حاصل مطالعہ
دکھ دور کرنے کا نسخہ
حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت کا خیال رکھتا ہے اللہ اس کی ضرورت کا خیال رکھتا ہے ۔ اور جو شخص کسی کی تکلیف اور بے چینی اس دنیا میں دور کرتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کی تکلیف اور بے چینی اس سے دور کر دے گا۔(بخاری کتاب المظالم باب لا یظلم المسلم المسلم ولا يسلمه )
میرے اندر ایک آسمانی روح بول رہی ہے
حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’میں بڑے دعوے اور استقلال سے کہتا ہوں کہ میں سچ پر ہوں اور خدائے تعالیٰ کے فضل سے اس میدان میں میری ہی فتح ہے اور جہاں تک میں دُور بین نظر سے کام لیتا ہوں تمام دنیا اپنی سچائی کے تحت اقدام دیکھتا ہوں اور قریب ہے کہ میں ایک عظیم الشان فتح پاؤں کیونکہ میری زبان کی تائید میں ایک اور زبان بول رہی ہے اور میرے ہاتھ کی تقویت کے لیے ایک اور ہاتھ چل رہا ہے جس کو دنیا نہیں دیکھتی مگر میں دیکھ رہا ہوں۔ میرے اندر ایک آسمانی روح بول رہی ہے۔ جو میرے لفظ لفظ اور حرف حرف کو زندگی بخشتی ہے اور آسمان پر ایک جوش اور اُبال پیدا ہوا ہے جس نے ایک پُتلی کی طرح اس مُشتِ خاک کو کھڑا کردیاہے۔‘‘(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۴۰۳)
اس نعمت کا شکر کرو
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ فرماتے ہیں:چاہئے کہ تمہاری حالت اپنے امام کے ہاتھ میں ایسی ہو جیسے میت غسّال کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ تمہارے تمام ارادے اور خواہشیں مردہ ہوں اور تم اپنے آپ کو امام کے ساتھ ایسا وابستہ کرو جیسے گاڑیاں انجن کے ساتھ۔ اور پھر ہر روز دیکھو کہ ظلمت سے نکلتے ہو یانہیں۔ استغفار کثرت سے کرو اور دعاؤں میں لگے رہو… تیرہ سو برس کے بعد یہ زمانہ ملا ہے اور آئنده یہ زمانہ قیامت تک نہیں آسکتا۔ پس اس نعمت کا شکر کرو۔ کیونکہ شکر کرنے پر ازدیادِ نعمت ہوتا ہے۔ لَئِنۡ شَکَرۡتُمۡ لَاَزِیۡدَنَّکُمۡ (ابراہیم:۸) (خطبات ِنور صفحہ ۱۳۱)
جماعت کا ہر فرد پہلے شاگرد ہے پھر استاد
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: ہر خطبہ جو میں پڑھتا ہوں، ہر تقریر جو میں کرتا ہوں اور ہر تحریر جو میں لکھتا ہوں اُسے ہر احمدی اس نظر سے دیکھے کہ وہ ایک ایسا طالب علم ہے جسے اِن باتوں کو یاد کر کے ان کا امتحان دینا ہے اور ان میں جو عمل کرنے کے لیے ہیں ان کا عملی امتحان اُس کے ذمہ ہے… پھر جب پڑھ چکے تو سمجھے کہ اب میں استاد ہوں اور دوسروں کو سکھلانا میرا فرض ہے۔ (خطاباتِ شوریٰ جلد ۲ صفحہ ۲۱)
سائل کے سوال پر طبیعت بے چین
حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓروایت بیان کرتے ہیں: ’’ایک دفعہ جبکہ حضرت مسیح موعودؑ چہل قدمی سے واپس آکر اپنے مکان میں داخل ہو رہے تھے کسی سائل نے دور سے سوال کیا۔ مگر اس وقت ملنے والوں کی آوازوں میں اس سائل کی آواز گم ہو کر رہ گئی اور حضرت مسیح موعودؑ اندر چلے گئے۔ مگر تھوڑی دیر کے بعد جب لوگوں کی آوازوں سے دور ہوجانے کی وجہ سے حضرت مسیح موعودؑ کے کانوں میں اس سائل کی دکھ بھری آواز کی گونج اٹھی تو آپؑ نے باہر آکر پوچھا کہ ایک سائل نے سوال کیا تھا۔ وہ کہاں ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کہ حضرت وہ تو اسی وقت یہاں سے چلا گیا تھا۔ اس کے بعد آپ اندرون خانہ تشریف لے گئے مگر دل بے چین تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد دروازہ پر اسی سائل کی پھر آواز آئی اور آپؑ لپک کر باہر آئے اور اس کے ہاتھ پر کچھ رقم رکھ دی اور ساتھ ہی فرمایا کہ میری طبیعت اس سائل کی وجہ سے بے چین تھی اور میں نے دعا بھی کی تھی کہ خدا اسے واپس لائے۔‘‘(سیرت ِ طیبہ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ ۶۵)
شافی اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے
حضرت خلیفۃا لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:’’آج سے چند سال پہلے ….جو بیماری ناقابل علاج سمجھی جاتی تھی آج اس کے علاج کو معمولی سمجھا جاتا ہے۔ اس ترقی کو یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ انسان اب خدا نخواستہ اللہ تعالیٰ کی حکومت میں یا اس کی صفات میں برابری کا حصہ دار بن گیا ہے۔ بلکہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے انسان کو اتنی عقل دی ہے کہ وہ نئے علاج بھی دریافت کر رہا ہے اور ان کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ پھر اپنا فضل کرتے ہوئے انسان کو شفا بھی دے رہا ہے۔ شافی اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ۱۹؍دسمبر۲۰۰۸ء)
(مرسلہ: عطاء المجیب راشد۔امام مسجد فضل لندن)