اداریہ: دعا کی چٹھی اور نبی کی پہچان ۔نمبر۲ (ہو رہا ہے نیک طبعوں پر فرشتوں کا اتار)
روزنامہ الفضل انٹرنیشنل ۹؍ جنوری کے اداریے میں حضرت رحمت اللہ صاحب احمدی رضی اللہ عنہ ، صحابی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قبولِ احمدیت کا ایمان افروز واقعہ درج کیا گیا تھا کہ کس طرح اللہ تبارک و تعالیٰ نے خواب کے ذریعے ان کی راہنمائی فرمائی۔
آج ہم ذکر کریں گے گورداسپور سے تعلق رکھنے والے صحابی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام حضرت بابوفقیر علی صاحب رضی اللہ عنہ کے قبولِ احمدیت کا۔ آپؓ ریلوے کے ملازم ہونے کے ناطے سندھ میں تعینات تھے جہاں سے ۱۹۰۵ء کے اواخر میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کی سعادت پائی۔ آپ کی ولادت ۱۸۸۲ء یا ۱۸۸۴ء کی بتائی جاتی ہے۔ آپ بچپن سے ہی بہت ذہین ثابت ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کے خاص فضل سے عہدِ طفولیت میں اور پھر دورانِ تعلیم نیک ماحول میسّر آیا۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ ریاضی، الجبرا اور اقلیدس میں اتنے ہوشیار تھے کہ ڈیڑھ صد میں سے ڈیڑھ صد نمبر ہی لیتے تھے۔ کبھی ایک نمبر بھی کم نہ لیا تھا۔ آپؓ نے اچھے نمبروں میں میٹرک پاس کیا اور پھر کچھ وقت گزرنے کے بعد ریلوے میں بطور سگنیلر اور پھر اسسٹنٹ اسٹیشن ماسٹر تعینات ہو گئے۔
بچپن میں بابو فقیر علی صاحب کو احمدی علماء کا علم ہوا۔ پھر جس زمانہ میں آپ گورداسپور شہرمیں زیرِ تعلیم تھے آپ کا قیام قریب کے موضع اوجلہ میں اپنے ایک چچا کے ہاں تھا۔ اس موضع میں سیکھوانی برادران حضرت میاں امام الدین صاحبؓ،میاں جمال الدین صاحبؓ ومیاں خیرالدین صاحبؓ کا آنا جانا تھا۔ آپؓ کو اچھا دین دار اور پابندِ صلوٰۃ پاکر اوجلہ کی مسجد میں ان تینوں بھائیوں میں سے ایک نے آپ کو مخاطب کرکے کہا کہ یہ لڑکا بہت نیک اور سعید ہے یہ ضرور احمدی ہوجائے گا۔اس پر آپ نے کہا کہ میں اس طرح آپ کے جھانسے میں نہیں آتا۔اور مرزائی نہیں ہوتا۔
معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے یہ بیان عدمِ معرفت اور نیک نیتی کی بنیاد پر کہے اسی لیے چند برس ہی گزرے تھے کہ خدا تعالیٰ کی قدرت سے آپ مسیح الزماں علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قدموں میں آ بیٹھے۔ آپ کی قبولِ احمدیت کا واقعہ کچھ یوں ہے کہ آپ ۱۹۰۵ء میں بلوچستان کے پہلے سٹیشن جھٹ پٹ پر اسسٹنٹ اسٹیشن ماسٹر متعیّن ہوئے۔ اس زمانہ میں پٹ سیکشن کا یہ پہلا اسٹیشن اُجاڑ بیابان تھا۔ پچیس تیس میل اردگرد تک آبادی، پانی اور گھاس تک نہ تھا۔ سبی سٹیشن تک صرف ریلوے سٹیشنوں پر پانی دستیاب ہوتا تھا جہاں ریلوے ٹینک میںیا تالاب میں پانی ذخیرہ رکھا جاتا تھا۔ منشی عبد الغنی صاحبؓ اوجلوی نے وہاں آپ کو حضرت مسیح موعودؑ کا اشتہار الانذار بھجوایا۔ آپ کو حضور کی کوئی کتاب یا مضمون بھی ملا۔ ان کے مطالعہ سے آپ کا دِل حضور کی صداقت کا قائل ہوتا لیکن علماء ومخالفین کے اعتراضات کے مطالعہ سے آپ کے دل میں اضطراب پیدا ہوتاکہ صداقت کدھر ہے۔ آپ سنسان مقامات میں جاکر دعائیں کرتے کہ اے اللہ! تو میری رہنمائی فرما!اگر مرزا صاحب تیری طرف سے ہیں اور میں ان کو قبول کئے بغیر مرگیا تو کیا بنے گا۔اور اگر بیعت کرلوں اور یہ امر نادرست ہو تو کیا ہوگا۔ ……ان حالات میں جب کہ اس سٹیشن پر سٹاف اور سٹیشن ماسٹر سب ہندو تھے اور کوئی مشیرِ کارنہ تھا۔ آپ نے اپنی رفیقۂ حیات سے کہا کہ ان ایّام میں میری موت واقع ہونے لگے تو حضرت مرزا صاحب کی فلاں تحریر میرے سامنے کردینا۔
ایک دن اپنی چچی دادی محترمہ مریم صاحبہ اور اہلیہ اور ایک عزیز رشتہ دار کی معیّت میں نمازِ فجر ادا کرکے آپ نے انہیں کہا کہ آپ سب گواہ رہیں کہ آج میں حضرت مرزا صاحب کے متعلق فیصلہ کے لئے قرآن مجید کھولتا ہوں جو حضور اور مخالفین دونوں کا مشترک ومُسلّم کلامِ الٰہی ہے۔ دائیں صفحہ کی تیسری سطر فیصلہ کُن ہوگی۔چنانچہ سورۃ یوسف کا یہ حصہ نکلا۔ ماھٰذَا بَشَرًا۔ اِنْ ھٰذآ اِلَّا مَلَکٌ کَرِیْمٌ۔(یہ انسان نہیں۔ یہ تو ایک معزز فرشتہ کے سوا کچھ نہیں۔) اللہ کا تصرف یُوں ہوا کہ برملا آپ نے کہہ دیا کہ حضرت مرزا غلام احمدصاحب قادیان والے صادق من اللہ اور مسیح موعود مہدی مسعودہیں۔اور معاً اپنی اور اہلیہ صاحبہ کی بیعت کا خط … بھیج دیا جس میں تفصیل بالا بھی درج کردی تھی۔اور چند دن میں منظوری کا جواب بھی موصول ہوگیا۔ آپ نے سٹیشن ماسٹر سمیت تمام عملہ ریلوے میں قبولِ احمدیت کا اعلان کردیا۔
بیعت کے چند روز بعد آپ حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں قادیان حاضر ہوئے اور سارا ماجرا عرض کیا تو حضورؑ نے فرمایا کہ ’’آپ نے خوب کیا۔اللہ تعالیٰ سے دعاؤں کے بعد قرآن شریف سے رہنمائی طلب کی۔اگر وہاں شیطان کا لفظ نکل آتا تو آپ شاید(ساری عمر)میری شکل بھی نہ دیکھ سکتے …‘‘ حضورؑ کے ارشاد کا یہ مفہوم معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید سے اس طرح فال لینا اور جو کچھ نکل آئے اسے حق میں یا خلاف ایک محکم دلیل یقین کر نا صحیح مَسلک نہیں۔(اصحابِ احمد جلد ۳)
حضرت بابو فقیر علی صاحب رضی اللہ عنہ کے قبولِ احمدیت کے واقعہ سے بھی ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کی فطرت کو سعید پا کر گویا دعاؤں کی چٹھیاں بھجوا کر اپنے مسیح اور مہدی کی جانب ان کی راہنمائی فرمائی، کس طرح انہیں ایمان کی لازوال دولت سے مالامال فرمایا اور آپؓ کو
مبارک وہ جو اَب ایمان لایا
صحابہؓ سے ملا جب مجھ کو پایا
کی صف میں لا کھڑا کیا۔
قبولِ احمدیت کے بعد آپ نے عمر بھر مسیح دوراںؑ سے وابستگی کا فیض اٹھایا۔ روایات میں آتا ہے کہ سٹیشن سٹھارجہ میں تعیناتی کے دوران ایک رات ایک گاڑی گذرنے کے بعد آپ اور کانٹے والے وغیرہ سب سوگئے۔ ڈاک گاڑی کو پینتیس منٹ باہر رُکنا پڑا۔ آخر گارڈ نے سیکنڈ گارڈ بھجوایا۔اتنے میں آپ بیدار ہوگئے اور جلدی سے کانٹے والے کو بھجوایا۔ دوسرے سٹیشن سے لائن کلیئر لیا۔ آپ نے تاخیر والا وقت درج کیا اور ادھر گارڈ نے رپورٹ کردی کہ اسسٹنٹ سٹیشن ماسٹر کے سوجانے کی وجہ سے گاڑی کو تاخیر ہوگئی۔اور اسے جگانے کے لئے مجھے سیکنڈ گارڈ بھجوانا پڑا۔آپ نے صبح ہی اس افسر کو درخواست بھجوادی کہ گذشتہ رات اپنی بیوی کی زچگی کی وجہ سے میں سونہیں سکا تھا۔ اس لئے آج رات ڈیوٹی پر سوگیا۔ یہ قصور درگذر فرمائیں۔ مَیں شرمسار ہوں اصلاح کرلوں گا۔ اور سزا سے بھی اصلاح ہی مقصود ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ بھی بندہ کے بہت سے گناہ معاف کردیتاہے۔ ایسی چٹھی بھجوانے پر آپ کو تنزّلی کی افواہ پہنچی۔ آپ نے حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں دُعا کے لئے تحریر کردیا اور آپ سکھرّ پہنچے۔دفتر بند تھا۔ ہیڈ آفس کے ہیڈ کلرک سے جو ہندو تھااُس کے گھر پر ملے۔تو اس نے ملتے ہی مبارکباددی کہ آپ کی چٹھی پڑھنے سے پہلے متعلقہ افسر نے تنزلی کا حکم دیا تھا مگر آپ کی چٹھی پڑھ کر اسے منسوخ کرکے صرف دوروپیہ جرمانہ کیا ہے۔ مَیں نے کہا آپ مذاق نہ کریںلیکن اس نے یقین دلایا۔ واپس آنے پر ڈاک میں یہ حکم موصول ہوا۔ چنانچہ لائن کے ریلوے سٹاف میں یہ بات مشہور ہوگئی کہ یہ امر حضرت مرزا صاحب قادیان کا معجزہ ہے۔ ڈاک گاڑی کو پانچ منٹ تاخیر کرنے کا جُرمانہ پانچ روپے ہوتا ہے۔ جو بعض دفعہ بذریعہ تار کیا جاتا ہے اور یہاں پینتیس منٹ روکنے اور ڈیوٹی پر سوجانے کا جُرمانہ صرف دو روپے ہوا۔
اللہ تعالیٰ نے اس نیک وجود کو امام الزماں علیہ الصلوٰۃ والسلام سے دو مرتبہ ملاقات کا شرف حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ آپؓ اور آپ کی نسلوں کی آنے والی زندگیوں نے ایمان اور ایقان کی دنیا میں جو زرّیں ابواب رقم کیے ان کا آپؓ اور آپؓ کے فرزند ارجمند مولانا نذیر احمد علی صاحب کے حالاتِ زندگی کا مطالعہ کر کے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاک طینت عشاق رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سیرت کو پڑھنے اور ان کی روشنی میں اپنے ایمان باللہ کو صیقل کرتے ہوئے اپنی زندگیوں کو سنوارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین