جب بدعتوں کا راستہ کھل جاتا ہے تو نئی نئی بدعتیں دین میں راہ پاتی ہیں
حضور انور ایدہ اللہ فرماتے ہیں کہ
حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا جن رسموں کا دین سے کوئی واسطہ نہیں ہے، جو دین سے دور لے جانے والی، اللہ اور اس کے رسول کے احکامات اور ارشادات کی تخفیف کرنے والی ہیں۔ وہ سب مردود ر سمیں ہیں۔ سب فضول ہیں۔ ردّ کرنے کے لائق ہیں۔ پس ان سے بچو کیونکہ پھر یہ دین میں نئی نئی بدعات کو جگہ دیں گی اور دین بگڑ جائے گا۔ جس طرح اب دیکھو دوسرے مذاہب میں رسموں نے جگہ پا کر دین کو بگاڑ دیا ہے۔ خیر یہ تو ہونا ہی تھا کیونکہ اس زمانے میں زندہ مذہب صرف اور صرف اسلام نے ہی رہنا تھا۔ لیکن آپ جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ دوسرے مذاہب نے مثلاً عیسائیت نے باوجود اس کے کہ ایک مذہب ہے۔ مختلف ممالک میں،مختلف علاقوں میں اور ملکوں میں اپنے رسم و رواج کے مطابق اپنی رسموں کو بھی مذہب کا حصہ بنایا ہوا ہے۔ افریقہ میں بھی یہ باتیں نظر آتی ہیں۔ پھر جب بدعتوں کا راستہ کھل جاتا ہے تو نئی نئی بدعتیں دین میں راہ پاتی ہیں۔ تو آنحضرت ﷺ نے ان بدعتیں پیدا کرنے والوں کے لیے سخت انذار کیا ہے، سخت ڈرایا ہے۔ آپ کو اس کی بڑی فکر تھی، حدیث میں آتا ہے فرمایا: میں تمہیں ان بدعتوں کی وجہ سے، تمہارے ہوا و ہوس کا شکار ہونے کی وجہ سے بہت زیادہ خوف زدہ ہوں مجھے ڈر ہے کہ اس کی وجہ سے دین میں بگاڑ نہ پیدا ہو جائے۔ تم گمراہ نہ ہو جاؤ۔
(شرائط بیعت اور احمدی کی ذمہ داریاں – صفحہ 106-105)
(مشکل الفاظ کے معانی: تخفیف: کمی، رسم: رواج، اصول، قاعدہ۔ مردود: ردّ کی گئی۔بگڑنا: فساد، بگڑنا)