حمل والی عورتوں کی عدّت وضعِ حمل تک ہے
وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ (الجزو نمبر۲۸) یعنی حمل والی عورتوں کی طلاق کی عدّت یہ ہے کہ وہ وضع حمل تک بعد طلاق کے دوسرا نکاح کرنے سے دستکش رہیں۔ اس میں یہی حکمت ہے کہ اگر حمل میں ہی نکاح ہو جائے تو ممکن ہے کہ دوسرے کا نطفہ بھی ٹھہر جائے تو اس صورت میں نسب ضائع ہو گی اور یہ پتہ نہیں لگے گا کہ وہ دونوں لڑکے کس کس باپ کے ہیں۔
(آریہ دھرم، روحانی خزائن جلد ۱۰صفحہ ۲۱)
جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وہ مدت مقررہ تک پہنچ جائیں اور عدّت کی میعا د گذر جائے تو ان کو نکاح کرنے سے مت روکو یعنی جب تین حیض کے بعد تین طلاقیں ہو چکیں عدّت بھی گذر گئی تو اب وہ عورتیں تمہاری عورتیں نہیں ان کو نکاح کرنے سے مت روکو اور خدا سے ڈرو اور ان کو عدّت کے دنوں میں گھروں میں سے مت نکالو مگر یہ کہ کوئی کھلی کھلی بدکاری ان سے ظاہر ہو اور جب تین حیض کی مدت گذر جائے تو پھر بعد اس کے احسان کے ساتھ رکھ لو یا احسان کے ساتھ اس کو رخصت کر دو۔ اگر کوئی تم میں سے خدا سے ڈرے گا یعنی طلاق دینے میں جلدی نہیں کرے گا اور کسی بے ثبوت شبہ پر بگڑ نہیں جائے گا تو خدا اس کو تمام مشکلات سے رہائی دے گا اور اس کو ایسے طور سے رزق پہنچائے گا کہ اسے علم نہیں ہوگا کہ مجھے کہاں سے رزق آتا ہے اور جو عورتیں حیض سے نومید ہوگئی ہیں ان کی مہلت طلاق بجائے تین حیض کے تین مہینہ ہیں اور جو خدا سے ڈرے گا یعنی طلاق دینے میں جلدی نہیں کرے گا خدا اس کے کام میں آسانی پیدا کر دے گا۔
(آریہ دھرم، روحانی خزائن جلد ۱۰صفحہ ۵۳)