ لگ جائے گا۔مگر انہوں نے میری بات نہ مانی۔اور میں نے یہ سمجھ کر کہ میری پیروی میں مقدمہ ہارا گیا۔تو بڑی بدنامی خاندان کی طرف سے ہو گی۔اس لئے حضرت مرزا صاحب کے انکار نہ کرنے کے اصرار سے فائدہ اٹھا کر میں نے کہا کہ اگر آپؑ میری بات نہیں مانتے تو میں پیروی نہیں کرتا۔میرا خیال یہ تھا کہ مقدمہ میں سزا ہو گی اور الزام ان پر رہ جائے گا کہ وکیل کے مشورہ کے خلاف عمل کرنے سے ایسا ہوا۔میں اس طرح اپنی ناراضگی کا اظہار کر کے پیش نہ ہوا۔اور میری غیرحاضری میں مقدمہ پیش ہو گیا۔میری حیرت کی حد نہ رہی۔جب مقدمہ خارج ہو گیا۔
مجھے افسوس ہوا کہ میں مفت میں کامیابی کا حقدار ہوتا۔مگر اب وقت گزر گیا تھا۔شیخ علی احمد صاحب اس واقعہ کو بیان کرتے وقت حضرت صاحبؑ کی مستقل مزاجی اور راست بازی کی بے حد تعریف کرتے تھے۔ان کے تعلقات اس خاندان سے مرتے دم تک رہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام عام طور پر ہر مقدمہ میں ان سے مشورہ لینا پسند فرمایا کرتے تھے اور ان کا احترام کرتے تھے۔‘‘
(حیات احمدؑ جلد اول صفحہ 362-364)
٭…٭…٭