اداریہ: امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ کے تازہ ارشاد کی روشنی میں ہر احمدی اپنے دائرے میں فلسطینیوں کے لیے آواز اٹھائے
اسرائیل حماس جنگ کے آغاز کو تین ماہ گزر چکے ہیں۔ اس ہفتے کی اہم خبروں میں امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ اینٹنی بلنکن (Antony Blinken) کی رملّہ میں فلسطین کے صدر محمود عباس کے ساتھ ملاقات کی تفصیلات شامل ہیں۔ موصوف کا اس جنگ کے آغاز کے بعد علاقے کا یہ چوتھا دورہ ہے۔ اس موقع پر جاری کیے گئے اعلامیہ کے مطابق ملاقات میں جنگ کے بعد غزہ کی تعمیرِ نو نیز وہاں فلسطینی اسٹیٹ کے قیام کے مراحل پر غور کیا گیا۔ اسی طرح غزہ کے رہائشیوں کے لیے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پہنچائی جانے والی امداد کے بارے میں بھی بات چیت ہوئی جبکہ دوسری طرف حماس کی جانب سے اس ملاقات کی مذمت کی گئی ہے۔
۷؍ اکتوبر ۲۳ء سے اِس جنگ کے شروع ہونے کے بعد ایک اندازے کے مطابق اب تک ہر گھنٹے کے دوران ۶؍ بچوں سمیت ۱۵؍ فلسطینی شہیداور ۳۵؍ افراد زخمی ہوئے، اسرائیل کی جانب سے فلسطین پر۴۲ بم گرائے گئے اور بارہ عمارتوں کو تباہ کر دیا گیا۔ الغرض غزہ میں اب تک دس ہزار معصوم بچوں سمیت کم از کم تئیس۲۳ ہزار فلسطینی اپنی جان گنوا بیٹھے ہیں جبکہ زخمیوں کی تعداد ساٹھ ہزار کے قریب ہے۔ جبکہ دوسری طرف اسرائیل میں گیارہ سو سے کچھ زائد ہلاکتیں اور نو ہزار کے قریب زخمی بتائے جاتے ہیں۔جبکہ ایک سو تیس اسرائیلی یرغمالی ابھی بھی حماس کے قبضے میں ہیں۔ اسی طرح نوّے کے قریب صحافی جن میں زیادہ تر فلسطینی تھے اپنے فرائض منصبی ادا کرتے ہوئے لقمۂ اجل بن گئے۔
اسرائیل ڈیفنس فورسز (IDF)کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ اب تک ۳۰؍ ہزار میں سے ۹؍ ہزار حماس جنگجوؤں کو ہلاک کر چکی ہے۔ اس لحاظ سے ان کا ارادہ ہے کہ حماس کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے کم از کم ایک سال تک اس جنگ کو جاری رکھا جائے۔
جنگ کے بعد غزہ کی انتظامی صورتحال سے متعلق امریکہ اپنے ارادوں کو واضح کر چکا ہے کہ وہاں حماس کے خاتمے کے بعد فلسطینی اتھارٹی (PA) کی حکومت ہو۔
دوسری جانب بدھ ۱۰؍ جنوری کو اردن کے شہر العقبہ میں اردن کے بادشاہ عبداللہ، مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی اور فلسطینی صدر محمود عباس کے مابین ہونے والی ایک ملاقات کے بعد جاری کیے گئے بیان میں اس بات پر زور دیا گیا کہ غزہ میں جاری اسرائیلی ’’جارحیت‘‘ کو ختم کرنے اور غزہ کے باشندوں کی حفاظت کے لیے بین الاقوامی دباؤ میں اضافہ کیا جائے۔ نیز اسرائیل کی جانب سے غزہ کو اسرائیل کے زیرِ تسلّط مغربی کنارے سے الگ کرنے کے ارادے کی مذمت کی گئی۔ اردن اور مصر کے سربراہان نے فلسطینیوں کو ملک بدر کرنے کے کسی بھی قسم کے ارادے کو بھی قابلِ تشویش قرار دیا۔ عرب سربراہان نے اسرائیل کی جانب سے غزہ کے بعض حصوں پر قبضے کی مذمت کرتے ہوئے اس امر پر زور دیا کہ غزہ کے باشندوں کو ان کے گھروں میں واپس جانے کی اجازت دی جانی چاہیے۔
اگرچہ بظاہر یہ جنگ صرف اسرائیل اور حماس کے مابین جاری ہے لیکن بعض بڑی طاقتوں کی جانب سے فریقین کی حمایت کے پیش نظر اس جنگ کے آغاز سے ہی بعض ادارے ان خدشات کا اظہار کر رہے ہیں کہ یہ جنگ اسرائیل اور فلسطین سے نکل کر پورے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ چنانچہ یونائیٹڈ سٹیٹس کے انسٹیٹیوٹ برائے امن نے ۲۶؍ اکتوبر کو آن لائن شائع کی جانے والی اپنی ایک رپورٹ میں علاقے کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا کہ اگر خدانخواستہ ایران اس جنگ میں براہِ راست فریق بن گیا تو یہ جنگ نہ صرف پورے خطے میں پھیل جائے گی بلکہ انتہائی تباہ کن بھی ثابت ہو گی۔دوسری جانب سکائی نیوز کے مطابق اسرائیل، حماس جنگ کے لبنان، یمن اور بحیرہ ٔ احمر میں پھیلنے کے خدشات بڑھتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔
اینٹنی بلنکن نے ۹؍ جنوری کو یروشلم میں واقع امریکی ایمبیسی میں اسرائیلی لیڈرز سے ملاقات کے بعد بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ میں یہاں آنے سے پہلے ترکی، یونان، اردن، قطر، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے سربراہان سے مل کر آیا ہوں۔ یہ سب اس جنگ کے پھیلنے سے متعلق امریکہ کے تحفظات سے متفق ہیں۔
ان بیانات کا ایک مقصد یہ بھی نظر آتا ہے کہ امریکہ مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کو اپنا ہم آواز بنا کر نہایت سلجھے ہوئے سفارتی انداز میں کسی بھی ملک کو فلسطینیوں کی مدد کے لیے آنے کی صورت میں اس کے نتائج سے متنبہ کر رہا ہے۔ المختصر یہ کہ خبردار! کوئی معصوم مظلوم کی مدد کے لیے نہ آئے اور ظالم کی مرضی، جو چاہے سو کرے!
بہر کیف امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس جنگ کے پھیل جانے کے خدشات کے پیش نظر اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ ۵؍ جنوری ۲۰۲۴ء میں فلسطین کے لیے دعا کی تحریک کرتے ہوئے انتہائی جامع اور مؤثر انداز میں اس سارے قضیے کے تمام زاویے واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ اب یہ بھی کہا جانے لگ گیا ہے کہ ریجن میں بھی جنگ پھیلنے کا خطرہ ہے اور پھر عالمی جنگ بھی ہو سکتی ہے۔ بیروت کے ارد گرد بھی انہوں نے بمباری شروع کردی ہے۔ اب یہ بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ گو بظاہر امریکہ کی حکومت ان کو یہی کہہ رہی ہے کہ اپنی جنگ کو محدود کرو لیکن یہ صرف الفاظ ہی لگتے ہیں۔ دبی ہوئی ان کی آوازیں ہیں۔ اصل منصوبہ تو ان کا یہی لگتا ہے کہ غزہ سے فلسطینیوں کو بےدخل کر دیا جائے اور اس زمین پر پھر قبضہ کر لیں۔
حضورِ انور نے ان امور کے پیشِ نظر ہر احمدی کو نصیحت فرمائی کہ اپنے اپنے حلقۂ احباب میں ان کے حق میں آواز بھی اٹھاتے رہیں۔ لوگوں کو بتاتے بھی رہیں خاص طور پر سیاستدانوں کو۔… اسرائیل کی حکومت تو اپنے ظلموں سے باز آنے والی نہیں لگتی بلکہ اب تو انہوں نے فوجیوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ ۲۰۲۴ء کا سال بھی جنگ کا سال ہے۔ اللہ تعالیٰ فلسطینیوں پر رحم فرمائے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ایک مومن دوسرے مومن کے لیے عمارت کی مانند ہےجس کا ایک حصہ دوسرے کو تقویت پہنچا رہا ہوتا ہے۔ پھر آپؐ نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں اچھی طرح پیوست کر کے بتایا (کہ ایک حصہ دوسرے کے لیے اس طرح تقویت کا باعث ہوتا ہے)۔ (بخاری)
آج حضورِ انور کی اس نصیحت کے پیشِ نظر ہر احمدی کو اپنے اردگرد جائزہ لیتے ہوئے کیا امریکہ، کیا یورپ، کیا ایشیا، کیا افریقہ، کیا آسٹریلیا غرضیکہ ہر ملک میں مقامی اور حکومتی سطح پر اپنے نمائندوں، وزرائے مملکت، کونسلرز و دیگر سے تحریری رابطہ کر کے اپنے تحفظات سے آگاہ کرنا چاہیے تاکہ اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں کی تقویت کا باعث بن سکیں کیونکہ حال کی گھڑی میں ایک فردِ واحد کے پاس ظالم کو ظلم سے روکنے کے لیے اس سے بہتر کوئی طریقہ نہیں۔ یاد رکھیں یہ نہ سوچیں کہ ہماری طرف سے کی جانے والی چند ای میلز یا خطوط کا بھلا کیا فائدہ ہو سکتا ہے، بارش کا ہر قطرہ اگرچہ اپنی ذات میں ذرّۂ بے نشاں کی مانند ہوتا ہے لیکن تمام قطرے مل کر کسی صحرا پر برسیں تو اسے بھی گل و گلزار اور سرسبز و شاداب کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ آج اگر پوری دنیا میں بسنے والے کروڑوں احمدی بیک وقت اپنےاپنے علاقوں کے حکومتی نمائندگان کو خطوط یا ای میلز لکھ کر اپنا فرض ادا کردیں تو یقیناً ایک اللہ والے کے ارشاد کی اطاعت کی بدولت دنیا کے چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے ایوانوں میں پیدا ہونے والا ارتعاش یقیناً مثبت اثرات پیدا کرے گا۔
اللہ تعالیٰ محض اپنی قدرت سے احمدیوں کی عاجزانہ کاوشوں میں برکت رکھ دے اور ظالم ظلم سے باز آ جائے۔ آمین