اپنی لڑکی کسی غیراحمدی کو نہ دینی چاہیے
غیر احمدیوں کی لڑکی لے لینے میں حرج نہیں ہے کیونکہ اہلِ کتاب عورتوں سے بھی تو نکاح جائز ہے بلکہ اس میں تو فائدہ ہے کہ ایک اور انسان ہدایت پاتاہے۔ اپنی لڑکی کسی غیراحمدی کو نہ دینی چاہیے۔ اگر ملے تو بیشک لو۔ لینے میں حرج نہیں۔ اور دینے میں گناہ ہے۔
(ملفوظات جلد ۱۰ صفحہ ۲۳۰،ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
عمرکا اعتبار نہیں۔ ہر شئے پر اپنے دین کو مقدم رکھو۔ زمانہ ایساآ گیا ہے کہ پہلے تو خیالی طورپر اندازہ عمرکا لگایا جاتاتھامگر اب تو یہ بھی مشکل ہے۔دانشمند کو چاہیے کہ ضرور موت کاانتظام کر ے۔ میں اتنی دیر سے اپنی برادری سے الگ ہوں۔میرا کسی نے کیابگاڑ دیا۔ خدا تعالیٰ کے مقابل پرکسی کو معبود نہیں بنانا چاہیے۔ ایک غیر مومن کی بیمار پرسی اور ماتم پُرسی تو حسن اخلاق کانتیجہ ہے لیکن اس کے واسطے کسی شعائراسلام کو بجا لانا گناہ ہے۔ مومن کاحق کا فرکو دینا نہیں چاہیے اور نہ منافقانہ ڈھنگ اختیار کرنا چاہیے۔
(ملفوظات جلد ۶ صفحہ ۴۵-۴۶، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
ایک شخص کی درخواست پیش ہوئی کہ میری ہمشیرہ کی منگنی مدت سے ایک غیر احمدی کے ساتھ ہو چکی ہے۔اب اس کو قائم رکھنا چاہیے یا نہیں؟فرمایا: ’’ناجائز وعدہ کو توڑنا اور اصلاح کرنا ضروری ہے۔ آنحضرت ﷺنے قسم کھائی تھی کہ شہد نہ کھائیں گے۔ خدا تعالیٰ نے حکم دیا کہ ایسی قسم کو توڑ دیا جاوے۔ علاوہ ازیں منگنی تو ہوتی ہی اسی لئے ہے کہ اس عرصہ میں تمام حسن و قبح معلوم ہو جاویں۔ منگنی نکاح نہیں ہے کہ اس کو توڑنا گناہ ہو۔‘‘
(ملفوظات جلد ۹صفحہ ۳۰۰-۳۰۱، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)