توبہ و استغفار کی اہمیت و فضیلت (حصہ سوم۔ آخری)
ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس ایک شخص نے قرض کے واسطے دعا کے لیے عرض کی ۔آپؑ نے فرمایا: ’’استغفار بہت پڑھا کرو۔‘‘( ملفوظات جلد اول صفحہ ۴۴۹، ایڈیشن ۱۹۸۸ء)
ایک شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کی کہ مجھ پر بہت قرض ہے، دعا کیجیے۔فرمایا: ’’توبہ استغفار کرتے رہو کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے۔ جو استغفار کرتا ہے اسے رزق میں کشائش دیتا ہے۔‘‘(ملفوظات جلد پنجم صفحہ ۴۳۴، ایڈیشن ۱۹۸۸ء)یعنی کثرت استغفار پریشانیوں اور مصائب و تنگ دستی کو دُور کرتا ہے۔
اسی طرح ایک شخص نے عرض کی کہ حضورؑ! میرے لیے دعا کریں کہ میری اولاد ہوجائے آپؑ نے فرمایا:’’استغفار بہت کرو۔ اس سے گناہ بھی معاف ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اولاد بھی دے دیتا ہے ۔یاد رکھو یقین بڑی چیز ہے ۔جو شخص یقین میں کامل ہوتا ہے خدا تعالیٰ خود اس کی دستگیری کرتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ ۴۴۴، ایڈیشن ۱۹۸۸ء)
خدا اس قدر غفور ورحیم ہے کہ وہ انتظار کرتا ہے کب اس کا بندہ اس کے حضور گناہوں کی گٹھڑی لے کر آئے اور وہ اس کی مغفرت کرے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ’’ یہ سچی بات ہے کہ توبہ اور استغفار سے گناہ بخشے جاتے ہیں اور خداتعالیٰ اس سے محبت کرتا ہے۔ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیۡنَ وَ یُحِبُّ الۡمُتَطَہِّرِیۡنَ(البقرۃ:۲۲۳) سچی توبہ کرنے والا معصوم کے رنگ میں ہوتا ہے۔ پچھلے گناہ تو معاف ہو جاتے ہیں پھر آئندہ کے لیے خدا سے معاملہ صاف کر لے۔ اس طرح پر خدا کے اولیاء میں داخل ہو جائے گا اور پھر اس پر کوئی خوف و حزن نہ ہو گا‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ۵۹۴-۵۹۵، ایڈیشن ۱۹۸۸ء)
پھر آپؑ نے فرمایا کہ ’’ حقیقی توبہ انسان کو خداتعالیٰ کا محبوب بنا دیتی ہے اور اس سے پاکیزگی اور طہارت کی توفیق ملتی ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیۡنَ وَ یُحِبُّ الۡمُتَطَہِّرِیۡنَ(البقرۃ:۲۲۳) یعنی اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے اور نیز ان لوگوں کو دوست رکھتا ہے جو گناہوں کی کشش سے پاک ہونے والے ہیں۔ توبہ حقیقت میں ایک ایسی شئے ہے کہ جب وہ اپنے حقیقی لوازمات کے ساتھ کی جاوے تو اس کے ساتھ ہی انسان کے اندر پاکیزگی کا بیج بویا جاتا ہے جو اس کو نیکیوں کا وارث بنا دیتا ہے۔ یہی باعث ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ گناہوں سے توبہ کرنے والا ایسا ہوتا ہے کہ گویا اس نے کوئی گناہ نہیں کیا۔ یعنی توبہ سے پہلے کے گناہ اس کے معاف ہو جاتے ہیں۔ اس وقت سے پہلے جوکچھ بھی اس کے حالات تھے اور جو بے جا حرکات اور بے اعتدالیاں اس کے چال چلن میں پائی جاتی تھیں اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کو معاف کر دیتا ہے اوراللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک عہد صلح باندھا جاتا ہے اور نیا حساب شروع ہوتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ ۴۳۲، ایڈیشن ۱۹۸۸ء)
گناہوں سے اگر دل بوجھل ہے اور ذہن پریشانیوں کا شکار ہے تو اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ ایک سادہ سی دعا ہے جو آپ کے دل کو پُرسکون کر دے گی جسے کسی بھی وقت جب بھی آپ چاہیں پڑھ سکتے ہیں۔ توبہ و استغفار کرنے والے بندے پر خدا تعالیٰ اپنی رحمتوں کے دروازے کھول دیتا ہے۔
تمام خلفاء سلسلہ توبہ و استغفار کی اہمیت و فضیلت کی طرف احباب جماعت کو توجہ دلاتے رہے ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ فرماتے ہیں: ’’ہر عبادت کے بعد استغفار کا حکم ہے۔ دیکھو بڑی عبادت سجدہ ہے اور سجدہ کے بعد پڑھا جاتا ہے اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ وَارْحَمْنِیْ وَعَافِنِیْ۔ ایسا ہی جب نماز سے فارغ ہو جائیں تو استغفار پڑھتے ہیں۔ اسی طرح بیان فرمایا کہ جب حج کی عبادت ختم ہونے کے قریب آئے تو استغفار پڑھو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی مجلس سے جب اٹھتے تو ۷۰ سے ۱۰۰ (بار) تک استغفار پڑھتے۔‘‘(حقائق الفرقان جلداوّل صفحہ۳۳۷-۳۳۸)
آج کے اس نفسا نفسی کے دَور میں انسان اس قدر غافل ہو چکا ہے کہ وہ بنیادی فرائض اور حکامِ خدا وندی کو پس پشت ڈال چکا ہے۔
اسی ضمن میں جون۲۰۱۲ء میں دورہ امریکہ کےدوران ایک سوال کے جواب میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:’’سوسائٹی میں، اپنے گھر میں، اپنے سسرال والوں کے ساتھ اور اپنے ماحول میں جو بھی بےچینیاں اور پریشانیاں پیدا ہوں وہ استغفار کرنے اور لَاحَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلَّابِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ پڑھنے سے دور کی جاسکتی ہیں۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل ۱۷؍اگست۲۰۱۲ء)
یہ محض چند الفاظ نہیں ہیں بلکہ یہ ایک ایسے گہرے تعلق کا ذریعہ ہے جو بندے اور خدا کے درمیان استوار ہوتا ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ایک اَور مقام پر توبہ و استغفار کی اہمیت وفضیلت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’…جب انبیاء کی یہ حالت ہو کہ وہ ہر وقت استغفار کرنے، ہر وقت اپنے رب سے اس کی حفاظت میں رہنے کی دعا کرتے ہیں تو پھر ایک عام آدمی کو کس قدر اس بات کی ضرورت ہے کہ اس سے جو روزانہ سینکڑوں بلکہ ہزاروں غلطیاں ہوتی ہیں یا ہوسکتی ہیں ان سے بچنے کے لئے یا ان کے بداثرات سے بچنے کے لئے استغفار کرے۔ اور اگر پہلے اس طرف توجہ ہو جائے تو بہت سی غلطیوں اور گناہوں سے انسان پہلے ہی بچ سکتا ہے۔ پس اس بات کی بہت زیادہ ضرورت ہے کہ ہم اس طرف توجہ دیں۔ اللہ تعالیٰ تو اپنے مومن بندوں کی توبہ قبول کرنے، ان کی بخشش کے سامان پیدا کرنے کے لئے ہر وقت تیار ہے۔ اور قرآن کریم نے بیسیوں جگہ مغفرت کے مضمون کا مختلف پیرایوں میں ذکر کیا ہے، کہیں دعائیں سکھائی گئی ہیں کہ تم یہ دعائیں مانگو تو بہت سی فطری اور بشری کمزوریوں سے بچ جاؤ گے۔ کہیں یہ ترغیب دلائی ہے کہ اس طرح بخشش طلب کرو تو اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنو گے۔ کہیں بشارت دے رہا ہے، کہیں وعدے کر رہا ہے کہ اس اس طرح میری بخشش طلب کرو تو اس دنیا کے گند سے بچائے جاؤ گے اور میری جنتوں کو حاصل کرنے والے بنو گے۔ کہیں یہ اظہار ہے کہ میں مغفرت طلب کرنے والوں سے محبت کرتا ہوں۔ غرض اگر انسان غور کرے تو اللہ تعالیٰ کے پیار، محبت اور مغفرت کے سلوک پر اللہ تعالیٰ کا تمام عمر بھی شکر ادا کرتا رہے تو نہیں کرسکتا۔ ہماری بدقسمتی ہو گی کہ اگر اس کے باوجود بھی ہم اس غفور رحیم خدا کی رحمتوں سے حصہ نہ لے سکیں اور بجائے نیکیوں میں ترقی کرنے کے برائیوں میں دھنستے چلے جائیں۔ پس اللہ تعالیٰ سے ہر وقت اس کی مغفرت طلب کرتے رہنا چاہئے۔ وہ ہمیشہ ہمیں اپنی مغفرت کی چادر میں لپیٹے رکھے اور ہمیں ہر گناہ سے بچائے اور گزشتہ گناہوں کو بھی معاف فرماتا رہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۴؍ مئی ۲۰۰۴ء)
توبہ کی صفت انسان کو کامیابی کےبلند مدارج تک پہنچاتی ہے۔ جب دل خوف الٰہی سے معمور ہو جاتا ہے تو انسان کے لیے دنیا وآخرت میں فلاح و نجات کی راہیں ہموار کرتا ہے۔نفس پر قابو پاکر گناہوں سے بچا جاسکتا ہے۔ خلوص دل سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں معافی طلب کرنے سے دعا کو قبولیت کا شرف حاصل ہوتاہے۔ استغفار کرنے والا الله تعالیٰ کی محبت کے آگے دوسری دنیاوی نعمتوں سے بے نیاز ہوجاتا ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب احمدیوں کو حقیقی طور پر توبہ و استغفار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین