حضرت لوط علیہ السلام
گڑیا، احمد اور محمود دادی جان کے کمرے میں داخل ہوئے۔ دادی جان تلاوت کررہی تھیں۔ وہ خاموشی سے تلاوت ختم ہونے کا انتظار کرنے لگے۔جب انہوں نے اپنی تلاوت مکمل کرلی تو احمد نے کہا: دادی جان ہمیں کوئی کہانی سنائیں۔
دادی جان : میں ابھی جن آیات کی تلاوت کر رہی تھی ان میں حضرت لوطؑ کے بارے میں ذکر تھا تو چلو ان ہی کے بارےمیں کہانی سناتی ہوں۔
گڑیا: ہماری استانی نے بتایا تھا کہ حضرت لوطؑ کی قوم پر پتھروں کی بارش ہوئی تھی۔
محمود بولا: ہیں!دادی جان یہ پتھروں کی بارش بھی ہوتی ہے؟
دادی جان :حضرت لوطؑ حضرت ابراہیمؑ کے تابع نبی تھےجنہوں نے حضرت ابراہیمؑ کے آگ سے زندہ نکل آنے کا معجزہ دیکھ کر دین ابراہیم قبول کیا تھا۔آپؑ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے۔آپؑ کے والد کا نام ہاران تھا اور آپ حضرت ابراہیمؑ کے زمانے میں ہی سدوم کی طرف نبی بنا کر بھیجے گئے تھے۔ آپؑ عراق سے اس علاقے میں آئے تھے۔ سدوم کی بستی بحیرۂ مردار کے ساحل پر واقع تھی۔ سدوم کے لوگ مسافروں کو لوٹنے کے عادی تھے اور ہمسایوں کو بھی دکھ دیتے تھے جس کی وجہ سے ان کی دوسرے علاقوں کے بادشاہوں سے لڑائی رہتی تھی۔ایک دفعہ ایک لڑائی میں انہوں نے حضرت لوطؑ کو بھی قیدی بنا لیا۔ حضرت ابراہیمؑ کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے 318 بہادروں کے ساتھ ان کا تعاقب کیا اور حضرت لوطؑ کو سدوم اور عمورہ کے باقی سب مردوں اور عورتوں کو جنہیں وہ پکڑ کرلے گئے تھے چھڑا کر لے آئے اور مال بھی انہوں نے واپس کردیا۔ لیکن سدوم کے لوگ اپنی بدکرداری اور ظلم میں بہت بڑھ چکے تھے۔ چوری ڈاکہ ان کا عام معمول تھا۔ ان کی مجالس میں ہمیشہ بدی کے تذکرے ہوتے تھے۔ بےحیائی اور بے راہ روی ان کی فطرت میں رچ بس گئی تھی۔
احمد:پھر کیا ہوا ؟
دادی جان:سب سے پہلے تو انہوں نے سب نبیوں کا انکار کیا اور پھر حضرت لوطؑ کا بھی انکار کردیا جو کہ ایک رسول بنا کر بھیجے گئے تھے۔حضرت لوطؑ اپنی قوم کی خرابیاں دیکھ کر شدید تکلیف محسوس کرتے تھے۔ آپ انہیں تبلیغ کرتے رہتے اور خدا تعالیٰ کی پکڑ سے ڈراتے رہتے لیکن الٹا وہ حضرت لوطؑ کو تنگ کرتے۔ کہتے یہ دیکھو! بڑا ہم کو نصیحت کرتا ہے۔ بڑا پاکباز بنا پھرتا ہے۔ کہتا ہے کہ ہمارے عمل گندے ہیں۔ اے لوط! اگر تو باز نہ آیا تو ہم تجھے اور تیرے ساتھیوں کو اپنی بستی سے نکال دیں گے۔ پھر انہوں نے آپ کو یہ دھمکی بھی دے رکھی تھی کہ باہر سے بھی کوئی مہمان تمہارے پاس نہیں آنا چاہیے کیونکہ عین ممکن ہے کہ تم بیرونی لوگوں کے ساتھ مل کر ہمارے خلاف کوئی منصوبہ بنا لو اس لیے تمہارے گھر میں کوئی مہمان باہر سے نہ آئے۔ حضرت لوطؑ نے کہا بے شک نکال دو۔میں تمہارے اعمال کو بڑی نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔ آپؑ نے خدا تعالیٰ سے دعا کی کہ خدایا!مجھ کو اور میرے خاندان کو ان کے برے اعمال سے بچانا۔
گڑیا :پھر کیسے دعا قبول ہوئی ان کی؟
دادی جان :آخر خدا تعالیٰ نے اس ظالم قوم کو سزا دینے کا ارادہ کیا اور حضرت ابراہیمؑ کو بھی اس بات کی خبر دی کہ اب اس قوم پر تباہی آنے والی ہے۔ حضرت ابراہیمؑ چونکہ حضرت لوطؑ سے محبت کرتے تھے اور جانتے تھے کہ آپ سدوم میں تبلیغ کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں اس لیے اس خبر کو سن کر پریشان ہونا ایک طبعی بات تھی۔ حضرت ابراہیمؑ اسی پریشانی کی بنا پر خدا تعالیٰ کے حضور دعاؤں میں مصروف ہو گئے۔ آپ نے عرض کی کہ اے اللہ سدوم میں لوطؑ اور اس کے ماننے والے نیک لوگ بھی ہیں۔ کیا اس کے باوجود عذاب آ جائے گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر وہاں پچاس آدمی بھی نیک اور صالح ہوں تو میں اس بستی کو عذاب سے بچا لوں گا۔ حضرت ابراہیمؑ نے عرض کی اگر چالیس ہوں تو؟ اللہ نے فرمایا کہ تب بھی بچا لوں گا۔ حضرت ابراہیمؑ اس تعداد کو کم کرتے کرتے دس تک لے آئے خدا تعالیٰ نے فرمایا: ٹھیک ہے اگر دس افراد بھی نیک ہوں تو میں اس بستی کو بچا لوں گا۔ اس پر حضرت ابراہیمؑ سمجھ گئے کہ اس بستی میں دس نیک لوگ بھی موجود نہیں ہیں اور سدوم کی تباہی اب لازم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ سے فرمایا: اے ابراہیمؑ! ہم اس قوم کے لیے تیرے درد مند دل کی قدر کرتے ہیں لیکن اس دعا کو چھوڑ دے کیونکہ اس قوم کی تباہی کا فیصلہ ہو چکا ہے اور اب اس عذاب کو کوئی بھی ٹال نہیں سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت لوطؑ کو بھی بتا دیا کہ ان کی قوم کی تباہی کا وقت قریب ہے۔
پھر کیا ہوا دادی جان! محمود نے حیرانی سے پوچھا۔
دادی جان: جی بیٹا ! پھر کچھ مہمان حضرت لوطؑ سے ملنے کے لیے اور یہ بات بتانے کے لیے حضرت لوطؑ کے گھر آئے۔ جب بستی والوں کو معلوم ہوا تو وہ بہت خوش ہوئے کہ انہیں حضرت لوطؑ کو تنگ کرنےکا موقع مل گیا اور بستی کے لوگ جلوس کی شکل میں حضرت لوطؑ کے گھر آ پہنچے اور شور کرنے لگے۔ حضرت لوطؑ نے ایک بار پھر انہیں سمجھانے کی کوشش کی۔ لیکن انہوں نے ایک نہ سنی۔ ان مہمانوں نے حضرت لوطؑ کو دکھی دیکھ کر کہا آپ فکر نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ اس قوم کی تباہی کا فیصلہ کر چکا ہے اور ہم یہی بات آپ کو بتانے آئے تھے۔اب آپ اس بستی سے ہجرت کی تیاری کریں اور رات کویہاں سے نکل جائیں ۔یہ بستی صبح کے وقت تباہ کر دی جائے گی۔ حضرت لوطؑ کی بیوی نے بھی آپ کے ساتھ جانےسے انکار کر دیا۔ رات کو جب حضرت لوطؑ چند لوگوں کے ساتھ بستی سے چلے گئے تو ایک شدید زلزلے نے سدوم کی پوری بستی کو زیر و زبر کر دیا یعنی اوپر نیچے کردیا۔زلزلے کی وجہ سے بڑے بڑے پتھر ہوا میں اڑ رہے تھے۔ ایسا لگتا تھا جیسے پتھروں کی بارش ہو رہی ہو اور کچھ ہی دیر میں یہ بستی مٹی کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکی تھی۔ ان پر آگ والے پتھر بھی گرے تھے۔ ایک نئی تحقیق میں یہ بتایا گیا ہے کہ ان پر شہابِ ثاقب گرا تھا۔
گڑیا: دادی جان اس میں کیا سبق ہے۔
دادی جان: اس میں یہ سبق ہے کہ جہاں اللہ تعالیٰ ہم سے خوش ہوکر انعام دیتا ہے وہیں ہم سےناراض ہونے کی صورت میں اللہ تعالیٰ سزا بھی دیتا ہے۔ اس لیےہمیں ہر وقت نیک کام کرتے رہنا اور برے کاموں سے بچتے رہنا چاہیے۔
گڑیا: ان شاء اللہ۔ اب ہم سونے چلتے ہیں۔ کیونکہ صبح سکول بھی تو جاناہے۔
(درثمین احمد۔ جرمنی)