عبادت کی ضرورت… خدا کو یا انسان کو؟
کچھ لوگ آیت ’’وَمَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَالۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ‘‘(الذّٰاریٰت:۵۷) (اور میں نے جن و انس کو پیدا نہیں کیا مگر اس غرض سے کہ وہ میری عبادت کریں)کے متعلق سوال یا اعتراض کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو ہماری عبادت کی ضرورت کیوں ہے؟ اس کا ایک جواب تو اسی سورت کی اگلی ہی آیت مَاۤ اُرِیۡدُ مِنۡہُمۡ مِّنۡ رِّزۡقٍ وَّمَاۤ اُرِیۡدُ اَنۡ یُّطۡعِمُوۡنِ(الذّٰاریٰت:۵۸)(میں ان سے کوئی رزق نہیں چاہتا اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں) میں دے دیا گیا ہے کہ لوگوں کی عبادت سے اللہ تعالیٰ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ دوسرا جواب ہمیں نبی اکرم ﷺ کی زبان اقدس سے مندرجہ ذیل حدیث قدسی کے ذریعہ دیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اگر روئے زمین کے تمام انسان متقی بن جائیں تو خدا کی بادشاہت میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا اور اگر تمام لوگ بدکار بن جائیں تو خدا کی بادشاہت میں کوئی نقصان نہیں ہوگا۔
یَا عِبَادِي! لَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَ آخِرَکُمْ وَ إِنْسَکُمْ وَ جِنَّکُمْ، کَانُوْا عَلیٰ أَتْقَیٰ قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مِنْکُمْ، مَازَادَ ذٰلِکَ فِي مُلْکِي شَیْئًا، یَا عِبَادِي! لَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَ آخِرَکُمْ وَ إِنْسَکُمْ وَ جِنَّکُمْ، کَانُوْا عَلیٰ أَفْجَرِ قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ، مَانَقَصَ ذٰلِکَ مِنْ مُلْکِي شَیْئًا، یَا عِبَادِي! لَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَ آخِرَکُمْ وَ إِنْسَکُمْ وَ جِنَّکُمْ، قَامُوْا فِي صَعِیْدٍ وَاحِدٍ فَسَأَلُوْنِي، فَأَعْطَیْتُ کُلَّ إِنْسَانٍ مَسْأَلَتَہُ، مَا نَقَصَ ذٰلِکَ مِمَّا عِنْدِي إِلَّا کَمَا یَنْقُصُ الْمِخِیَطُ إِذَا أُدْخِلَ الْبَحْرَ…(صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ والادب۔ باب تحریم الظلم)
اے میرے بندو! اگر تمہارے پہلے اور پچھلے اور تمہارے انسان اور جنّ تم میں سے سب سے زیادہ متقی انسان کے دل کی طرح ہوجائیں تو اس سے میری بادشاہت میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا۔ اے میرے بندو! اگر تمہارے پہلے اور پچھلے اور تمہارے انسان اور جنّ تم میں سے سب سے زیادہ بدکار انسان کے دل کی طرح ہوجائیں تو اس سے میری بادشاہت میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔ اے میرے بندو! اگر تمہارے پہلے اور پچھلے اور تمہارے (تمام) انسان اور جنّ ایک میدان میں کھڑے ہوجائیں اور مجھ سے مانگیں اور میں ہر انسان کو اس کا مانگا ہوا دے دوں تو اس سے میری بادشاہت میں اتنی بھی کمی نہیں آئے گی جتنی سوئی کو سمندر میں ڈبونے سے اس کے پانی میں آتی ہے…
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کے دو مقاصد، شکرگزاری اور مدد مانگنا، بیان کیے گئے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ضرورت نہیں بلکہ سراسر انسان کے فائدہ کے لیے ہیں۔
شکر گزاری
ہم ہر نماز میں کہتے ہیں: اِیَّاکَ نَعۡبُدُ… تیری ہی ہم عبادت کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :… وَاشۡکُرُوۡا لِلّٰہِ اِنۡ کُنۡتُمۡ اِیَّاہُ تَعۡبُدُوۡنَ۔ اور اللہ کا شکر ادا کرو اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو (البقرة:۱۷۳)۔یعنی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کا بہترین طریقہ اس کی عبادت کرنا ہے۔
اسی طرح فرمایا کہ لوگوں کو بھوک میں کھانا ملنے اور خوف میں امن حاصل ہونے کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ وہ اس گھر کے رب کی عبادت کیا کریں۔فَلۡیَعۡبُدُوۡا رَبَّ ھٰذَا الۡبَیۡتِ۔ الَّذِیۡۤ اَطۡعَمَہُمۡ مِّنۡ جُوۡعٍ ۬ۙ وَّاٰمَنَہُمۡ مِّنۡ خَوۡفٍ (القریش:۴-۵)پس وہ عبادت کریں اس گھر کے ربّ کی۔ جس نے اُنہیں بھوک سے (نجات دیتے ہوئے) کھانا کھلایا اور انہیں خوف سے امن دیا۔
حضرت عائشہ صدیقؓہ فرماتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ اس قدر عبادت کرتے تھے کہ آپ ﷺ کے پاؤں سوج جایا کرتے تھے۔ میں نے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ! آپ اس قدر مشقت کیوں کرتے ہیں جبکہ آپ کے اگلے پچھلے سب گناہ معاف کر دیے گئے ہیں تو آپ ﷺنے فرمایا :أَ فَلَا أَکُوْنَ عَبْدًا شَکُوْرًا کیا میں اللہ کا شکرگزار بندہ نہ بنوں؟(صحیح بخاری، باب التہجد باللیل)
مدد مانگنا
اسی طرح ہم ہر نماز میں پڑھتے ہیں…وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ اور تجھی سے ہم مدد چاہتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں تعلیم دیتا ہے کہ یہ استعانت یعنی اللہ تعالیٰ سے مدد صبر اور نماز کے ذریعہ مانگی جاسکتی ہے۔وَاسۡتَعِیۡنُوۡا بِالصَّبۡرِ وَالصَّلٰوۃِ …اور صبر اور نماز کے ساتھ مدد مانگو(البقرۃ:۴۶)
قرآن و حدیث کے اس مطالعہ سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا کرنے اور مدد مانگنے کا بہترین طریقہ نماز ہے۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ کو نہیں بلکہ ہمیں اس کی عبادت کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہمیشہ اس کی توفیق عطا فرماتا رہے۔ آمین!