کتب مینار (قسط ۴۴): تحدیث بالنعمۃ (مصنفہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ)
یہ مختصر کتاب مصنف کی مختصر یادداشتوں پر مشتمل آپ بیتی کا درجہ رکھتی ہے۔
حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ نے ایک طویل عمر پائی اور متعدد شعبوں میں غیر معمولی خدما ت سلسلہ کی توفیق ملی۔ آپ کی زیر نظرکتاب مختصر یادداشتوں پر مشتمل آپ بیتی کا درجہ رکھتی ہے جس میں مفتی صاحب نے اپنی زندگی کے بعض واقعات کا ذکرکیا ہے۔
حضرت مفتی صاحبؓ کی عوامی زندگی اورعمومی تعلقات کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جولائی ۱۹۳۵ء تک اس کتاب کے تین ایڈیشن شائع ہوچکے تھے۔ زیر نظر تیسرا ایڈیشن ۱۰۰۰ کی تعداد میں اللہ بخش سٹیم پریس قادیان سے مکرم محمد یامین صاحب تاجر کتب۔ مالک احمدیہ کتب خانہ قادیان کے زیر اہتمام طبع ہوا اور اس کی قیمت ایک آنہ رکھی گئی۔
حضرت مفتی صاحبؓ اس کتاب کے سرورق پر لکھتے ہیں کہ ’’میرا رب میری آواز کو سنتا اور میری اور میرے دوستوں کی مرادوں کو پورا کرتا ہے۔ یہ محض اس کا فضل اور رحم او ر کرم ہے۔ نہ کہ میری کوئی خوبی۔ مبارک ہیں وہ جو اس کی طرف جھکتے اور اسی پر بھروسہ کرتے اور اسی کو اپنی سپر بناتے ہیں وہ قادر مطلق ہے۔ ہر بلا کو ٹال سکتا ہے۔ علیم و خبیر ہے۔ ہر ضرورت کو پورا کرسکتا ہے۔ کوئی بات اس کے آگے ان ہونی نہیں۔ الحمدللہ ثم الحمدللہ‘‘
۱۶ صفحات کی اس مختصر کتاب کے پہلے حصہ میں حضرت مفتی صاحبؓ کی زندگی کے بعض واقعات کا ذکر ہے تو آخری چندصفحات میں ’’پیام ہائے محبت‘‘ درج ہیں۔ جن کے متعلق آپؓ لکھتے ہیں: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے طفیل اللہ تعالیٰ نے عاجز کو ایسے محبین مخلصین کی ایک بےتعداد جماعت عطافرمائی ہے جن کے محبت بھرے پیغام اور عاجز کے ذریعہ قبولیت دعا کی اطلاعیں اور حصول مراد کی خوشخبریاں وصول ہوکر عاجز کو اللہ تعالیٰ کے حضور میں شکریہ کے ساتھ سربسجدہ کرتی رہتی ہیں۔
مصنف نے یہاں بطور نمونہ اور از روئے تحدیث بالنعمت مشرق و مغرب سے تعلق رکھنے والے ۲۹؍ افراد کا بیان اور پیغام درج کیاہے۔
اس کتاب میں درج بعض دلچسپ واقعات یوں ہیں:
’’عالمِ بچپن میں اگر مجھے اسباق کے یاد نہ ہونے اور استاد کی ناراضگی کا خوف ہوتا تو میری دعا میرے خوف کی دوری کے سامان پیدا کر دیتی۔ اگر میرا کوئی بزرگ یا استاد بیمار ہوتا تو میں اس کی صحت کے واسطے دعا کرتا اور فورا ًمیں اسے صحت پاتے دیکھ لیتا۔ اگرچہ میں اس کا ذکر کسی سے نہ کرتا مگر قبولیت دعا کی خوشی میرے قلب کو اللہ تعالیٰ کی حمدسے بچپن میں ہی پُررکھتی تھی۔ فالحمد للہ ثم الحمد لله‘‘(صفحہ ۳)
’’بہت ہی بچپن کے زمانہ کی بات ہے…نہ صرف مسجد میں جاکر میں دعا کرتا بلکہ اپنی ہر ایک خلوت میں چلتے ہوئے بیٹھے ہوئے بستر میں لیٹے ہوئے میں اپنے لئے اور دوسروں کے واسطے متفرق دعائیں کرتا۔ اوران کو قبول ہوتے ہوئے دیکھتا۔ فالحمدللہ ثم الحمدللہ(صفحہ ۴)
’’صحبت صلحاء: یہ اس کا فضل اور احسان ہے کہ چھوٹی ہی عمر میں مجھے حضرت مولوی نورالدین اعظمؓ جیسے باخدا انسان کی صحبت کا موقع ملا۔ جموں اور کشمیر میں کئی ماہ آپ کی خدمت میں سفر اور حضر میں رہ کر مجھے آپ کی پاک زندگی کے دیکھنے اور اس کے طرز کو اختیار کرنے کا موقع نصیب ہوا۔ ہنوز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو میں نے نہ دیکھا تھا کہ آپ کی آمد کی خبر مجھے دی گئی اور آپ کی سچائی مجھ پر ظاہر کی گئی اور اس کے قبول کرنے کی مجھے توفیق بخشی گئی۔ فالحمدللہ ثم الحمدللہ‘‘(صفحہ ۴)
’’دعا سے سر درد دور:ایک دفعہ جمعہ کا دن تھا۔ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ نماز کا وقت قریب تھا۔ حضرت صاحب نے فرمایا’’ مفتی صاحب۔ مجھے سخت درد ہورہا ہے۔ میں تو نماز جمعہ کے واسطے مسجد میں نہیں جاسکتا۔ آپ تشریف لے جائیں۔‘‘ میں مسجد چلا گیا۔ مگر حضرت صاحب کی تکلیف کو دیکھ کر اور مسجد میں ان کے نہ ہونے سے مجھے ایسا قلق ہواکہ سنتوں کے درمیان میں نے حضور کی صحت کے واسطے مضطربانہ دعا کی۔ ہنوز خطبہ ہورہا تھا کہ میں نے دیکھا کہ حضرت صاحب تشریف لے آئے اور شامل نماز ہوئے۔ بعد میں فرمایا کہ آپ کے جانے کے بعد جلد ہی سر درد اچھا ہوگیا اور میں کپڑے پہن کر مسجد چلا آیا۔ میں نے دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کیا کہ دعا قبول ہوئی اور حضور کی زیارت پھر نصیب ہوئی۔ فالحمدللہ ثم الحمدللہ‘‘(صفحہ ۸ اور ۹)
’’ایک دہریہ لاجواب ہوگیا:لندن کے ایک باغ میں ایک دہریہ تقریر کررہا تھا۔ اور جو کوئی اس پر سوال کرتا اس پر بہت تمسخر اڑاتا۔ مجھے بہت رنج ہوا۔ میں دعا کرکے آگے بڑھا اور اللہ تعالیٰ کی ہستی کی ایک دلیل اس کے سامنے بیان کی۔ جس پر وہ حیران رہ گیا اور کہنے لگا میں تو عیسائیوں کے ساتھ بحث کیا کرتا تھا اور وہ سب میرے سامنے لاجواب ہیں۔ لیکن آپ کی دلیل بہت زبردست ہے میں اسے توڑ نہیں سکتا۔ یہ کہہ کر وہ تقریر ختم کرکے چلا گیا۔ فالحمدللہ ثم الحمدللہ‘‘
’’تین دعائیں قبول:جب میں لندن سے امریکہ بھیجا گیا تاکہ وہاں پہلا اسلامی مشن قائم کروں تو میں نے تین دعائیں کیں۔ ایک مخلص جماعت نومسلموں کی مجھے عطا ہو۔ ایک مسجد بنانے کی توفیق ہو۔ ایک رسالہ جاری کرنے کے سامان مہیا ہوں۔ اللہ کے فضل سے باوجود سخت مشکلات کے تینوں دعائیں قبول ہوئیں۔ مخلص جماعت پہلے ہی سال مل گئی۔ رسالہ دوسرے سال جاری ہوگیا اور مسجد اور مکان تیسرے سال تیار ہوگئے۔ فالحمدللہ ثم الحمدللہ‘‘(صفحہ ۱۰)
اس دلچسپ کتاب کے صفحہ ۱۱ پر فرمایا کہ یہ چند باتیں بطور شکرگزاری کے لکھی گئی ہیں…قبولیت دعا کے نشانات بےحد ہیں جو عاجز راقم نے اپنی زندگی میں تجربہ کیے۔