مشعل راہ جلد اوّل میں سے حضرت مصلح موعودؓ کے خدام کے لیے باون اقوال زرّیں
آخری زمانہ کا ذکر کرتے ہوئے نبی اکرمؐ نے فرمایا: لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَتَقَارَبَ الزَّمَانُ فَتَكُوْنُ السَّنَةُ كَالشَّهْرِ وَالشَّهْرُ كَالْجُمُعَةِ وَتَكُوْنُ الْجُمُعَةُ كَالْيَوْمِ وَيَكُوْنُ الْيَوْمُ كَالسَّاعَةِ وَتَكُوْنُ السَّاعَةُ كَالضَّرْمَةِ بِالنَّارِ۔ (ترمذی، کتاب الزھدعن رسول اللّٰہؐ، باب ماجاء فی تقارب الزمان و قصر الامل) قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی حتی کہ زمانہ قریب ہوجائے گا، سال مہینے کے برابر، مہینہ ہفتے کے برابر، ہفتہ ایک دن کے برابر، دن ایک ساعت کی مانند گزرجائے گا اور ساعت آگ کی ایک چنگاری کی مانند پلک جھپکنے میں گزر جائے گی۔
ہم میں سے ہر ایک آپؐ کی اس پیشگوئی کا شاہد ہے۔ وقت کی رفتار پکڑنے سے بھی ہاتھ نہیں آتی۔ کب سورج چڑھا اور غروب ہوا پتا ہی نہیں چلتا۔ زمانہ کی اس بھاگم بھاگ میں کتابیں پڑھنا اور مطالعہ کرنے کا رجحان کم سے کم تر ہوتا چلا جارہا ہے۔ آج کل تو مختصر ایک دو سطروں سے سبق لینے کا شغف ہے۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پرآئے دن ۳۰۔۵۰یا۷۵ اقوال زریں کی متفرق فہرستیں نظر آتی ہیں۔جن میں بامقصدو کامیاب زندگی گزانے کی نصیحتیں کی جاتی ہیں۔خاکسار نے بھی جب ایسی ایک فہرست پڑھی تو خیال آیا کیوں نہ حضرت مصلح موعودؓ کی خدام الاحمدیہ کے لیے تقاریر میں سے مختصر سطروں کا انتخاب کیاجائے۔تا خدام ان سنہری اقوال سے کم وقت میں فائدہ اٹھائیں۔ اسی سوچ کو لے کرخاکسار نے مشعل راہ جلد اول سے باون اقوال زریں منتخب کیے ہیں۔جن میں ہر سطر اپنے اندرایک گہرا مضمون سموئے ہوئے ہے۔ یہ ایسے اسباق ہیں جن کی جگالی خدام الاحمدیہ کا فرض ہے۔ فرمایا:
۱.حکم دو تو محبت اور پیار اور سمجھا کر دو۔(صفحہ۱۵)
۲.تم تبلیغ کے لئے اوقات وقف کرو۔(صفحہ۲۹)
۳.نیک کاموں میں سر گرمی سے مشغول ہو جاؤ تعاون کرنے والے خود بخود آملیں گے۔(صفحہ۲۷)
۴.وہ شخص ہر گز مومن نہیں ہو سکتا جو کہتا ہے کہ میری یہ ذمہ داری ہے اور فلاں کی وہ ذمہ داری ہے۔ مومن وہ ہے جو سمجھتا ہے کہ صرف اور صرف میری ذمہ داری ہے۔(صفحہ۲۵)
۵.اگر تم نوجوانوں کے لئے کامل نمونہ بن جاؤ تو یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ تم سے نہ ملیں…تمہارے نمونہ میں کوئی نقص ہے۔(صفحہ۲۴)
۶.عادت کا زمانہ بچپن کا زمانہ ہوتا ہے اور علم کا زمانہ جوانی کا زمانہ ہوتا ہے۔(صفحہ۵۴)
۷.خدام کا فرض ہے کہ کوشش کریں کہ سو فیصدی نوجوان نماز تہجد کے عادی ہوں۔(صفحہ۳۶۴)
۸.مانگ کر کھانا ایک لعنت ہے۔(صفحہ۸۸)
۹.کوئی جائز کام اور پیشہ ذلیل نہیں۔(صفحہ۱۳۷)
۱۰.تیسری بات جو ان کے پروگرام میں ہونی چاہیئے وہ آوارگی کا مٹانا ہے۔(صفحہ۱۰۴)
۱۱.کھیل آوارگی نہیں۔(صفحہ۱۰۷)
۱۲.بچوں کو ہر وقت اچھے کاموں میں مصروف رکھنے سے آوارگی کا امکان نہیں رہتا۔(صفحہ۱۰۷)
۱۳.خدام الاحمدیہ قرآن کریم با ترجمہ پڑھنے پڑھانے کا انتظام کریں۔(صفحہ۱۰۴)
۱۴.ایک چھوٹا سا ادب خطبہ کو توجہ سے سننا ہے۔ (صفحہ۱۰۷)
۱۵.نوجوانوں میں علمی اور دینی موضوعات پر گفتگو کرنے کا شوق پیدا کیا جائے۔(صفحہ۱۰۷)
۱۶.خدام الاحمدیہ نوجوانوں میں سچ بولنے کی عادت ڈالے اور ہر خادم سے سچ بولنے کا عہد لے۔(صفحہ۱۲۷)
۱۷.قرآن کریم…میں دولت کمانے سے منع نہیں کیا گیا۔(صفحہ۱۳۱)
۱۸.قومی ترقی میں سب سے بڑی روک یہ ہوتی ہے کہ بعض افراد کے دلوں میں روپیہ کا لالچ پیدا ہوجاتا ہے اور اس کے نتیجہ میں وہ طوعی قربانیوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔(صفحہ ۸۰۸)
۱۹.ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالنی چاہیئے…کسی کام کو اپنے لئے عار نہ سمجھا جائے۔(صفحہ۱۳۴)
۲۰.میں اس صفائی کا بھی قائل نہیں ہوں…کئی کئی گھنٹے بالوں اور چہرہ کی صفائی میں لگا دیتے ہیں….تو جس صفائی سے وقت ضائع ہو…یہ صفائی نہیں ہے(صفحہ۱۴۲-۱۴۳)
۲۱.درحقیقت اتار چڑھاؤ ہی ہے جو قوموں کو نقصان پہنچایا کرتا اور ان کی ترقیات کو روک دیتا ہےیعنی ایک وقت تو وہ جوش میں آجاتی اور بڑے زور شور سے کام شروع کردیتی ہیں مگر دوسرے وقت گرجاتی ہیں۔ ایک وقت تو ان کی ہمتیں نہایت بلند ہوتی ہیں اور وہ مردانہ وار مصائب کا مقابلہ کا تہیہ کرکے ترقی کی طرف بڑھنا شروع کر دیتی ہیں مگر دوسرے وقت بالکل دب جاتی اور پستی کی طرف گرنا شروع کردیتی ہیں(صفحہ۱۸۰)
۲۲.خدام الاحمدیہ… اپنے اندر استقلال پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ استقلال اس بات کو کہا جاتا ہے کہ کسی کام کی حکمت سمجھ آئے یا نہ آئے، انسان برابر اپنے کام میں لگا رہے۔(صفحہ۱۶۳)
۲۳.یہ ضروری نہیں تمام لوگ شامل ہوں…یہ ضروری ہے کہ روزانہ کام کرنے کی عادت ڈالی جائے۔(صفحہ۴۳۰)
۲۴.اس عمر میں ورزش کے ذریعے بچہ کی تربیت اشد ضروری ہوتی ہے اور اسے کلی طور پر دماغی کام میں لگا دینا خطرناک ہوتا ہے۔(صفحہ۱۶۹)
۲۵.بچپن میں تعلیم کا ایک بہترین ذریعہ سبق آموز کہانیاں بھی ہیں۔(صفحہ۱۶۹)
۲۶.خدام الاحمدیہ کا کام کوئی معمولی کام نہیں… دلائل مذہبی، دعائیں اور اخلاق فاضلہ ہی ہمارے ہتھیار ہیں۔(صفحہ۱۸۳)
۲۷.اگر تم کچھ اور نہیں کر سکتے تو کم سے کم دو نفل روزانہ پڑھ کر جماعت کی ترقی کے لئے دعا کر دیا کرو۔(صفحہ۲۱۴)
۲۸.یہ نہ ہو کہ تم اپنی کتابیں پڑھنی چھوڑ دو اور دوسروں کی کتابیں پڑھنے میں ہی مشغول ہو جاؤ۔ پہلے اپنے سلسلہ کی کتابیں پڑھو۔(صفحہ۲۳۳)
۲۹.سال میں ایک ایسا ہفتہ مقرر کریں۔ جس میں… جماعت کے ہر فرد کو نہ صرف اپنی جماعت کے مسائل سے آگاہ کریں۔ بلکہ یہ بھی بتائیں کہ دوسروں کے کیا کیا اعتراضات ہیں اور ان اعتراضات کے کیا کیا جوابات ہیں۔(صفحہ۲۳۳)
۳۰.دوسروں کے مقابلہ میں ایک شیر کی طرح کھڑے ہو جاؤ تا تمہارے متعلق کسی کو یہ وہم نہ ہو کہ دوسرا تمہیں ورغلا سکے گا۔(صفحہ۲۳۳)
۳۱. خدا م الاحمدیہ کے ایک اجلاس میں کم حاضری پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا: اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ابھی قریب میں ہی جلسہ سالانہ گذرا ہے۔ لیکن نوجوان کی ہمت اور ان کا ولولہ اور جوش ان باتوں کو نہیں دیکھا کرتا۔ حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ میں کئی نوجوان ایسے تھے جو لاہور سے ہر اتوار کو باقاعدہ قادیان پہنچ جایا کرتے تھے۔(صفحہ۲۴۴)
۳۲.خدام الاحمدیہ کی غرض ان میں یہ احساس پید ا کرنا ہے کہ وہ احمدیت کے خادم ہیں اور خادم وہی ہوتا ہے جو آقا کے قریب رہے۔(صفحہ۲۴۶)
۳۳.خدا تعالیٰ…اپنے بندوں سے ملنے کے لئے آتا ہے تو وہ کبھی سیلابوں کی صورت میں آتا ہے۔کبھی زلزلوں کی صورت میں آتاہے اور کبھی بیماریوں کی صورت میں آتا ہے۔(صفحہ۳۰۰)
۳۴….بہت سے نوجوان اس مرض میں مبتلا ہیں کہ وہ مغربی تہذیب اور مغربی تمدن کے دلدادہ ہو رہے ہیں۔ وہ اپنے سروں کے بال،اپنی داڑھیوں اور اپنے لباس میں مغرب کی نقل کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔(صفحہ۳۳۹)
۳۵.تمہیں اپنے دلوں میں سے ہر قسم کی نمود کا خیال مٹا کر کام کرنا چاہیئے۔ بڑبولا ہونا کوئی خوبی کی بات نہیں ہوتی۔(صفحہ۲۲)
۳۶.جب تم دین کی خدمت کے لئے رات دن مشغول رہو گے…تو گو دنیا میں تمہارا نام کوئی جانے یا نہ جانے…مگر خدا تمہارا نام جانے گا۔ اور جس کا نام خدا جانتا ہو اس سے زیادہ مبارک اور خوش قسمت اور کوئی نہیں ہوسکتا۔(صفحہ۳۱)
۳۷.بچوں میں تین بنیادی عادات پیدا کر دی جائیں… محنت کی عادت، سچ کی عادت اور نماز کی عادت۔(صفحہ۵۵)
۳۸.اگر کوئی قوم چاہتی ہے کہ وہ اپنی آئندہ نسلوں میں اسلامی روح قائم رکھے تو اس کا فرض ہے کہ اپنی قوم کے ہر بچہ کو نماز کی عادت ڈالے۔(صفحہ۵۵)
۳۹.لڑکوں اور لڑکیوں کی اصلاح میں سے مقدّم اصلاح لڑکیوں کی ہوتی ہے کیونکہ وہ آئندہ نسل کی مائیں بننے والی ہوتی ہیں اور ان کا اثر اپنی اولاد پر بہت بھاری ہوتا ہے۔(صفحہ۸۴)
۴۰.ایک ایسی زندہ قوم جو ایک ہاتھ کے اٹھنے پر اٹھےاور ایک ہاتھ کے گرنے پر بیٹھ جائے دنیا میں عظیم الشان تغیّرپیدا کردیا کرتی ہے۔(صفحہ۱۹۱)
۴۱.میں نے دیکھا ہے نوجوان ایک دوسرے کی گردن میں باہیں اور ہاتھ میں ہاتھ ڈالے چلے جارہے ہیں حالانکہ یہ سب باتیں وقار کے خلاف ہیں۔(صفحہ۱۰۵)
۴۲.آرام سے زندگی بسر کرنے والوں کے لئے احمدیت میں کوئی جگہ نہیں کیونکہ…احمدیت اس لئے آئی ہے کہ سارے گاؤں، سارے شہر، سارے صوبے سارے ملک اور سارے بر اعظم محمد رسول اللہؐ کے قدموں میں ڈال دیئے جائیں۔(صفحہ۲۴۸)
۴۳.روزانہ آدھ گھنٹہ خدمت دین کے لئے وقف کریں۔(صفحہ۲۰۸)
۴۴.میں نے دیکھا ہے بعض افسر سارا دن فارغ بیٹھے رہتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے محکمہ میں کوئی کام ہی نہیں…لیکن اسی جگہ اور اس دفتر میں جب کوئی کام کرنے والا افسر آتا ہے تو وہ اپنے کام کی ہزاروں شاخیں نکالتا چلا جاتا ہے اور اسے ہر وقت نظر آتا رہتا ہے کہ میرے سامنے یہ کام بھی ہے میرے سامنے وہ کام بھی ہے۔(صفحہ۲۶۶)
۴۵.یورپین اقوام کے مقابلہ میں تم کس طرح جیت سکتے ہو جب کہ یورپین اقوام تم سے دس گنے زیادہ کام کرتی ہیں۔(صفحہ۴۸۹)
۴۶.قربانیوں میں سے اصل قربانی وہ ہوتی ہے جو ابتدائی ایام میں کی جاتی ہے۔ جب دین کو شوکت حاصل ہو جاتی ہے اس وقت کی قربانی انسان کو کوئی خاص مقام نہیں دیتی۔ (صفحہ۵۱۰)
۴۷.ہمارے نوجوانوں نے ہی اسلام کے جھنڈے کو بلند رکھنا ہے۔ انہیں چاہیئے کہ وہ اخلاص اور ایثار…علم دین…عبادت کی رغبت میں ہم سے زیادہ ہوں۔جماعت کی آئندہ ترقی کی ذمہ داری ہم پر نہیں آپ نوجوانوں پر ہے۔(صفحہ ۵۱۴)
۴۸.ہم اسلام کی باتوں کو دوسروں سے نہیں منوا سکتے جب تک ہم ان پر عمل کرنے میں رات دن ایک نہ کر دیں اور دعائیں کرکے ہمارے ناک نہ رگڑے جائیں۔(صفحہ۵۲۳)
۴۹.ہمیں اپنے نوجوانوں میں یہ احساس پیدا کرتے رہنا چاہیئے کہ وہ کبھی بھی یہ نہ سمجھیں کہ وہ پہلوں سے بڑھ نہیں سکتے۔(صفحہ۵۲۹)
۵۰.جوانی میں تہجد پڑھنے والے اور جوانی میں دعائیں کرنے والے اور جوانی میں خوابیں دیکھنے والے بڑے نادر وجود ہوتے ہیں۔جو جوانی میں اپنے اندر تغیر پیدا کر لیتے ہیں…بڈھے بڈھے بھی آکر کہتے ہیں کہ حضور ہمارے لئے دعا کیجئے۔(صفحہ۷۳۳)
۵۱.قوم کی آئندہ ترقی کا دارومدار نوجوانوں پر ہوتا ہے جس فوج کا ہر سپاہی سمجھ لے کہ شاید آگے چل کر میں ہی کمانڈر انچیف بن جاؤں تو وہ یقینا ًاس احساس کے تحت اپنے عمل وکردار کو ایسے طریق پر ڈھالے گا جو بالآخر اسے اس عہدے کا اہل بنا دے۔(صفحہ۶۵۰)
۵۲.خدام کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ سال میں ایک دن خلافت ڈے کے طور پر منایا کریں۔ اس میں وہ خلافت کے قیام پر خدا تعالیٰ کا شکریہ ادا کریں اور اپنی پرانی تاریخ دہرایا کریں۔(صفحہ۷۸۳)
یہ باون زریں اقوال تو ایک جھلک ہے اس فکر، محبت اور تڑپ کی جو حضرت مصلح موعودؓ کو خدام سے تھی۔آپ چاہتے تھے کہ جماعت کا ہر خادم اپنی اہمیت جانے۔جماعت کا ہر خادم اپنی عمر، اپنی جسمانی و عقلی قوتوں کی قدر کرے۔ جماعت کا ہر خادم اپنی زندگی کا اہم ترین دور سنبھالے اور پھونک پھونک کر چلے۔ فرمایا: ’’نوجوانوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ…اپنی جوانی کو اسلام کے رنگ میں رنگین کرنے کی کوشش کریں…تو ان کا بڑھاپا نہایت خوبصورت ہوگا‘‘۔(صفحہ۲۹۱)