نظام وصیت کی اہمیت
وَاَنۡفِقُوۡا فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَلَا تُلۡقُوۡا بِاَيۡدِيۡكُمۡ اِلَى التَّهۡلُكَةِ ۖ ۛۚ وَاَحۡسِنُوۡا ۛۚ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الۡمُحۡسِنِيۡنَ (البقرۃ آیت ۱۹۶)ترجمہ:اور خدا کی راہ میں (مال) خرچ کرو اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو اور نیکی کرو بیشک خدا نیکی کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت پر بہت بڑا احسان ہے کہ احباب جماعت اپنے عہد کے مطابق مالی قربانیوں میں پیش پیش رہتے ہیں۔مالی قربانی انتہائی ضروری ہے جس سے اصلاح نفس ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن مجید کی سورۃ التغابن آیت ۱۷-۱۸ میں ارشاد فرماتا ہے :فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسۡتَطَعۡتُمۡ وَاسۡمَعُوۡا وَاَطِيۡعُوۡا وَاَنۡفِقُوۡا خَيۡرًا لِّاَنۡفُسِكُمۡؕ وَمَنۡ يُّوۡقَ شُحَّ نَفۡسِهٖ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ۔اِنۡ تُقۡرِضُوا اللّٰهَ قَرۡضًا حَسَنًا يُّضٰعِفۡهُ لَـكُمۡ وَيَغۡفِرۡ لَـكُمۡؕ وَاللّٰهُ شَكُوۡرٌ حَلِيۡمٌۙ۔ترجمہ: پس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور جس حد تک تمہیں توفیق ہے سنو اور اطاعت کرو اور خرچ کرو یہ تمہارے لیے بہتر ہے اور جو نفس کی کنجوسی سے بچائے جائیں تو یہی ہیں وہ لوگ جو کامیاب ہونے والے ہیں۔
اگر تم اللہ کو قرضہ حسنہ دو گے تو وہ اسے تمہارے لیے بڑھا دے گا اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ بہت قدر شناس اور بردبار ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتےہیں:تمہیں خوشخبری ہو کہ قرب پانے کا میدان خالی ہے۔ ہر قوم دنیا سے پیار کر رہی ہےاور وہ بات جس سے خدا راضی ہو اس کی طرف دنیا کو توجہ نہیں۔ وہ لوگ جو پورے زور سے اس دروازہ میں داخل ہونا چاہتے ہیں ان کے لیے موقع ہے کہ اپنے جوہر دکھلائیں اور خدا سے خاص انعام پاویں۔(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ۳۰۸-۳۰۹)
آپ علیہ السلام مزید فرماتے ہیں:عرصہ ہوا خدا تعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کیا تھا کہ ایک بہشتی مقبرہ ہو گا گویا اس میں وہ لوگ داخل ہوں گے جو خدا تعالیٰ کے علم اور ارادہ میں جنتی ہوں گے پھر اس کے متعلق الہام ہوا اُنْزِلَ فِيْهَا كُلُّ رَحْمَةٍ،، اس سے کوئی نعمت اور رحمت باہر نہیں رہتی۔ اب جو شخص چاہتا ہے کہ وہ ایسی رحمت کے نزول کی جگہ میں داخل ہو، کیا عمدہ موقع ہے کہ وہ دین کو دنیا پر مقدم کر لے اور خدا تعالیٰ کی مرضی کو اپنی مرضی پر مقدم کر لے۔(ملفوظات جلد ۴ صفحہ ۶۱۶، ایڈیشن ۱۹۸۸ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:مالی حالت کو درست کرنے کی ایک صورت وہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے الہام الٰہی سے مقرر فرمائی ہے۔ اور وہ وصیت ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وصیت کو جزو ایمان قرار دیا ہے احباب کو اس طرف توجہ کرنی چاہیے۔(انوار العلوم جلد ۱۱ صفحہ ۸۳)
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:نظام وصیت جس کی ہم باتیں کر رہے ہیں اس کے ذریعے ایک عظیم بیج بویا گیا۔ نظام وصیت سے صرف نظام خلافت ہی پورا فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
آپ گھروں میں جا کر الوصیت کو پھر پڑھیں آپ کو پتہ لگے گا۔ جس مقصد کے لیے نظام وصیت کو قائم کیا گیا۔ جس مقصد کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی ایک تقریر میں ایک پہلو سے بڑا نمایاں کر کے اور بڑے حسین رنگ میں بیان کیا تھا کہ اقتصادی ضروریات کے سلسلے میں اس کا کیا کردار ہے جو اس نے ادا کرنا ہے اور ہزاروں اس کی برکتیں ہیں۔ صرف نظام خلافت ان برکات سے حصہ دار بنانے کا انتظام کر سکتا ہے۔ یہ دونوں پہلو بہ پہلو آگے چل رہے ہیں۔ (رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۷۶ء صفحہ ۱۸۲)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: وصیت کی بنیاد وہ روح ہے جس کے پیش نظر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نظام وصیت جاری فرمایا اور وہ روح یہ ہے کہ وہی شخص موصی کہلائے گا جو دینی عمل اور اعتقادات کے لحاظ سے صف اول پر ہو اور مالی قربانی میں بھی ایسی شاندار قربانی کرنے والا ہو کہ آئندہ نسلیں اس کی قربانی کا حال دیکھ کر اس کے لیے دعائیں کریں۔(رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۸۳ء صفحہ ۱۴۱-۱۴۲)
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:جو لوگ نظام وصیت میں شامل ہیں ان کے ایمان، اطاعت اور قربانیوں کے معیار بھی ہمیشہ بڑھتے چلے جانے چاہئیں۔ خلافت سے انہوں نے ایک عہد کیا ہے اس لیے وصیت کرنے کے بعد پھر تقویٰ میں بڑھنے کی کوشش بھی پہلے سے زیادہ ہونی چاہیے۔ خلافت سے وفا کا تعلق بھی پہلے سے بڑھ کر ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اس میں ترقی کرتے چلے جانے کی توفیق عطا فرمائے۔ نظام خلافت کے انہی وعدوں سے فیض پانے کی ہر احمدی کو توفیق ملتی رہے تاکہ یہ نظام ہمیشہ جاری رہے اور ہم اس سے فیض پاتے چلے جائیں۔(الفضل انٹرنیشنل ۱۷؍جون ۲۰۱۱ء)
اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم مالی قربانیوں میں بڑھنے والے ہوں اور ان قربانیوں کے اعلیٰ معیار قائم کرنے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنیں۔ آمین