متفرق مضامین

حضرت ہاجرہ ؑکون تھیں؟ حدیث مَا کذب ابراھیم اِلّا ثلاث پر ایک تحقیق (قسط سوم۔ آخر)

(ڈاکٹر محمد داؤد مجوکہ۔جرمنی)

اسلامی روایات

قریش میں حضرت ہاجرہ کی نسل سے ہونے کے سبب آپؓ کے متعلق بعض روایات کا پایا جانا ایک طبعی امر تھا۔ چنانچہ ذیل میں اسلامی روایات پر تفصیلی بحث کی گئی ہے ۔

قرآن کریم

قرآن کریم نے حضرت ہاجرہ کے متعلق کوئی تفصیل بیان نہیں فرمائی کہ آپ کون تھیں ،کہاں سے آئیں یا آپ کی کیا حیثیت تھی۔ آپ کا نام بھی قرآن کریم میں موجود نہیں ۔حضرت ابراہیمؑ کی قرآن کریم میں مذکور دعاؤں سے البتہ معلوم ہوتا ہے کہ آپؑ نے اپنی اولاد کو ایک بے آب و گیاہ جگہ پر آباد کیا تھا (سورۃ ابراہیم 14:۔38تا 40):

رَّبَّنَآ إِنِّىٓ أَسۡكَنتُ مِن ذُرِّيَّتِى بِوَادٍ غَيۡرِ ذِى زَرۡعٍ عِندَ بَيۡتِكَ اَلۡمُحَرَّمِ

(سورۃ ابراہیم14:38)

اےہمارے رب ! میں نے اپنی اولاد ایک بنجر وادی میں تیرے پاک گھر کے پاس بسا دی ہے۔

اس جگہ مزید تفصیل بیان نہیں کی گئی کہ یہ بنجر وادی کہاں واقع تھی نیز یہ ذکر بھی اس جگہ نہیں کیا گیا کہ اولاد کے ساتھ حضرت ہاجرہ بھی اس وادی میں آباد ہوئی تھیں یا نہیں، تاہم خدا کے گھر اور بے آب و گیاہ وادی سے اسلامی روایات کے مطابق مکہ مراد ہے۔ نیز ان روایات کے مطابق حضرت ہاجرہؓ بھی حضرت اسماعیلؑ کے ساتھ اس جگہ رہائش پذیر ہوئیں ۔ حضرت ہاجرہ کے متعلق اس سے زیادہ معلومات قرآن کریم میں نہیں ملتیں۔ چنانچہ آپ کے بارہ میں کم و بیش تمام روایات کی بنیاد چند احادیث پر ہے۔

پہلی روایت

ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آنجنابؐ نے اہل مصر کے ساتھ نیک سلوک کرنے کی یوں وصیت فرمائی:

إِنَّكُمْ سَتَفْتَحُونَ أَرْضًا يُذْكَرُفِيهَاالْقِيرَاطُ فَاسْتَوْصُوا بِأَهْلِهَا خَيْرًا فَإِنَّ لَهُمْ ذِمَّةً وَرَحِمًا

(مسلم، صحیح کتاب فضائل الصحابہ، باب وصیۃ النبیؐ باھل مصر۔ حدیث 2543۔)

یعنی تم ایک ملک فتح کرو گے جس میں قیراط بولا جاتا ہے۔ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنا کیونکہ ان کا ذمہ کا حق اور رحم کا تعلق ہے۔ مصر سے آپؐ کا یہ رحمی تعلق کیا اور کیوںکر ہے؟ اس ضمن میں بعد کی اسلامی روایات میں بتایا گیا ہے کہ ام اسماعیلؑ، حضرت ہاجرہ، مصر سے تھیں۔(الطبری، تاریخ الرسل و الملوک، جلد ۱، صفحہ ۲۴۷۔) لیکن یہ واحد تشریح نہیں۔ بعض کے خیال میں حضرت ہاجرہ عرب تھیں اور بنی جرہم سے تعلق رکھتی تھیں۔

(ابن عساکر، تاریخ دمشق، جلد 70، صفحہ 144۔ کانت جاریۃ من جرھم۔)

چنانچہ ان لوگوں کے خیال میں اہل مصر کے ساتھ جس رحمی تعلق کا ذکر ہے اس سے مراد حضرت ماریہؓ قبطیہ ہیں۔

( ابن عساکر، تاریخ دمشق، جلد 70، صفحہ 146۔)

دوسری روایت

دوسری روایت حضرت ابو ھریرۃؓ کی ہے جو مثلاً بخاری کتاب الانبیاء میں یوں بیان ہوئی ہے:

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَحْبُوبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ رضى اللّٰه عَنْهُ قَالَ لَمْ يَكْذِبْ إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلاَمُ إِلاَّ ثَلاَثَ …وَقَالَ بَيْنَا هُوَ ذَاتَ يَوْمٍ وَسَارَةُ إِذْ أَتَى عَلَى جَبَّارٍ مِنَ الْجَبَابِرَةِ فَقِيلَ لَهُ إِنَّ هَا هُنَا رَجُلاً مَعَهُ امْرَأَةٌ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ فَسَأَلَهُ عَنْهَا فَقَالَ مَنْ هَذِهِ قَالَ أُخْتِى فَأَتَى سَارَةَ قَالَ يَا سَارَةُ لَيْسَ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ مُؤْمِنٌ غَيْرِى وَغَيْرُكِ وَإِنَّ هَذَا سَأَلَنِى فَأَخْبَرْتُهُ أَنَّكِ أُخْتِى فَلاَ تُكَذِّبِينِى فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا فَلَمَّا دَخَلَتْ عَلَيْهِ ذَهَبَ يَتَنَاوَلُهَا بِيَدِهِ فَأُخِذَ فَقَالَ ادْعِى اللّٰهَ لِى وَلاَ أَضُرُّكِ فَدَعَتِ اللّٰهَ فَأُطْلِقَ ثُمَّ تَنَاوَلَهَا الثَّانِيَةَ فَأُخِذَ مِثْلَهَا أَوْ أَشَدَّ فَقَالَ ادْعِى اللّٰهَ لِى وَلاَ أَضُرُّكِ فَدَعَتْ فَأُطْلِقَ فَدَعَا بَعْضَ حَجَبَتِهِ فَقَالَ إِنَّكُمْ لَمْ تَأْتُونِى بِإِنْسَانٍ إِنَّمَا أَتَيْتُمُونِى بِشَيْطَانٍ فَأَخْدَمَهَا هَاجَرَ فَأَتَتْهُ وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّى فَأَوْمَأَ بِيَدِهِ مَهْيَا قَالَتْ رَدَّ اللّٰهُ كَيْدَ الْكَافِرِ أَوِ الْفَاجِرِ فِى نَحْرِهِ وَأَخْدَمَ هَاجَرَ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ تِلْكَ أُمُّكُمْ يَا بَنِى مَاءِ السَّمَاءِ.

(بخاری، صحیح، کتاب احادیث الانبیاء، باب قول اللہ تعالیٰ و اتخذ اللہ ابراہیم خلیلا۔ حدیث ۳۳۵۸۔)

یعنی ابراہیمؑ نے تین دفعہ کے سوا کبھی “کذب” [حاشیہ: یہاں ‘کذب ’سے کیا مراد ہے؟ یہ ایک الگ بحث ہے جس میں جانا اس وقت ضروری نہیں۔ علماء نے جھوٹ سے لے کر توریہ ، تقیہ اور اخفا تک ہر طرح کے خیالات پیش کیے ہیں۔ اس پر مزید بحث آگے تجزیہ والے حصہ میں کی جائے گی۔]نہیں بولا…ایک دفعہ آپؑ اور سارہ ایک جابر بادشاہ کے علاقہ میں گئے ۔اُسے بتایا گیا کہ اس شخص کی بیوی بڑی خوبرو ہے۔ اس بادشاہ نے پتہ کروایا کہ یہ کون ہے تو آپٖؑ نے فرمایا کہ میری بہن۔ پھر آپ سارہ کے پاس آئے اور انہیں کہا کہ دنیا میں تیرے اور میرے سوا کوئی مومن نہیں، مجھ سے پوچھا گیا تھا تو میں نے بتایا کہ یہ میری بہن ہے پس میری تکذیب مت کرنا۔ چنانچہ سارہ کو بادشاہ کے پاس لے جایا گیا۔ جب بادشاہ ان کو ہاتھ لگانے لگا تو اسے کسی آفت نے پکڑ لیا ۔ اس نے انہیں دعا کرنے کو کہا اور وعدہ کیا کہ انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا۔ انہوں نے دعا کی تو اسے چھوڑ دیا گیا۔ اس نے دوسری دفعہ پھر دست درازی کی کوشش کی تو پھر پہلے کی طرح یا اس سے بھی زیادہ شدت سے پکڑا گیا۔ آخر اس نے اپنے پہرےداروں سے کہا کہ تم لوگ میرے پاس انسان نہیں بلکہ کسی شیطان کو لائے ہو۔ چنانچہ انہیں ہاجرہ بطور خادمہ دی اور واپس بھیج دیا۔ سارہ حضرت ابراہیمؑ کے پاس واپس آئیں تو آپؑ عبادت کر رہے تھے۔ آپؑ نے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ کیا ہوا؟ سارہ نے جواب دیا کہ اللہ نے کافر کو اپنے منصوبے میں ناکام رکھا۔ اور ہاجرہ بطور خادمہ دی۔ حضرت ابوھریرۃؓ نے فرمایا کہ اے آسمانی پانی کے بیٹو! یہی تمہاری ماں ہے۔

یہ روایت ، جیسا کہ اسناد سے ظاہر ہے، مرفوع نہیں ہے بلکہ حضرت ابوھریرۃؓ کا ذاتی بیان ہے ۔یاد رکھنا چاہیےکہ حضرت ابو ھریرۃؓ یہودی روایات سے خوب واقف تھے ۔ ان کے متعلق حضرت کعب الاحبارؓ، جو کہ یہودی علماء میں سے مسلمان ہوئے تھے ، کا کہنا تھا کہ میں نے تورات پڑھے بغیر اس کا اتنا علم رکھنے والا شخص ابو ھریرۃؓ کے سوا نہیں دیکھا۔(ابن حجر العسقلانی، الاصابہ ، صفحہ ۱۷۹۱۔)پس ان کا تورات کا ایک قصہ بیان کرنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔

بخاری کتاب النکاح میں یہی واقعہ ایک اور طریق سے بھی بیان ہوا ہے۔(بخاری، صحیح، کتاب النکاح، باب اتخاذ السراری، 5084۔)ان ہی ایوب کی محمد ابن سیرین سے اور ان کی حضرت ابوھریرۃؓ سے بیان کی گئی اس روایت میں بات آنجنابؐ کی طرف منسوب کی گئی ہے۔ دوسرا قابل ذکر فرق یہ ہے کہ اوپر والی روایت کے و اخدمھا ھاجر اور اخدمنی ھاجر کے مقابل پر پہلے فأطاھا ھاجر اور پھر واخدمنی آجر بتایا گیا ہے۔ یہ بظاہر معمولی مگر درحقیقت ایک اہم اشارہ ہے۔ بخاری میں یہ قصہ ایک تیسرے طریق پر بھی مذکور ہے۔ اس جگہ سند پھر حضرت ابو ھریرۃؓ پر رک گئی ہے۔ نیز اس جگہ اعطوھا آجر ہو گیا ہے ۔ انہی الفاظ کے ساتھ بخاری میں یہ روایت ایک چوتھے طریق پر بھی بیان ہوئی ہے لیکن یہ روایت پھر سے مرفوع ہے۔

(بخاری، صحیح، کتاب الھبۃ، باب اذا قال اخدمتک ھذہ الجاریۃ۔ 2635۔)

چنانچہ اس قصہ کی مختلف روایات کا جائزہ لینا مفید ہو گا۔ یہ جائزہ دو الگ الگ طریق پر لیا گیا ہے۔ اول اسناد کی رو سے۔ دوسرے متون کی رو سے۔

شجرہ اسناد

اولین زمانہ کی قدیم روایات کو جمع کیا جائے تو یہ صورتحال سامنے آتی ہے:

(جدول 1: حضرت ابراہیمؑ کے مصر جانے کے متعلق حضرت ابوھریرۃؓ سے مروی روایات )

اگر ان روایات کے شجرہ کو دیکھا جائے تو مزید امور واضح ہوتے ہیں۔
(جدول 2: ابوھریرۃؓ کی روایت کا شجرہ۔ غیر مرفوع روایات کے آخری راوی کی نشاندہی سرمئی رنگ کے سانچہ سے کی گئی ہے)

اس شجرہ سے ظاہر ہے کہ حضرت ابو ھریرۃؓ سے یہ قصہ تین تابعین سے مروی ہے، عبد الرحمٰن الاعرج ، ابن سیرین اور مسیب ۔ ان میں سے مسیب سے روایت غیر مرفوع ہے جبکہ عبد الرحمٰن الاعرج سے مرفوع۔ تیسرے راوی یعنی محمد ابن سیرین سے یہ روایت پھر تین طریق پر ہم تک پہنچی ہے، ایوب، ابن عون اور ھشام۔ ان میں سے ابن عون سے روایت غیر مرفوع اور ھشام سے مرفوع ہے ۔جبکہ ایوب سخستانی کی روایت پھر آگے تین ذرائع سے ہم تک منتقل ہوئی ہے، حماد، جریر اور معمر بن راشد سے۔ یہاں بھی دو غیر مرفوع ہیں اور ایک مرفوع۔ یعنی ہر مرحلہ پر دو تہائی روایات غیر مرفوع ہیں۔ پس غالباً اصل روایت غیر مرفوع ہی تھی لیکن ایک طرف ابو ذناد یا الاعرج نے اور دوسری طرف ھشام نے غلطی سے یا اندازہ لگا کر “عن النبیﷺ” کا اضافہ کیا ہے۔

اگر حضرت ابو ھریرۃؓ کی اصل روایت مرفوع ہوتی تو اکثر نچلے راوی بھی اس بات کو قائم رکھتے کیونکہ روایات کا سب سے اہم حصہ اس کا مرفوع ہونا ہی ہے۔ کوئی وجہ موجود نہیں کہ ایک مرفوع روایت کو کوئی نچلا راوی غیر مرفوع بتائے۔ جبکہ اس کے مقابل اپنی بات کو مضبوط بنیاد فراہم کرنے کے لیے اسناد کو بہتر بنانے کی ضرورت اور وجہ موجود ہے ۔ خواہ ایسا ارادی طور پر کیا گیا ہو یا غیر ارادی طور پر۔ اسی طرح کسی راوی کا آپؓ سے سنی ہوئی بہت سی روایات کے ضمن میں اس روایت کے متعلق غلطی سے یہ خیال کر لینا کہ یہ بھی مرفوع تھی بھی ممکن ہے۔ پس قرین قیاس یہی ہے کہ ایک غیر مرفوع روایت بعد میں مرفوع قرار دے دی گئی ہو نہ کہ اس کے برعکس۔ چونکہ مرفوع روایات زیادہ اہم ہوتی ہیں اس لیے یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ بعد میں آنے والے مصنفین نے مرفوع روایات کو نقل کرنا زیادہ ضروری سمجھا اور بعض صورتوں میں صرف مرفوع روایت ہی نقل کی ، حالانکہ غیر مرفوع روایات بھی موجود تھیں، اس لیے یہ تائثر پیدا ہوتا ہے کہ مرفوع روایات کی کثرت ہے جبکہ اسناد کا شجرہ دیکھنے سے واضح ہوتا ہے کہ اکثر روایات غیر مرفوع ہیں۔

راویوں کی قدامت کو جانچا جائے تو قدیم ترین راوی، جن کی روایت براہ راست ہم تک پہنچی ہے، معمر بن راشد ہیں (متوفی ۱۵۳ھ)۔ اور ان کی روایت بھی غیر مرفوع ہے۔ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ معمر نے یہ روایت اپنی یادداشت سے بیان نہیں کی بلکہ اس روایت میں “ارنا ’’کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ معمر نے یہ روایت اپنی کتاب میں لکھ رکھی تھی چنانچہ اس میں غلطی کا امکان مزید کم ہے۔

ایک اور امر جو روایت کے مرفوع ہونے میں غلطی کے امکان کو بڑھانے والا تھا یہ ہے کہ اس کی ایک شکل یوں بیان کی گئی ہے: “ان ابراہیم صلی اللہ علیہ وسلم لم یکذب…”(ابو داؤد، سنن، کتاب الطلاق، باب فی الرجل یقول لامراتہ یا اختی۔ ۲۲۱۲۔)حضرت ابراہیمؑ کے نام کے ساتھ “صلی اللہ علیہ وسلم ’’لگنے کی وجہ سے اس بات کا امکان بڑھ جاتا ہے کسی نچلے راوی یا کاتب نے غلطی سے “ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم: لم یکذب ابراہیم …” سمجھ لیا ہو۔ بہرحال اسناد کا جائزہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ قصہ غیر مرفوع ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ زور کے ساتھ اس روایت کا متن یہ ظاہر کر رہا ہے۔

متون کا جائزہ

اگر اوپر بیان کردہ روایات کے متون کے مختلف ٹکڑے کیے جائیں تو یہ صورت حال سامنے آتی ہے:

(جدول 3: حضرت ابراہیمؑ کے مصر جانے کے متعلق قدیم روایات کے متون)

روایات کا تقابلی جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ الاعرج کی روایت میں بہت تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ مثلاً اوپر بیان کردہ شمار 6 یعنی سارہ “وضو کر کے نماز میں کھڑی ہو گئیں اور کہنے لگیں کہ اے اللہ! اگر میں تجھ پر ایمان لائی ہوں اور اپنی عفت کی حفاظت کرتی رہی ہوں تو مجھ پر کافر کو مسلط مت کر”یہ بات صرف الاعرج کی بیان کردہ روایات میں ہے (جدول ۱ کی روایات ۱، ۲، اور ۳)۔ یہاں ضمناً یہ بات بھی قابل غور ہے کہ گزشتہ ادیان میں اس طرح وضو اور نماز کا تصور ہی موجود نہیں تھا جیسا کہ اسلام نے پیش کیا ہے۔ اگر یہ حضرت ابراھیمؑ کی سنت ہوتی تو کسی نہ کسی شکل میں بنو اسماعیل یا بنو اسحاق میں جاری رہتی۔ کم از کم یہود کے انبیاء میں تو ضرور اس کا نشان ملنا چاہیے تھا۔

ایک بات یہ بیان کی گئی ہے کہ جب بادشاہ کو سزا ملی تو وہ تکلیف کی شدت سے “رَكَضَ بِرِجْلِهِ” پاؤں مارتا تھا ۔ زیب داستان کے لیے بڑھائی گئی یہ بات بھی صرف الاعرج والی روایات میں بیان ہوئی ہے، باقی تمام روایات اس بارہ میں خاموش ہیں۔ قصہ میں ذکر ہے کہ بادشاہ کو بار بار سزا ملتی تھی اور پھر موقوف ہو جاتی تھی ۔ اس بات کا یہ تقاضہ تھا کہ اس کی وجہ بھی بتائی جائے کہ سزا موقوف کیوں ہوتی تھی؟ چنانچہ یہ جواز بھی صرف الاعرج کی روایات میں بتایا گیا ہے کہ اگر بادشاہ مر جاتا تو سارہ پر قتل کرنے کا الزام لگنا تھا اس لیے سارہ نے خود ہی بادشاہ کی سزا ختم کرنے کی بھی دعا کی تھی (جدول ۳ شمار ۸)۔

یہ تو تھے اضافے۔ اب دوسری طرف دیکھا جائے تو اس مختصر روایت میں ہاجرہ دیے جانے کا ذکر دو مرتبہ کیا گیا ہے۔ پہلی دفعہ جب بادشاہ نے سارہ کو ہاجرہ دی تو اس کا ذکر ہوا ہے: فَأَخْدَمَهَا هَاجَرَ۔ اور دوسری دفعہ جب سارہ نے حضرت ابراہیمؑ کو بتایا تو وہاں وَأَخْدَمَ هَاجَرَ آیا ہے۔چند سطور کے مختصر واقعہ میں اس بات کو دہرانے کی ضرورت نہیں تھی، چنانچہ الاعرج کی تینوں روایات میں دوسری دفعہ ہاجرہ کا ذکر غائب ہے اور یوں بلا ضرورت دہرائی ختم کی گئی ہے۔ اسی طرح ان روایات میں ایک نامعلوم لفظ “مھیا” بیان ہوا ہے جس کا ذکر ابن سیرین کی روایات میں ہے (جدول ۳ شمار ۱۳) اور اس کا مطلب کسی کو معلوم نہیں۔ یہاں پھر یہ لفظ الاعرج کی روایات میں سے نکال دیا گیا ہے۔ پس اس تجزیہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ الاعرج والی روایات میں متعدد جگہ پر کسی بات کی وضاحت کرنے کے لیے اضافے اور غیرضروری امور کو حذف کر کے روایت کے بیان میں روانی لانے اور بعض سوالوں کے جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ پس اس متعدد جگہ پر تحریف شدہ روایت کا مرفوع ہونا بھی ایسا ہی ایک اضافہ معلوم ہوتا ہے۔

متن پر سوالات

اس روایت کے متن پر متعدد سوالات بھی اٹھتے ہیں۔ پہلا سوال تو “کذب” کے متعلق ہے۔ اگرچہ شارحین نے اس کی توجیہات پیش کیں اور “کذب” کو اس جگہ جائز بیان کیا ہے لیکن یہی شارحین انہی کتب حدیث کی حضرت ابراہیمؑ کے متعلق دیگر روایات میں اسی “کذب ’’کو غلطی مانتے ہیں! چنانچہ بتایا گیا ہے کہ قیامت کے روز آپؑ اس لیے شفاعت کرنے سے انکار کر دیں گے کہ آپؑ کو اپنا “کذب” بولنا یاد آ جائے گا۔( بخاری ، صحیح، کتاب احادیث الانبیاء، باب یزفون، ۳۳۶۱۔) اگر یہ “کذب”کوئی غلط بات نہیں تھی تو پھر روز قیامت شفاعت سے انکار کیوں؟ اس تضاد کو جدید محققین نے بھی ا ُجاگر کیا ہے۔( Ben-Ari، The Stories about Abraham in Islam، صفحہ ۵۴۱۔ ۵۴۲۔) اس قصہ کی تشریح کرتے ہوئے یہ فتویٰ بھی دیا گیا ہے کہ ظلم سے بچنے کے لیے صاف جھوٹ بولنا نہ صرف جائز بلکہ واجب ہے یہاں تک کہ جھوٹی قسم بھی اٹھائی جا سکتی ہے!( العینی، عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری، جلد ۱۵، صفحہ ۳۴۳۔ کتاب احادیث الانبیاء، ۳۳۵۸۔ و اتفق الفقہاء علی ان الکذب جائز بل واجب فی بعض المقامات کما انہ لو طلب ظالم ودیعۃ لیأخذھا غصباً وجب علی المودع عندہ ان یکذب بمثل: انہ لا یعلم مو ضعھا، بل یحلف علیہ۔) انا للہ و انا الیہ راجعون۔ یہ خیال تمام انبیاء اور ان کے مخلص پیروکاروں کی قابل تقلید مثالوں کے خلاف ہے جنہوں نے سچ بولنے کی پاداش میں ہی جام شہادت تک نوش کیا۔ حضرت ابراہیمؑ نہ صرف نبی تھے بلکہ آپؑ کے متعلق قرآن کریم میں بتایا گیا ہے کہ نبیوں میں سے بھی خاص طور پر صدیق نبی اور سچائی میں ایک خاص مقام رکھتے تھے:

وَاذۡكُرۡ فِى الۡكِتَـٰبِ إِبۡرَاهِيمَ‌ۚإِنَّهٗ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا

(مریم ۱۹: ۴۲۔)

ایک عام مومن سے بھی “قول سدید”کی توقع کی جاتی ہے ، پس “کذب”کی اس جگہ “توریہ ’’یا “تقیہ ’’وغیرہ جیسی تشریحات کا آپؑ کے متعلق گمان بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اگر بفرض محال یہ چیزیں کسی کم درجہ کے مسلمان کے لیے جائز بھی ہوں تو انبیاء کے لیے تو ہرگز جائز خیال نہیں کی جا سکتیں چہ جائیکہ حضرت ابراہیمؑ ایسے اولوالعزم صدیق نبی کے لیے۔
دوسرا سوال اس قصہ پر یہ ہے کہ اس میں حضرت ابراہیمؑ کی غیرت پر سخت خطرناک حملہ کیا گیا ہے۔ حضرت ابراہیمؑ نے یہ کیسے گوارا کر لیا کہ آپؑ کی بیوی جابر بادشاہ کے قبضہ میں چلی جائے اور محض اپنی جان بچانے کے لیے اسے بہن قرار دے دیا![حاشیہ: یہ ایسی واضح اور غیر معقول بات ہے کہ غیر مسلم محققین نے بھی یہ سوال اٹھایا ہے، گو انہوں نے بائیبل کے حوالہ سے یہ بات کی ہے تاہم اس روایت پر بھی یہی اعتراض وارد ہوتا ہے۔Cheryl Exum ، Fragmented Women، صفحہ ۱۵۶۔پر لکھتی ہیں کہ بائیبل کے قصہ سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ {نعوذ باللہ}ابراہیمؑ کو یہ فکر نہیں تھی کہ ان کی بیوی دوسرے کے حرم میں جائے گی تو اس کے ساتھ کیا ہو گا، بلکہ اپنی جان کی فکر تھی۔ اور اسے اپنی بہن قرار دے کر تو انہوں نے اس بات کو یقینی بنا دیا کہ ضرور ان کی بیوی دوسرے کے حرم میں جائے۔ بادشاہ نے سارہ کو واپس کر دیا حالانکہ اسے دھوکا دینے کی پاداش میں ابراہیمؑ کو سزا دینی چاہیےتھی ۔]کذب کی جو مرضی توجیہ کر لی جائے ، سارہ کو بہن بتانے کا نتیجہ یہی ہونا تھا کہ مصری بادشاہ سارہ پر قبضہ کر لیتا، جیسا کہ اس نے کر بھی لیا۔ ایک عام آدمی بھی اپنی بیوی کو کسی کے قبضہ میں جانے دینے کا خیال نہیں کر سکتا کجا یہ کہ حضرت ابراہیمؑ جیسے انسان کی نسبت ایسی حرکت متصور کی جائے۔

حیرت ہے کہ شارحین لکھتے ہیں کہ وہ جابر بادشاہ کسی پسندیدہ عورت کے متعلق معلوم کرتا کہ اس کا خاوند ہے تو اسے غیرت آتی اور وہ اسے قتل یا قید کر لیتا تھا ، مگر حضرت ابراہیمؑ کی غیرت کے متعلق خاموش ہیں۔ (العسقلانی، فتح الباری، جلد ۷، صفحہ ۶۵۰۔ ان علم ان لھا زوجاً فی الحیاۃ حملتہ الغیرۃ علی قتلہ و اعدامہ او حبسہ و اضرارہ۔)ایک دور کی کوڑی اس سلسلہ میں یہ لائی گئی ہے کہ اس بادشاہ کے دین میں بھائی کو بہن سے شادی کا پہلا حق تھا۔ اس لیے حضرت ابراہیمؑ نے جب سارہ کو بہن کہا تو مقصد یہ تھا کہ بادشاہ سارہ پر قبضہ نہ کر سکے۔( العسقلانی، فتح الباری، جلد ۷، صفحہ ۶۵۰۔)اس بات کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا کہ ایسا کہاں اور کب اور کس دین میں تھا بلکہ یہ ایک اور بے بنیاد و بلا ثبوت دعویٰ ہے۔ جب شارحین اور مفسرین کو کسی مسئلہ کا حل نہیں ملتا تو اس طریق پر خیالی حل نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے جس سے مضحکہ خیزکہانیاں اور عقائد بنتے ہیں ۔ یہ بات خلاف عقل بھی ہے کیونکہ اگر اس بادشاہ کے دین میں بھائی کو بہن سے شادی کا پہلا حق تھا تو پھر تو وہ ضرور ہی حضرت ابراہیمؑ کو قتل کروا کر سارہ پر قبضہ کر لیتا !جبکہ روایت کی ساری بنیاد ہی اس بات پر ہے کہ قتل سے بچنے کے لیے سارہ کو بہن کہا گیا ۔ دوسری من گھڑت تشریح یہ کی گئی ہے کہ وہ بادشاہ صرف شادی شدہ عورتوں پر دست درازی کرتا تھا چنانچہ سارہ کو بہن کہہ کر اسے بچانے کی کوشش کی گئی تھی۔(ملا علی قاری، شرح الشفاء، جلد ۲، صفحہ ۲۵۱۔ وقيل كان من عادة ذلك الجبار أن لا يتعرض إلا لذات الأزواج ولذلك قال الخليل لها أن يعلم أنك أمرأتي يغلبني عليك۔)یہ بات بھی غیر معقول ہونے کے علاوہ روایت کے ہی خلاف ہے کیونکہ بہن کہنے پر ہی تو اس نے سارہ پر قبضہ کیا تو یہ شادی شدہ عورت پر دست درازی کیسے ہوئی؟

تیسرا سوال یہ ہے کہ ان روایات میں بعض جگہوں پر حضرت ہاجرہ کا نام “اجر” بتایا گیا ہے۔ درحقیقت اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک اسرائیلی قصہ ہے۔ حضرت ہاجرہ کا نام عبرانی لفظ “ہاجر” سے مدراش میں یوں اخذ شدہ بیان کیا گیا ہے : “ہ ۔اجر’’ (ה-אגר) ۔ عبرانی زبان میں یہ ایک بامعنی بات ہے جس کا مطلب ہوا : “یہ اجر ’’۔ جب بادشاہ کو تکلیف سے نجات ملی تو اس نے بطور بدلہ یا اجر یہ لونڈی دی۔ اس کے مقابل پر عربی میں “ل ’’حرف جار ہے اور “ہاجرہ ’’عربی کے لفظ “اجر’’سے نہیں بلکہ متفقہ طور پر “ہجر”سے نکلا ہوا بیان کیا گیا ہے۔( ابن منظور، لسان العرب، جلد ۵۱، صفحہ ۴۶۲۰۔ زیر لفظ “ھجر”۔تاج العروس، جلد ۱۴، صفحہ ۴۰۷۔ زیر لفظ “ھجر”۔) اس حقیقت کے برخلاف ہاجرہ کا نام “اجر’’بتانا اس قصہ کے عبرانی الاصل ہونے کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ شاید اسی وجہ سے بخاری کتاب النکاح، باب اتخاذ السراریمیں ابن سیرین والی روایت میں دونوں نام اکٹھے بیان کیے گئے ہیں “ھاجر” بھی اور “اجر”بھی۔ حالانکہ دونوں بالکل مختلف الفاظ ہیں اور مختلف معنی رکھتے ہیں۔ شارحین ، جو کہ ایک ایک لفظ بلکہ حرف پر بحثیں کرتے ہیں، اس جگہ بالکل خاموش ہیں اور صرف یہ کہہ کر گذر جاتے ہیں کہ “ھاجر’’کو “اجر’’بھی کہا جاتا ہے۔(ابی یحییٰ، منحۃ الباری بشرح صحیح البخاری، جلد ۶، صفحہ ۴۳۹۔ العینی، عمدۃ القاری فی شرح صحیح بخاری، جلد ۱۵، صفحہ ۳۴۴۔)لیکن اس کی کوئی وجہ یا ثبوت پیش نہیں کرتے حالانکہ روایات میں نشاندہی کی گئی ہے کہ اصل لفظ اجر تھا نہ کہ ھاجر۔(ابن سعد، طبقات، جلد ۱، صفحہ ۳۲۔ کان محمد یقول: آجر بغیر ھاء، ام اسماعیل۔ یعنی ابن سیرین نے یہ وضاحت کی کہ ام اسماعیل کا نام آجر تھا، بغیر ھاء کے۔)

چوتھا سوال اس روایت پر یہ ہے کہ اس کے مطابق حضرت ابراہیمؑ نے سارہ کو فرمایا کہ تیرے اور میرے سوا دنیا پر کوئی مومن نہیں۔ حالانکہ قرآن کریم میں واضح ذکر ہے کہ حضرت لوطؑ جو کہ حضرت ابراہیمؑ کے بھتیجے تھے مومن تھے۔(فَـَٔامَنَ لَهُ لُوطٌ وَقَالَ إِنِّى مُهَاجِرٌ إِلَىٰ رَبِّىٓ‌ۖ إِنَّهُ ۥ هُوَ الۡعَزِيزُ الۡحَكِيمُ۔ العنکبوت ۲۹: ۲۷۔) اس کی پھر تشریح کی گئی ہے کہ “وجہ الارض”سے اس جگہ شاید صرف مصر مراد تھا۔(ابی یحییٰ ، منحۃ الباری بشرح صحیح البخاری، جلد ۶، صفحہ ۴۳۹۔ ) لیکن انہی روایات کے مطابق حضرت لوطؑ مصر میں بھی حضرت ابراہیمؑ کے ساتھ تھے۔(ابن کثیر، البدایہ و النھایہ، جلد ۱، صفحہ ۲۲۵۔)چنانچہ اس کی پھر یہ توجیہ پیش کی گئی ہے کہ ممکن ہے کہ حضرت لوطؑ، روایات کے برخلاف، ساتھ تو گئے مگر مصر میں داخل نہ ہوئے ہوں۔(العینی، عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری، جلد ۱۵، صفحہ ۳۴۴۔ یمکن ان سار معہ الی مصر و لم یدخلھا معہ۔)ایک تشریح یہ بھی کی گئی ہے کہ مراد مومن جوڑا تھا۔(ابن کثیر، البدایہ و النھایہ، جلد ۱، صفحہ ۲۲۵۔) لیکن روایات میں لیس الیوم مسلم غیری و غیرکآیا ہے۔ (ابو داؤد، سنن، کتاب الطلاق، باب فی الرجل یقول لامراتہ: یا اختی، ۲۲۱۲۔) یعنی پھر وہی “ممکن ہے” والے بے بنیاد دعاوی اور تطبیق کی ناکام کوشش ۔

پانچواں سوال یہ ہے کہ اس روایت میں بیان کردہ حساب بھی درست نہیں ۔ پہلی دفعہ حضرت ابراہیمؑ نے سورج کو ھذا ربی کہا، پھر چاند کو ھذا ربی کہا، پھر اپنے متعلق انی سقیم کہا ، پھر بت توڑنےپر بل فعلہ کبیرھم ھذا کہا اور پانچویں دفعہ سارہ کو اختی کہا۔ پس تین کذب کیسے ہوئے؟ اس تضاد کی طرف امام عسقلانی اور علامہ قرطبی نے بھی اشارہ کیا ہے۔(ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، زیر حدیث ھذا۔ جلد ۶، صفحہ ۶۴۸۔)شاید اسی لیے صحیح مسلم اور مسند احمد کی بعض روایات میں سورج اور چاند والی بات چھوڑ دی گئی ہے (مسلم، صحیح، کتاب الفضائل، باب فضائل ابراہیمؑ، ۶۱۴۵، نیز مسند احمد بن حنبل، مسند انس بن مالک، ۱۳۷۶۷۔) تاکہ تین کا عدد پورا کیا جا سکے۔ اس پر ظاہر ہے کہ یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ اگر انی سقیم کذب ہے تو ھذا ربی کیوں کذب نہیں؟ اس کا ایک جواب تو یہ ڈھونڈا گیا ہے کہ سورج چاند والی بات آپؑ کے بچپن کی بات ہے اس لیے وہ کذب میں شمار نہیں ہو گی۔(العینی، عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری، جلد ۱۵، صفحہ ۳۴۳۔ القسطلانی، ارشاد الساری لشرح صحیح البخاری، جلد ۷، صفحہ ۲۸۴۔العسقلانی، فتح الباری، جلد ۷، صفحہ ۶۴۸۔)حالانکہ اگر کذب کوئی غلط بات ہی نہیں تھی، جیسا کہ شارحین کا اصرار ہے، تو پھر بچپن یا جوانی کا کیا سوال؟ دوسرا جواب یہ دیا گیا ہے کہ ھذا ربی کہنا کذب نہیں ہے ، کیونکہ اس سے تنبیہ مقصود تھی۔(العینی، عمدہ القاری شرح صحیح بخاری، جلد ۱۵، صفحہ ۳۴۳۔ انما قال ذلک علی طریق الاحتجاج علی قومہ تنبیھاً علی ان الذی یتغیر لا یصلح للربوبیۃ۔) یہاں بھی یہ بات تمام پانچوں واقعات پر اطلاق پاتی ہے کہ ان سب کی ہی کوئی نہ کوئی توجیہ موجود ہے۔ ایسی دور کی کوڑیاں لانے سے ظاہر ہے کہ اس سوال کا بھی کوئی معقول اور واضح حل شارحین کو نہیں ملا۔

چھٹا سوال یہ ہے کہ ان روایات میں ایک مبہم لفظ حضرت ابراہیمؑ کی طرف منسوب ہے “مھیم”۔(مسلم، صحیح، کتاب الفضائل، باب من فضائل ابراہیمؑ، ۲۳۷۱۔) اس کا کیا مطلب ہے؟۔ دیگر روایات میں “مھیا” بھی بتایا گیا ہے۔ کہا گیا ہے کہ یہ لفظ پہلی مرتبہ حضرت ابراہیمؑ نے ہی استعمال کیا تھا۔(العینی، عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری، جلد ۱۵، صفحہ ۳۴۴۔العسقلانی، فتح الباری، جلد ۷، صفحہ ۶۵۲۔ ان الخلیل اول من قال ھذہ الکلمۃ۔)یعنی بالفاظ دیگر یہ عربی لفظ ہے ہی نہیں ورنہ عربی تو حضرت ابراھیمؑ سے پہلے بھی موجود تھی۔ پس یہ امر اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ روایت کسی غیر زبان سے آئی ہے اور اصل لفظ بگڑ کر “مھیم”یا “مھیا’’ بن گیا ہے۔
ساتواں سوال یہ ہے کہ روایت کے مطابق بادشاہ نے سارہ کے متعلق کہا کہ یہ تو کوئی شیطان ہے اور پھر ہاجرہ دے کر آپ کو حضرت ابراھیمؑ کے پاس واپس بھجوا دیا ۔ یہ ایک غیر معقول بات ہے کہ بادشاہ ایک طرف تو سارہ کو شیطان قرار دے اور دوسری طرف اکرام و انعام سے نوازے۔ بلکہ بعض روایات کے مطابق تو اپنی بیٹی بھی بطور لونڈی دے دے! (ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، زیر حدیث ھذا۔جلد ۶، صفحہ ۶۵۱۔) اگر بادشاہ سارہ کی نیکی سے مرعوب تھا تو پھر شیطان کہنے کا کوئی جواز نہیں ۔ اور اگر سارہ میں شیطانی طاقتیں سمجھتا تھا تو انعام، خصوصاً بیٹی دینے کا کوئی جواز نہیں ۔

آٹھواں سوال اور اس روایت کا سب سے عجیب پہلو یہ ہے کہ اس قصہ کی بنیاد اس بات پر بتائی جاتی ہے کہ بادشاہ خوبصورت عورتوں پر قبضہ کرنے کے لیے ان کے خاوند کو قتل کروا دیا کرتا تھا ۔ اس سے بچنے کے لیے بیوی کو بہن کہا گیا ۔ تاہم ابو طاہر کی روایت (جدول ۱، روایت ۷) کے سوا کسی روایت میں اس بات کا سرے سے ذکر ہی موجود نہیں! اگر اصل روایت میں یہ ذکر تھا تو یہ اہم اور بنیادی نکتہ ، جس پر اس قصہ کا سب مدار ہے، تمام روایات میں سے مفقود کیوں ہے؟ اسی طرح کہا گیا ہے کہ یہ بادشاہ مصر کا تھا اور حضرت ہاجرہ مصری تھیں وغیرہ۔ لیکن مندرجہ بالا ۱۳ روایات میں سے کسی میں بھی مصر کا کوئی ذکر نہیں۔اتنا اہم نکتہ کیونکر حذف کیا گیا؟

حضرت امام رازیؒ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث قابل قبول نہیں کیونکہ حضرت ابراھیمؑ کی طرف کذب کی نسبت جائز نہیں ہو سکتی۔ اگر حضرت ابراھیمؑ اور کسی راوی کے درمیان کذب کا فیصلہ کرنا ہی پڑے تو راوی کی طرف کذب کی نسبت کرنا زیادہ بہتر ہے!(رازی، تفسیر، جلد ۲۶، صفحہ ۱۴۸۔ زیر تفسیر الصافات ۔ھذا الحدیث لا ینبغی ان یقبل لائن نسبۃ الکذب الیِ ابراھیم لا تجوز۔) بلکہ ایک جگہ تو انہوں نے یہاں تک کہا ہے کہ انبیاء کی طرف کذب کی نسبت پھیرنا زندیقوں کا کام ہے۔(رازی، تفسیر، جلد ۲۲، صفحہ ۱۸۶۔ زیر آیت الانبیاء ۶۴۔)گو انہوں نے بھی آخر میں اپنے زمانہ کے دیگر مفسرین کی رو میں بہ کر اس قصہ کی مختلف تشریحات بھی پیش کی ہیں کہ یہاں کذب سے جھوٹ مراد نہیں تاہم اوپر مذکورہ امور کو یکجائی صورت میں دیکھنے (Firestone، Journeys in holy lands، صفحہ ۳۱ ۔۹۴۔)سے معلوم ہوتا ہے کہ درحقیقت یہ روایت حضرت ابو ھریرۃؓ کا اپنا بیان ہے جو کہ حضرت ہاجرہ کے متعلق اسرائیلیات سے آئے قصص پر مشتمل ہے ۔ اس لغو قصہ کا آنحضور ﷺ کے پر حکمت اور فصیح اور سبق آموز کلام کے ساتھ کوئی موازنہ ہی نہیں۔ آپؐ ایسے لغو قصے بیان نہیں فرمایا کرتے تھے۔ جب کوئی واقعہ بیان فرماتے تو اس میں کوئی امر سکھانا مدنظر ہوتا تھا ۔ قلیل الفاظ میں مدلل بات بیان فرماتے ۔ اس طرح کے قصص کہ فلاں عورت ایسی خوبصورت تھی اور یوں ایک بادشاہ اس پر فریفتہ ہو گیا اور یوں تین مرتبہ فالج کا شکار ہوا وغیرہ لغو کہانیاں سنانا مولویوں کا کام ہے جیسا کہ یوسفؑ و زلیخا کے قصہ میں بھی کیا گیا ہے۔ جن لوگوں نے ان بیہودہ باتوں کو انبیاء ، خصوصاً سید الانبیاءؐ، کی طرف منسوب کیا انہوں نے انبیاء کی شان نہیں پہچانی اور ظلم کیا ہے۔

قصہ کی دیگر روایات

حضرت ابو ھریرۃؓ کے علاوہ اس ضمن میں دو اور صحابہ سے بھی روایات منسوب ہیں۔ ایک تو حضرت ابو سعید ؓ الخدری سے بیان کی گئی ہے۔ لیکن اس روایت میں صرف یہ ذکر ہے کہ ابراھیمؑ نے تین مرتبہ کذب بولا۔[حاشیہ: ابن کثیر، البدایہ والنھایۃ، جلد ۱، صفحہ ۲۲۴۔۲۲۵۔ یہ روایت ابن عساکر، تاریخ دمشق، جلد ۶، صفحہ ۱۷۹،نے بھی حضرت ابو سعیدؓ سے بیان کی ہے۔ اسی طرح مسند ابی یعلیٰ میں بھی (ابی یعلیٰ، مسند، صفحہ ۲۵۰۔۲۵۱، حدیث ۱۰۴۱۔ زیر مسند ابی سعید الخدریؓ)۔] قصہ کی تفصیل اور ہاجرہ کے متعلق کوئی بات بیان نہیں کی گئی اور اس لحاظ سے یہ غیر متعلق روایت ہے۔ درحقیقت یہ روایت حدیث شفاعت کا حصہ ہے جو کہ جامع ترمذی میں درج ہے۔

(ترمذی، جامع الکبیر، ابواب تفسیر القرآن، باب و من سورۃ بنی اسرائیل۔۳۱۴۸۔)

دوسری روایت حضرت کعب الاحبار، جو کہ یہود سے مسلمان ہوئے تھے اور یہودی کتب سے خوب واقف تھے، سے مروی ہے۔ یہ روایت کسی قسم کی اسناد کے بغیر بیان کی گئی ہے اور ہے بھی غیر مرفوع۔(الکسائی، قصص الانبیاء، صفحہ ا۴۱۔۱۴۲۔) یعنی محض حضرت کعب کے ان خیالات پر مشتمل ہے جو کہ انہوں نے یہودی کتب سے لیے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ روایت بائیبل کے بہت قریب ہے۔ مثلاً اس میں یہ ذکر ہے کہ یہ قصہ مصر میں پیش آیا ، جیسا کہ بائیبل میں لکھا ہے، جبکہ حضرت ابوھرہرہؓ کی روایات میں مصر کا کوئی ذکر نہیں ہے وغیرہ۔

نتیجہ

اس قصہ کی احادیث کے دونوں حصوں یعنی اسناد اور متن پر شدید اعتراضات وارد ہوتے ہیں۔ شارحین نے ان کو دور کرنے کی کوشش کی ہے اور طرح طرح کے جواز ڈھونڈے ہیں۔ تاہم صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کی کوششیں باہم متضاد روایات میں تطبیق کی مصنوعی سعی ہیں۔ روایت پر اعتراضات اس قدر قوی اور اندرونی تضادات اتنے واضح ہیں کہ تطبیق ممکن نہیں۔

درحقیقت مندرجہ بالا سے واضح ہے کہ یہ قصہ یہودی روایات پر مبنی ہے۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابو ھریرۃؓ نے مختلف اوقات میں یہ قصص بیان فرمائے تھے جس کی وجہ سے بعض چیزیں دہرائی گئی ہیں اور بعض ناقابل فہم بن گئی ہیں۔ راویوں نے بعد میں قصہ میں روانی لانے کی کوشش بھی کی ہے۔ بہرحال اسناد اور متون دونوں کے تجزیہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ قصہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا پر حکمت، پاک اور مقدس کلام نہیں ہے۔

کیا حضرت ہاجرہ لونڈی تھیں؟

خدا کی نظر میں تمام انسان برابر ہیں اور کسی کا غلام یا لونڈی ہونا کوئی حقیقت نہیں رکھتا کیونکہ خدا کے نزدیک صرف نیکی اور تقویٰ کی قدر و قیمت ہے۔ یہود کے آباء و اجداد میں سے حضرت یوسفؑ کے متعلق بائیبل اور قرآن دونوں متفق ہیں کہ دو مرتبہ فروخت کیے گئے ، قیدی بھی رہے اور شاہ مصر کے ملازم بھی۔( پیدائش باب ۳۷ ، آیت ۲۸۔ باب ۳۷، آیت ۳۶۔ اور قرآن کریم سورۃ یوسف ۱۲ : ۲۰ ۔۲۲۔) لیکن آنجنابؐ نے ایک مخصوص پس منظر میں انہی کے متعلق فرمایا:

فَأَكْرَمُ النَّاسِ يُوسُفُ نَبِىُّ اللّٰهِ ابْنُ نَبِىِّ اللّٰهِ ابْنِ نَبِىِّ اللّٰهِ ابْنِ خَلِيلِ اللّٰهِ

(بخاری، صحیح، کتاب احادیث الانبیاء، باب قول اللہ تعالیٰ و لقد کان فی یوسف…)

پس اصولاً حضرت ہاجرہ کا مقام گرانے کے لیے ان کو لونڈی کہنا یا آپ کا مقام بڑھانے کے لیے مصر کی شہزادی بتانا دونوں باتیں یکساں طور پر بے فائدہ ہیں۔ یہود کے آباء و اجداد کو مصریوں نے غلام بنا لیا تھا۔(خروج باب ۱۔نیز خروج باب ۲، آیت ۲۳۔) مصریوں کی غلامی سے نجات کے بعد بھی ان کو بار ہا غلام بنایا گیا۔( قضاۃ ۲ : ۱۴۔ ۳: ۸۔ ۴: ۲۔ ۱۰: ۷۔ ۱ سموئیل ۱۲:۹۔) پس غلامی اگر کسی شجرہ نسب پر داغ ہے تو پھر یہود و نصاریٰ کے آباء و اجداد پر یہ داغ کہیں زیادہ اور کہیں گہرے ہیں۔

مندرجہ بالا روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ قرین قیاس یہی ہے کہ حضرت ہاجرہ حضرت ابراہیمؑ کی دوسری بیوی تھیں۔ غالباً سارہ ، جو کہ حضرت ابراہیمؑ کے خاندان سے تھیں ، سے اولاد نہ ہونے کی وجہ سے آپؑ نے بڑھاپے میں حضرت ہاجرہ سے دوسری شادی کی تھی۔ سوکنوں میں لڑائی جھگڑا ایک قدرتی بات تھی جس سے تنگ آ کر حضرت ہاجرہ ، جو کہ غیر خاندان سے اور چھوٹی ہونے کی وجہ سے شاید سمجھتی ہوں کہ حضرت ابراھیمؑ سارہ کے مقابل پر ان کی مدد نہیں کریں گے، نے ایک دن گھر چھوڑنے کا فیصلہ بھی کر لیا ۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ان کی تابعداری ، پاک دلی و صبر کی وجہ سے انہیں الہاماً گھر واپس لوٹ جانے کا حکم دیا اور ساتھ ہی دلجوئی کی خاطر ایک خاص بیٹے کی خوش خبری بھی دی۔ چنانچہ ہاجرہ واپس گھر لوٹ گئیں۔ حضرت اسماعیلؑ کی پیدائش کے بعد سارہ کو ،جو اس وقت بے اولاد تھیں، خاموش ہونا پڑا۔ مگر جب کچھ عرصہ بعد سارہ کے ہاں اسحاقؑ پیدا ہوئے تو سوکنوں کے پرانے جھگڑے پھر عود کر آئے اور سارہ نے حضرت ابراہیمؑ سے ان کو گھر سے نکالنے کا مطالبہ کیا ۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے بھی حضرت ابراھیمؑ کو ہاجرہؓ اور اسماعیلؑ کو مکہ چھوڑ آنے کا حکم دیا۔

یہودی روایات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ہاجرہ کے لونڈی ہونے کا خیال درحقیقت سارہ کے مقام و مرتبہ کو بڑھانے کے لیے گھڑا گیا ہے۔ اور ایسا دو طریق پر ہوا ہے۔ ایک طرف تو کہا گیا کہ ہاجرہ لونڈی تھیں بلکہ ان کی والدہ بھی لونڈی تھیں۔ اس لیے وہ سارہ کے مقابل پر بےحیثیت اور حضرت ابراہیمؑ کی وراثت میں حصہ دار نہ تھیں۔نیز وہ یہود کے ہاں سخت قابل نفرت فراعین مصر کی بیٹی اور حضرت ابراھیمؑ کے سخت ترین دشمن نمرود کی پوتی تھیں۔ دوسری طرف سارہ کی حیثیت بڑھانے کے لیے یہ کہا گیا کہ ان کا مقام ایسا بلند تھا کہ مصر کے بادشاہ نے اپنی بیٹی کے متعلق یہ پسند کیا کہ وہ شہزادی کی بجائے سارہ کی لونڈی بن کر رہے۔
سارہ کے سلوک اور اس کے مقابل پر حضرت ابراھیمؑ سے مدد چاہنے کی بجائے گھر چھوڑنے کا فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ حضرت ہاجرہ غالباً حضرت ابراھیمؑ کے خاندان سے نہ تھیں۔ گو بعض شارحین کے نزدیک آنحضورؐ کی اہل مصر سے نیک سلوک کے متعلق وصیت حضرت ماریہ ؓکے متعلق ہے تاہم حضرت ہاجرہ کا مصری ہونا بھی بعید از قیاس نہیں ۔ روحانی مقام کے لحاظ سے حضرت ہاجرہ صاحبہ الہام تھیں اور آپ کا اللہ تعالیٰ پر توکل اور بے مثال صبر، جو کہ مکہ میں بے یار و مدد گار اکیلے چھوڑے جانے کے وقت بھی ظاہر ہوا، معجزانہ رنگ رکھتے ہیں۔

حضرت مسیح موعودؑ کا ارشاد

ایک مرتبہ حضرت اقدس مسیح موعود ؑنے حضرت ہاجرہ کے متعلق فرمایا:
‘‘حضرت سارہ کا ارادہ یہ تھا کہ کسی طرح سے اسماعیلؑ مر جائے۔ اس لیے اس نے حضرت ابراہیمؑ سے کہا کہ اسے کسی بے آب و گیاہ جگہ چھوڑ آ…حضرت سارہ نے اس واقعہ سے پہلے بھی ایک دفعہ ہاجرہ کو گھر سے نکالا تھا۔ اس وقت بھی خدا تعالیٰ کا فرشتہ اس سے ہم کلام ہوا تھا…حضرت ہاجرہ سے دو مرتبہ اللہ تعالیٰ کا مکالمہ ہوا۔

(حضرت مرزا غلام احمدؑ، ملفوظات، جلد ۱، صفحہ ۱۷۲۔۱۷۳۔)

واللّٰہ اعلم۔ بالصواب۔

متفرق روایات

بتایا گیا ہے کہ سارہ نے قسم کھائی تھی کہ ہاجرہ کے تین اعضاء کاٹ دیں گی۔ حضرت ابراہیمؑ نے قسم پوری کرنے کو کہا۔ اور اس ضمن میں ہاجرہ کے کان چھیدے گئے اور ختنہ کیا گیا، اسی وقت سے عورتوں میں یہ رسوم جاری ہیں۔

(ابن منظور، لسان العرب، زیر لفظ ھجر۔ نیز دیکھیں ابن جوزی، المنتظم فی تاریخ الملوک و الامم، جلد ۱، صفحہ ۲۶۵۔)

یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سارہ حاران کے بادشاہ کی بیٹی تھی۔

(ابن کثیر، البدایہ و النھایۃ، جلد ۱، صفحہ ۲۲۲۔)

ایک روایت یہ بھی ہے کہ حضرت ابراہیمؑ نے سارہ ،ہاجرہ اور قطورا کے بعد ایک اور شادی بھی کی۔ اس بیوی کا نام “حجورا’’ تھا اور اس سے ۴ بچے ہوئے۔(ابن قتیبیہ، کتاب المعارف، صفحہ ۳۳۔)ہاجرہ کی تدفین حجر میں ہوئی۔(ابن قتیبیہ، کتاب المعارف، صفحہ ۳۴۔)

٭٭٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button