ایک وقت تک مناسب سزا دینے کا حکم ہے
اسلام کی تعلیم کی بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اعتدال پر مبنی تعلیم ہے۔ آنحضورﷺ کا یہ ارشاد بھی اپنے اندر اسی اعتدال کو سموئے ہوئے ہے کہ عبادت جو کہ ہر انسان کی پیدائش کا اوّلین مقصد ہے، بچپن سے ہی اس پر زور دیا جائے اور بچوں کو اپنے نمونہ کے ساتھ ساتھ نماز پڑھنے کی تلقین کی جائے۔ تین سال کی مسلسل تلقین اور نصائح کے بعد بھی اگر بچہ اس کی پابندی نہ کرے تو اسے ایک وقت تک مناسب سزا دینے کا حکم ہے۔
لیکن یہ سزا ایسی نہیں ہونی چاہیے جس میں سزا دینے والے کی طرف سے اس بچہ کے ساتھ ایک دشمنی کا رنگ ہو یا انسان یہ تصور کرے کہ اس سزا کے نتیجہ میں وہ ضرور اس بچہ کو نماز کا عادی بنا سکتا ہے۔ بلکہ اس سزا میں بھی یہ امر ہی پیش نظر ہونا چاہیے کہ تربیت محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ہو سکتی ہے، جس کے حصول کا اصل ذریعہ دعا ہی ہے۔ اور جو سزا دینے کی راہ اختیار کی جا رہی ہے وہ بھی دراصل اللہ تعالیٰ ہی کے رسول کے حکم پر اختیار کی جا رہی ہےتا کہ بچہ اس سے عبرت پکڑ کر نماز کی طرف راغب ہو جائے۔
پھر جب بچہ Mature ہو جائے اور بارہ تیرہ سال کی عمر کو پہنچ کر اچھے بُرے کی سمجھ اس میں پیدا ہو جائے تو اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کر کے اس کےلیے صرف دعا اور وعظ و نصیحت کے طریق کو اپنانا چاہیے۔
(بنیادی مسائل کے جوابات نمبر ۹
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۱۲؍فروری ۲۰۲۱ء)