ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب (دورہ کینیڈا۔اکتوبر، نومبر۲۰۱۶ء کے چند واقعات۔ حصہ سوم)
حضور انور کے ساتھ چند بابرکت لمحات
(گذشتہ سے پیوستہ)انٹرویو کے اختتام پر حضور انور اپنے دفتر میں تشریف لائے اور خاکسار کو چند لمحات کے لیے طلب فرمایا۔ خاکسار کے بیٹھنے سے قبل حضور انور نے خاکسار کو دفتر کا پردہ ہٹانے کو کہا اور فرمایا جب یہ پردہ ہٹا ہوا ہوتا ہے تو مجھے منظر اچھا لگتا ہےکیونکہ اس طرح میں پارک کو دیکھ سکتا ہوں۔
بعد ازاں حضور انور نے کچھ دیر قبل اختتام پذیر ہونےوالےانٹرویو کے بارے میں بتایا۔ معلوم ہوتا تھا کہ حضور انور اس انٹرویو سے خوب محظوظ ہوئے تھے۔ حضور انور نے فرمایا مجھے Peter Mansbridge کا انداز گفتگو پسند آیا ہے جس کے بارے میں تم نے مجھے انٹرویو سے قبل بتایا تھا۔اس سے گفتگو زیادہ غیر رسمی بنتی ہے۔ پھر وہ زیادہ صاف اور آہستہ آہستہ بات کرتا ہے۔ اگر دیگر صحافیوں سے موازنہ کیا جائےتو اس کا لہجہ سمجھنا آسان ہے۔حضور انور نے مزید فرمایا کہ میں نے ایک مقصد کے تحت یہ امر بیان کیا کہ مسلمان مرد اپنی مخالف جنس سے ہاتھ نہیں ملاتےکیونکہ یہ حقیقی اسلامی تعلیمات کو پھیلانے کا ایک ذریعہ ہے۔ جو کچھ میں نے بیان کیا اسی کی بنیاد پر اس نے پردے کے متعلق سوالات کیے جس کےذریعہ مجھے اسلام میں عورتوں کے حقوق اور پردے کی حقیقت کے حوالے سے تفصیلی جواب دینے کا موقع ملا۔
یہ نہایت دلچسپ امر تھا جب حضور انور نے فرمایا کہ آپ نے ایک خاص مقصد کے تحت ہاتھ ملانے کا معاملہ پیش فرمایا جس کے جواب میں Mr. Mansbridge نے پردے کے متعلق متعدد سوالات کیے۔
بعد ازاں Mr. Mansbridge نے بھی ہماری ٹیم کے ایک ممبر کو تبصرہ کرتے ہوئے بتایا کہ ابتدائی چند منٹوں کے بعد ان کو خود سے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں پڑی کیونکہ حضور انور خود ہی کوئی مسئلہ پیش فرماتے اور پھر اس کا جواب بھی عنایت فرما دیتے۔
ایک جذباتی ملاقات
تھوڑی دیر کے بعد میں حضور انور کے دفتر سے باہر نکلا اور معمول کے مطابق حضور انور سے فیملی ملاقاتوں کا آغاز ہوا۔ کینیڈا میں ۲۸؍مئی ۲۰۱۰ء کے سانحہ کے شہداء کی کئی فیملیز آباد ہوئی ہیں۔ یوں اس دورے کے دوران شہداء کے کئی عزیز و اقارب کو حضور انور سے ملنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ ایک فیملی جو اس دن حضور انور سے ملی وہ محمد انور شہید صاحب کی تھی جو ۲۸؍مئی کے روز ماڈل ٹاؤن کی مسجد میں شہید ہوئے تھے۔ان کی ملاقات کے بعد میں ان کے فیملی ممبران سے ملا جن میں ان کی بیوہ زبیدہ بی بی صاحبہ اور ان کے بچے عزیزم عطا ء ا لحئی، عزیزہ رابعہ، عزیزہ طوبیٰ اور عزیزم ذکاءالحئی شامل تھے۔
میں نے ان سے ان کے ماضی کے تجربات کی بابت گفتگو کی، جو مشکل وقت انہوں نے گزارا تھا اس کو سننا بہت جذباتی کر دینے والا تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ میں ان کے صبر اور حوصلے سے بہت متاثر ہوا۔ عزیزم عطاء الحئی جو شہید مرحوم کے بڑے بیٹے ہیں انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ خود بھی لاہور میں ہونے والے حملوں میں سخت زخمی ہوئے تھے۔انہوں نے مزید بتایا کہ میں نے لاہور میں ایک دہشت گرد کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی تھی۔میرے پاس ایک پیچ کَس تھا لیکن اس نے مجھے دیکھ لیا اور میرے اوپر گولیاں برسادیں تو میں بے ہوش ہوگیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جس لمحہ اس نے مجھ پر گولی چلائی تو مجھے کوئی خوف نہ تھا۔ جب مجھے ہوش آیا تو میں درود شریف پڑھتا رہا۔ یہاں تک کہ کوئی میری مدد کو آیا اور مجھے ہسپتال لے جایا گیا لیکن میری فیملی نے کچھ دیر تک مجھے نہیں بتایا کہ میرے والد صاحب شہید ہو چکے ہیں۔
زبیدہ بی بی صاحبہ نے مجھے ان حالات کے بارے میں بتایا جن کا سامنا انہیں ان کے شوہر کی شہادت کے بعد ہوا کہ جب میں گذشتہ چند سالوں پر نظر ڈالتی ہوں تو یہ بیان سے باہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر کیسے اپنے فضل فرمائے ہیں اور ہر قدم پر ہماری نصرت فرمائی ہے۔ یہاں تک کہ جب میں نے سنا کہ میرے شوہر کی شہادت ہوگئی ہے تو میں شاید ہی روئی ہوں۔ خدا تعالیٰ نے میرے دل کو طمانیت بخشی۔ دراصل (اس سانحہ کے بعد ہی) میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت خلیفۃالمسیح میرے ساتھ کھڑے ہیں اور میں قسم کھا کر کہہ سکتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس خواب کو پورا کر دیا ہے کیونکہ ہر قدم پر حضور انور نے ہمارا ساتھ دیا۔انہوں نے مزید بتایا کہ اس حملے کے بعد مَیں جس قدر ہو سکتا تھا درود شریف پڑھتی تھی اور اللہ تعالیٰ سے ان الفاظ میں دعا کرتی تھی کہ اے اللہ ! آج ہمارے درجنوں احمدی ہم سے جدا ہوگئے ہیں تو ہم تیری مدد کے طلب گار ہیں جیسا کہ تو نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نصرت فرمائی۔ان الفاظ کو بیان کرتے ہی ہماری گفتگو کے دوران پہلی مرتبہ زبیدہ صاحبہ رونے لگیں۔ اپنے شوہر کی شہادت کو یاد کرتے ہوئے وہ کہنے لگیں جونہی مجھے اس حملے کا پتا چلا تو مجھے یقین واثق تھا کہ میرے شوہر شہید ہو چکے ہیں۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ میں جماعت کے لیے اپنی جان دینے کے لیے تیار ہوں۔
جذبات سے مغلوب ہوتے ہوئے موصوفہ نے بتایا کہ جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ تکلیف دی ہے وہ میرے شوہر کی شہادت نہیں تھی بلکہ یہ خیال تھا کہ حضور انور کو اس سانحہ کے بعد کس قدر دکھ ہوا ہوگا۔میں اس دکھ کے خیال سے باہر ہی نہیں آ سکی جو اس سانحہ کے باعث ہمارے محبوب امام کو پہنچا ہوگا۔
انور صاحب ( شہید) کی بیٹی عزیزہ رابعہ نے بتایا کہ جب میرے والد کی شہادت ہوئی تو ہمارے شفیق خلیفہ نے ہمارے افراد ِخانہ سے فون پر تعزیت فرمائی اور ہر ایک فرد سے الگ الگ گفتگو فرمائی۔ جب مجھے حضور انور سے گفتگو کا موقع ملا تو آپ نے فرمایا اپنی والدہ کا خاص خیال رکھنا اور اپنی تعلیم جاری رکھنا اور ایسے وجود کے طور پر آگے بڑھو جو جماعت کے لیے مفید ہو۔ میں حضور انور کے وہ خوبصورت اور پُرشفقت الفاظ کبھی بھلا نہیں سکتی۔
عزیزم ذکاءالحئی نے بتایا کہ جب سے میرے والد صاحب کی شہادت ہوئی ہے ہم نے اس قربانی کے نتیجے میں خداتعالیٰ کے بہت فضل دیکھے ہیں۔ اس سے قبل میں نہیں جانتا تھا کہ ہماری جماعت اور ہمارے خلیفہ ہم سے کس قدر محبت کرتے ہیں۔ ہم میں سے کوئی بھی اس اعزاز و اکرام کے قابل نہیں جس کا متحمل ہمیں ہمارے والد صاحب کی شہادت نے بنا دیا ہے۔
یہ چند جذباتی لمحات اس وقت ختم ہوئے جب زبیدہ بی بی صاحبہ نے بتایا کہ میرے شوہر کی وفات کو چھ سال گزر چکے ہیں اور آج حضور انور سےپہلی مرتبہ ملاقات کے بعد مجھے حقیقی خوشی اور طمانیت حاصل ہوئی ہے اور گذشتہ کئی سالوں کی تکالیف اور مشکلات بھول گئیں۔ میرے شوہر کو حضور انور سے ملاقات کی شدید خواہش تھی اور اگرچہ وہ حضور سے نہیں مل سکےمگر مجھے یقین ہے کہ وہ آج مسکرا رہے ہوں گے۔
احمدیوں کے جذبات
میری ملاقات ایک احمدی خاتون سونیا انجم صاحبہ سے ہوئی جن کی اپنے شوہر کے ہمراہ حضور انور سے ملاقات ہوئی تھی۔ ان کے والد بشارت احمد مغل صاحب شہید نو مبائع تھے۔ان کو ۲۰۰۸ء میں کراچی میں شہید کر دیا گیا تھا۔ بعدازاں وہ اپنی فیملی کے ہمراہ ملائیشیا ہجرت کر گئیں اور پھر ۲۰۱۳ءمیں کینیڈا منتقل ہو گئیں۔ سونیا صاحبہ نے بتایا کہ میں اپنے والد صاحب کی شہادت کو اپنے لیے اور دیگر فیملی ممبران کے لیے بھی ایک بہت بڑی نعمت خیال کر تی ہوں۔ ہم ہر روز آپ کی قربانی کے پھل کھا رہے ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ یہ پھل نہ صرف ہماری زندگی میں بلکہ ہماری آئندہ نسلوں کو بھی ملتے رہیں گے۔
موصوفہ نے مزید بتایا کہ میں پاکستان میں جہاں رہتی تھی وہاں احمدیوں کی شدید مخالفت تھی اور ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے میں جیل میں ہوںجس سے کبھی باہر نہ نکل سکوں گی۔ یہ صرف احمدیت کی برکت ہے کہ ہمیں یہاں کینیڈا میں آبادہونے کا موقع ملا ہے ورنہ میرے بچے ہر روز ایک خوف میں زندگی بسر کر رہے ہوتے۔
حضور انور سے ملاقات کے بارے میں سونیا صاحبہ نے بتایا کہ آج ہمیں اپنے محبوب امام سے ملنے کی سعادت نصیب ہوئی ہے۔مجھ میں بولنے کی ہمت بالکل نہ تھی۔ جس وقت میں خلیفۂ وقت سے ملاقات کی سعادت پا رہی تھی تو میں سوچ رہی تھی کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے میرے والد صاحب کی قربانی کا اجر ہے جو مجھے مل رہا ہے۔ میں صرف یہ دعا کرتی ہوں کہ مجھے اور میری فیملی کو ان امیدوں پر پورا اترنے کی توفیق ملے جو خلافت کو ہم سے ہیں اور پیارے حضور کو ہم کبھی مایوس نہ کریں۔
(مترجم:’ابو سلطان‘معاونت :مظفرہ ثروت)