آنحضرتﷺ کی جرأت و شجاعت
آپؐ کی جنگ کے بارے میں حضرت علی ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب میدان جنگ خوب گرم ہو جاتا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد شدید لڑائی شروع ہو جاتی، جیسا کہ مَیں نے کہا کہ زیادہ مرکز کی طرف حملہ ہوتا تھا۔ تو کہتے ہیں کہ ہم رسول کریم ؐ کی پناہ لیا کرتے تھے۔ ایسے مواقع پر تمام لوگوں کی نسبت آپؐ دشمن کے زیادہ قریب ہوا کرتے تھے۔ پھر آگے کہتے ہیں کہ بدر میں میں نے آپؐ کو دیکھا میں آپؐ کی پناہ لئے ہوئے تھا حالانکہ آپؐ کفار کے بالکل قریب پہنچے ہوئے تھے تو اس روز حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے زیادہ سخت جنگ کی۔ جنگ کی شدت میں جب اس طرح آمنے سامنے جنگ ہو رہی ہو تو پتہ نہیں لگتا کہ اپنوں میں کون اپنے ساتھ ہے۔ تو جب حضرت علیؓ نے دشمن کے وار سے بچ کر دیکھا ہوگا یا یہ دیکھا ہو گا کہ مجھے کس نے وار سے بچایا تو دیکھا آپؓ کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے تھے تو حضرت علی ؓ کے متعلق مشہور ہے کہ جنگی حربوں کے ماہر تھے اور انتہائی نڈر انسان تھے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جرأت و بہادری کے بارے میں جو آپ بیان کر رہے ہیں تو آپ ان کی پناہ میں ہیں۔ (الشفاء لقاضی عیاض، الباب الثانی، الفصل الرابع عشر، الشجاعۃ والنجدۃ)
پھر جنگ اُحد کا واقعہ دیکھیں جب بعد مشورہ آپ کی مرضی کے خلاف باہر جا کر دشمن سے مقابلے کا فیصلہ ہوا اور بعض صحابہؓ کو بعد میں اپنی غلطی کا احساس بھی ہوا اور اس پر انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روکنے کی کوشش بھی کی۔ تو جو جواب آپؐ نے دیا وہ جہاں آپ کے توکّل کو ظاہر کرتا ہے وہاں آپؐ کی جرأت و شجاعت کا بھی اس میں خوب اظہار ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ یہ بات نبی کی شان کے خلاف ہے کہ جب وہ ایک دفعہ ہتھیار باندھ لے پھر اللہ تعالیٰ کے فیصلہ فرمانے سے پہلے اتار دے۔ یعنی یا تو خداتعالیٰ کی طرف سے حکم ہو یا پھر اب میدان جنگ میں ہی فیصلہ ہو گا۔ اب جنگ سے بچنے کے لئے میں یہ کام نہیں کروں گا یہ جرأت و مردانگی کے خلاف ہے۔ اور نبی بھی وہ نبی جو خاتم الانبیاء ہے وہ اب یہ بزدلی کا کام کس طرح کر سکتا ہے۔ اور پھر جب مسلمانوں کی غلطی کی وجہ سے جیتی ہوئی جنگ کا پانسہ پلٹ گیا اور دشمن نے مسلمانوں کو کچھ نقصان پہنچایا، مسلمان تتر بتر ہو گئے، اس وقت بھی آپؐ ایک مضبوط چٹان کی طرح ڈٹے رہے۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۲؍اپریل ۲۰۰۵ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۶؍مئی ۲۰۰۵ء)