تاریخ احمدیت فرانس کے چند ابتدائی اوراق
اس مضمون کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:
اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو ‘‘میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا’’ کے الفاظ میں بشارت عطا فرمائی تھی، گوکہ آج یہ بشارت نہایت عظیم الشان طور پر پوری ہو چکی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس علیہ السلام کی زندگی میں ہی اس کے رنگ دکھانا شروع کر دیے تھے اور پھر آپؑ کی وفات کے بعد خلافت کے ذریعے ان رنگوں کو مزید خوبصورت بناتا چلا گیا۔
فرانس بھی ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں حضرت اقدس علیہ السلام کا پیغام آپؑ کی زندگی میں ہی پہنچا۔ The Encyclopaedia of Islam کی تیاری کے سلسلے میں مشہور ڈچ مستشرق Martijn Theodoor Houtsma نے قادیان سے احمدیت کے متعلق مختصر تعارف کی درخواست کی تاکہ اُس کو انسائیکلوپیڈیا آف اسلام میں شامل کیا جاسکے جس کے جواب میں قادیان سے (اغلبًا حضرت مولوی محمد علی صاحب ایم اے ایڈیٹر ریویو آف ریلیجنز کا لکھا ہوا) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ، آپؑ کی آمد کی غرض و غایت اور سلسلہ احمدیہ کی ترقی وغیرہ پر 40 صفحاتی ایک مفصل مضمون بھیجا گیا ۔ انسائیکلوپیڈیا میں اس قدر طویل مضمون کی گنجائش نہیں تھی لہٰذا پروفیسر Th. Houtsma نے وہ مضمون پیرس سے تازہ جاری ہونے والے رسالے Revue Du Monde Musulman کو بھجوا دیا جو گوکہ فرانسیسی زبان کا رسالہ تھا لیکن اس نے یہ مضمون “A Short Sketch of the Ahmadiyya Movement” بزبان انگریزی ہی فروری 1907ء کے شمارے میں شائع کر دیا۔ یہ رسالہ 28 Rue Bonaparte, Paris سے شائع ہوتا تھا۔
1914ء میں پہلی جنگ عظیم کے لیے انڈین آرمی کا جو دستہ فرانس آیا اُس میں بعض احمدی احباب بھی تھے، ان احمدی احباب نے جہاں جنگی خدمات سر انجام دیں وہاں موقع ملنے پر احمدیت کا پیغام بھی وقتاً فوقتاً پہنچاتے رہے، ان احباب کا ذکر اخبار الفضل میں یوں درج ہے:
‘‘احمدی جماعت کے بعض عزیز ممبر فرانس میں جنگی خدمات کے سلسلہ میں ہیں۔ نہایت خوشی کی بات ہے کہ وہ سلسلہ کی تبلیغ کے سامان بھی کرتے رہتے ہیں….. سید محمد حسین شاہ صاحب، ڈاکٹر محمد الدین صاحب، غلام حسین صاحب لیس دفعدار، دفعدار رب نواز خان ، محمد ابراہیم صاحب ویٹرنری اسسٹنٹ، حق نواز صاحب ناگر، ڈاکٹر ظفر حسن ، وارث علی، عبدالرحمٰن۔’’
(الفضل 9؍مئی 1915ء صفحہ 2)
ایک اور جگہ اخبار الفضل لکھتا ہے:
‘‘…. ان احباب کی مساعی جمیلہ کا ذکر خیر جو فرانس میں بغرض جنگ مقیم ہیں، ناظرین کرام نے وقتاً فوقتاً پڑھا ہوگا جس سے ان کے شوق تبلیغ اور اخلاص کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ واقعہ میں جو کام ان احباب نے شروع کیا ہے خاص کر اخویم عبدالرحیم صاحب کلرک، ڈاکٹر محمد الدین صاحب اور ڈاکٹر محمد حسین صاحب جس سرگرمی، تن دہی سے دعوت الیٰ الخیر کے مبارک کام میں مشغول ہیں، وہ اس امر کا بدیہی ثبوت ہیں کہ خدا تعالیٰ نے فرانس کی سر زمین میں اپنے عظیم الشان نبی حضرت مسیح موعودؑ کا ذکر خیر انہی احباب کے ذریعہ پہنچانا مقدر کر رکھا تھا اور یہ سعادت خاص انہی کا حصہ تھی۔’’(الفضل 13؍ستمبر 1915ء صفحہ 4)
ان احمدی احباب نے ‘‘اسلامی اصول کی فلاسفی’’ کا فرانسیسی ترجمہ کرانے کے لیے ایک لیڈی مس فلورا میک کول سے رابطہ کیا۔ (الفضل 13؍مئی 1915ء صفحہ 14) ازاں بعد یہ ترجمہ کراکے نظر ثانی اور چھپنے کے لیے انگلستان میں متعین احمدی مبلغ حضرت چودھری فتح محمد سیال صاحب رضی اللہ عنہ کو بھجوایا، اس کے لیے مالی لحاظ سے بھی اپنا اپنا حصہ ڈالا۔
حضرت چودھری فتح محمد سیال صاحبؓ نے ایک مختصر تبلیغی ٹریکٹ “Prophecies that men should know” کا فرانسیسی ترجمہ کرکے دو ہزار کاپیاں فرانس بھیجیں۔(الفضل 15؍اگست 1915ء صفحہ 7 کالم 3)
اخبار الفضل 1915ء ، 1916ء میں دعوت الیٰ الخیر کے تحت فرانس میں تبلیغ کے عنوان سے رپورٹس شائع ہوتی رہیں۔ ان احباب میں سے بعض کو حضرت اقدس علیہ السلام کے صحابی ہونے کا شرف حاصل تھا۔ ان صحابہ میں حضرت ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب رضی اللہ عنہ آف دھرم کوٹ رندھاوا بعدہٗ قادیان (وصیت نمبر 1002۔ وفات: 20؍ستمبر 1945ء مدفون بہشتی مقبرہ قادیان) تھے جن کے متعلق اخبار الفضل ایک جگہ لکھتا ہے:
‘‘فرانس سے ڈاکٹر محمد حسین صاحب لکھتے ہیں: آخری ہفتہ جولائی کے اخبار الفضل کسی وجہ سے نہیں پہنچے جن کے لیے بہت بے چین ہوں، ایسا معلوم ہوتا ہے گویا ایک ہفتہ کا راشن نہیں ملا….’’(الفضل 19؍ستمبر 1915ء صفحہ 15 کالم 3)
پھر ایک صحابی حضرت ڈاکٹر یعقوب خان صاحب رضی اللہ عنہ افغان آف جہلم (بیعت: 1901ء۔ وفات: 8؍مئی 1931ء) ویٹرنری اسسٹنٹ بھی تھے ۔فرانس کے شہر Marseille میں آپ کا ذکر ملتا ہے:
‘‘یعقوب خاں وٹرنری اسسٹنٹ مارسیلز فرانس سے دعا کے لیے عرض کرتے ہیں۔’’(الفضل 18؍مارچ 1915ء صفحہ 1 کالم 2)
ایک اور صحابی حضرت لیفٹننٹ ڈاکٹر محمد الدین صاحب رضی اللہ عنہ (ولادت: 1882ء ۔ بیعت: 1905ء۔ وفات: 22؍مئی 1965ء) آف ظفر وال ضلع سیالکوٹ تھے۔ایک مرتبہ آپ نے حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں فرانس سے خط لکھا:
‘‘حضور دعا فرمائیں کہ وہ مولیٰ کریم جو ایک رائی کو پہاڑ بنا سکتا ہے، ہماری اس چھوٹی سی جماعت کو کامیاب و با مراد لائے اور اس ملک میں اسلام کا بیج بویا جائے (آمین) ہم لوگ تو کوئی علم وقابلیت یا جوہر نہیں رکھتے جس سے لوگوں کے دلوں کو ہاتھ میں لے سکیں بلکہ ہم تو یہاں کی زبان سے بھی نا آشنا ہیں، ہاں مگر افضال الٰہی کے امیدوار ہیں کہ وہی ہمارا حافظ و ناصر، وہی ہمارا رہنما ہو۔’’ (الفضل 24؍اکتوبر 1915ء صفحہ 7 کالم 3)
جنگی خدمات کے لیے آنے والوں میں محترم ڈاکٹر محمد عبداللہ خان صاحب سابق امیر جماعت کوئٹہ (بیعت: 1914ء۔ وفات: 10؍فروری 1966ء) بھی تھے۔
(تاریخ احمدیت جلد 23 صفحہ 677،676)
ان کے بعد فرانس میں احمدیت کی تبلیغ کا موقع پانے والوں میں حضرت ملک محمد حسین صاحبؓ ابن حضرت ملک غلام حسین رہتاسی رضی اللہ عنہ یکے از 313رہتاس ضلع جہلم بھی تھے۔ آپ بیرسٹری کی تعلیم کے سلسلے میں انگلستان تشریف لے گئے جہاں سے پیرس جانے کا بھی موقع پایا اور اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تبلیغ احمدیت میں بھی کوشاں رہے، مبلغ انگلستان محترم مولوی مبارک علی صاحب بی اے بی ٹی (وفات : یکم نومبر 1969ء) اپنی ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں:
‘‘ملک محمد حسین صاحب کا پیرس میں لیکچر ہوا اور انہوں نے وہاں احمدیہ لٹریچر بھی تقسیم کیا ہے ….. اب وہ فرانسیسی زبان سیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں تا کہ فرنچ میں تبلیغ کی جاوے۔ ملک صاحب موصوف پیرس سے لندن واپس آگئے اور مجھے کام میں مدد دیتے ہیں۔’’(الفضل یکم ستمبر 1921ء صفحہ 1) پیرس میں تبلیغ کے متعلق آپ کی اپنی رپورٹ بھی اخبار الفضل 29؍اگست 1921ء صفحہ 9 پر درج ہے۔ آپ نے 4؍اپریل 1935ء کو کینیا میں وفات پائی اور وہیں احمدیہ قبرستان میں دفن ہوئے۔
(الفضل 19؍جون 1935ء صفحہ 8)
مبلغ انگلستان حضرت چودھری فتح محمد سیال صاحب رضی اللہ عنہ نے بھی ایک مرتبہ پیرس (فرانس) کا کامیاب دورہ کیا، دورے کی رپورٹ ‘‘احمدی مبلغ دارالسلطنت فرانس میں’’ کے تحت اخبار الفضل میں شائع شدہ ہے۔
(الفضل 30 اگست 1920ء صفحہ 6)
حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ (بیعت: 31؍جنوری 1891ء۔ وفات: 13؍فروری 1957ء) امریکہ میں ساڑھے تین سال تبلیغ کے بعد جب ہندوستان واپس جانے لگے تو آپ کا سفر براستہ فرانس ہوا، آپ مورخہ 8؍ستمبر 1923ء کو امریکہ کے شہر Boston کی بندرگاہ سے روانہ ہوئے اور اسی مہینے کے آخر میں پیرس میں نزیل ہوئے۔ (الفضل 30؍اکتوبر 1930ء صفحہ 1،2) آگے ہندوستان کے لیے بحری جہاز میں جگہ نہ ملنے کی وجہ سے آپ کو کچھ ہفتے (قریبًا 6 ہفتے) فرانس میں رکنا پڑا، چنانچہ فرانس میں قیام کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ نے اسلام احمدیت کا خوب پیغام پہنچایا۔ لیکچرز، انٹرویوز کے علاوہ انفرادی ملاقاتوں کے ذریعے بھرپور تبلیغ احمدیت کی۔ مورخہ 21 اکتوبر 1923ء کو آپ نے "Société des ingénieurs civils de France” میں سیرت النبی ﷺ پر لیکچر دیا۔ (دی مسلم سن رائز، شکاگو امریکہ، جنوری 1924ء صفحہ 22،23)فرانس میں مقیم عرب طلباء کو تبلیغ کی، اسی طرح مہاراجہ کپورتھلہ Sir Jagatjit Singh Sahib Bahadur اور فرانس میں ایران کے سفیر Samad Khan Momtaz os-Saltaneh سے ملاقات اور احمدیت کا پیغام پہنچانے کا موقع پایا۔ (الفضل 20؍نومبر 1923ء صفحہ 2) مورخہ 9؍نومبر 1923ء بروز جمعۃ المبارک آپ فرانس کے دوسرے بڑے شہر Marseille سے ہندوستان کے لیے روانہ ہوئے، آپ کی روانگی سے دو دن قبل یہاں کے اخبار Le Petit Marseillais نے 7؍نومبر 1923ء کے شمارے میں آپ کا اور جماعت احمدیہ کا تذکرہ شائع فرمایا۔
(بحوالہ دی مسلم سن رائز ، شکاگو۔ اپریل 1924ء صفحہ 67)
1924ء میں سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے سفر یورپ کے دوران فرانس کو بھی یہ سعادت حاصل ہوئی کہ حضورؓ اپنے قافلہ کے ہمراہ یہاں رونق افروز ہوئے۔ آپؓ کے بابرکت وجود کے ورود سے فرانس میں احمدیت کے تعارف و تبلیغ میں عظیم الشان اضافہ ہوا، اس کی تفصیل الفضل انٹرنیشنل میں چند دن پہلے گزر چکی ہے۔
فرانس کے مشہور رسالے Journal Asiatique نے جو 13Rue Jacob, Parisسے شائع ہوتا تھا، اپنی جولائی 1928ء کی اشاعت میں “Les Ahmadiyya De Qadian” کے عنوان سے 20 صفحاتی مضمون شائع کیا۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی جاری کردہ الٰہی تحریک ‘‘تحریک جدید’’کے تحت جو مبلغین بیرون ممالک بھجوائے گئے اُن میں محترم ملک عطاء الرحمٰن صاحب کو فرانس بھجوایا گیا۔
الحمد للہ !آج ہم خلافت خامسہ کے با برکت دور میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے نظارے کر رہے ہیں ۔
٭…٭…٭