سات سے پندرہ سال کے احمدی بچوں کی ذیلی تنظیم مجلس اطفال الاحمدیہ
ہوں اللہ کا بندہ
محمدؐ کی امت
ہے احمدؑ سے بیعت
خلیفہ سے طاعت
مرا نام پوچھو
تو میں احمدی ہوں
(بخار دل صفحہ ۷۳)
ہم خوش قسمت گھرانوں کے خوش قسمت لوگ ہیں کہ ہمارے آباء و اجداد کو اس زمانے کے امام و مہدی ؑکو ماننے کی سعادت نصیب ہوئی اور آج ہم اس زمانے کے امام کی جانشینی میں قائم خلافت کی خوشبو سے معطر ہو رہے ہیں۔ یہ وہی خلافت ہے جس کی پیش گوئی حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ نے کی تھی اور فرمایا تھا کہ اگر تم زمین میں خلیفۃ اللہ کو دیکھو تو اس سے چمٹ جانا (مسند احمد بن حنبل) ہاں یہ وہی خلافت ہے جو اپنے دل میں ہمارا درد رکھنے والی ہے ، ہم سے محبت رکھنے والی ، ہمارے لیے دعائیں کرنے والی اور ہماری تعلیم و تربیت کے لیے فکر مند ہے اور ہماری اعلیٰ تربیت کر کے ہمیں عوام الناس کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک بنانے والی ہے۔
حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ نے جہاں جماعت احمدیہ کی ترقی کے لیے بہت سی تحریکات کاآغاز فرمایا اور جماعت کو عالمگیر سطح پر منظم فرمایا وہاں آپؓ نے نوجوانوں کی دینی و اخلاقی ترقی کے واسطے جنوری ۱۹۳۸ء میں بمقام مسجد اقصیٰ قادیان خدام الاحمدیہ کی تنظیم کا آغاز فرمایا اور خدام الاحمدیہ کو جماعت کی ریڑھ کی ہڈی قرار دیا ۔ چند ماہ بعد آپؓ نے ۷ سے ۱۵ سال کی عمر کے بچوں کی الگ تنظیم بنانے کا بھی ارشاد فرمایا ۔چنانچہ آپؓ فرماتے ہیں:’’اصل حقیقی چیز یہ ہے کہ اچھی عادت بھی ہو اور علم بھی ہو مگر یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب عادت کے زمانہ کی بھی اصلاح کی جائے اور علم کے زمانہ کی بھی اصلاح کی جائے۔ عادت کا زمانہ بچپن کا زمانہ ہوتا ہے اور علم کا زمانہ جوانی کا زمانہ ہوتا ہے پس خدام الاحمدیہ کی ایک شاخ ایسی بھی کھولی جائے جس میں پانچ چھ سال عمر کے بچوں سے لے کر پندرہ، سولہ سال تک کی عمر کے بچے شامل ہو سکیں یا اگر کوئی اور حد بندی تجویز ہو تو اس کے ماتحت بچوں کو شامل کیا جائے۔ بہرحال بچوں کی ایک الگ شاخ ہونی چاہیے اور ان کے الگ نگران مقرر ہونے چاہئیں۔ مگر یہ امر مد نظر رکھنا چاہیے کہ ان بچوں کے نگران نوجوان نہ ہوں بلکہ بڑی عمر کے لوگ ہوں…ایسے لوگ جن کی عمریں گو زیادہ ہوں مگر ان کے دل جوان ہوں اور وہ خدمت دین کے لیے نہایت بشاشت اور خوشی سے کام کرنے کے لیے تیار ہوں۔ ایسے لوگوں کے سپرد بچوں کی نگرانی کی جائے اور ان کے فرائض میں یہ امر داخل کیا جائے کہ وہ بچوں کو پنجوقتہ نمازوں میں باقاعدہ لائیں۔ سوال و جواب کے طور پر دینی اور مذہبی مسائل سمجھائیں، پریڈ کرائیں اور اسی طرح کے اور کام ان سے لیں۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۵؍ اپریل ۱۹۳۸ء)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بچوں کے لیے باقاعدہ تنظیم کا آغاز ۲۶؍ جولائی ۱۹۴۰ء کو فرمایا اور اس تنظیم کا نام اطفال الاحمدیہ رکھا نیز اس تنظیم کو خدام الاحمدیہ کے ساتھ ہی منسلک رکھا تاکہ بڑوں کی زیر نگرانی بچے پرورش پائیں۔ چنانچہ آپؓ فرماتے ہیں:’’ایک مہینہ کے اندر اندر خدام الاحمدیہ آٹھ سے پندرہ سال کی عمر تک کے بچوں کو منظم کریں۔ اور اطفال احمدیہ کے نام سے ان کی ایک جماعت بنائی جائے اور میرے ساتھ مشورہ کر کے ان کے لیے مناسب پروگرام تجویز کیا جائے۔‘‘ (الفضل یکم اگست ۱۹۴۰ء صفحہ ۷)
تنظیمی اعتبار سے اطفال الاحمدیہ کو دو معیار پر تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک معیار صغیر ، جس میں ۷ سے ۱۲ سال کی عمر کے اطفال شامل ہیں اور دوسرا معیار کبیر ، جس میں ۱۳ سے ۱۵ سال کی عمر کے اطفال شامل ہیں ۔ مقامی طور پر اطفال الاحمدیہ کی تنظیم کا نگران ناظم اطفال کہلاتا ہے جو خدام الاحمدیہ کی تنظیم کا ہی ایک رکن ہوتا ہے اور ملکی سطح پر اطفال الاحمدیہ کا نگران مہتمم اطفال کہلاتا ہے۔
حضرت مصلح موعودؓ کی زندگی ہمارے لیے بہترین مشعل راہ ہے۔ آپؓ نے پوری جماعت کو تربیت کے وہ اعلیٰ گُر بتا دیےکہ جن پر چل کر ہم باخدا انسان بن سکتے ہیں ۔چنانچہ آپؓ نے مشعل راہ جلد چہارم صفحہ ۶۱ پر اطفال الاحمدیہ میں تین عادتیں پیدا کرنے کا ذکر فرمایا اور فرمایا کہ اگر یہ عادتیں بچے میں پیدا ہو جائیں تو جوانی میں ایسے بچے بہت کارآمد اور مفید ثابت ہو سکتے ہیں:۔ ۱:بچوں میں محنت کی عادت پیدا کی جائے۔ ۲: سچ بولنے کی عادت پیدا کی جائے۔ ۳: نمازوں کی باقاعدگی کی عادت پیدا کی جائے۔
ذات میں چھوٹے محمدؐ بن کے ہم دکھلائیں گے
گرچہ ہیں اطفال لیکن صاحب کردار ہم
حضرت مصلح موعودؓ نے اطفال الاحمدیہ کا بھی وعدہ تیار کروایا جسے وعدہ طفل کہا جاتا ہے : اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ دین اسلام اور احمدیت قوم اور وطن کی خدمت کے لئے ہر دم تیار رہوں گا۔ ہمیشہ سچ بولوں گا، کسی کو گالی نہیں دوں گا۔ اور حضرت خلیفۃ المسیح کی تمام نصیحتوں پر عمل کرنے کی کوشش کروں گا۔ ان شاءاللہ تعالیٰ
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے اپنے ۲۴؍ نومبر ۱۹۸۹ء کے خطبہ جمعہ میں جماعت احمدیہ کو پانچ بنیادی اخلاق کو اپنانے اور ان کی روح اپنے اندر پیدا کرنے کا ارشاد فرمایا ۔ ہمیں ان پانچ اخلاق کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہئے اور اطفال الاحمدیہ کو بھی چاہیے کہ اپنی زندگیاں ان کے مطابق گزاریں تاکہ ہم با اخلاق احمدی مسلمان بن سکیں اور غیروں کے لیے ایک نمونہ ہوں ۔ وہ پانچ بنیادی اخلاق یہ ہیں: سچائی، نرم اور پاک زبان کا استعمال، وسعت حوصلہ، دوسروں کی تکلیف کا احساس اور اسے دور کرنا ، مضبوط عزم و ہمت۔
ہمارے پیارے امام سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سالانہ اجتماع اطفال الاحمدیہ جرمنی ۲۰۱۱ء کے اختتامی خطاب کے موقع پر اطفال کو نماز، تلاوت قرآن کریم، سچائی ، سوشل میڈیا کے مثبت استعمال اور والدین کے ساتھ عزت و احترام کا سلوک رکھنے کی طرف قیمتی نصائح فرمائیں ۔ میں اپنے مضمون کو پیارے آقا کے اسی خطاب کے آخری الفاظ سے ختم کرتا ہوں ۔ حضور انور اطفال الاحمدیہ کو قرآن کریم پڑھنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ایک بہت اہم چیز یہ ہے کہ قرآن کریم پڑھنا۔ بہت سارے بچے خواہش کرتے ہیں اور میرے سے آمین بھی کروا لیتے ہیں۔ چھ سات آٹھ سال نو سال کی عمر تک آمین ہو جاتی ہے بلکہ بعض پانچ سال کی عمر میں قرآن شریف پڑھ لیتے ہیں لیکن یہاں کچھ والدین بھی بیٹھے ہیں میں ان سے بھی کہوں گا کہ وہ اس کے بعد بچوں کو قرآن شریف پڑھانے پہ توجہ نہیں دیتے۔ تو والدین بھی توجہ دیں اور جو بچے دس گیارہ سال کی عمر میں ہیں بلکہ نو سال کی عمر کے بھی ، جب قرآن شریف ختم کر لیا ہے تو خود بھی روزانہ چاہے آدھا رکوع ہی پڑھیں ، قرآن کریم پڑھنے کی عادت ڈالیں۔ قرآن کریم پڑھنے کی عادت ہوگی تو پھر آہستہ آہستہ اس کو سمجھنے کی بھی آپ کو عادت پڑے گی۔ اور جب وہ قرآن شریف کو سمجھیں گے تو پھر آپ کو پتا لگے گا کہ ایک احمدی مسلمان بچے کی کیا ذمہ داریاں ہیں جن کو اس نے ادا کرنا ہے تاکہ پھر وہ دین کی بھی صحیح طرح خدمت کر سکے اور معاشرے کے حق بھی ادا کر سکے اور اللہ تعالیٰ کے حق بھی ادا کر سکے، اپنی حکومت کے حق بھی ادا کر سکے، اپنے بڑوں کے حق بھی ادا کر سکے۔پس یہ قرآن کریم پڑھنا بہت ضروری ہے اور جو تیرہ چودہ سال کے بچے ہیں ان کو کوشش کرنی چاہئے کہ ترجمے سے قرآن کریم پڑھنا شروع کر دیں۔ابھی سے ہی یہ بات آپ میں پیدا ہوجائے گی تو انشاء اللہ تعالیٰ آپ بڑے ہو کر وہ انسان بن سکیں گے جن کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ ان میں ایسی صلاحیتیں پیدا ہو گئی ہیں کہ یہ اب انشاء اللہ تعالیٰ جماعت کی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے والے ہیں اور اس ترقی کا حصہ بنیں گے جو اللہ تعالیٰ نے جماعت کے لئے مقدر کی ہے۔ پس آپ لوگ ہمیشہ ان باتوں کو یاد رکھیں۔ نمازوں کی طرف توجہ دیں۔ اپنے اخلاق کی طرف توجہ دیں۔ قرآن کریم پڑھنے کی طرف توجہ دیں۔ اپنی اسکول کی پڑھائی کی طرف توجہ دیں۔ بڑوں کے ادب کی طرف توجہ دیں۔ اور آپس میں بچے بھی ایک دوسرے سے پیار اور محبت سے رہنا سیکھیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔(مجلس اطفال الاحمدیہ جرمنی کے سالانہ اجتماع ۲۰۱۱ء کے موقع پر خطاب مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۹؍ مارچ ۲۰۱۲ء)